پاکستان ایک ایسی قوم ہے جو مختلف چیلنجز کا سامنا کر رہی ہے اور ان میں سب سے بڑا چیلنج امن عامہ کا ہے۔ آج اس موضوع پر قلم اٹھاتے ہوئے شدت سے اس بات کا احساس ہوا کہ پاکستان میں موجودہ امن و عامہ کی صورتحال بانی پاکستان اور ساتھیوں کی تکلیف کا باعث بنتی ہوگی۔ 14 اگست 1947 کو معرض وجود میں آنے والا یہ وہ ملک ہے جس کے لیے جدوجہد کرنے والوں نے ایک پرامن اور پروقار معاشرے کا خواب دیکھا تھا آج سیاسی، مذہبی، معاشرتی اور معاشی انتشار کےعمیق گڑھے میں گر چکا ہے۔ جب امن میں کمزوری اور بگاڑ پیدا ہو جائے تو شیطانی خباثت اور اس کے انسانی اور جری لشکروں کے کھیل تماشے ظاہر ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور وہ اپنے گماشتوں کو ہر راہ پر کھڑا کر دیتا ہے، بشر کو گمراہ کرنے میں لگ جاتے ہیں، انسان ان کو ہلکا سمجھ کر ان کی باتوں میں آجاتا ہے۔ شیطان انسان کو گمراہ کرنے کے لیے اپنی مہارت آزمانا شروع کر دیتا ہے قرآن مجید میں ہے۔
’’میں ضرور ہی ان کے لیے تیرے سیدھے راستے پر بیٹھوں گا۔ پھر میں ہرصورت ان کے آگے سے اور ان کے پیچھے سے اور ان کی دائیں طرف سے اور ان کی بائیں طرف سے آؤں گا اور تو ان کے اکثر کو شکر کرنے والے نہیں پائے گا۔ ‘‘
(اعراف، 17-16)
امن عامہ کی ضرورت اور اہمیت ایک مضبوط اور مستحکم معاشرے کے لیے نہایت اہم ہے، اور اس کی بگڑتی ہوئی صورتحال ہمارے ملک کی ترقی اور فلاحی مقاصد کو انفرادی اور اجتماعی ہر سطح پر براہ راست متاثر کر رہی ہے۔
امن عامہ بنیادی طور پر کسی بھی ملک کی معیشت، سماج، اور سیاست کے استحکام کی ضمانت ہے۔ یہ وہ حالت ہے جس میں شہریوں کو روزمرہ کی زندگی میں خوف و ہراس، تشویش، یا عدم تحفظ کا سامنا نہ ہو۔ امن معاشرے کی ایسی کیفیت کا نام ہے جہاں روزمرہ کےمعاملات معمول کے ساتھ بغیر کسی پرتشدد اختلافات کے چل رہے ہوں۔ یعنی ایسا معاشرہ جہاں زندگی کے معاملات پرسکون اور صحت مندانہ طریقے سے جاری و ساری ہوں۔
یوں تو دنیا کے ہر مذہب اور ثقافت نے امن و عامہ کی صورتحال پر بہت زور دیا ہے مگر اسلام بحیثیت قومی مذہب پاکستانیوں سے اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ہم دین اسلام کے بتائے ہوئے امن و عامہ اور بین المذاہب محبت کے پرچم کو بلند کرتے ہوئے پاکستان کو ایک فلاحی اسلامی ریاست بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ پاکستان میں امن عامہ کی ضرورت کا اندازہ ہمیں مختلف پہلوؤں سے ہوتا ہے جن کے چیدہ چیدہ نکات درج زیل ہیں:
1۔ معاشرتی استحکام: امن عامہ کی عدم موجودگی میں معاشرتی استحکام متاثر ہوتا ہے۔ تشویش، خوف، اور عدم تحفظ کی وجہ سے لوگوں کی روزمرہ کی زندگی مشکلات کا شکار ہوتی ہے۔ امن و عامہ کی صورتحال میں کمی شہریوں میں بے یقینی کی اس کیفیت کو جنم دیتی ہے جو نفسیاتی دباؤ کے ساتھ ساتھ ان کے اندر موجود صلاحیتوں کو معاشرے کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنے سے مانع رکھتی ہے۔ بین المذاہب اور بین المسالک ہم آہنگی کے لیے عین ضروری ہے کہ حکومت وقت حکومتی اور معاشرتی سطح پر امن و عامہ اور محبت کے فروغ کے لیے کانفرنسز ڈائیلاگ اور پروگرام کا انعقاد کرے۔ مذہبی تنفر اور فتوی بازی سے گریز کرتے ہوئے علماء کرام کو معاشرے میں مذہبی رواداری اور محبت کے فروغ کے لیے اہم کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ سیاسی انتشار بھی امن و عامہ کی کمی کا ایک بہت بڑا سبب ہے۔ معاشرے کے 99 فیصد افراد ایک فیصد سیاسی اشرافیہ کے ہاتھوں اس استحصال کا شکار ہیں کہ آئے روز دہشت گردی لوٹ مار عفت ریزی اور خودکشیوں کا ایسا بازار گرم ہے جو ہماری موجودہ نسل کو ذہنی اور جسمانی طور پر تو مفلوج کر ہی رہا ہے مگر ہماری آنے والی نسلوں کا مستقبل بھی تاریک کر رہا ہے۔ اسی تناظر میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے چند سال پہلے Curriculum for Peace and Counter Terrorism کے نام سے معاشرے کے مختلف طبقات کے لیے فکری و ذہنی انتشار کو ختم کرنے کے لیے ایک ایسا نصاب مہیا کیا کہ جس کو اگر ہم اپنے تعلیمی اداروں میں نافذ کر دیں تو بہت حد تک فکری اور ذہنی بے یقینی کا خاتمہ ممکن ہے جو امن و عامہ کی راہ ہموار کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔
2۔ اقتصادی ترقی: جب امن عامہ برقرار نہیں رہتا تو معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ سرمایہ کار عدم تحفظ کی وجہ سے سرمایہ کاری کرنے سے گریز کرتے ہیں، جس کی وجہ سے اقتصادی ترقی کی رفتار سست ہو جاتی ہے۔ نوکری کی تلاش میں سرگرداں افراد بین الاقوامی ہجرت کو ترجیح دیتے ہیں۔ سرمایہ داری میں کمی غربت میں اضافے اور افراط زر میں کمی کا باعث بنتی ہے۔ انفرادی اور اجتماعی سطح پر قومی تذلیل کی ایک بڑی وجہ معاشرے میں امن عامہ کی قلت بھی ہے۔ محفوظ معاشرہ بین الاقوامی سرمایہ داری اور پرسکون ماحول میں حلال رزق کمانے کا ماحول فراہم کرتا ہے۔
3۔ قانون کی حکمرانی: امن عامہ کی بگڑتی صورتحال میں قانون کی حکمرانی کمزور ہو جاتی ہے۔ جرائم کی بڑھتی ہوئی شرح اور قانون کی عملداری کی کمزوری سے معاشرت میں افراتفری پھیلتی ہے۔ ایسی صورتحال میں خانہ جنگی, دہشت گردی اور بین الاقوامی سازشیں قوموں کا شیرازہ بکھیر دیتی ہیں۔ امن عامہ کی موجودگی میں قانون اور انصاف کی عملداری بہتر ہوتی ہے۔ انصاف کا نظام درست طریقے سے کام کرتا ہے اور عوام کے حقوق کا تحفظ ہوتا ہے۔
4۔ تعلیمی اور صحت کی سہولتیں: امن عامہ کی عدم موجودگی کی صورت میں تعلیمی ادارے اور صحت کی سہولتیں براہ راست متاثر ہوتی ہیں۔ تعلیمی اداروں میں طلباء کی حفاظت کی کمی اور صحت کی سہولتوں کی فراہمی میں مشکلات معاشرے کی علمی اور فکری استعداد میں کمی کا باعث بنتی ہے۔ بہترین تعلیمی نظام میں جہاں منظم اور اعلی معیار کا حامل نصاب اہمیت رکھتا ہے وہیں طلبہ و طالبات کا محفوظ ماحول میں تعلیم حاصل کرنا ان کی استعداد کو بڑھاتا ہے۔ اس کے لیے کارین کو شیخ الاسلام کا دیا گیا Curriculum on Peace and Counter Terrorism سے استفادہ حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان میں امن عامہ کی بگڑتی صورتحال ایک سنگین مسئلہ ہے جو مختلف عوامل کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے۔ اس صورتحال کے چند اہم پہلو درج ذیل ہیں:
