دین اسلام میں اولاد کی تعلیم و تربیت، فلاح دنیا و آخرت، عمدہ صفات، صلاح و تقوی، تزکیہ نفس، اچھے اخلاق اور بہترین پرورش پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے۔چنانچہ قرآن کریم میں اللہ سبحانہ تعالٰی کا ارشاد ہے:
’’اے لوگوں! بچاؤ اپنے آپ کو اور اہل و عیال کو ایسی آگ سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہے جو انکار کرنے والوں کیلئے تیار کی گئی ہے۔‘‘ (سورۃالتحریم)
حضرت علیؓ نے اس آیت کریمہ کی توضیح اس طرح فرمائی ہے کہ’’ان کو (اپنی اولاد) کو تعلیم دو اور ان کو ادب سکھاؤ‘‘۔
فقہائے کرام نے کہا ہے ہر شخص پر فرض ہے کہ اپنے بیوی بچوں کو فرائض شرعیہ اور حلال و حرام کے احکام کی تعلیم سکھا ئے اور اس پر عمل کرانے کی کوشش کرے۔
اولاد کی تعلیم و تربیت کی اہمیت و افادیت کا اندازہ درج ذیل حدیث شریف سے بھی لگایا جاسکتا ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے عرض کیا: یا رسول اللہ والدین کے حقوق تو ہم نے جان لیے،اولاد کے کیا حقوق ہیں؟
آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: اس کا اچھا سا نام رکھو اور اس کی اچھی تربیت کرو۔ (سنن بیہقی)
ایک دوسری حدیث شریف میں نبی علیہ السلام کا ارشاد ہےکہ: ’’کوئی باپ اپنی اولاد کو اس سے بہتر عطیہ نہیں دے سکتا کہ اس اچھے آداب سکھلائے۔‘‘ (بخاری)
یعنی اچھی تربیت کرنا اچھے آداب سکھانا اولاد کیلئے سب سے بہترین عطیہ ہے.بچے مستقبل میں قوم کے معمار ہوتے ہیں، اگر ان کو صحیح تربیت دی جائے تو اس کا مطلب ایک اچھے اور مضبوط معاشرے کیلئے ایک صحیح بنیاد ڈال دی گئی ہے،بچوں کی اچھی تربیت سے ایک مثالی معاشرہ وجود میں آتا ہے؛ اس لیے کہ ایک اچھا پودا ہی مستقبل میں تناور درخت بن سکتا ہے۔
بچپن کی تربیت نقش علی الحجر کی طرح ہوتی ہے، بچپن میں اگر بچے کی صحیح دینی و اخلاقی تربیت اور اصلاح کی جائے تو بڑے ہونے کے بعد بھی ان پر عمل پیرا ہوگا۔اس کے برعکس اگر درست طریقے سے ان کی تربیت نہ کی گئی تو بلوغت کے بعد ان سے بھلائی کی زیادہ توقع نہیں کی جا سکتی، نیز بڑے ہونے پر جن برے اخلاق و اعمال کا وہ مرتکب ہوگا، اس کے ذمہ دار اور قصور وار والدین ہی ہوں گے، جنہوں نے ابتداء میں ان صحیح راہنمائی نہیں کی، اولاد کی اچھی اور دینی تربیت کرنا دنیا میں والدین کیلئے نیک نامی کا باعث اور آخرت میں کامیابی کا سبب ہے، جب کہ نا فرمان و بے تربیت اولاد دنیا میں بھی والدین کیلئے وبال جان ہوگی اور آخرت میں بھی رسوائی کا سبب بنے گی۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے کہ’’اپنی اولاد کو ادب سکھلاو، قیامت کے دن تم سے تمہاری اولاد کے متعلق سوال کیا جائے گا کہ تم نے ان کو کیا ادب سکھایا؟ اور کیسی تعلیم دی؟‘‘( شعب الایمان للبیہقی)
تربیت کا مفہوم
لفظ ’’تربیت‘‘ ایک وسیع مفہوم والا لفظ ہے، اس لفظ کے تحت افراد کی تربیت، خاندان کی تربیت، معاشرہ اور سوسائٹی کی تربیت، پھر ان قسموں کی بہت سی ذیلی اقسام داخل ہیں، ان سب اقسام کی تربیت کا اصل مقصد و غرض، عمدہ، پاکیزہ، با اخلاق اور باکردار معاشرہ کا قیام ہے، تربیت اولاد بھی انہیں اقسام میں سے ایک بڑی اہم قسم ہے۔ بالفاظ دیگر ’’تربیت‘‘کی تعریف یوں بھی کی جاسکتی ہے کہ برے اخلاق و عادات اور غلط ماحول کو اچھے اخلاق و عادات اور ایک صالح، پاکیزہ ماحول میں تبدیل کرنے کا نام تربیت ہے۔
