حضرت سیدہ ام ایمن رضی اللہ عنہا کے حالاتِ زندگی

محمد احمد طاہر

اسلامی تاریخ میں خواتین نے ہمیشہ اہم رول ادا کیا ہے۔ اسلام نے خواتین کو جو مقام دیا ہے وہ خواتین کے لئے باعث فخر ہے۔ اسلام نے خواتین کو معاشرے کا اہم حصہ قرار دیتے ہوئے انہیں اپنی دینی، مذہبی، سیاسی اور سماجی خدمات سرانجام دینے کی اجازت دی ہے۔

تاریخ اسلام میں صحابیات و صالحاتِ امت کا کردار بھی مُسلّم ہے۔ صحابیات رضی اللہ عنہن میں سے سیدہ ام ایمن رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا مقام و مرتبہ اور کردار بہت نمایاں ہے۔ درج ذیل سطور میں آپ کی شخصیت کے نمایاں پہلوئوں کا جائزہ لیتے ہیں:

نام و نسب:

حافظ ابن حجر عسقلانی نے الاصابۃ میں آپ کا نام ’’برکہ بنت ثعلبہ بن عمرو بن حصن بن مالک بن سلمہ بن عمرو بن نعمان‘‘ لکھا ہے۔ انہیں ’’ام الظباء‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔

آبائی وطن:

ابن اثیر الجزری کے مطابق سیدہ ام ایمن رضی اللہ عنہا کا آبائی وطن حبشہ تھا۔

مولاۃ النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم:

سیدہ ام ایمن رضی اللہ عنہا مولاۃ النبی یعنی سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی باندی تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو میراث میں ملی تھیں۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا سے نکاح کرلیا تھا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدہ ام ایمن رضی اللہ عنہا کو آزاد کردیا۔ رہائی کے بعد سیدہ ام ایمن رضی اللہ عنہا نے عبید بن زید حارثی سے نکاح کرلیا۔ جن سے آپ کے بیٹے سیدنا ایمن رضی اللہ عنہا پیدا ہوئے۔ سیدنا ایمن رضی اللہ عنہا صحابی رسول ہیں جو کہ جنگ حنین میں شہید ہوئے۔

(طبقات ابن سعد، ج8، ص305)

گھرانہ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت:

ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کی وفات پر رقت آمیز انداز میں غم کے آنسو بہائے اور اپنے ہاتھوں سے میت کو غسل دیا۔ مزید برآں تجہیز و تکفین کے فرائض بھی سرانجام دیئے۔ اسی طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دختر نیک اختر سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کی وفات پر درد بھرے انداز میں رنج و الم کا اظہار کیا اور آپ نے ہی ان کی تجہیز و تکفین کے فرائض سرانجام دیئے۔

(محمود احمد غضنفر، صحابیات مبشرات، مکتبہ قدوسیہ لاہور، 1999ء، ص361)

قبول اسلام:

سیدہ ام ایمن رضی اللہ عنہا ابتداء ہی میں ایمان لے آئی تھیں۔ اسدالغابہ میں علامہ ابن اثیر ؒ (متوفی 630ھ) رقمطراز ہیں۔

اَسْلَمْت قدیما اول الاسلام.

’’آپ اوائلِ اسلام میں ایمان لے آئی تھیں‘‘۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اماں جان:

جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر مبارک چھ برس ہوئی تو آپ کی والدہ ماجدہ طیبہ طاہرہ سیدہ آمنہ رضی اللہ عنہا نے ننھیال بنو نجار سے ملاقات کے لئے مدینہ منورہ کا سفر اختیار کیا۔ اس سفر میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ آپ کی والدہ ماجدہ کی کنیز برکہ بنت ثعلبہ (حضرت سیدہ ام ایمن رضی اللہ عنہا) بھی ہمراہ تھیں۔ مدینہ منورہ سے واپس لوٹتے ہوئے جب یہ قافلہ ابواء کے مقام پر پہنچا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی والدہ ماجدہ کی طبیعت اچانک خراب ہوگئی۔ تھوڑی ہی دیر میں آپ داعی اجل کو لبیک کہہ گئیں۔ انہیں وہیں دفن کردیا گیا۔ حضرت سیدہ ام ایمن رضی اللہ عنہا نے آپ کو اپنی گود میں لیا۔ آپ کو دلاسہ دیا۔ ماں کا خلاء پُر کرنے کی مقدور بھر کوشش کی۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت سیدہ ام ایمن رضی اللہ عنہا کا غایت درجہ احترام کیا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انہیں اماں جان کہہ کر پکارتے تھے۔

کَانَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صلی الله علیه وآله وسلم یَقُوْلُ: اُمِ اَیْمَنِ اُمِّی بَعَدَ اُمِّی.

’میری والدہ کے بعد ام ایمن میری والدہ ہیں‘‘۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب آپ کو دیکھتے تو فرماتے: ’’اے والدہ‘‘ یا فرماتے:

’’هَذِهٖ بَقِیْةُ اَهْلِ بَیْتِیْ‘‘

’’یہ میرے گھر والوں کے باقی ماندہ لوگوں میں سے ہیں‘‘

(عسقلانی، ابن حجر، حافظ، علامہ، الاصابہ فی تمییز الصحابہ، مکتبہ رحمانیہ لاہور)

شرف و سعادتِ ہجرت:

سیدہ ام ایمن رضی اللہ عنہا کو یہ شرف حاصل ہے کہ آپ نے دو دفعہ ہجرت کی: پہلی ہجرت مکہ سے حبشہ کی طرف اور دوسری ہجرت مکہ سے مدینہ کی طرف.

حلیہ مبارک:

سیدہ ام ایمن رضی اللہ عنہا حبشی النسل تھیں جس کی وجہ سے آپ کا رنگ کالا تھا اور نقش و نگار موٹے مگر جاذبِ نظر تھے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مزاح:

طبقات ابن سعد میں روایت ہے کہ حضرت سیدہ ام ایمن رضی اللہ عنہا نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آکر کہا: مجھے سواری دے دیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں آپ کو اونٹنی کے بچے پر سوار کروں گا۔ وہ بولیں: یارسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )! وہ اونٹ کا بچہ میرا بوجھ نہ اٹھا سکے گا اور نہ میں بچہ لوں گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں تو آپ کو اونٹنی کے بچے پر ہی سوا رکروں گا۔ یعنی آپ ان سے دل لگی کررہے تھے اور دل لگی میں بھی آپ سچ ہی فرمایا کرتے تھے کیونکہ اونٹ اونٹنیوں کے بچے ہی ہوتے ہیں۔

حضرت سیدہ ام ایمن رضی اللہ عنہا کے فضائل:

کتب احادیث میں سیدہ ام ایمن رضی اللہ عنہا کے فضائل میں جتنی روایات منقول ہیں اُن میں سے چند روایات پیش خدمت ہیں۔ صحیح مسلم کی روایت ہے:

عن انس رضی الله عنه قال: قال ابوبکر بَعَدَ وَفَاةِ رَسُول اللّٰہِ صلی الله علیه وآله وسلم لِعُمَرَ، انْطَقْ بِنَا اِلٰی اُمّ اَیْمَنِ نَزُوْرَهَا. کَمَا کَانَ رَسُوْلُ اللّٰه صلی الله علیه وآله وسلم یَزُورها. فلمَّا اِنْتَهَیْنَا اِلَیْهَا بَکَتْ فقال لها: مَایُبْکِیْکَ؟ مَا عِنْدَاللّٰہِ خَیْرٌ لِرَسُول اللّٰه صلی الله علیه وآله وسلم فَقَالَتْ: ما اَبقکِی ان لّا اکون اعلم انّ ماعنداللّٰه خیر لرسول اللّٰه صلی الله علیه وآله وسلم. ولکن ابکی ان الوحی قد انقطع مِنَ السَّمَآء. فهیجتهما علی البُکاءِ فَجَعَلاَ یَبْکِیَانِ مَعَهَا.

