ہمارے ہاں بعض اوقات سیاستدانوں، سماجی اداروں یا شخصیات کی جانب سے ملکِ پاکستان کو لبرل بنانے کی آوازیں یا عوامِ پاکستان کو لبرل بننے کی تلقین کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ لبرل ازم کیا ہے؟ اس کا پسِ منظر کیا ہے؟ اور اس نے مغربی و اسلامی معاشرے پر کیا اثرات مرتب کئے؟ زیرِ نظر تحریر میں اسی کو واضح کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
لبرل ازم (Liberalism) ایک ایسی سوچ ہے جس میں ہر فرد اپنے نظام زندگی کو وضع کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔ اس سوچ کے حامل افراد میں انسان کی بحیثیت فرد آزادی، ذاتی مصروفیات کے اظہار اور ترقی میں کسی بیرونی مداخلت کو تسلیم نہیں کیا جاتا۔ خواہ یہ مداخلت مذہب کی طرف سے ہو یا ریاست کی طرف سے ہو۔ فرد اپنی ذاتی اور اجتماعی زندگی میں بالکل آزاد ہے۔ مذہب کے نام پر بے جا پابندیوں کے خلاف ردعمل کے طور پر اٹھنے والی تحاریک میں لبرل ازم بھی شامل ہے۔ جس کا بنیادی فلسفہ ہی انسان کی ہر طرح سے کلی آزادی ہے۔ بنیادی طور پر لبرل ازم کا فلسفہ یہ ہے کہ انسان کا جو جی چاہے کرے لیکن اس حد تک جہاں آپ دوسروں کی آزادی میں مخل نہ ہوں۔
گویا لبرل شخص مذہب اور سیاست میں آزاد خیال ہوتا ہے اور مذہبی و سیاسی معاملات میں قدامت پسندی اور روایت پسندی کا پابند نہیں ہوتا۔
(آکسفورڈ انگلش اردو ڈکشنری، مرتب از شان الحق حقی، ص917)
لبرل ازم کا پسِ منظر
چودھویں صدی عیسوی میں اٹلی سے شروع ہونے والی تحریک احیائے علوم (Reformation) کے اثرات یورپ میں پھیلنے سے یہ اصطلاح منظر عام پر آئی۔ برطانوی فلسفی John Locke (1602ئ۔ 1704ئ) پہلا شخص ہے جس نے لبرل ازم کو باقاعدہ ایک فلسفہ اور طرز عمل کی شکل دی۔ (انسائیکلو پیڈیا آف برٹانیکا، 10: 846)
لبرل ازم کی اصطلاح کو جاننے کے لئے یہ ضروری ہے کہ مغربی معاشرے کے اُس ماحول اور ان حالات کا جائزہ لیا جائے جن کے باعث یورپ/ مغرب میں لبرل ازم کی تحریک کا آغاز ہوا۔ ذیل میں ان چند اسباب کا تذکرہ کیا جارہا ہے:
1۔ طبقاتی تقسیم
عام طور پر زمانہ وسطی (Medieval Era) پانچویں صدی عیسویں سے لے کر گیارھویں صدی عیسوی تک خیال کیا جاتا ہے۔ اس دور کو تاریک زمانہ (Dark Ages) کا نام دیا ہے۔ اس زمانے کے یورپی معاشرے میں طبقاتی تقسیم، توہم پرستی، ظالمانہ سزائوں کا رواج اور جہالت عام تھی۔ اس پر مستزاد یہ کہ چرچ اور مذہب کی اجارہ داری تھی۔
علاوہ ازیں یورپی معاشرہ میں دولت کی غیر مساوی تقسیم اور اختیارات کے ناجائز استعمال کی وجہ سے مختلف دیگر طبقات بھی وجود میں آئے:
