خاندانی نظام کی بقا کے لیےاسلام نےمرد اور عورت دونوں کو ان کی ساخت اور بناوٹ کے اعتبار سے گھر اور باہر کی ذمے داریاں سونپی ہیں۔ عورت پر بچوں کی پیدائش و پرورش اورگھر کے کاموں کی ذمے داری والی اور مردوں کو ان کی حفاظت ونگرانی کرنے اور ان کی معاشی ودیگر ضروریات کی فراہمی کا ذمے دار بنایا۔ اللہ تعالیٰ نے جس عظیم مقصد کی خاطر اس کائنات کو بنایا اور اس میں انسانوں کو پیدا کیا وہ ہے اللہ کے دین کی پیروی اور دنیا میں اللہ کے احکام و قوانین کا نفاذیہ عظیم مقصد تب ہی پورا ہوگا جب مرد اور عورت دونوں اپنے اپنے دائرۂ کار میں رہتے ہوئے اپنی اپنی ذمےد اریاں بحسن وخوبی انجام دیں۔ اس مقصد کو روبہ عمل لانے کے لیے یہ بھی ضروری تھا کہ خاندان کا کوئی سربراہ (قوّام) ہوتا۔ سو مرد کو قوّام بنایا گیا۔ اپنے گھر والوں کی نہ صرف حفاظت و نگرانی بلکہ ان کے لیے کسب معاش کی ذمے داری بھی اسے ہی سونپی گئی۔
یہ خداوند قدوس کی مہربانی ہے کہ اس نے عورت پر معاشی تگ ودو اورباہر کی سیاسی وسماجی ذمےد اریاں نہیں ڈالی ہیں۔ قرآن وسنت کی تعلیمات میں کہیں ایسا اشارہ تک نہیں ملتا کہ عورت کو کسی کا کفیل بنایا گیا حتیٰ کہ خود اس کا اپنا بھی نہیں۔ بیوہ یا طلاق یافتہ ہونے کی صورت میں بھی نہیں۔ ایسی صورت میں عورت کے بیٹے یا باپ بھائی پر اس کی کفالت کی ذمے داری ڈالی گئی ہے اور اگر کسی عورت کے خاندان میں کوئی فرد بھی ایسا نہیں جو اس کی کفالت کرسکے تو حکومت پر اس کی ذمے داری عائد کردی گئی کہ اس کی ضروریات کو پورا کرے۔ جس طرح حدیث میں مردوں کو حکم دیاگیا کہ جو تم کھاؤ اپنی بیویوں کو کھلائو جو تم پہنو اپنی بیویوں کو پہناؤ۔ ایسی کوئی ہدایت عورت کو نہیں دی گئی ۔ ہاںاسے نہ صرف معاشی تگ ودو سے مکمل طور سے سبکدوش رکھا گیا بلکہ سیاسی و عسکری خدمات سے بھی اسے مستثنیٰ قرار دیاگیا۔ تاہم اس کے حقوق و مقام میں کسی قسم کی کمی نہ کی گئی۔ ماں کی حیثیت سے اسے اعلیٰ مقام عطا کیاگیا۔ اولاد کو حکم دیاگیا کہ ماں کی خدمت بھی کرو اور اطاعت بھی تب ہی جنت کے مستحق قرار پائوگے۔ بیوی کے روپ میں ۔ بہن اور بیٹی کے روپ میں کہیں بھی اس کے مقام کو گھٹایا نہ گیا۔ بیوی کے روپ میں بھی ایک اعلیٰ مقام اسے عطا کیاگیا۔ شوہر کے سکون کا موجب اسے بنایا گیا اور بیٹی وبہن کو باپ بھائی کی عزت قرار دیا۔ حتیٰ کہ عورت کی مالی حیثیت بھی مستحکم کی گئی۔ باپ ہو چاہے بھائی، شوہر ہو یا بیٹا ہر ایک کے ترکہ و وراثت میں اس کا حصہ مقرر کیاگیا ۔ اسے اپنی ملکیت بنانے اور رکھنے کا پورا اختیار دیاگیا۔ کسی کو حتیٰ کہ شوہر کو بھی حق نہیں کہ اس کے مال کو اس کی مرضی کےبغیر ہاتھ لگائے۔ ہاں اپنی رضامندی اور خوش دلی سے اگر وہ شوہراور بچوں پر خرچ کرنا چاہے تو کرسکتی ہے ۔ اس صورت میں اس کے لیے دو ہرے اجر کی خوشخبری دی گئی ہے۔ ایسی صورت میں جبکہ اس کا شوہر گھر کی کفالت نہ کرسکتا ہو اور صرف یہی نہیں کہ اسے معاشی تگ ودو سے سبکدوش رکھاگیا بلکہ اگر وہ اپنی گھریلو ذمے داریوں کو کماحقہ انجام دے کر اپنے حدود یعنی حجاب میں رہتے ہوئے معاشی سرگرمیوں میں اگر حصہ لینا چاہے تو اسے اس کی اجازت بھی دی گئی۔اگر عورت شریعت کے تمام حدود کی پابندی کرتے ہوئے اور اپنی گھریلو ذمے داریوں کو انجام دیتے ہوئے کسب معاش میں حصہ لے تو قرآن وسنت کی تعلیمات کے مطابق نہ اس پر پابندی عائد کی گئی نہ ناپسندیدہ قرا ر دیاگیا۔ لیکن اس سلسلے میں شرعی امور جیسے پردہ وغیرہ کی پابندی اور غیر مردوں سے ربط ضبط میں احتیاط لازمی ہے۔
کتب سیر اور احادیث شریفہ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ بہت سی صحابیات اپنے شوہر، بچوں اور گھر کی ذمے داریوں کو نباہتے ہوئے اور حدود حجاب میں رہتے ہوئے کسب معاش کی سرگرمیوں میں حصہ لیتی تھیں اور حصول معاش کے ایسے طریقے اختیار کرتی تھیں جن سے حدود اللہ کی پابندیوں میں کوتاہی نہ ہو۔ جیسے وہ چرخہ کاتتی، سوت بناتی اور دیگر دستکاری کے گھریلو کام کرتی ، کاروبار میں سرمایہ لگاتی تھیں۔اُم المؤمنین حضرت خدیجہؓ تجارت کرتی تھیں اور اپنا مال تجارت کسی معتبر شخص کے ہمراہ دوسرے ملکوں میں بھیجتیں۔ رسول اکرم ﷺ کے ساتھ شادی کے بعد بھی انھوں نے یہ سلسلہ جاری رکھا۔ آپ ﷺ نے ان کی تجارت کو چار چاند لگا دیے۔ یہاں تک کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اپنا سارا مال دین کی راہ میں خرچ کردیا۔ سہل بن سعدؓ ایک اور خاتون کا ذکر کرتے ہیں جو چقندر کی کھیتی کیا کرتی تھیں۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں اسماء بنت عکرمہ کو ان کے بیٹے عبداللہ بن ابی ربیع یمن سے عطر روانہ کرتے تھے اور وہ اس کا کاروبار کرتی تھیں ۔ دور نبویؐ میں خواتین تجارت کے مسائل کوبخوبی جانتی تھیں اور بعض مسائل معلوم کرنےکے لیے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتی تھیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیوی صنعت و حرفت سے واقف تھیں اور اس کے ذریعے اپنے اور اپنے شوہر اور بچوں کے اخراجات بھی پورے کرتیں۔ ایک دن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر اس بابت پوچھا۔ آپؐ نے انہیں دوہرے اجر کی خوشخبری دی۔
سیرت صحابیات کے مطالعے سے یہی پتہ چلتا ہے کہ کچھ صحابیات نے معاشی سرگرمیوں میں حصہ ضرور لیا لیکن اسے ثانوی حیثیت دی اوراپنے فرائض میں ذرا بھی کوتاہی نہ ہونے دی۔ انھوں نے اپنا مال دنیوی عیش وآرام کے حصول اور فضول خرچیوں میں صرف نہیں کیا، بلکہ اس کے ذریعے غریبوں اور محتاجوں کی امداد کی ۔انفاق فی سبیل اللہ کا یہ مقصد انہیں اتنا عزیز تھا کہ بہت سی صحابیات صرف غریبوں،محتاجوں کی امداد کی خاطر ہی آمدنی کے حصول میں کوشاں و سرگرداں رہتی تھیں۔ وہ غریبوں، مسکینوں کی مدد اور دین کی راہ میں مال خرچ کرنے میں سکون اور مسرت محسوس کرتیں۔ اپنے دست بازو سے کمانے کے باوجودبالکل سادہ رہتیں، سادہ کھاتیں، سادہ پہنتیں۔ اکثر مواقع تو ایسے پیش آتے کہ کوئی سائل اگر آجاتا تو گھر میں جو موجود رہتا سب کا سب خیرات کردیتیں اور خود بھوکی رہتیں۔یہ ہیں صحابیات کی زندگیوں کی اور ان کے حصول معاش کی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے مقاصد کی چند مثالیں۔ وہ محل تعمیر کرنے، قیمتی گدے وغالیچے بنانے، اپنے معیارِ زندگی کو اونچا اٹھانے، نمود ونمائش کرنے،شادی بیاہ میں فضول خرچ کرنے یا اپنے اپنے گھر کو ڈیکوریٹ بنانے کے لیے کمائی نہیں کرتی تھیں۔
عورت کے حصول معاش کے سلسلے میں ایک بات یہ بھی ملحوظ رہے کہ بیوی کے لیے شوہر کی اطاعت وفرمانبرداری لازم ہے۔ فرائض کے سوا نفلی عبادت تک میں شوہر کی اجازت ضروری قرار دی گئی ہے۔ اگر شوہر اجازت نہ دے تو بیوی نفل روزہ نہیں رکھ سکتی اور جس وقت شوہر منع کردے اس وقت وہ نمازوں میں لمبی لمبی سورتیں نہیں پڑھ سکتی۔ یہ نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے۔ پھر ظاہر ہے کہ اگر شوہر بیوی کو حصول معاش کی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی اجازت نہ دے جبکہ خود اس کا شوہر اس کی بنیادی ضروریات کماحقہ پوری کررہا ہو تو بیوی کے لیے جائز نہیں کہ شوہر کی مرضی کے خلاف کمانے کے لیے گھر سے باہر نکلے۔ اگر وہ شرعی حدود میں رہتے ہوئے ہی کمانا چاہتی ہے تب بھی نہیں۔
دوسری یہ بات ذہن میں رہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے جو فرائض عورت پر عائد کئے اور جس مقصد کی خاطر اس کو وجود میں لایا یعنی بچوں کی افزائش و پرورش، گھر کی ذمے داریاں اور شوہر کی خدمت۔ اگر اس مقصد کو خیرباد کرکے وہ حصول معاش کی دوڑ میں لگ جائے تو ظاہر ہے اس کی سعی وجہد اللہ تعالیٰ کی نظر میں ناپسندیدہ ہوگی۔ اگر اس کی بنیادی ضروریات پوری کرنے والا ہی کوئی نہ ہوتو اور بات ہے۔ ورنہ فرائض کو چھوڑ کر نوافل ادا کرنا پسندیدہ نہیں ہے۔ فرض کیجیے اگر کوئی شخص فرض نمازیں تو نہ پڑھے لیکن نوافل میں مصروف رہے تو فرض نمازیں چھوڑنے پر اس کی ضرور باز پرس ہوگی ایسی صورت میں اس کی نفل نمازوں کا اللہ تعالیٰ کے پاس کیا مقام ہوگا؟ آپ ہی بتائیں، کیا خداوند کریم اس کا یہ جواز قبول کرلیں گے کہ ہمیں نوافل کے اہتمام کےسبب فرض نمازوں کی ادائی کی مہلت ہی نہ مل سکی۔ یہ بات پھر اچھی طرح واضح ہوجائے کہ خداوند کریم نے عورت کو کسب معاش کی سرگرمیوں کی صرف اجازت دی ہے اس پر اس کی ذمے داری نہیں ڈالی ہے۔