(صحیح مسلم، دارالحدیث القاہره، 1991ء، رقم: 2453)

’’حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا: چلو حضرت ام ایمن رضی اللہ عنہا کی زیارت کرکے آئیں۔ جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی زیارت کے لئے تشریف لے جاتے تھے۔ جب ہم حضرت ام ایمن رضی اللہ عنہا کے پاس پہنچے تو وہ رونے لگیں۔ ان دونوں نے کہا: آپ کیوں رو رہی ہیں؟ اللہ کے پاس جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے اجر ہے وہ زیادہ اچھا ہے۔ حضرت ام ایمن رضی اللہ عنہا نے کہا: میں اس لئے نہیں رو رہی کہ میں نہیں جانتی کہ اللہ کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے اچھا اجر ہے لیکن میں تو اس لئے رو رہی ہوں کہ آسمان سے وحی کا آنا بند ہوگیا۔ پھر ان دونوں پر بھی گریہ طاری ہوا اور وہ (دونوں) بھی رونے لگے۔

جنتی خاتون:

طبقات ابن سعد میں درج ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

مَنْ سُرُّهٗ اَنْ یَّتَزَوّجَ امْرَاَةً مِنْ اَهْلِ الْجَنَّةِ فَلْیَتَزَوَّج ام ایمن.

(طبقات ابن سعد، ص: 306)

’’جو کوئی جنتی خاتون سے شادی کرنا چاہے تو وہ ام ایمن سے شادی کرلے‘‘۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے تاثرات:

تاریخ و سیرت کی کتابوں میں سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے سیدہ ام ایمن رضی اللہ عنہا کے بارے میں یہ تاثرات منقول ہیں:

حاشی سَمْعِیَ وَ بَصَری ان اکون علمت اوظننت بها الا خیرا.

’’میرے کانوں اور آنکھوں نے اس کے بارے میں بہتر تاثرات لئے‘‘۔

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا خراج تحسین:

ایک روز حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے ان کی والدہ سیدہ ام ایمن رضی اللہ عنہا کا تذکرہ کرتے ہوئے انہیں خراج تحسین پیش کیا تو حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ نے فرمایا: بخدا وہ آپ کی والدہ ہندہ سے زیادہ فضیلت والی تھی۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے فرمایا: بلاشبہ آپ سچ کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا بھی ارشاد ہے:

اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ ﷲِ اَتْقٰـکُمْ.

(الحجرات، 49: 13)

’’بے شک اﷲ کے نزدیک تم میں زیادہ باعزت وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگارہو‘‘۔

(محمود احمد غضنفر، صحابیات مبشرات، مکتبہ قدوسیہ لاہور، 1999ء، ص:3۷0)

سیدہ ام ایمن رضی اللہ عنہا کی شجاعت:

اس حوالے سے 100 نامور صحابیات رضی اللہ عنہن میں درج ہے کہ سیدہ ام ایمن رضی اللہ عنہا کی بہادری اور قوت ارادی مردوں سے کم نہیں تھی۔ غزوہ احد میں جب بہت سے مرد حضرات پیٹھ پھیر گئے اور بھاگ کر پناہ لی تو وہ حیران ہورہی تھیں کہ یہ لوگ کیا کررہے ہیں؟ اس وقت آپ رضی اللہ عنہا بھاگتے ہوئے گزرنے والوں پر مٹی پھینک رہی تھیں اور ان سے فرمارہی تھیں: ارے یہ چرخہ لے لو اور سوت کاتا کرو اور تلوار کو چھوڑ دو۔ ان کی مراد یہ تھی کہ تم لوگ عورتوں کی طرح ہو اور کمزوری کا اظہار کررہے ہو۔ اور وہ اس وقت یہ خواہش کررہی تھیں کہ کاش وہ مرد ہوتیں تو میدان میں ڈٹ کر لڑتیں۔

وفات:

سیدہ ام ایمن رضی اللہ عنہا نے سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دور حکومت میں وفات پائی جبکہ اسدالغابہ کی روایت کے مطابق توفیت بعد ماتوفی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بخمسۃ اشہر۔’’یعنی آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے پانچ ماہ بعد وفات پائی۔ واللہ ورسولہ اعلم بالصواب