دولت کی غیر مساوی تقسیم کی وجہ سے معاشرہ میں امیرو غریب کے درمیان بہت زیادہ فرق ہوگیا تھا۔ غریب لوگوں کا معاشرے میں کوئی قانونی مرتبہ نہیں تھا اور نہ ہی انہیں ان کے بنیادی حقوق میسر تھے۔
اس طبقاتی تقسیم کی وجہ سے مراعات یافتہ طبقہ اس طبقاتی تقسیم کو عمداً اختیار کیا گیا تھا۔ اس کے پیچھے یہ حکمت کارفرما تھی کہ معاشرہ میں ہر طبقہ اپنا کام کرتا رہے یعنی دفاع کے ذمہ داران اپنی ذمہ داری نبھائیں۔۔۔ عبادت والے صرف مذہبی معاملات تک رہیں۔۔۔ کاشت اور تجارت کرنے والے اپنے کام سے کام رکھیں۔۔۔ اور اس طرح ہر طبقہ اپنے کام پر مطمئن رہے۔
اس طبقاتی تقسیم نے محرومیوں کو جنم دیا اور عوامی محرومیوں کا ردعمل کئی صورتوں میں ظاہر ہوا۔ کسانوں نے بغاوتیں کیں۔ انفرادی طور پر محروم طبقہ کے لوگ ڈاکو بھی تھے لہذا ان ڈاکوئوں نے زمینداروں، جاگیرداروں اور امراء کے خلاف اپنی سرگرمیاں شروع کیں۔ اس طرح کرنے سے یہ عام لوگوں کے ہیرو بن گئے۔ حتی کہ خانہ بدوش طبقے ان کے گیت گاتے تھے۔
(مبارک علی، یورپ کا عروج، ص65-70)
2۔ جاگیرداروں اور تاجروں کی باہمی چپقلش
لبرل ازم کی تحریک کے آغاز سے قبل یورپ کا ماحول یہ تھا یورپ نے اپنی جغرافیائی حدود کو بڑھانے کے لئے جنگوں کا ایک وسیع سلسلہ شروع کررکھا تھا۔ جاگیردار طبقہ نے اپنی جاگیروں میں اضافہ کے پیش نظر ان جنگوں پر بے حد سرمایہ کاری کی۔ جنگوں کے نتائج مختلف آنے کی صورت میں جاگیردار طبقہ کمزور جبکہ تاجر امیر ہوتے گئے۔ نتیجتاً معاشرے کا توازن بگڑا اور جاگیرداروں کے مقابلے میں تاجر، حکمرانوں کے پسندیدہ بن گئے جو ان جنگوں میں سرمایہ کاری بھی کرتے اور پیسہ ادھار بھی دیتے۔
3۔ مذہبی طبقہ کے باہمی اختلافات
لبرل ازم کی تحریک کے آغاز سے قبل مشرقی اور مغربی کلیسائوں کا نظریہ عقیدہ، عمل اور اختیارات کے حوالے سے اختلاف رونما ہوا۔ مشرقی کلیسا کی The Holy orthodox Church اور مغربی کلیسا کی رومن کیتھولک چرچ کے نام سے تقسیم عمل میں آئی جس کی وجہ سے عوام کی مذہبی توجہات بھی تقسیم ہوگئیں۔ مذہب کے یہ علمبردار اپنے آپ کو اللہ کا نائب قرار دیتے ہوئے اپنے ہر حکم کے انکار کو اللہ کے حکم کا انکار قرار دیتے اور منکرین کو قتل کرنے کا حکم صادر کرتے۔ مزید یہ کہ وہ اپنے آپ کو علم و معرفت کا واحد منبع قرار دیتے۔ نتیجتاً عوام مذہب کے ان علمبرداروں کے باہمی اختلافات، مذہبی تنازعات اور ان کے شدت پر مبنی رویوں سے نکلنے کا راستہ تلاش کرنے لگے۔
4۔ مذہبی طبقہ کی علم دشمنی
لبرل ازم سے قبل مغرب میں مذہب کے علمبردار سائنس کو حرام سمجھتے تھے اور سائنسی تحقیقات کو نہ صرف رد کرتے بلکہ ایسے محققین کو سخت ظالمانہ سزائوں سے نوازا جاتا تھا۔ مذہب کو جامد اور من مانی تعبیر پہنا کر انسانی ترقی کا دروازہ بند کردیا گیا تھا۔ بعض وہ احکامات جو کتاب مقدس میں واضح طور پر موجود تھے اور ان کی حلت و حرمت بھی واضح تھی۔ اس میں بھی انہوں نے من پسند ترمیم کر ڈالی۔
اس وقت یہ صورت حال پیدا ہوچکی تھی کہ مذہب نے انسان کو جامد اور ناترقی پذیر قرار دے دیا تھا۔ جس کی بنیاد پر ہر قسم کی علمی و تمدنی ترقی بڑی حد تک رکی ہوئی تھی اور جن لوگوں نے علم و فن کی ترقی میں حصہ لیا، انہیں نہ صرف یہ کہ مذہب کی بارگاہ سے ملعون و مردود قرار دے دیا گیا بلکہ انہیں سخت سے سخت سزائوں میں بھی مبتلا کیا گیا۔
(تقی امینی، لامذہبی دور کا تاریخی پس منظر، ص: 39)
مذکورہ اسباب اور پس منظر کے نتیجے میں آزاد خیالی (Liberalism) اور روشن خیالی (Enlightenment) کی ایک ایسی فکری تحریک اٹھی جسے مغربی فلاسفہ نے روایت پسندی اور مقلدانہ طرز فکر کے مقابل اختیار کیا۔
آزاد خیالی کے متوازی چلنے والی درج ذیل دیگر تحریکات جو دراصل آزاد خیالی اور روشن خیالی ہی کے مختلف دھارے تھے، سب کے پیش نظر روایت، مذہب اور تقلید سے بیزاری اور بغاوت تھی:
- نشاۃ ثانیہ (Renaissance)
- تحریک اصلاح علوم (Reformation)
- تحریک عقلیت پرستی (Ratioinalism)
- تحریک جدیدیت (Moderanism)
- سیکولرزم (Secularism)
ان سب تحریکات کا مقصد ایک ہی تھا کہ فرد کو آخرت کی فکر اور کامیابی کے بجائے دنیا اور دنیاوی مفادات کے لئے سعی و جدوجہد کرنا چاہئے۔
مغرب میں لبرل ازم کے اثرات
روشن خیالی کی اس تحریک کی مذہبی، سیاسی، سائنسی اور اخلاقی حتی کہ جمالیات سے متعلق بھی کئی شاخیں نمو پذیر ہوئیں۔ اس تحریک نے خاص طور پر عقیدہ اور الہٰیات سے انسانی ذہن کو آزاد کرانے کی ذمہ داری لے لی تھی، لہذا الہٰیات اور چرچ کو للکارا گیا۔ اس کے بعد قدیم نظام کے سارے ادارے اس میں شامل ہوگئے۔ ہر طرح کے خیال یا تصور کو جانچ پڑتال کرکے سائنسی تحقیق کے متعلق کردیا گیا۔ اٹھارویں صدی کے آغاز میں آزاد خیالی کی اصطلاح انگریزی ادب میں آئی اور اس صدی میں آزاد خیال کہلوانے والے کثیر تعداد میں پیدا ہوئے۔
(رمضان گوہر، افکار اقبال اور روشن خیالی، ص: 21)
لبرل ازم نے مغرب میں کیا اثرات مرتب کئے؟ آیئے ان کا جائزہ لیتے ہیں:
1۔ تعلیمی اداروں پر اثرات
آزادانہ سوچ اور خیالات یورپ کے مراکز تعلیم میں نشوونما پاتے رہے۔ خاص طور پر آکسفورڈ کے سائنس سکول اور بعد ازاں آکسفورڈ یونیورسٹی اور دیگر شہروں میں قائم ہونے والے تعلیمی ادارہ جات اس کے مرکز ٹھہرے۔ اس سے وہ لوگ زیادہ متاثر ہوئے جو معاشرے کے اعلیٰ ترین طبقوں سے تعلق رکھتے تھے اور جن سے نوابوں اور فوجی عہدیداروں کا چنائو ہوتا تھا۔ ان نوجوان ذہنوں نے جن کے اندر تحقیق اور آزادی عمل کی روح بیدار ہوچکی تھی، اگلے چند سالوں میں متاثر کن کام کئے اور انسان کی آزادیٔ فکر اور آزادیٔ عمل کی سیاسی ترقی کی تاریخ میں اپنا نام چھوڑ گئے۔
(افضل الرحمن، شخصی آزادی، صفحہ: 321)
2۔ آزادی کی تحاریک پر اثرات
جب John انگلستان کا بادشاہ بنا، اس وقت آزادی کی تحریک طبقہ امرائ، فوجی عہدیداروں، نوابوں، جاگیرداروں اور عوام الناس میں زور پکڑ چکی تھی۔ یعنی ذہنی طور پر عوام الناس نے اس تحریک کو کامل ترین صورت میں سمجھ لیا تھا اور لوگ اس کے لئے بالکل تیار تھے کہ کسی بھی وقت اپنے حقوق کے لئے اور اپنی آزادی کے لئے کوئی بھی کام کر گزریں۔ بعد ازاں یہ ہوا کہ King John کے آنے کے بعد فضا کچھ زیادہ ہموار ہوگئی اور لوگوں کے مطالبات بالکل محسوس ہونے لگے۔کیونکہ وہ ایک ظالم، بے رحم اور خوفناک شخص تھا اور لوگ اس سے نفرت کرنے لگے۔ نوابوں اور طبقہ امراء نے بادشاہ کو 1215ء میں اپنا منشور میگنا کارٹا Magna Karta پیش کیا۔ دنیا میں جو پارلیمانی نظام چل رہا ہے، وہ برطانوی پارلیمانی نظام سے اخذ شدہ ہے، جس کی ابتدا جون 1215ء میں میگنا کارٹا پر شاہ جان کے دستخطوں سے ہوئی اور ا س نے تکمیلی شکل 1275ء اور 1295ء میں اختیار کرلی۔ میگنا کارٹا کے معاہدے اور اسی قسم کے دوسرے منشور جنہوں نے تاریخ میں شہرت حاصل کی، وہ لبرل ازم کی تحریک ہی کے باعث ہیں۔ (ایضاً، ص:322)
3۔ ملکوں کی آزادی پر اثرات
آزادی کے فکری تخیلات اور فلسفیانہ تشریحات شروع ہوئیں۔ جنہیں بعد میں روسو اور برک نے لیا۔ انیسویں صدی میں ہیگل نے اور چند دیگر حضرات نے اس میں قوت پیدا کی اور اس کے عملی نتائج انیسویں صدی میں ظاہر ہوئے۔ یہ درست ہے کہ سترھویں اور اٹھارویں صدی میں ان آزادی پسند خیالات کے پھیلائو کا نتیجہ تھا کہ امریکہ کی آزادی کا منشور، فرانسیسی انقلاب کا منشور اور دیگر حقوق کے امریکی بل منظور کئے گئے۔ یہ تمام لبرل ازم اور روشن خیالی کی تحریک ہی کی بدولت منظر عام پر آئے۔ (ایضاً، ص: 255)
لبرل ازم کے منفی اثرات
آزاد خیالی کی بدولت اگرچہ مغربی معاشرے نے بے حد ترقی کی لیکن بعد میں یہ ہر طرح کی پابندی کے خلاف ایک تحریک بن گئی جو بحر حال مستحسن قدم نہیں تھا۔ فلسفہ الحاد نے جس برق رفتاری سے دنیا میں ترقی کی، اس کی بڑی وجہ آزاد خیالی ہے۔ آغاز میں تو اس تحریک نے محض اس لئے سر اٹھایا تھا کہ اس کے ذریعے عوام کے ذہنوں کو مذہب کے ناروا بندھنوں اور نام نہاد حدود و قیود سے آزاد کرایا جائے مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس آزاد خیالی نے ذہنی انارکی کی شکل اختیار کرلی اور اب روشن خیالی کے یہ معنی قرار پائے کہ انسان کو ہر قسم کی پابندی سے آزاد ہونا چاہئے۔ خواہ وہ مذہب کی عائد کردہ ہو یا سماج کی۔ اس آزاد خیالی کی عملی انتہا یہ تھی کہ ہر وہ چیز جو پہلے سے چلی آتی ہو، چاہے اپنے اندر صداقت و افادیت کے کتنے ہی پہلو رکھتی ہو، اسے بہرحال رد کردینا اور اس کے مقابلے میں کوئی انوکھی اور نئی بات کہنا ہی روشن خیالی کی سب سے بڑی دلیل ہے۔
(عبدالحمید صدیقی، انسانیت کی تعمیر نو اور اسلام، ص: 22)
مسلم معاشرے پر لبرل ازم کے اثرات
مغربی روشن خیالی کے اہداف و مقاصد جنہوں نے مغربی معاشرہ کو متاثر کیا، اب خصوصی طور پر اسلامی معاشرہ ان کا ہدف بنا ہوا ہے۔ ان اہداف کے ذریعے ذہنی، تہذیبی اور اخلاقی تبدیلیوں کا سلسلہ شروع ہے۔ لبرل ازم نے جس طرح مغرب میں اپنے اثرات چھوڑے، اس طرح مسلم معاشرہ بھی اس کے اثرات سے نہ بچ سکا۔ ذیل میں مسلم معاشرے پر اس کے اثرات بیان کئے جارہے ہیں:
1۔ تحریک آزادی نسواں
معاشرے میں اپنا اثرو رسوخ قائم کرنے کے لئے روشن خیالی کے خاص اہداف میں سے تحریک آزادی نسواں نمایاں ہے۔ یہ تحریک بھی مغرب سے اٹھی اور آج اس کے خوش نما نعرہ کی بازگشت مسلم معاشرے کے اندر بھی سنائی دے رہی ہے۔ مغربی معاشرے میں عورت کے ساتھ جو نفرت آمیز سلوک روا رکھا جاتا تھا، اس کے ردعمل میں آزادیٔ نسواں کی تحریک شروع ہوئی۔
یورپ میں تحریک آزادی نسواں کا باقاعدہ آغاز فرانسیسی انقلاب کے فوراً بعد ہوا۔ فرانسیسی انقلاب کے مفکرین کے نزدیک مساوات مردو زن کا کوئی تصور نہیں تھا۔ ان کے پیش کردہ مساوات کے نعرے آزاد اور جائیداد رکھنے والے مردوں کے سیاسی حقوق تک ہی محدود تھے۔ 1784ء میں فرانس کی انقلابی اسمبلی میں ایک رکن Condorcet نے اپنی تقریر میں مطالبہ کیا کہ شہریوں کے حقوق میں عورتوں کو بھی شامل کیا جائے۔ جس کے نتیجے میں اسے باغی قرار دے کر پھانسی دے دی گئی۔
(رفیق چودھری، مساوات مردو زن، ص: 17)
تحریک آزادی نسواں نے مغربی خواتین کا جس طرح استحصال کیا اب ان کا اگلا ہدف مسلم خواتین ہیں۔ ایک سازش کے تحت عورت کے رخ نسوانیت سے اسلام اور نسوانیت کے اثرات کو مٹایا جارہا ہے۔ ایمان، عقیدہ، اعمال اور رویے منطقی طور پر شدت اور تیزی سے متاثر ہورہے ہیں۔ عورت کی فطرت اور مزاج تبدیل ہورہا ہے اور اس کے حقیقی مقام کی بنیادیں سرکنے لگی ہیں۔
اس وقت اس نام نہاد تحریک کی وجہ سے مسلم معاشرے میں فواحش کا بڑھتا ہوا رجحان دیکھنے میں آرہا ہے۔ آزادانہ اختلاطِ مردو زن کے نقصانات ہر آئے روز عورت کے استحصال کی صورت میں سامنے آرہے ہیں۔ علاوہ ازیں فیشن پرستی کا منہ زور سیلاب بھی لبرل ازم کے منفی اثرات کی منہ بولتی تصویر ہے۔
2۔ سیکولر نظام تعلیم
آزاد خیالی کی تحریک نے جہاں عالم اسلام کو دیگر شعبہ ہائے حیات میں متاثر کیا وہاں نظام تعلیم بھی اس کی دسترس سے نہ بچ سکا۔ بلکہ یہ کہنا بجا ہوگا کہ نظام تعلیم روشن خیالی کا خاص ہدف رہا تاکہ ایک ایسی نسل تیار کی جاسکے جو اپنے مخصوص نظریہ حیات سے لاعلم ہو۔ اس قسم کی مادی تعلیم کا انتظام کیا جائے جس سے مادی ترقی تو کی جاسکے لیکن اخلاقی لحاظ سے یہ قوم بالکل دیوالیہ ہوجائے۔
ہمارے ہاں مروجہ نظام تعلیم اس لئے قائم نہیں کیا گیا کہ مسلمانوں کے کلچر کو زندہ رکھنے اور ترقی دینے کے لئے اقدامات کئے جائیں بلکہ اس کے پیش نظر ایسے لوگ تیار کرنا ہے جو دین سے بیزار ہوں اور محض مادی ترقی کو ہی سب کچھ سمجھتے ہوئے بغیر اخلاقی اقدار کے آگے بڑھتے جائیں۔ اس طرح کے لبرل و سیکولر نظام تعلیم نے ہماری جڑوں کو کھوکھلا کردیا ہے۔
3۔ سیاسی اثرات
پاکستان کا وجود دنیا کے نقشے پر اسلامی جمہوریہ کے حوالے سے ظہور پذیر ہوا۔ اسی بناء پر عالمی طاقتیں پاکستان میں ایسی سیاسی شخصیات کے سر پر ہاتھ رکھتی ہیں جو زیادہ لبرل بلکہ سیکولر ہوں تاکہ وہ ملکِ پاکستان کے حکومتی معاملات اور مذہبی تعلیمات کو الگ الگ کرنے کی کوشش کرتے رہیں۔ پاکستان کے موجودہ سیاسی حالات کو اس تناظر میں دیکھا جائے تو ہمارے ہاں آج کی ’’روشن خیالی‘‘ کے نعرے کی بہت اچھی طرح سمجھ آجاتی ہے کہ یہ فکر کہاں سے درآمد ہوئی اور اس کے پیچھے کونسے مقاصد کارفرما ہیں۔
عالمی طاقتوں کو اپنے مقاصد کی تکمیل کے لئے ایسا لبرل اور سیکولر ذہنیت کا حکمران درکار ہے جو یہاں کے دینی عناصر اور دینی شعائر سمیت تمام دینی اقدار کو ختم کرنے کے درپے ہو اور لادینی افکار کا حکومتی سطح پر پرچار کیا جاتا رہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں آج اور اس سے بھی پہلے کئی ادوارِ حکومت میں حکمرانوں کی طرف سے دینی نظریات کا مذاق اڑائے جانے کی کئی مثالیں ملتی ہیں۔
4۔ معاشرتی و اخلاقی اثرات
