مسلم دنیا اس وقت شدید بحران کا شکار ہے۔ اس کے پاس ایک اچھی قیادت اور ویژن دونوں کی کمی ہے جو اس کی ڈوبتی ناؤ کو ساحل تک باحفاظت لے جائے۔ شکست خوردہ سوچ اور نیم دلانہ تدابیر کے ساتھ کبھی بھی چیلنجز کا نہ مقابلہ کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی کرنا چاہیے۔ یہ کوئی آسان کام نہیں ہے۔ اپنی کوتاہیوں اور غلطیوں کا دوسروں کو موردِ الزام ٹھہرانے کے رجحان کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ اُمتِ مسلمہ کو در پیش بحران شدید تر ہیں، ان سے نبٹنے کے لیے بیداریٔ شعور، تجدیدِ فکر اور سوچ میں انقلابی تبدیلی کی ضرورت ہے۔
سیاسی و فکری مبصرین کے درمیان ایک اجتماعی اتفاق پایا جاتا ہے کہ تحفظ پسندانہ بنیادوں پر قیامِ امن اور انتہا پسندانہ افکار کے خاتمے، مکالمہ کے فروغ، سماجی و اقتصادی سطح پر ترقی اور ماضی کی غلطیوں سے سیکھ کر درست اقدامات کر کے حقیقی راہ سے برگشتہ communities کو صحیح راہ پر لایا جاسکتا ہے۔ صرف عسکری آپریشن تنہا دیرپا حل فراہم نہیں کر سکتا۔ نیز مدارس سے مختلف منفی اثرات کو ختم کرنے کے لیے درج ذیل پالیسی اقدامات اٹھائے جانے چاہییں:
1۔ نظامِ تدریس اور نصاب میں اِصلاحات
مدارِس سے اِنتہا پسندانہ اَفکار و نظریات کے خاتمے کے لیے سب سے بنیادی ضرورت نصابی اِصلاحات کی ہے۔ مدارس میں پڑھایا جانے والا نصاب قدیم زمانوں سے جوں کا توں چلا آرہا ہے۔ اسے جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے اور اس میں جدت لانے کی ضرورت ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ فوری طور پر مذہبی مدارس کے نظام اور نصاب میں اصلاحات کو یقینی بنایا جائے اور مدارس کے نصاب کے لیے متفقہ قومی مانٹیرنگ سیل تشکیل دیا جائے۔ جو تمام مدارس کے نصابات میں سے انتہا پسندانہ افکار کی نشان دہی کرنے اور اسے نکالنے کا ذمہ دار ہو۔ تمام مدارس اس سیل سے اپنا نصاب review کروانے کے ذمہ دار ہوں اور منظور شدہ نصاب کے علاوہ کسی بھی دوسرے نصاب کے پڑھانے پر پابندی عائد ہو۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری اپنے شہرۂ آفاق اور مبسوط تاریخی فتویٰ ’دہشت گردی اور فتنہ خوارج‘ میں رقم طراز ہیں:
’’آج ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ حکومت پاکستان سرکاری اساتذہ اور اَئمہ اوقاف کے تربیتی کورسز کی طرح تمام دینی مدارس کے اساتذہ کے لئے بھی کورسز کا اہتمام کرے۔ اس کے لئے ماہرینِ علم اور اعتدال پسند علماء اور دانش وروں کی خدمات و تعاون حاصل کیا جائے۔ ان تربیت گاہوں میں مختلف مسالک کے علماء کے باہمی میل جول، تبادلہ خیال اور مذاکرات کے ذریعے جہاں غلط فہمیوں اور فکری مغالطوں کا ازالہ ہوگا وہاں ان میں تحمل و رواداری اور قلبی و نظری وسعت کو بھی فروغ ملے گا اور اِن کا ذہنی اُفق بھی وسیع ہوگا۔ دینی اداروں کے ان اساتذہ کرام کے مثبت رویوں کا ان شاء اﷲ ان کے تلامذہ پر بھی اثر ہوگا اور وہ تنگ نظری و انتہا پسندی کے خول سے باہر نکل سکیں گے۔
2۔ اَمن پر مبنی نصابِ تعلیم کا نفاذ
تعلیمی اداروں میں نصاب تعلیم اسلام کے پیغامِ محبت، امن اور تحمل و برداشت کی تعلیمات پرمبنی ہو۔ معاشرے میں موجود دیگر communities کے ساتھ باہمی ہم آہنگی، رواداری، تحمل و برداشت اور پرامن بقائے باہمی کا جذبہ پیدا کرنے کے لیے کاوشیں کرنا اس نصاب کی اوّلین ترجیحات میں سے ایک ہونا چاہیے۔
منہاج القرآن انٹرنیشنل کے زیر اہتمام شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی ہدایات کی روشنی میں نہ صرف فروغِ امن اور انسدادِ دہشت گردی کا اسلامی نصاب مرتب ہوچکا ہے بلکہ ملک بھر کے تعلیمی اداروں کے لیے بھی ایک ایسا نصاب تعلیم تشکیل دیا جاچکا ہے جو عصرِ حاضر کے تقاضوں کے مطابق اسلامی تعلیمات کی روشنی میں مرتب کیا گیا ہے۔
3۔ اساتذہ و علماء کے لیے تربیتی اداروں کا قیام
مذہبی رواداری سے متعلق ایک اور اہم اصول جو غور و فکر اور توجہ کا محتاج ہے، وہ علماء کرام اور مبلغین کی تعلیم و تربیت کے لیے ایسے دینی اداروں کے قیام و انصرام سے متعلق ہے، جو مسلکی تنگ نظری سے ماوراء ہو، جہاں ہر مسلک و مکتبِ فکر کا طالبِ علم آزاد ماحول میں درس و تدریس کے مواقع سے استفادہ کر سکے۔ برصغیر میں فرقہ وارانہ کشیدگی کے دور کا آغاز مختلف مسالک کی دینی درسگاہوں اور تدریسی اداروں کے جداگانہ قیام سے ہوا تھا۔ یہ انتہائی افسوس ناک بات تھی۔ اس دور میں مختلف مکاتبِ فکر کے جدا جدا مدارس معرضِ وجود میں آ گئے۔ ان درس گاہوں سے تعلیم و تربیت پانے والے طالب علم ایک مخصوص ماحول میں تحصیل علم کے بعد جب باہر نکلے اور مسندِ علم و ارشاد پر فائز ہوئے تو ان کے دل و دماغ مسلک کے سانچوں میں ڈھلے ہوئے تھے۔ اُن کے اعمال و کردار میں اس وابستگی کی گہری چھاپ نمایاں تھی۔ علماء کی یہ کھیپ مساجد کے منبر و محراب سے دین کے بنیادی مسائل سے صرف نظر کرکے اپنے اپنے مسلک اور عقائد کا پرچار کرنے لگی۔ فروعی اختلافات میں اُلجھ کر علماء ایک دوسرے کو معاندانہ تنقید اور تفسیق کا نشانہ بنانے لگے۔ اس طرح مسلکی رواداری کے برعکس انتہا پسندی جڑپکڑ گئی اور فرقہ پرستی اور تفرقہ پروری کی آگ بھڑک اٹھی، جس سے انتشار و افتراق، فتنہ و فساد اور نااتفاقی نے جنم لیا اور وحدتِ ملی کے تصور کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ نتیجتاً اُمت گروہوں اور دھڑوں میں بٹ گئی۔
4۔ تعلیمی نظام میں بنیادی اصلاحات
تعلیمی نظام میں بنیادی اور وسیع پیمانے پر اصلاحات اور مؤثر پلاننگ کے بغیر تعلیم کو عام نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی متشدد انتہا پسندی کا خاتمہ ممکن ہو سکتا ہے۔ تین دھڑوں میں تقسیم نظامِ تعلیم نے وطنِ عزیز میں بسنے والے افراد کے درمیان طبقاتی تقسیم کو مزید گہرا کر دیا ہے۔ تعلیمی اداروں میں جدید و قدیم علوم کا امتزاج ہونا چاہیے۔ یہ مذہبی اداروں کی Isolation کو ختم کرے گا اور پاکستان کے نظامِ تعلیم کے مرکزی دھارے کے ساتھ ہم آہنگ کر کے ترقی کی نئی رائیں کھولے گا۔ لہٰذا ضروری ہے کہ یکساں نظامِ تعلیم ملک میں متعارف کرایا جائے۔ یہ ایک ایسا اقدام ہو گا جس کے ذریعے پاکستان میں پھیلی طبقاتی تقسیم کا خاتمہ ہو سکے گا اور خوابیدہ صلاحیتوں کے حامل طلباء کی کثیر تعداد ملک و قوم کی بہتری کے لیے میسر ہوگی۔
