اللہ رب العزت نے عورت کو تخلیق کے عہدے سے نواز کر اس کی اہمیت کو واضح کردیا ہے کہ یہ کس قدر اہم رتبے پر فائز ہے لیکن کچھ عورتوں کو اللہ تعالیٰ نے اس مرتبے کے ساتھ ساتھ اپنی دیگر نعمتوں سے بھی نوازا ہوتا ہے اور اسی لیے ان کی حیثیت عام خواتین کی نسبت زیادہ اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ ان میں بہت سی خواتین وہ ہیں جنہیں اللہ کریم نے نبیوں کی والدہ بننے کے شرف سے نوازا ہے۔ کئی خواتین کو ولیوں کی مائیں ہونے کا اعزاز حاصل ہے لیکن ایک ماں ایسی بھی ہے جس نے ایک ایسے بیٹے کو جنم دیا ہے جو رسول اللہ ﷺ کے دین کو دوبارہ زندگی بخشنے والا ہے۔ لوگ انہیں محی الدین (دین کو زندہ کرنے والا) کے لقب سے بھی جانتے ہیں۔
حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ شرح مشکوٰۃ شریف میں مناقب غوث اعظم میں ارشاد فرماتے ہیں۔ بے شک آپ نے اپنے اس لقب کا حق ادا کردیا ہے۔ اسلامی عقائد ونظریات پر جو مردنی کیفیت طاری تھی اس کو حیات نو عطا کی اور اسلام کی اصل روح کو بیدار کردیا۔ اسلام ظاہری اعمال کا اور ایمان باطنی عقائد کا نام ہے۔ اور ان دونوں کے مجموعے کو دین کہتے ہیں۔ اس طرح دین ایک جامع نظام ہے جو بنی نوع انسان کے عقائد و اعمال، ظاہرو باطن، صورت و معانی، روحانیت اور جسمانیت پر مشتمل ہے۔ اس نظام کا احیاء نبی رسول یا اس کے کامل ترین نائب کے بغیر ممکن نہیں۔اگرچہ آنحضرت ﷺ نے ہر صدی کے آخر پر ایسی ہستیوں کی نشاندہی فرمائی ہے جن سے تجدید دین کا فریضہ انجام پذیر ہوتا ہے مگر تجدید اور احیاء میں ایک نمایاں فرق ہوتا ہے۔ مجددین کی فہرست میں ابتدا سے لے کر اس وقت تک بہت سے حضرات کے اسمائے گرامی پائے جاتے ہیں مگر ’محی الدین‘ کا لقب کسی اور کو عطا نہیں ہوا۔ تاریخ اسلام کے مطالعہ سے یہ امر پایہ ثبوت کو پہنچ جاتا ہے کہ احیائے دین کا اہم ترین فریضہ حقیقتاً حضرت غوث الاعظم کی ذات گرامی سے ہی پایہ تکمیل کو پہنچا اور یہ عظیم الشان لقب صرف آپ کے وجود مسعود پر صادق آتا ہے۔
شیخ عبدالقادر جیلانیؓ کے والد گرامی ان کے بچپن میں ہی وصال فرماگئے تھے۔ آپ کی والدہ محترمہ سیدہ ام الخیر ان کو ساتھ لے کر اپنے والد حضرت عبداللہ صومعیؒ کے پاس آگئیں۔ آپ کے نانا جان بھی اللہ کے ولیوں میں سے تھے انہیں کے زیر سایہ آپؓ کی و الدہ نے آپ کی تربیت و پرورش کی۔
حضرت سیدہ ام الخیر فاطمہؒ نہایت پاکیزہ، عابدہ، زاہدہ اور صالحہ خاتون تھیں۔ انتہا درجے کی حوصلہ مند تھیں۔ سید عبدالقادر جیلانیؒ ابھی بچپن میں ہی تھے کہ آپ کے والد گرامی جناب سید ابوصالح جنگی دوست کا وصال ہوگیا۔ آپ نے تنہا اپنے اس عظیم الشان بیٹے کی تربیت کی ان کی تعلیم و تربیت میں کوئی کمی نہ چھوڑی۔ ابتدائی تعلیم اپنے علاقے کےعلماء سے حاصل کی جب اٹھارہ سال کے ہوگئے تو آپ کی و الدہ ماجدہ نے مزید علوم کے سمندر میں غوطہ زن ہونے کے لیے آپ کو بغداد روانہ کردیا۔ انہیں نصیحت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا میرے عزیز از جان بیٹے! بے شک مجھے آپ کی جدائی ایک پل کے لیے بھی گوارا نہیں لیکن آپ علم کے حصول کے لیے جارہے ہیں اس لیے میں چاہتی ہوں کہ آپ تمام علوم میں کمال حاصل کریں۔ آپ کے والد کے ترکے میں سے 80 دینار میرے پاس ہیں جن میں سے چالیس آپ کے اور باقی چالیس آپ کے بھائی کے لیے ہیں۔ میرے بیٹے میرے نور نظر! یہ میری نصیحت ہے کہ کبھی بھی جھوٹ مت بولنا اب جاؤ اور ہمیشہ اللہ کی امان میں رہو۔