تعلیم و تربیت میں ماں کا کردار
بچوں کی تعلیم و تربیت، پرورش و پرداخت، کردار سازی میں سب سے اہم اور مرکزی کردار ماں کا ہوتا ہے، بچوں کیلئے سب سے پہلا مدرسہ(تربیت گاہ) ماں کی گود ہے، بچے کی ذات و صفات میں غیر محسوس طریقے پر ماں کے اقوال و افعال اور اچھے برے اعمال کا مکمل اثر پڑتا ہے۔چنانچہ ماں اگر دیندار، پرہیز گار، امانت دار، وفا شعار، ضرورت مندوں کی خدمت گار، ضعیفوں کی غمگسار، غریبوں، مفلسوں کی غمخوار، تعلیمی اعتبار لحاظ سے باوقار اور تربیت یافتہ ہو تو،بچوں کے اندر بھی وہ تمام عمدہ صفات، اعلی اخلاق، اچھے اطوار بڑی تیزی کے ساتھ سرایت کر جاتے ہیں،اور بچہ ایک باکمال، عالی صفات، اور مکارم اخلاق کا نمونہ بن کر معاشرے اور سماج میں آفتاب و ماہتاب کے مانند چمکتا ،دمکتا ہے، اور اپنی پر نور شعاؤں سے بے شمار انسانوں کی راہنمائی و دستگیری کرتا ہے۔ماضی میں بھی جتنی عبقری، انقلابی، عالمی، اور روحانی شخصیات گزریں ہیں، ان میں اکثر حضرات کی ذات و صفات اور تربیت سازی میں ماں کا بہت اہم کردار رہا ہے۔
تربیت کی اقسام
تربیت کی دو قسمیں ہیں:
1۔ ظاہری تربیت
2۔ باطنی تربیت
ظاہری تربیت
اولاد کی تربیت میں ظاہری اعتبار سے، وضع قطع، لباس، کھانا، پینا، نشست و برخاست، میل جول، اس کے دوست و احباب اور تعلقات و مشاغل کو نظر میں رکھنا، اس کے تعلیمی حالات کی جانکاری اور بلوغت کے بعد ان کے ذرائع معاش کی نگرانی وغیرہ امور اس میں شامل ہیں۔
باطنی تربیت
باطنی تربیت سے مراد ان کے عقیدہ، اخلاق کی اصلاح و درستگی، نماز، روزے، سچ بولنے،جھوٹ سے بچنے، اور ایک دوسرے کی عزت و احترام کرنے کی عادات و اطوار اس میں شامل ہیں۔اولاد کی ظاہری اور باطنی دونوں قسم کی تربیت کے ذمہ والدین پر فرض ہیں۔
ماں باپ کے دل میں اپنی اولاد کے لیے بے حد رحمت و شفقت کا فطری جذبہ پایا جاتا ہے وہی فطری جذبات و احساسات ہیں جو بچوں کی دیکھ بھال، تربیت اور ان کی ضروریات کی کفالت پر انہیں ابھارتے ہیں، ماں باپ کے دل میں یہ جذبات راسخ ہوں اور ساتھ ہی ساتھ اپنی دینی ذمہ داریوں کا بھی احساس ہو تو وہ اپنے فرائض اور ذمہ داریاں احسن طریقے سے اخلاص کے ساتھ ادا کر سکتے ہیں۔
بچوں سے خطا ہو جانا کوئی اچنبھے کی بات نہیں، غلطی تو بڑوں سے بھی ہو جاتی ہے، ماحول کا بچوں پر اثر ہوتا ہے، ممکن ہے کہ غلط ماحول کی وجہ سے بچوں سے کوئی غلطی سرزد ہو جائے، تو اس صورت حال کو بھی مد نظر رکھنا چاہیے کہ بچوں سے غلطی کس وجہ سے ہوئی؟اسی اعتبار سے انہیں سمجھایا جائے، تربیت میں میانہ روی اور اعتدال کا راستہ اختیار کرنا چاہیے، مربی کو اس بات سے باخبر ہونا چاہیے کہ اس وقت ان کیلئے نصیحت کارگر ہے یا سزا؟
تو جس قدر سختی اور نرمی کی ضرورت ہو اسی قدر کی جائے، بہت زیادہ سختی اور بہت زیادہ نرمی بھی بعض اوقات بگاڑ کا سبب بنتی ہے۔
پیار و محبت سے بچوں کی تربیت و اصلاح کا ایک واقعہ
حضرت عمر بن ابی سلمہ سے منقول ہے کہ ، میں بچپن میں رسول اللہ ﷺ کے زیر تربیت اور زیر کفالت تھا،میرا ہاتھ کھانے کے برتن میں ادھر ادھر گھوم رہا تھا، یہ دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا’’اے بچے! اللہ کا نام لے کر کھانا شروع کرو، دائیں ہاتھ سے کھاؤ اور اپنی طرف سے کھاؤ۔‘‘
