ترتیب و تدوین: غلام مرتضی علوی، محمد خلیق عامر
آیت کریمہ اور قواعد تفسیر
اس آیت کی روشنی میں حسب ذیل اصول تفسیر کی وضاحت ہو رہی ہے۔
- قرآن مجید میں جہاں بھی خطاب ان کلمات ياَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا کے ساتھ آیا تو اُس کے مخاطب دو قسموں کے لوگ ہوں گے۔ ایک خاص مخاطب اور دوسرے عام مخاطب ہوں گے۔
خاص اور اولین مخاطب صحابہ کرام ہیں کہ قرآن ان سے خطاب کر رہا ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین وہ اول جماعت ہے جنہیں قرآن مجید تعلیم دے رہا ہے۔ قرآن ان کی آقا علیہ السلام کے ذریعے تربیت فرما رہا ہے۔ اللہ رب العزت جو کچھ اوامر اور نواہی قرآن مجید کے ذریعے نازل فرماتا ہے اس کے پہلے مخاطب اور پہلے سامعین مستمعین، متعلمین اور مستفیدین یعنی سننے والے، اخذ کرنے والے اور فائدہ اٹھانے والے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین تھے۔
ایسی آیات کے دوسرے مخاطب صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی وساطت سے قیامت تک حضور علیہ السلام کی جمیع امت ہے۔ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہر امتی اس خطاب کا مخاطب ہے۔ یہ اطلاق اس خطاب کے عموم پر ہے۔
- يٰـاَيُّهَا النَّاسُ کے ساتھ اس وقت غیر مسلموں کو مخاطب کیا جاتا تھا۔ وہ غیر مسلم کفار و مشرکین مکہ ہوں یا ہجرت کے بعد مدینہ میں غیر مسلمین افراد۔ جب قرآن انہیںيٰـاَيُّهَا النَّاسُ کہتا تو اس کا اشارہ ہوتا کہ اس حکم کے مخاطب اولین (مخاطب خاص) کفار مکہ ہیںجبکہ مسلمان اورتمام غیر مسلم مخاطب ثانی (عام) ہیں۔ مگر اب ان کے بعد قیامت تک ہر انسان مسلم اور غیر مسلم ساری انسانیت اس آیت کریمہ کا مخاطب ہو جاتی ہے۔
تفسیر کے اعتبار سے یہ پہلو بھی قابل توجہ ہے کہ مکی سورتوں میں يٰـاَيُّهَا النَّاسُ جبکہ مدنی سورتوں میں ياَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا کہہ کر مخاطب کیا جاتا تھا اور کہیں مدنی سورتوں میں اگر خطابِ عام مطلوب ہوتا تو اہل ایمان اور غیر اہل ایمان سب کے لیے يٰـاَيُّهَا النَّاسُ کے کلمات سے خطاب کیا جاتا۔
ایک آیت مبارکہ کے متعدد شان نزول ہونے کی وجوہات
آیات کے شان نزول کے بیان کا اصول بھی یہی ہے۔ کتب تفسیر میں ایک ہی آیت کے کئی اسباب نزول بیان کیے جاتے ہیں۔ آیت تو صاف ظاہر ہے ایک ہی وقت میں اتری تھی۔ بدر میں، احد میں یاخندق کے موقع پر، ہجرت کے موقع پر، حدیبیہ میں، تبوک میں یا حجۃ الوداع کے موقع پر اتری ہو گی۔ یعنی کوئی ایک موقع ہوگا،وہ چاہے سفر ہوگا یا حضر آیت تو ایک ہی بار نازل ہوئی ہوگی،مگر اُس کے شان نزول، کئی بیان کئے گئے ہیں۔ ایسا کیوں ہوا؟ کچھ تو روایات میں اور کچھ اس کے اطلاق اور انطباق میں فرق ہوتا ہے۔ ہر آیت کا شان نزول بھی ایک خاص اور ایک عام ہوتا ہے۔
