ہر سال 8 مارچ کو خواتین کا عالمی دن زور و شور سے منایاجاتا ہے۔ خواتین کے حقوق کیلئے سیاسی، سماجی، سول سوسائٹی کی تنظیمات، جماعتیں اور حکومتی شخصیات خواتین کے حقوق اور ان کی فلاح و بہبود کیلئے بیانات، پیغامات جاری کرتی ہیں۔ خواتین سوسائٹی میں کن مسائل سے دوچار ہیں اس حوالے سے فیچرز، ایڈیٹوریل لکھے جاتے ہیں۔ خصوصی ایڈیشن شائع کیے جاتے ہیں۔خواتین سے اظہار یکجہتی کیا جاتا ہے اور ایک دن کی ’’ایکٹویٹی‘‘ کے بعد 364 دن کیلئے طویل خاموشی اختیار کر لی جاتی ہے اور خواتین اور ان کے حقوق کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ بحیثیت مسلمان ہمیں اس پر فخر ہے کہ قرآن پاک اور احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں خواتین کے حقوق وفرائض صراحت کے ساتھ بیان کیے گئے ہیں اور اس ضمن میں ہم اپنا مقدمہ فخر کے ساتھ دنیا کے کسی بھی ملک اور معاشرے کے سامنے تقابل کیلئے پیش کر سکتے ہیں۔ قبل از اسلام خواتین کو خرید و فروخت کی ایک جنس کی حیثیت حاصل تھی۔ حقوق تو دور کی بات انہیں انسان بھی نہیں سمجھا جاتا تھا، بیٹیوں کو زندہ درگور کرنے کی غیر انسانی رسم جاری تھی، ظہور اسلام کے بعد تاریخ عالم میں پہلی بار خواتین کو عزت و احترام ملا، حقوق و فرائض کا تعین ہوا، اسلام نے صرف مسلمان عورتوں کے حقوق کی بات نہیں کی بلکہ بلاتفریق رنگ و نسل، مذہب خواتین کے احترام کا حکم دیا، اس کے جان ، مال، عزت کی تکریم اور حفاظت کا حکم دیا۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ کسی غزوہ میں ایک عورت مقتول پائی گئی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے کی سختی سے ممانعت فرما ئی، اسی طرح آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عورت کو بطور ماں، بیوی، بہن، بیٹی کے عزت و تکریم سے نوازا۔ جنت ماں کے قدموں تلے ہے یہ کہہ کر ماں کو بطور عورت وہ عزت دی کہ ایسی کوئی اور نظیر دنیا کا کوئی الہامی، غیر الہامی مذہب پیش نہیں کر سکتا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیویوں کی عزت و تکریم کو اپنے عمل سے اجاگر کیا، ایک دعوت میں جانے کیلئے شرط رکھی کہ اگر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو بھی دعوت دی جائیگی تو یہ دعوت قبول ہو گی۔ اسی طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے محبت، شفقت کی ہدایت فرمائی۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگارہ میں جاتیں تو آپ ان کے استقبال کیلئے کھڑے ہو جاتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس مبارک عمل سے جہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیدہ فاطمہ الزہرہ رضی اللہ عنہ سے خاص محبت و شفقت ظاہر ہوتی ہے وہاں اس میں ہر مسلمان باپ کیلئے ایک دائمی سبق ہے کہ اپنی اولاد بالخصوص بیٹیوں کے ساتھ اعلیٰ حسن و سلوک کا مظاہرہ کیا جائے۔
8 مارچ کے خواتین کے عالمی دن کے موقع پر ہم فخر کے ساتھ دنیا کو بتا سکتے ہیں کہ دین اسلام نے 14 سو سال قبل خواتین کے حقوق و فرائض متعین کر دئیے اور واضح کر دیا کہ معاشرتی ترقی کا کوئی بھی ہدف خواتین کو نظر انداز کرنے سے حاصل نہیں ہو سکے گا۔ آج 21 ویں صدی جو علم و تحقیق اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے انقلاب کی صدی ہے۔ الیکٹرانک میڈیا و ذرائع ابلاغ کی صدی ہے۔ جدید ذرائع ابلاغ نے دنیا کو ایک گاؤں کی شکل دی اور اب یہ گاؤں مختلف ایپلی کیشنز کی صورت میں ہتھیلی پر رکھا اور دیکھا جا سکتا ہے۔ ظلم و بربریت دنیا کے کسی کونے میں ہو اسے چھپایا یا دبایا نہیں جا سکتا۔ معلومات کے سیل رواں اور خواتین کے حقوق و فرائض احترام کو یقینی بنانے کیلئے عالمی و علاقائی قوانین کی بھی بھرمار ہے مگر اس کے باوجود خواتین کو وہ آزادیٔ عمل اور آزادیٔ اظہار میسر نہیں جس کا تقاضا انسانی اخلاقیات کرتی ہے۔ پسماندہ ممالک اور خطوں میں خواتین کو بنیادی تعلیم سے محروم رکھا گیا ہے یا بنیادی تعلیم کی فراہمی کو مشکل بنا دیا گیاہے۔حکومتی اعداد و شمار کے مطابق 5 کروڑ 50 لاکھ شہری ان پڑھ ہیں جن میں اکثریت خواتین کی ہے۔ پنجاب میں 46 فیصد، خیبرپختونخوا میں 53 فیصد، سندھ میں 65فیصد اور بلوچستان میں 77فیصد خواتین ناخواندہ ہیں، یہ اعداد و شمار 2016ء کے ہیں اگر حالیہ مردم شماری کے مطابق اعداد و شمار مرتب کیے جائیں تو یقینا صورتحال اور بھی تکلیف دہ نظر آئے گی۔ بدقسمتی سے پاکستان ان ملکوں میں شامل ہے جہاں ناخواندہ خواتین کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ خواتین کے احترام کے اعتراف کا بہترین طریقہ انہیں تعلیم دینا ہے۔ تعلیم دئیے بغیر خواتین کے احترام اور ترقی کی کوئی کوشش ثمر بار نہیں ہو سکتی۔ خواتین کی تعلیم و بہبود کیلئے خرچ کرنا حکومتیں ایک بوجھ سمجھتی ہیں۔ اگر پاکستان کے پالیسی ساز اور صاحب وسائل منتظم چاہتے ہیں کہ پاکستان ترقی کرے ،امن اور خوشحالی آئے تو وہ خواتین کی فلاح و بہبود اور تعلیم و تربیت پر انویسٹ کریں۔
اس وقت قوم کی کم سن بچیوں کے تحفظ کیلئے فول پروف اقدامات کی ضرورت ہے، معصوم زینب کے ساتھ پیش آنے والے درندگی کے واقعہ نے پوری قوم کو ہلا کر رکھ دیا۔ قصور کے اس سانحہ نے ہر والدین کو فکر مند کر دیا، قصور میں زینب سے قبل بھی بچیاں درندگی کا شکار ہوئیں مگر پولیس نے روایتی بے حسی، نان پروفیشنل رویے اور رشوت خوری کا مظاہرہ کرتے ہوئے کیس داخل دفتر کر دئیے۔ زینب کے معاملہ میں سوشل میڈیا، الیکٹرانک میڈیا و پرنٹ میڈیا متحرک نہ ہوتے تو یہ ایف آئی آر بھی پولیس کی فائلوں میں دفن ہو جاتی۔ یہاں 8 مارچ خواتین کے عالمی دن کے موقع پر ہم اپنی دو بہنوں شازیہ مرتضیٰ اور تنزیلہ امجد شہیدہ کو خراج تحسین پیش کرتی ہیں ان خواتین نے پاکستان کو استحصال اور حکومتی جبر و تشدد سے پاک کرنے کیلئے 17 جون 2014ء کے دن ماڈل ٹاؤن میں جانوں کے نذرانے پیش کیے اور آج پونے چار سال گزر جانے کے بعد بھی شازیہ مرتضیٰ اور تنزیلہ امجد شہیدہ کے بچوں کو انصاف نہیں ملا، شازیہ مرتضیٰ اور تنزیلہ امجد کو اس ملک میں شہید کیا گیا جو اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا، وہ اسلام جس کے پیامبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا تھا کہ جنگ کے دوران دشمن کی بیٹیوں کو بھی قتل نہ کیا جائے، آج ہم خواتین کے عالمی دن کے موقع پر منصفِ اعلیٰ سے درخواست گزار ہیں کہ وہ قوم کی ان بیٹیوں کو بھی انصاف دلوائیں اور ذمہ داروں کو کٹہرے میں لائیں۔
یہاں اس بات کا ذکر بھی ناگزیر ہے بظاہر تو خواتین کو اسمبلیوں میں نمائندگی دی گئی مگر انہیں وہ اختیارات نہیں ملے جو حکومت کے مرد اراکین اسمبلی کو حاصل ہیں ۔خواتین کی کابینہ میں نمائندگی بھی آٹے میں نمک کے برابر ہے اور ان کا قانون سازی میں حصہ بھی نہ ہونے کے برابر ہے، خواتین اراکین اسمبلی معمول کی اخباری خبروں پر تحریک التوائے کار اور سوال و جواب اسمبلیوں میں جمع کرواتی رہتی ہیں جن میں سے 60 فیصد سے زائد بزنس اسمبلی کے فلور پر نہیں آپاتا مگر اس پر خواتین نے کبھی احتجاج نہیں کیا۔ خواتین کی اجلاسوں کے دوران اسمبلی میں حاضری کی حدتک کارکردگی اچھی ہے جسے فافن نے بھی سراہا ہے مگر محض اچھی حاضری کافی نہیں، خواتین کو اپنی اپنی جماعتوں کی لیڈر شپ کی خوشامد اور آئندہ الیکشن میں نام فہرست میں ڈلوانے کی تگ و دو سے باہر نکلنا ہو گا اور خواتین کے حقوق کے تحفظ کیلئے ڈٹ کر کھڑا ہونا ہو گا چاہے وہ حکومت کی پالیسی ہو یا کسی ادارے یا محکمے کا استحصالی اور غیر ذمہ دارانہ رویہ۔ یہاں اس بات کی نشاندہی ناگزیر ہے کہ الیکشن کمیشن کی عدم دلچسپی کے باعث ایک کروڑ 21 لاکھ خواتین ووٹ کے حق سے محروم کر دی گئیں، پنجاب میں 67 لاکھ، سندھ میں 22 لاکھ، خیبرپختونخوا میں 20 لاکھ، بلوچستان میں 5 لاکھ، فاٹا میں 5 لاکھ، اسلام آباد میں 52 ہزار خواتین کا نام ووٹر لسٹوں میں درج نہیں ہو سکا یہ خواتین کے سیاسی کردار کو محدود کرنے کا ایک گھناؤنا اقدام ہے، اس پر پارٹی وابستگیوں سے بالا ہو کر خواتین اراکین اسمبلی کو احتجاج کرنا چاہیے۔ الیکشن کمیشن کی باز پرس ہونی چاہیے کہ اتنی بڑی تعداد میں خواتین کوووٹ کے استعمال کے آئینی حق سے محروم کیوں کیا گیا۔