ماں کی گود بچے کے لیے پہلی درسگاہ ہوتی ہے بچہ بالکل کورے کاغذ کی طرح ہوتا ہے جیسے ماں چاہے نقش و نگار بنادے۔ سیدہ ام الخیر کس قدر خوش بخت ہیں جو سیدنا عبدالقادر جیلانیؒ کی والدہ ہیں اور کس قدر عظیم الشان بیٹا ہے کہ جس کی و الدہ اتنی صابر حوصلہ مند اور سچائی کی پیکر ہیں کہ اپنے بیٹے کی ایسی تربیت کی کہ ان کی سچائی سے راستے میں لوگوں کو لوٹنے والے ڈاکو مرعوب ہوکر سچی توبہ کرکے راہ ہدایت پر چل پڑتے ہیں۔ یہ والدہ کی تربیت ہی تھی کہ غوث الاعظم نے سچ کو اپنے دل پر نقش کرلیا اور کبھی زندگی بھر اس نقش کو مٹنے نہیں دیا۔ آپؒ کی والدہ سیدہ ام الخیرؒ نے آپ کی تعلیم و تربیت میں کبھی کوئی کمی نہیں چھوڑی جب تک حیات رہیں آپ کے لیے اخراجات کا اہتمام فرماتیں۔ آپ فرماتے ہیں میرے والد میری کمسنی میں وصال فرماگئے، میرے چھوٹے بھائی عبداللہ عالم شباب میں وصال فرماگئے۔ میری والدہ نے میری کفالت کی۔
ایک مرتبہ بغداد میں مجلس میں کچھ بیان فرمارہے تھے اچانک رک گئے۔ آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے۔ آپؒ نے فرمایا میری والدہ وصال فرماگئی ہیں مجلس میں موجود شیخ مفرج بن شہاب فرماتے ہیں ہم نے وقت تحریر کرلیا جب بعد میں معلوم ہوا تو واقعی اسی وقت پہ ان کا وصال ہوا تھا۔
حضور غوث الاعظمؒ فرماتے ہیں میری والدہ کو مجھ سے بے پناہ محبت تھی انھوں نے مجھے بہت خطوط لکھے جن میں وہ اپنی محبت و الفت کا تذکرہ کرتیں۔ میں بھی ان کو جوابی خط لکھتا ایک خط میں میں نے لکھا کہ اگر آپ چاہتی ہیں تو میں علم کا حصول چھوڑ کر آپ کی خدمت میں آجاتا ہوں لیکن میری والدہ نے مجھے علم حاصل کرنے کا حکم دیا اور اپنی محبت و ممتا کو پس پشت ڈال دیا تاکہ میں دین اسلام کی خدمت کرسکوں۔ قربان جایں ایسی ماں پر جس کو اپنی ممتا سے زیادہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے دین کی فکر ہے۔ اللہ کی کروڑوں رحمتیں ہوں ان پر۔ حضور غوث الاعظمؒ خود فرماتے ہیں کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کی اتباع کی برکت سے اہل کیا ہے اور میرے اس احسان کی وجہ سے جو میں اپنےو الدین کے ساتھ کرتا تھا۔ میرے والدین قدرت کے باوجود دنیا کی ہر چیز سے منہ موڑے رکھتے تھے میری والدہ ہر کام میں میرے والد کی موافقت کرتی تھیں یعنی جو بھی بابا جان کرتے والدہ بھی اسی کام کو پسند فرماتی تھیں۔ دونوں اہل صلاح و اہل دیانت تھے اور مخلوق خدا پر بے حد شفیق تھے۔
آپ کی والدہ نے آپ کی تربیت کا حق ادا کردیا اللہ کریم ان کے درجات بلند فرمائے۔ آمین آپ کی ایک پھوپھی جان بھی تھیں جو کہ نہایت صالحہ اور نیک خاتون تھیں۔
حضور غوث الاعظمؒ فرماتے ہیں کہ میں ایک عرصے تک نکاح سے بچتا رہا تاکہ میرے اوقات علوم اور عبادت میں خلل نہ پڑے لیکن ہر چیز کا ایک وقت مقرر ہے۔ لہذا جب یہ وقت آیا تو اللہ تعالیٰ نے مجھے چار بیویوں سے نوازا۔ ان چاروں کو میں نے نیک اور صالحہ پایا۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے جس نے مجھے رسول اللہ ﷺ کی سنت ادا کرنے کی توفیق دی۔ آپؒ کی بیویوں کے نام یہ ہیں:
- حضرت سیدہ بی بی مدینہ بنت سید میر محمد
- سیدہ بی بی صادقہ بنت سید محمد شفیع
- سیدہ بی بی مومنہ صاحب
- سیدہ بی بی محبوبہ صاحبہ