تربیت کے مراحل میں علم کی اہمیت
تربیت کے ساتھ ساتھ بچوں کیلئے جو سب سے اہم اور ضروری چیز ہے وہ تعلیم ہے، تعلیم ہی کے ذریعہ انسان کو دنیا میں آنے کا صحیح مقصد معلوم ہوتا ہے۔خدا اور اس کے رسول ﷺ کی پہچان اور معرفت، آخرت، جنت ،جہنم، ملائکہ، بعث بعد الموت کا علم، نیز صحیح اور غلط کی تمیز، حرام و حلال کا تصور، حقوق اللہ اور حقوق العبادکی معرفت، آداب معاشرت کی اہمیت اسی علم دین کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے۔علم دین ہی ایک ایسا نور ہے جس کی روشنی سے انسان دنیا کی فلاح، آخرت کی دائمی کامیابی اور اللہ رب العزت کی رضا و خوشنودی حاصل کرسکتا ہے۔اسی لیے خالق کائنات نے اپنے پیارے حبیب نبی آخرالزمان صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے جبرئیل امین کی معرفت انسانوں کو جو سب سے پہلا پیغام دیا وہ علم ہی کا ہی پیغام تھا۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’علم و حکمت عزت دار آدمی کو اور زیادہ عزت بخشتا ہے اور غلام کو بلند کرتے کرتے بادشاہوں کے تخت پر بٹھا دیتا ہے۔‘‘
کسی نے خوب کہا ہے:
’’دلوں کیلئے علم اسی طرح زندگی ہے جس طرح مینہ سے زمین زندہ ہوجاتی ہے، علم جہالت کو دل سے اسی طرح زائل کر دیتا ہے جس طرح چاند گھنے اندھیرے کو۔‘‘علم ہی وہ نعمت ہے جس کی وجہ سے انسانوں کو ملائکہ (فرشتوں)جیسی عظیم الشان فوقیت مخلوق پر حاصل ہوئی۔علم ہی وہ جوہر ہے جو انسانوں کی عزت و سر بلندی کا ذریعہ ہے۔اللہ تعالٰی نے علم ہی کی بدولت انسانوں کو تمام کائنات میں افضل و اشرف بنایا اور زمین میں اپنی خلافت کا تاج پہنایا۔علم کی بدولت ہی انسان کو اشرف المخلوقات(مخلوقات میں سب سے افضل)کا درجہ ملا ورنہ دیگر اوصاف میں تو حیوان بھی انسان کے شریک ہیں۔
حضرت عبداللہ ابن مبارک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حقیقت میں انسان علم ہی کی وجہ سے دوسرے حیوانات پر شرف رکھتا ہے نہ کہ طاقت و قوت کی وجہ سے کیوں کہ طاقت میں دوسرے جانور انسان سے بڑھے ہوئے ہیں، نہ موٹاپے کی وجہ سے کہ ہاتھی موٹاپے میں زیادہ ہے، نہ بہادری کے وجہ سے کہ درندہ انسان سے زیادہ بہادر ہوتا ہے، نہ کھانے کی وجہ سے کہ کھانے میں بیل انسان سے بڑھ کر ہے، اور نہ صحبت کی خواہش کی وجہ سے کہ چڑیا اس میں انسان سے آگے ہے، معلوم ہوا کہ صرف علم کی وجہ سے انسان یہ شرف رکھتا ہے، اور یہ علم صرف انسان ہی کو بخشا گیا ہے۔
حضرت حسن بصری رحمۃ الله علیہ کا ارشاد گرامی ہے کہ اگر علماء نہ ہوتے تو لوگ جانوروں کے مانند ہوتے کیونکہ تعلیم اور علم ہی کے ذریعہ انسان حد بہیمیت سے نکل کر حد انسانیت کی طرف آتے ہیں۔
لہذا تمام والدین کی یہ بنیادی ذمہ داری ہے کہ اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کی طرف خصوصی توجہ فرمائیں اور ان کے تمام حرکات و سکنات پر گہری نگاہ رکھیں اور انتہائی حکمت و دانائی کے ساتھ بچوں کی ذہن سازی بھی کی جائے تاکہ ایک اچھی نسل تیار ہو جو والدین کے ساتھ ساتھ پوری قوم اور ملک و ملت کیلئے بھی فائدہ مند ثابت ہو، اللہ تعالٰی ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین