حمد باری تعالیٰ
شبِ غم، میں برہنہ سر ہوں دستارِ گُہر دینا
اجالا ہر طرف کردوں وہ خورشیدِ ہنر دینا
بہاروں میں نمو کی سبز کرنیں بانٹنے والے
مرے دامن کو بھی مہکی ہوئی کلیوں سے بھر دینا
ترے دربار میں جرأت کسے ہے لب کشائی کی
خدائے لم یزل، مجھ بے زباں کو چشمِ تر دینا
بھروسے پر ترے کشتی سمندر میں اتاری ہے
تو ہر موجِ بلا کو ساحلِ امید کردینا
تری قدرت سے پھولوں میں سجی رہتی ہیں تصویریں
ترا ہی کام ہے بوئے چمن کو بال و پر دینا
بنائوں نقش جو اس کا عطا کرنا پذیرائی
سخن کے آئینہ خانے میں عکسِ معتبر دینا
بہل جائوں میں اک قطرے سے ناممکن مرے مولا
مجھے انؐ کی محبت کے ہزاروں بحر و بر دینا
جو مصروفِ طوافِ گنبدِ خضرا رہیں ہر پل
مجھے ایسا قلم دینا، مجھے ایسی نظر دینا
ریاضِ بے نوا کی ہر خطا سے در گزر کرکے
تو اس کی آخرِ شب کی دعائوں میں اثر دینا
(ریاض حسین چودھری)
نعتِ رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
محافظ جس سفینے کا شہِ ہر دو سَرا ہوگا
غلط ہے یہ، کہ وہ خوراکِ طوفانِ بلا ہوگا
نگاہِ آسماں سے تجھ سا انساں کون گزرا ہے
زمیں نے گود میں کب تجھ سا پیغمبر لیا ہوگا
بھلا ایسی کہاں فیّاضی لطف و عطا ہوگی
بھلا ایسا بھی کوئی مصدرِ جود و سخا ہوگا
ازل سے چاند تاروں کی ضیا خیرات ہے ان کی
ابد کی لوحِ پیشانی پہ ان کا نقشِ پا ہوگا
طلب رکھتا ہوں ان کی لیکن اکثر سوچتا یہ ہوں
کہاں تک مجھ سے اُن کی آرزو کا حق ادا ہوگا
جب اُن کے در پہ میری پُتلیاں اشکوں میں ڈوبیں گی
مری دانست میں وہ وقتِ عرضِ مُدعا ہوگا
جدھر اُن کی نگاہ سرسری بھی پڑگئی ہوگی
وہ مٹی کیمیا ہوگی، وہ پتھر آئینا ہوگا
وہ اک نورِ ازل تھا جسمِ خاکی کے لبادے میں
زمیں میں جب سے ہے، قلبِ زمیں کا حال کیا ہوگا
نظر بھر کر نہ دیکھے گا مہ و خورشید کی جانب
وہ انساں جس کی نظروں میں مقامِ مصطفی ہوگا
مجھے تو رات دن یہ فکر ہے دانش کہ محشر میں
مرا اعمال نامہ پیش جب ہوگا تو کیا ہوگا؟
(احسان دانش)