جب کبھی کسی خاص موقع پر ضرورت پیش آئی، صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے پوچھا، وقت اور حالات نے تقاضا کیا کسی بات کو سمجھنے کا، کوئی حادثہ پیش آیا، کوئی ایشو اٹھا، کوئی سوال ہوا، کوئی صورتِ حال سامنے آئی۔ اللہ رب العزت نے کچھ آیات اتار دیں۔ اس طرح وہ خاص موقع یا سبب نزول یا شان نزول کہلایا۔ بعد میں صحابہ کرام، تابعین اور اتباع التابعین کے زمانے میں پھر اُسی جیسا واقعہ پیش آتا تو وہ کہتے یہ آیت اِسی وقت کے لیے اتری تھی، ایسے موقع کے لیے اور اسی مسئلہ کے لیے اتری تھی۔
’نزلت في کذا و کذا‘ اب وہ مختلف موارد جہاں جہاں آیت کا معنیٰ وارد ہوا، اس کے معنیٰ کا جہاں جہاں اطلاق ہوا۔ ایسے تمام مواقع اس آیت کے شان نزول میں ذکر کر دیے جاتے ہیں،لیکن وہ کہہ دیتے ہیںکہ یہ آیت اس موقع اور اس واقعہ کے لیے اتری تھی۔ لہٰذا ائمہ اصول تفسیر نے پھر اس فرق کو واضح کیا کہ ـتاریخی اسباب نزول تو ایک ہی ہے اور وہی سبب نزول خاص ہے۔جبکہ موارد اور اطلاقات کے اعتبار سے، احکام کی توسیع اور تنفیذ کے اعتبار سے، احکام کی تطبیق اور انطباق کے اعتبار سے وہ سارے اسبابِ نزول میں آ گئے۔
مجالس العلم کی اہمیت احادیث نبویہ سے
مجالس العلم کی اہمیت ہم قرآن مجید کی روشنی میں تو جان چکے اب احادیث نبوی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روشنی میں ان کی اہمیت کا جائزہ لیں گے۔
حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجالس العلم کو جنت کے باغ قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا :
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی اﷲ عنهما قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلیٰ الله عليه وآله وسلم: إِذَا مَرَرْتُمْ بِرِيَاضِ الْجَنَّةِ فَارْتَعُوْا. قِيْلَ: يَا رَسُوْلَ اﷲِ، وَمَا رِيَاضُ الْجَنَّةِ؟ قَالَ: مَجَالِسُ الْعِلْمِ.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.
- طبرانی، المعجم الکبير، 11: 95، رقم: 11158
- منذری، الترغيب والترهيب، 1: 63، رقم: 161
- هيثمی، مجمع الزوائد، 1: 126
- مناوی، فيض القدير، 1/ 442
’’حضرت عبداللہ بن عباس رضی اﷲ عنہا بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب تم جنت کے باغوں کے پاس سے گزرو تو (وہاں) بیٹھ کر فراخی کے ساتھ کھایا پیا کرو۔ عرض کیا گیا: یا رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم! جنت کے باغات کیا ہیں؟ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: علم کی مجالس۔ ‘‘
اہل علم کی اہل ذکر پر فضیلت
آقا علیہ السلام نے فرمایاکہ مجالس العلم ہی جنت کے باغات ہیں۔ اگرچہ متعدد کتب احادیث میں یہ حدیث مجلس ذکر کے الفاظ کے ساتھ آئی ہے۔ یعنی یہ فضیلت آقا علیہ السلام نے مجالس ذکر کے لئے فرمائی ہے۔ لیکن طبرانی نے معجم الکبیر میں لکھا ہے کہ اس روایت میں آقا علیہ السلام نے یہ فضیلت مجالس العلم کے لیے بیان فرمائی ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ مجالس الذکر مجالس العلم ہی ہیں۔ مجالس الذکر بھی جنت کے باغات میںسے ہیں۔ گویا علم میں ذکر کا معنیٰ ہے۔ علم جامع ہے۔ خالی ذکر میں علم کا پورا معنیٰ نہیں پایا جاتا مگر علم میںذکر کا معنی پایا جاتاہے۔