معاشرے کو سیکولر و لبرل بنانے کے لئے ایسی روایات اور اقدار کی حوصلہ افزائی سرکاری سطح پر بھی کی جارہی ہے، جس کے نتیجہ میں فحاشی عام ہو۔ المیہ یہ ہے کہ ایسی روایات معاشرے کے لئے کوئی صحت مند سرگرمیاں ہرگز نہیں ہیں بلکہ فکری لحاظ سے حیوانیت اور جنسی بے راہ روی کی طرف مائل کرنے کے اقدام ہیں۔ دراصل ’’روشن خیالی‘‘ کا وہ پورا خاکہ جو ہم نے اغیار سے مستعار لے رکھا ہے اس میں رنگ بھرنے کے لئے بھی اس کی دی ہوئی ثقافتی اقدار کو استعمال کیا جارہا ہے۔
ذرائع ابلاغ، ریڈیو، ٹی وی، اخبارات و جرائد اور فلموں کو بڑی منصوبہ بندی سے فکر و نظر کی گمراہیاں پھیلانے اور اسلامی اقدار کو مٹانے اور ان کا مذاق اڑانے کے لئے استعمال کیا جارہا ہے اور ان تمام کو لبرل ازم کا لازمی تقاضا قرار دیا جارہا ہے۔ مسلمانوں کی دینی اقدار اور پختہ عقائد کو بنیاد پرستی قرار دے کر نئی نسلوں کو اپنی پرانی نسل کے عقیدے اور ایمان سے بدظن کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ہمارے نوجوانوں کے فکری جذبہ تجسس سے فائدہ اٹھاکر فلمی کہانیاں اور ان کے کردار انہیں ایک ایسی راہ پر گامزن کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ ان میں اچھے اور برے اعمال کی تمیز اور احساس ہی ختم ہوجائے۔ جب روح کی پاکیزگی اور حیا جو ایمان کا خاصہ ہے، متزلزل ہوجائے تو انسان اور جانور کا فرق و امتیاز ہی مٹ جاتا ہے۔ جدید ذرائع ابلاغ کے ذریعے ثقافت کے نام پر بپا ہونے والا طوفان ہمارے معاشرے پر انتہائی زہریلے اثرات مرتب کررہا ہے۔
مغرب سے متاثر ہوکر ہمارے بعض ڈراموں اور پروگراموں میں ذومعنی فقرے، غیر اخلاقی مکالمے اور ناپسندیدہ مناظر سنانا اور دکھانا معمول ہے۔ الغرض لبرل ازم و سیکولرازم کو اپنانے کی دوڑ میں ہمارا معاشرتی و اخلاقی ڈھانچہ تباہی کا شکار ہوچکا ہے۔
ہمارے معاشرے میں مادر پدر آزادی کو لبرل ازم قرار دیا جارہا ہے۔ لبرل ازم کے فروغ کے لئے خواہ سیکولر نظام تعلیم ہو یا ہماری ثقافتی اقدار کو روندتا ہوا میڈیا، ان تمام نے ہمارے معاشرے کی صورت گری میں انتہائی منفی کردار ادا کیا ہے۔ اس لئے کہ معاشرتی سطح پر دینی و اخلاقی کردار کی پسپائی کی بنیادی وجہ ’’آزاد خیالی‘‘ اور لادینیت کے رجحان ہیں۔
نتیجہ بحث
لبرل ازم نے جہاں معاشرے پر مثبت اثرات مرتب کئے وہاں اس نے منفی اثرات بھی چھوڑے۔ مغرب میں جہاں لبرل ازم کی وجہ سے مغربی معاشرے میں سائنسی علوم میں ترقی ہوئی وہاں الحاد اور دین سے دوری کے اثرات بھی مرتب ہوئے۔ اسی طرح یہ اثرات پوری دنیا میں پھیلے بالخصوص مسلم معاشرے پر اس نے گہرے منفی نقوش ثبت کئے۔