1۔ دہشت گردی: پاکستان میں دہشت گردی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ دہشت گرد تنظیمیں مختلف مقامات پر حملے کرتی ہیں، جس کی وجہ سے امن عامہ کی صورتحال متاثر ہوتی ہے۔ دہشت گردی کی کارروائیوں سے شہریوں میں خوف و ہراس بڑھ جاتا ہے اور معیشت پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
2۔ جرائم کی بڑھتی ہوئی شرح: پاکستان میں جرائم کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔ ڈاکے، قتل، اغواء، اور دیگر جرائم میں اضافہ ہوا ہے، جس کی وجہ سے شہریوں کی حفاظت کا مسئلہ سنگین ہو گیا ہے۔
4۔ فرقہ واریت اور مذہبی شدت پسندی: پاکستان میں فرقہ واریت اور مذہبی شدت پسندی بھی امن عامہ کی بگڑتی ہوئی صورتحال کی وجوہات میں شامل ہیں۔ مختلف مذہبی اور فرقہ وارانہ گروہوں کے درمیان جھگڑے اور تشویش ناک حالات پیدا ہوتے ہیں، جو امن عامہ کے لیے خطرہ ہیں۔
5۔ معاشرتی عدم مساوات: معاشرتی عدم مساوات اور اقتصادی فرق بھی امن عامہ کی بگڑتی صورتحال میں بڑا کردار ادا کرتے ہیں۔ امیر اور غریب کے درمیان فرق بڑھتا جا رہا ہے، جس کی وجہ سے سماجی تناؤ اور کشیدگی بڑھ رہی ہے۔
امن عامہ کی بگڑتی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے مختلف اقدامات اٹھائے جا سکتے ہیں:
1۔ قانون کی مضبوطی: قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی کو بہتر بنانا اور ان کے وسائل کو بڑھانا ضروری ہے۔ پولیس کو جدید ٹیکنالوجی سے لیس کرنا اور تفتیشی عمل کو مؤثر بنانا امن عامہ کو بہتر بنا سکتا ہے۔
2۔ دہشت گردی کے خلاف اقدامات: دہشت گردی کے خلاف سخت اقدامات اٹھانا ضروری ہے۔ انٹیلی جنس اداروں کو مضبوط کرنا، دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں تیز کرنا، اور سرحدی نگرانی کو بہتر بنانا امن عامہ کی صورتحال کو بہتر بنا سکتا ہے۔
3۔ معاشرتی ترقی: معاشرتی ترقی اور اقتصادی مواقع فراہم کرنا بھی امن عامہ کے تحفظ میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ تعلیم، صحت، اور روزگار کے مواقع بڑھانا اور معاشرتی عدم مساوات کو کم کرنا امن عامہ کو بہتر بنا سکتا ہے۔
4۔ فرقہ واریت کے خلاف اقدامات: فرقہ واریت اور مذہبی شدت پسندی کے خلاف اقدامات کرنا ضروری ہے۔ بین المذاہب مکالمے کو فروغ دینا اور مذہبی رواداری کو بڑھانا امن عامہ کے تحفظ میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔
5۔ عوامی آگاہی: عوامی آگاہی اور تعلیم بھی امن عامہ کے تحفظ میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ شہریوں کو اپنے حقوق اور ذمہ داریوں کے بارے میں آگاہ کرنا اور معاشرتی مسائل پر بیداری بڑھانا امن عامہ کو بہتر بنا سکتا ہے۔
پاکستان میں امن عامہ کی ضرورت اور اہمیت ناقابلِ انکار ہے۔ امن عامہ کے بغیر معاشرتی استحکام، اقتصادی ترقی، اور قانون کی حکمرانی ممکن نہیں۔ موجودہ حالات میں امن عامہ کی بگڑتی ہوئی صورتحال ہمارے ملک کے مستقبل کے لیے ایک سنگین چیلنج ہے۔ اس چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے مؤثر اقدامات، مضبوط قوانین، اور عوامی آگاہی کی ضرورت ہے۔ امن عامہ کی بہتری کے لیے ہمیں مل کر کام کرنا ہوگا تاکہ پاکستان ایک محفوظ، پر امن، اور خوشحال ملک بن سکے۔