دوسری حدیث پاک جس کو سنن ابن ماجہ میں روایت کیا گیا اس میں بھی علم کو ذکر پر فضیلت دی گئی
عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: خَرَجَ رَسُوْلُ اﷲِ ذَاتَ يَوْمٍ مِنْ بَعْضِ حُجَرِهِ فَدَخَلَ الْمَسْجِدَ. فَإِذَا هُوَ بِحَلْقَتَيْنِ: إِحْدَاهُمَا يَقْرَاُوْنَ الْقُرْآنَ وَيَدْعُوْنَ اﷲَ وَالْاُخْرَی يَتَعَلَّمُونَ وَيُعَلِّمُوْنَ. فَقَالَ النَّبِيُّ: کُلٌّ عَلَی خَيْرٍ. هَوُلَاءِ يَقْرَؤنَ الْقُرْآنَ وَيَدْعُوْنَ اﷲَ. فَإِنْ شَاءَ اَعْطَاهُمْ وَإِنْ شَاءَ مَنَعَهُمْ. وَهَوُلَاءِ يَتَعَلَّمُوْنَ وَيُعَلِّمُوْنَ. وَإِنَّمَا بُعِثْتُ مُعَلِّمًا. فَجَلَسَ مَعَهُمْ.
-
ابن ماجه، السنن، المقدمة، باب: فضل العلماء والحث علی طلب العلم، 1: 83، رقم: 229
- دارمی، السنن، 1: 111، رقم: 349
- طيالسی، المسند، 1: 298، رقم: 2251
- بيهقی، المدخل إلی السنن الکبری، 1: 306، رقم: 462
- ابن المبارک، الزهد، 1: 488، رقم: 1388
’’حضرت عبد اﷲ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ایک روز حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے ایک حجرہ مبارک سے باہر تشریف لائے اور مسجد میں داخل ہوئے۔ وہاں آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کو دو حلقوں میں منقسم بیٹھے دیکھا۔ ایک حلقہ کے لوگ قرآن کی تلاوت کر رہے تھے اور اللہ سے دعا مانگ رہے تھے اور دوسرے حلقہ کے لوگ تعلیم و تعلم میں مصروف تھے۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یہ دونوں نیکی کا کام سر انجام دے رہے ہیں۔ اس حلقہ والے قرآن پڑھ رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے دعا کر رہے ہیں۔ خدا اگر چاہے تو انہیں عطا کر دے اور اگر چاہے تو عطانہ کرے۔ دوسرے حلقہ والے لوگ تعلیم و تعلم میں مشغول ہیں۔ اور میں بھی معلم بنا کر مبعوث کیا گیا ہوں۔ (یہ فرما کر) آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے ساتھ بیٹھ گئے۔ ‘‘
مندرجہ بالا حدیث مبارکہ سے یہ بات مزید واضح ہوتی ہے کہ آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجالس العلم کواس قدراہمیت عطا فرمائی کہ تعلیم و تعلم کو اپنے منصب کے طور پر بیان فرمایا اور مجلس العلم میں بیٹھنے کو ترجیح عطا فرمائی۔
علم فقہ کی اہمیت حدیث نبوی کی روشنی میں
مجالس علم مجالس ذکر سے افضل ہیں اور مجالس علم میں سے وہ مجالس جو فقہی علوم پر مشتمل ہوں۔ جن میںقرآن و حدیث سے مسائل کا حل اخذ کرنے، دین کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کے لئے غور و فکر کیا جائے ایسی مجالس کی فضیلت بیان کرتے ہوئے حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
عن عبد اﷲ بن عمرو بن العاص، قال: خرج رسول اﷲ صلیٰ الله عليه وآله وسلم، فإذا فی المسجد مجلسان: مجلس يتفقهون ويتعلمون، ومجلس يدعون اﷲ ويسالونه. فقال: کلا المجلسين إلی خير اما هؤلاء فيدعون ﷲ ويسالونه، واما هؤلاء فيتعلمون ويفقهون الجاهل، هؤلاء افضل، بالتعليم ارسلت. ثم قعد معهم.
- خطيب بغدادی، الفقيه والمتفقه، 1:90
- ابن القيم الجوزية، مفتاح دار السعادة، 1: 77
پہلی مجلس فہم دین (فقہی مسائل کو سیکھنے اور سکھانے) کی تھی اور دوسری مجلس اللہ کا ذکر کرنے اوراس کی بارگاہ میں بیٹھے دعا کرنے والوں کی تھی۔ یہ دو مجلسیں تھیں۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: دونوں مجلسیں خیرپر ہیں۔ پھرمجلس ذکر کرنے والوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: یہ مجلس جس میں لوگ اللہ کو پکار رہے ہیں اوراپنی حاجات طلب کر رہے ہیں۔ اس کے بعد دوسری مجلس جس میں لوگ علم حاصل کر رہے تھے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ یفقہون الجاہل۔ ۔ ۔ یہ جو علم حاصل کر رہے ہیں اور جو عالم ہیں وہ نہ جاننے والوں کو دین کی فقہ (سمجھ بوجھ) دے رہے ہیں اور ان کو دین سمجھا رہے ہیں فرمایا: یہ لوگ تعلیم دینے کی وجہ سے افضل ہیں۔ (اس کے بعد مزید فضیلت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا) میری بعثت کا مقصد بھی یہی تعلیم دینا(دین عطاء کرنا) ہے‘‘۔ اس دوہرے فضیلت کے تذکرے کے بعد حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس مجلس کو تیسری فضیلت یہ عطا فرمائی کہ آقا علیہ الصلوۃ والسلام خود اس مجلس علم میں تشریف فرما ہو گئے۔
مجلس علم وفقہ کی مجلس ذکر و دعا پر فضیلت کی وجہ
اب یہاں ایک سوال ذہن میں آ سکتا ہے کہ مجلس علم کو مجلس ذکر پر فضیلت دینے کی کیا وجہ ہے؟ ایک طرف اللہ کا ذکر ہے، اس کی عبادت ہے، اللہ کو پکارنا ہے،اس سے مناجات ہیں اور دوسری طرف فقہ کی تعلیم دی جا رہی ہے۔ وضو کے طریقے سمجھائے جا رہے ہیں ، نماز پڑھنے کا طریقہ بتایا جا رہا ہے، روزہ، حج، زکوۃ ادا کرنے کی تدریس ہو رہی ہے۔ طہارت عبادات، اخلاق، معاملات، مناکحات اور معاشرت کے اصول بتائے جارہے ہیں۔ یہ مجلس بھلا اُس مجلسِ ذکر سے کیسے افضل ہو گئی؟
- اس سوال کا پہلا جواب آقا علیہ السلام نے خود عطا فرما دیا تھا کہ تعلیم کی مجلس میں بیٹھنے والے یہ لوگ افضل ہیں کیونکہ اس حلقہ اور مجلس کے لوگ تعلیم اور تعلم کا کام کر رہے ہیں اور میں تعلیم دینے کے لیے مبعوث کیا گیا ہوں یہ ایک پیغمبرانہ کام کر رہے ہیں اور جاہل دنیا کو علم کا نور دے رہے ہیں۔ ایک اور حدیث میں بھی یہی فرمایا:
وَإِنَّمَا بُعِثْتُ مُعَلِّمًا
’’میں خود بطور معلم مبعوث ہوا ہوں‘‘۔
لہٰذا وہ لوگ جو بعثتِ محمدی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقصد کو آگے بڑھانے کی جدوجہد کر رہے ہیں وہ ذاکرین اور سائلین پر فضیلت رکھتے ہیں۔ ثم قعد معہم۔ آقا علیہ السلام نے دو مجلسوں میں سے مجلسِ علم و فقہ کو منتخب فرما کر اس میں تشریف فرما ہو گئے۔
- دوسرا سبب جس کی وجہ سے مجلسِ علم کو فضیلت ملی وہ یہ کہ بالعموم جب آدمی دعا کرتا ہے تو اپنے لیے کرتا ہے۔ لوگ اپنی پریشانی دور کرنے کے لیے اللہ سے مدد مانگتے ہیں۔ مولا! مجھے صحت عطا فرما، باری تعالیٰ! مجھے کامیاب کر دے۔ باری تعالیٰ مجھے ہدایت عطا کر دے، اولاد عطا فرما، مجھے جنت عطا کر اور میری بخشش فرما دے۔ خواہ دنیوی امور کی دعا مانگے یا اخروی امور کی، دنیا مانگے یا اللہ رب العزت کی قرب و رضا مانگے جو بھی مانگتا ہے اولاً اپنے لیے مانگتا ہے ۔ یہی لوگوں کی عام عادت ہے۔
اس کے بر عکس تعلیم و تعلم کا عمل دوسرے کے لیے ہوتا ہے۔ تعلّم اپنے لیے تا کہ اپنے اندر سے جہالت نکلے اور تعلیم دوسروں سے جہالت نکالنے کے لئے ہے۔ تعلیم کے کام میں انسانیت کانفع ہے، جب معلم پڑھاتا ہے تو وہ دوسرے کی خیر مانگتا ہے۔ دوسرے کو صحیح راہ پرچلاتا ہے اور اس عمل سے اسے خود بھی نور اور ہدایت ملتی ہے۔ اس عمل کا در جہ بہت بلند ہے ۔ اس عمل کی نسبت جس میں آدمی صرف اپنے لیے خیر چاہے۔ تعلیم ایک ایسا عمل ہے جس میں بندہ دوسروں کے لیے خیراور نفع بخشی کا ذریعہ بنتا ہے۔ مجالس العلم کا درجہ آقا علیہ السلام کے اس فرمان کے مطابق مجالس العبادۃ سے بڑھ گیا۔
علم اور حکمت کی مجالس مردہ دلوں کی زندگی کا باعث
عَنْ اَبِي اُمَامَةَ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلیٰ الله عليه وآله وسلم: إِنَّ لُقْمَانَ قَالَ لِابْنِهِ: يَا بُنَيَّ، عَلَيْکَ بِمُجَالَسَةِ الْعُلَمَاءِ، وَاسْتَمِعْ کَلَامَ الْحُکَمَاءِ، فَإِنَّ اﷲَ يُحْيِي الْقَلْبَ الْمَيِّتَ بِنُوْرِ الْحِکْمَةِ کَمَا يُحْيِي الاَرْضَ الْمَيِّتَةَ بِوَابِلِ الْمَطَرِ. رَوَاهُ مَالِکٌ وَالطَّبَرَانِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ.