ان چاروں میں سے آپ کے ستائیس صاحبزادے اور اٹھارہ صاحبزادیاں پیدا ہوئیں۔ یہ مبارک خواتین نہ صرف حضور غوث الاعظمؒ کی جیون ساتھی تھیں بلکہ اسلام کی تعلیمات پھیلانے میں بھی اپنے شوہر کا بھرپور ساتھ دیتیں۔ وہ اپنے گھر اور بچوں کی تعلیم و تربیت کا بھی خود ہی اہتمام فرماتی تھیں تاکہ حضور غوث الاعظمؒ اپنے روحانی مشاغل کو بھرپور توجہ دے سکیں ان خواتین نے اپنے بچوں کی تربیت اس طریقے سے کی کہ سب کے سب ولی کامل ہوئے۔ آپؒ کی تمام ازواج تقویٰ، حکمت و دانائی اور اعلیٰ کردار کی حامل خواتین تھیں۔ گھریلو امور کو بخوبی سرانجام دیتیں اس کے ساتھ ساتھ حضور غوث پاکؒ کے دینی مشاغل میں بھرپور ساتھ دیتی تھیں۔ ہر مشکل وقت میں ان کا حوصلہ بڑھاتیں۔ ہمیشہ صابرو قانع رہتیں کبھی بھی اپنی زبانوں پر شکوے شکایتیں نہ لاتیں۔ اپنے بچوں کی روحانی تربیت پر بھرپور توجہ دیتیں۔ آپؒ کے ساتھ مل کر خواتین کی تعلیم و تربیت میں حصہ لیتیں۔ ان کے پیغام کو عام کرنے میں مدد فرماتیں۔
اگرچہ ان کی ازواج کے بارے میں زیادہ معلومات میسر نہیں ہیں لیکن ایک چیز واضح ہے کہ انھوں نے حضور غوث الاعظم ؒ کی زندگی، تعلیمات اور روحانی میراث کی حمایت میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ اللہ کریم کی بے شمار رحمتوں کا نزول ہو ان پر۔ آمین
حضور غوث الاعظمؒ کی بیٹیوں نے بھی آپؒ کی زندگی میں اور آپ کی دینی خدمت میں بھرپور ساتھ دیا ہے۔ آپ کی بیٹیاں گھر میں اپنی والدہ کے ساتھ ان کا گھریلو کام کاج میں ہاتھ بٹاتیں۔اپنے بابا جان کی تعلیمات کو دوسری خواتین تک پہنچانے میں کلیدی کردار ادا کرتیں۔
تمام بیٹیاں تقویٰ اور روحانی تعلیمات پر بھرپور عمل کرتیں۔ اپنے بابا جان کی تعلیمات کو کتابوں میں لکھ کر محفوظ کرتیں۔حضور غوث الاعظمؒ کی خط و کتابت میں مدد کرتیں۔ غریبوں، مسکینوں کا خیال رکھتیں۔ اپنے بابا جان کو جذباتی مدد اور تسلی فراہم کرتیں اور ان کی روحانی سرگرمیوں کے لیے ایک مستحکم ماحول فراہم کرتی تھیں۔ ان کی بعض بیٹیاں محدثہ گزری ہیں جن سے بڑے بڑے محدثین درس حدیث لیتے تھے آپؒ کی بیٹیاں بھی صالحہ اور پرہیزگاری کے مرتبہ پر فائز تھیں۔
غرضیکہ حضور غوث الاعظمؒ کی زندگی میں موجود تمام خواتین نے انہیں ہر طرح کی سپورٹ فراہم کی پھر چاہے وہ عورت ان کی والدہ، بیویاں یا پھر بیٹیاں ہی کیوں نہ ہوں سب نے آپ کے مشن میں آپ کا بھرپور ساتھ دیا نہ صرف ساتھ دیا بلکہ عملی طور پر بھی شامل رہیں۔ ایسی خواتین ہی ہمارے لیے رول ماڈل ہونی چاہئیں تاکہ ہم بھی دنیا و آخرت میں کامیابیاں سمیٹ سکیں۔اللہ کریم ان پاکیزہ بیٹیوں کے صدقے ہمیں بھی صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور ثابت قدم رکھے۔ آمین
بندہ قادر کا بھی قادر بھی ہے عبدالقادر
سرِّ باطن بھی ہے ظاہر بھی ہے عبدالقادر
مفتی شرع بھی ہے قاضی ملت بھی ہے
علمِ اسرار سے ماہر بھی ہے عبدالقادر
منبعِ فیض بھی ہے مجمعِ افضال بھی ہے
مہر عرفاں کا منور بھی ہے عبدالقادر
قطب ابدال بھی ہے محورِ ارشاد بھی ہے
مرکز، دائرئہ سرّ بھی ہے عبدالقادر
سلکِ عرفاں کی ضیا ہے یہی درِّ مختار
فخرِ اشباہ و نظائر بھی ہے عبدالقادر
اس کے فرمان ہیں سب شارحِ حکمِ شارع
مظہرِ ناہی و آمر بھی ہے عبدالقادر
ذی تصرف بھی ہے ماذون بھی مختار بھی ہے
کارِ عالم کا مدبر بھی ہے عبدالقادر
رشکِ بلبل ہے رضاؔ لالہ صد داغ بھی ہے
آپ کا واصف و ذاکر بھی ہے عبدالقادر
(اعلیٰ حضرت امام احمد رضا)