یہ بات بھی کچھ محتاج بیان نہیں ہے کہ معاشرے کی اکائی گھر ہے۔ گھر کی ترقی گویا معاشرے کی ترقی ہے۔ اور معاشرے کی ترقی کے لیے ہی عورت کو اپنی گھریلو زندگی کے معاملات میں کلیدی کردار ادا کرنا ہوتا ہے۔ اس کی ایک نہایت ہی اہم ذمے داری یہ ہے کہ وہ بچوں کی پرورش و پرداخت کرے۔ ان کو صحیح تعلیم وتربیت دے اور اللہ تعالیٰ کے بہترین بندے اور بہترین انسان بنائے۔ کیونکہ آج کے بچے ہی کل کے معمار ہیں۔ اور بچوں کی صحیح پرورش و تربیت اسی وقت ممکن ہے کہ جب ماں انہیں اپنا سارا وقت دے۔ بچے کی صحیح نشوونما کے لیے صرف یہی ضروری نہیں کہ اسے مناسب غذا ملتی رہے اور اس کی صحت کی حفاظت و صفائی ستھرائی کا اہتمام ہوتا رہے، بلکہ ماں کی ممتا وہ بیش قیمت شئے ہے جو بچے کے بننے سنورنے میں اہم رول ادا کرتی ہے۔ اور وہ صرف ماں ہی دے سکتی ہے۔ ماں کاکوئی بدل نہیں۔ اگر بچوں کو ان جذبات سے محروم کردیا جائے تو ان کی شخصیت پژمردہ ہوجائے گی۔ مایوسی و قنوطیت ان پر طاری رہے گی، کیونکہ ماں کی گود ہی بچے کا پہلا مدرسہ ہے جہاں سے بہترین انسان بن بن کر نکلتے ہیں۔
اگر عورت کسب معاش کی کوششوں میں سرگرم رہے تو بچوں کی اور گھر کی ذمے داریاں کون سنبھالے؟ وقت پر گھر کے ہر فرد کی صحت کے اعتبار سے مناسب غذا کون تیار کرے؟ شوہر بھی باہر کے جھمیلوں سے حیران و پریشان تھکاہارا گھر پہنچتا ہے تو بیوی ہی کی ایک مسکراہٹ اس کی ساری تھکان و پریشانی دور کردیتی ہے ۔ دوسرے دن پھرنئے سرے سے وہ زندگی کی جدوجہد میں لگ جاتا ہے۔ آپسی پیار ومحبت بڑھانے کا یہ ایک بہترین آلہ ہے۔ لیکن اگر مسکراہٹ کے پھول بکھیرنے والی ہی گھر پر موجود نہ ہو۔ ذہنی سکون و اطمینان و خوشی بخشنے کا ذریعہ ہی باہر ہوتو کون شوہر کو یہ ذہنی سکون عطا کرے گا؟ اور اگر شوہر کو یہ خوشی و سکون میسر نہ آئے تو اس کا جینا دوبھر ہوجائے گا اور کسی دوسری عورت سے وہ سکون حاصل کرنے کی کوشش کرے گا۔ اس طرح آپس میں دوریاں بڑھنا شروع ہوں گی۔ آخر ایک جنت نشاں گھر جہنم کدہ بن جائے گا۔
ایک گھر ایک خاندان میں شوہر بیوی و رشتے داروں سے جو خوشی حاصل ہوتی ہے ان کے آپسی محبت وقربانیوں سے اور ایک دوسرے سے پرخلوص تعلقات سے جو سکون ملتا ہے۔ جو راحت ملتی ہے وہ بھی عورت کے باہر کی ذمے داریاں قبول کرلینے سے رخصت ہوئی۔ ساری رشتے داریاں ختم ہوگئیں۔ ہر ایک خود اپنی ذرائع آمدنی تلاش کرنے پر مجبور ہوگیا۔ شوہر اپنی بیوی کی، والدین اپنی اولاد کی کفالت ومعاشی ذمے داریاں قبول کرنے کے لیے تیار نہیں رہے۔بچے والدین کے پیاراور خاندان کے تحفظ سے محروم ہوگئے۔ بلکہ ماں باپ دونوں بھی اپنے آپ کو بچوں کی ذمے داریوں سے بری الذمہ سمجھنے لگے۔ باپ کا پیار اور ماں کی ممتا تک رخصت ہوئی۔ بچوں کی تربیت نہ ہونے اورانہیں پیار، محبت و خاندان تحفظ نہ ملنے کے سبب قتل ڈاکہ زنی جیسے جرائم کی شرحیں تشویشناک حد تک بڑھ گئیں۔ علاقوں کی شرح میں بھی خطرناک حد تک اضافہ ہوا۔ یوں شوہر اور بیویاں بدلنا بالکل معیوب نہ رہا۔ بچوں کا بچپن تک رخصت ہوا۔
عورت کے حصول معاش کے سلسلے میں کہیں یہ رونا رویا جاتا ہے کہ عورت کمائے نہیں تو کیا کرے، حالات ہی ایسے ہیں اور کہیں یہ کہ شوہر اپنی ذمے داریاں پوری نہیں کرتے تب تو عورت کے لیے حصول معاش کی سرگرمیوں میں حصہ لینا لازمی ہے۔ میں کہوں گی کہ جو مسائل دینی احکام سے غافل رہنے کے سبب پیش آرہے ہیں کیا ان کا واحد حل صرف یہی ہے کہ عورتوں کو کسب معاش کی سرگرمیوں میں سرگرداں کردیا جائے ؟ کیا اس طرح سارے مسائل حل ہوجائیں گے؟ کیا جو عورتیں کما رہی ہیں ان کے سارے مسائل حل ہوگئے؟ یہ ٹھیک ہے جن عورتوں کو یہ مسائل درپیش ہیں وہ ان کے لیے اضطراری حالات ہیں۔ لیکن پورا معاشرہ دینی غفلت کے سبب جو معاشی ومعاشرتی مسائل کے سمندر میں غرق ہوا جارہا ہے کیا اس کے سلسلے میں ہماری یعنی ہر ایک کی ذمے داری یہ نہیں ہے کہ ان کے حل دین میں تلاش کریں۔ مرد اپنی ذمے داریاں پوری نہیں کر رہے ہیں۔ دین سے غفلت کے سبب ، اولاد والدین کے ساتھ بدسلوکی کر رہی ہے۔ وہ بھی بے دینی کے سبب جہیز کے بڑھتے ہوئے مطالبے غریب لڑکیوں کی شادیوں کے لیے مسئلہ بنے ہوئے ہیں بے دینی کے سبب۔ غرض یہ کہ ہر مسئلے کا علاج دین کے احکام پر عمل ہے۔ ان کی تلقین کرتے رہو اور عمل کی ترغیب بھی۔ سارے مسائل آپ سے آپ حل ہونے لگیں گے۔
حصول معاش کی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی عورت کو صرف اجازت ہے۔ یہ اس کی ذمے داریوں میں شامل نہیں۔ کچھ بہنوں کے حالات تقاضا کرتے ہیں کہ وہ اپنی روٹی روزی آپ کمائیں۔وہ اگر ان کی مجبوری ہے کہ کمائے بنا ان کے لیے کوئی چارۂ کار نہیں ہے تو ان کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ روزگار کے ایسے ذرائع تلاش کریں جن میں حدود اللہ پر قائم بھی رہا جائے اور حالات سے بھی نپٹا جائے۔ موجودہ دور میں ایسے ذرائع معاش حاصل کرنا کچھ زیادہ دشوار بھی نہیں ہے۔ اس سلسلے میں کئی طریقے اختیار کئے جاسکتے ہیں۔
اور جو خواتین حالات سے مجبور بھی نہیں ہیں وہ بھی اپنی گھریلو ذمے داریوں کو بحسن وخوبی نبھاتے ہوئے اوراحکام حجاب کے حدود وں کا پوری طرح لحاظ کرتے ہوئے اگر حصول معاش کی سرگرمیوں میں حصہ لیں جبکہ صرف دنیا طلبی ہی ان کا مقصود نہ ہوتو اسلام کی نظر میں ہرگز ناپسندیدہ نہیں ہے۔ لیکن عام طورسے خواتین کو روزگار یا کاروبار میں مردوں کےمقابل لانا یا آزادیٔ نسواں ومساوات مرد وزن کے نعرے بلند کرکے عورتوں کو باہرگھسیٹ لانا عورت کا مقام اور اس کی نسوانیت کا استحصال ہے۔
یہاں یہ بات واضح رہے کہ اپنے سرپرست یعنی شادی سے پہلے والد اور شادی کے بعد شوہر کی اجازت سےاسلامی حدودوقیود کی پاسداری کے ساتھ خواتین کا کسب معاش کےلیے اپنے گھروں سے نکلنا ،غیر اسلامی نہیں بلکہ اسلامی روایات کے مطابق ہے۔