- مالک، الموطأ، 2: 1002، رقم: 1821
- طبرانی، المعجم الکبير، 8: 199، رقم: 7810
- ديلمی، مسند الفردوس، 3: 196، رقم: 4550
- منذری، الترغيب والترهيب، 1: 63، رقم: 162
- قرطبی، الاستذکار، 8: 616، رقم: 1891
’’حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو (نصیحت کرتے ہوئے) کہا: میرے بیٹے! علماء کے پاس لازمی بیٹھنا اورحکماء کی گفتگو غور سے سننا کیونکہ اللہ تعالیٰ مردہ دل کو نورِ حکمت سے زندہ کرتا ہے جس طرح کہ وہ مردہ زمین کو زور دار بارش سے حیات بخشتا ہے۔ ‘‘
حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علماء ، حکماء اور اولیائے عارفین کی مجالس کو مردہ دلوں کے احیاء (زندگی) کا ذریعہ فرمایا ہے۔ ان کی مجالس میں بیٹھنے اور ان کی باتوں کو غور سے سننے سے اللہ تعالی مردہ دلوں کو زندہ فرما دیتا ہے۔ ایک صالح اور مقرب بندے کا قول دلوں کو زندہ کر دیتا ہے جیسے زوردار بارش سے مردہ زمینیں زندہ ہو جاتی ہیں اور ان میں شادابی آ جاتی ہے۔
حدیث نبوی سے مستنبط ایک تربیتی نکتہ
علم کے باب میں علماء، خطباء، طلباء اور مبلغین کے لیے ایک نصیحت آموز پہلو یہ ہے کہ:حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو کلمات ارشاد فرمائے وہ آپ سے پہلے حضرت لقمان علیہ السلام نے بیان فرمائے تھے لہٰذاآپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ کلمات بیان فرماتے ہوئے ان کا حوالہ (نام ) ذکر فرمایا۔
ہمارے لیے نصیحت آموز پہلو یہ ہے کہ ایسے اقوال آقا علیہ السلام کی اپنی تعلیمات کا بھی حصہ ہیں۔ آقا علیہ السلام خود بھی ایسے ہی احکام دیا کرتے تھے۔ قابلِ غور بات یہ ہے جو کلمات اس حدیث مبارکہ میں صحابہ کرام سے بیان فرما رہے ہیں وہ حضرت لقمان علیہ السلامنے بیان فرمائے تھے مگر آقا علیہ السلام نے ان کا نام چھپایا نہیں۔ آقائے دوجہاں صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ خیال نہیں فرمایا کہ صحابہ کرام کیا سمجھیں گے کہ تاجدار کائنات صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم افضل الرسل، خاتم الانبیاء، سیدالمرسلین، سب سے بلند مرتبے پر فائز ہیں لیکن وہ حضرت لقمان علیہ السلام کے قول کو نقل فرمارہے ہیں؟ حالانکہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اپنی تعلیم سب سے بلند ہے۔
حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے صحابہ کرام (شاگردوں) کو بتا رہے ہیں کہ حضرت لقمان علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے یہ کلمات فرمائے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے پاس حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات کے سوا تو کوئی ذریعہ علم ہی نہیں تھا، صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے لئے تو منبع و مصدرِ علم محض حضور علیہ السلام کی ذات ِ بابرکات تھی اور نہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے پاس کوئی کتاب تھی کہ وہ گھر جا کر تصدیق کر سکتے کہ یہ قول توحضرتِ لقمان حکیم کا ہے۔ اس کے باوجود آقا علیہ السلام کا یہ فرمانا دیانت اور امانت کا کتنا بلند رتبہ ہے۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس عمل کے ذریعے امت کو سنت عطا کی ہے۔
لہٰذا طلباء، خطباء اور واعظین پر لازم ہے کہ جب کوئی چیز بیان کریں اس کا ماخذ بھی ضرور بتائیں کہ وہ کس استاد سے لیا ہے، کس امام کا قول ہے، کس کتاب سے مطالعہ کیا ہے۔ بیان کرنے والے پر لازم ہے کہ اس کے متعلق اپنے سامعین کو بتائیں کیونکہ یہ تدریس کا اور سنت طریقہ ہے۔
حوالہ یا ریفرنس دینے کی اہمیت
بعض لوگ تقریر یا تحریر میں ماخذ کا حوالہ نہیں دیتے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ شاید سامعین و قارئین کہیں گے کہ دیکھو یہ فلاں کی بات سنا رہا ہے۔ شاید اس طرح ان کی حیثیت کم ہو جائے گی اورلوگ سمجھیں کہ اس کا علم کم ہے۔ ایسا سوچنا نہ صرف جہالت اور سنت نبوی کے خلاف ہے بلکہ علمی خیانت بھی ہے۔ ماخذ کو بیان کرنے سے آپ کا مرتبہ کم نہیں بلکہ اونچا ہو گا۔ آپ کی ثقاہت میں اضافہ اورآپ کی بات زیادہ معتبر اور معتمد ہو گی، کیونکہ آپ جس کا حوالہ دے رہے ہیں وہ علم میں آپ سے اونچا درجہ رکھتا ہے۔ جس شخصیت کا حوالہ دیں گے اس کا علم میں رتبہ آپ سے اونچا ہے۔ جب اس کی بات سند کے ساتھ بتائیں گے تو آپ کی بات کی حیثیت بھی بڑھ جائے گی۔
بعض لوگوں کی یہ عام عادت ہے کہ وہ مصدر اور ماخذ بتائے بغیر بات کرتے ہیں تاکہ لوگ سمجھیں کہ یہ اتنا بڑا عالم، محقق اور مستخرج ہے کہ یہ خود اتنی بڑی بات اپنی طرف سے کہہ رہا ہے۔ واہ !واہ! سبحان اللہ! جناب نے کیا بڑی بات کی؟اوربعض تومصدر یا حوالہ بیان کرنے کی بجائے خود بیان کرتے ہیں اور ساتھ میں یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ یہ بات اللہ پاک نے میرے دل میں ڈالی ہے۔ یہ نکتہ ابھی ذہن میں آیا ہے،اس سے پہلے یہ کسی نے بیان نہیں کیا۔ ایسا کلام صریحاً باطل اور کذب ہے۔ ہمیں ایسے گناہوں سے اجتناب کرنا چاہیے۔ علم دودھ کی طرح پاکیزہ چیز ہے اس میں ایسے پلید اعمال کو داخل کر نے سے یہ ناپاک ہو جاتا ہے اور اس سے برکت اٹھ جاتی ہے۔
لہٰذا جو بات یا نظریہ جہاں سے لیں اس ماخذ کا ذکر ضرور کریں کیو نکہ وہ آپ کا واسطہ اور وسیلہ ہے۔ جو آدمی واسطہ، مصدر اور ماخذ کو چھپاتا ہے اور اسے بیان نہیں کرتا وہ خود برکت اور مزید فیض سے محروم ہوجاتا ہے۔ اس منبع سے جو فیض ملنا تھا اس سے محرومی ہوتی ہے۔ اللہ رب العزت جن زبانوں اور اذہان کو دعوت و تبلیغ حق کے لئے منتخب کرتا ہے انہیں چاہیے کہ وہ سچ بولیں اور خیر کا کلمہ بیان کریں۔ وہ تصور کریں کہ میں چشمہ ہوں مصدر نہیں اور انہیں یہ بتانا چاہیے کہ اس چشمے کی اصل اور ماخذ یہ ہے۔
آئمہ حدیث و تفسیر کا طریقہ کار
ماخذ کا حوالہ دینا تمام ائمہ حدیث و تفسیر کا معمول تھا۔ تمام کتب کو پڑھیںہر جگہ ائمہ حوالے دیتے ہیں کہ فلاں نے یہ کہا، فلاں نے یہ کہا۔ ان تذکروں کے ساتھ صفحات بھرے پڑے ہیں۔ ائمہ کا یہ معمول نہیں تھا کہ یہ کہیں میری اپنی معرفت اتنی ہو گئی ہے کہ میں اللہ کی معرفت کی باتیں خود کر رہا ہوں۔ لہٰذا آپ نے کوئی بات جن سے لی ہے ان کا بیان کر دیں۔ علم کا حوالہ دینے میں یہ ضروری نہیں کہ جس کا ریفرنس دیا جا ئے وہ رتبے میں بڑا ہی ہو۔ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین تابعین سے روایت کرتے اور اپنی روایت میںان کا نام لیتے ہیں ۔ تابعین نے کئی مرتبہ تبع تابعی سے روایت کی اور ان کا نام لیا۔ بعض روایات صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے تبع تابعین سے بھی کی ہیں۔ صحابہ اکابر ہیں، تابعین اصاغر ہیں۔ تابعی سے روایت کر کے اپنی سند میں بتا رہے ہیں سمعت عن فلان۔۔ میں نے فلاں تابعی سے یہ بات سنی۔ کیونکہ وہ تابعی اپنے تمام حلقات علم میں معتمد اور معتبر ہے۔ اس کی ثقاہت اور صداقت پر اعتماد ہے۔ لہٰذا صحابی یہ احساس کمتری میں مبتلا نہیں ہوتے تھے۔ وہ یہ نہیں سوچتے تھے کہ وہ مجھ سے چھوٹا ہے میں اس کا حوالہ کیوں دوں، اپنا حوالہ کیوں نہ دوں۔
اصول حدیث میں کوئی محدث اگر اپنے استاد (جس سے روایت لی ہے) اس کا نام نہیں لیتا تو اسے ائمہ حدیث مدلّس کہتے تھے۔ اور نام چھپانے کے اس عمل کو تدلیس کہتے تھے۔ محدث نے نام چھپایا اور یہ واضح نہیں کیا کہ اس حدیث کو کس سے لیا ؟ محدثین نے اس پر بحث کی ہے کہ مدلّس کی بات کو مانا جائے یا نہیں؟۔ لہٰذا علم کو پاک، صاف، ستھرا اور متصل رکھیں۔ اسی طرح علم کی سند کو بھی متصل رکھنا چاہیے۔
مجالس علم بہترین ہم نشینی کا ذریعہ
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما قَالَ: قِيْلَ: يَا رَسُوْلَ اﷲِ، اَيُّ جُلَسَائِنَا خَيْرٌ؟ قَالَ: مَنْ ذَکَّرَکُمُ اﷲَ رُؤْيَتُهُ، وَزَادَ فِي عِلْمِکُمْ مَنْطِقُهُ وَذَکَّرَکُمْ بِالآخِرَةِ عَمَلُهُ. رَوَاهُ اَبُوْ يَعْلَی وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ.
- ابو يعلی، المسند، 4: 326، رقم: 2437
- عبد بن حميد، المسند، 1: 213، رقم: 631
- بيهقی، شعب الإيمان، 7: 57، رقم: 9446
- حکيم ترمذی، نوادر الأصول، 2: 39
- منذری، الترغيب والترهيب، 1: 63، رقم: 163
- هيثمی، مجمع الزوائد، 10: 262
’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ عرض کیا گیا: یا رسول اللہ! ہمارے بہترین ہم نشیں کون ہیں؟ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس کا دیکھنا تمہیں اللہ کی یاد دلادے، جس کا بولنا تمہارے علم میںاضافہ کرے اور جس کا عمل تمہیں آخرت کی یاد دلائے۔ ‘‘
حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس حدیث مبارکہ میں اپنے جامع کلمات کے ذریعے مجالسِ علم کی برکات، صحبت صلحاء کے ثمرات اور مجالس کے انعقاد کے مقاصدکو واضح فرمایا ہے۔ ہم کیسی مجالس میں شرکت کریں؟ہم نشین کا انتخاب کیسے کریں؟ہماری مجالس کے عنوان کیا ہوں۔ آقا علیہ السلام نے تین چیزیں بیان فرما کر ایک پیمانہ عطا کر دیا۔
- جس کا دیکھنا تمہیں اللہ کی یاد دلادے
- جس کا بولنا تمہارے علم میںاضافہ کرے
- جس کا عمل تمہیں آخرت کی یاد دلائے