بین المسالک ہم آہنگی کی بحالی اور اسلام کے سیاسی نظام کو پہنچنے والے نقصان کی تلافی کے لیے ضروری ہے کہ ایسے تعلیمی ادارے قائم کیے جائیںجو اہم تحقیقات کی حوصلہ افزائی کریں، جو آزادانہ سوچ کے حامل ہوں، جن کا مقصد موجودہ مسائل کا بصیرت پر مبنی حل تلاش کرنا ہو۔
5۔ جدید موضوعات سے روشناس کرانا
عام طور پر یہ بات بھی دیکھنے میں آئی ہے کہ مذہبی اداروں کے تعلیم یافتہ علماء کئی کئی گھنٹوں تک مختلف نزاعی موضوعات پر بآسانی تقاریر کر کے امت کو فروعی مسائل میں تو الجھائے رکھتے ہیں لیکن امت مسلمہ کو درپیش جدید مسائل مثلاً: اسلامی اقتصادی نظام، اقوامِ عالم کے ساتھ بین الاقوامی تعلقات، جنگ اور امن کے حوالے سے قانونی طریقۂ کار، اسلامی تہذیب و تمدن اور ثقافت، سیاسی پالیساں، اسلامک پینل کوڈ اور اسلامی طرزِ زندگی کے استحکام کا ضابطہ وغیرہ کے حوالے سے ان کی معلومات نہایت محدود ہوتی ہیں۔ اس حوالے سے عصرِ حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے اور امتِ مسلمہ کو درپیش کثیر الجہتی مسائل کا حقیقت پسندانہ اور قابلِ عمل حل اسی صورت میں پیش کیا جا سکتا ہے جب علمائے دین قرآن و سنت کی روشنی میں جدید و قدیم علوم سے مکمل آشنا ہوں گے اور علم القانون اور دینی علوم پر کامل دسترس رکھنے کے ساتھ ساتھ بین المسالک (intra-faith)، بین المذاہب (interfaith) اور بین الاقوامی سطح پر پائی جانے والی عصری و تہذیبی مسائل کو address کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہوں گے۔
6۔ مؤثر روحانی تربیت کا نظام
تزکیۂ نفس اور تصفیۂ قلب کے علمی، نظریاتی اور عملی احیاء کے لیے ایسے مراکز قائم کیے جانے چاہییں جو اس اَخلاقی اور روحانی اِنقلاب کا اِحیا کر سکیں جو کہ قرونِ اُولیٰ و وسطیٰ میں پایا جاتا تھا۔ اس مقصد کے حصول کے لیے عملی تصوف کی تعلیمات میں اس انداز سے نئی روح پھونکنے کی ضرورت ہے کہ وہ اخلاقی و روحانی اقدار از سر نو بحال ہو سکیں، جنہیں پھیلانے کے لیے عظیم اولیاء ہردور میں آتے رہے اور زندگی کے ہر شعبے میں تصوف کو عملی طور پر نافذ کرتے رہے۔ اسلامی تاریخ کے آئینے میں یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ اخلاقی و روحانی تربیت اور انسانی کردار سازی کا عظیم کام حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانۂ اقدس میں اصحابِ صفہ کے نام سے شروع ہوا تھا جو مسجد نبوی میں ایک تربیتی طرز کا ادارہ تھا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابۂ کرام اور تابعین کے بعد یہ فریضہ خانقاہی نظام کے عظیم صوفیاء کرام کی زیر نگرانی قرونِ وسطیٰ میں سر انجام دیاجاتا رہا۔ آج ایک ایسی روحانی تحریک کی ضرورت ہے جو اسی اخلاقی اور روحانی نظام کی حقیقی صورت کو پھر سے بحال کرسکے تا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ طیبہ کی روشنی میںانسان کے ظاہر و باطن کی اصلاح اور کردار سازی کو ممکن بنایا جا سکے۔
7۔ غیر متزلزل سیاسی قوتِ فیصلہ کی ناگزیریت
متشدد انتہا پسندی کے خاتمہ کے لیے ایسی غیر متزلزل سیاسی قوتِ فیصلہ کی ضرورت ہے جو اسے ختم کر سکے، کیوں کہ انتہاپسندی کے خاتمہ کے لیے کیے جانے والے بنیادی اقدامات اکثر عزمِ مصمم نہ ہونے کی وجہ سے اپنے مقصد سے ہٹ جاتے ہیں۔ ریاستی اور معاشرتی سا لمیت کے لیے طویل المیعاد خطرات کی حامل انتہا پسندی کا مکمل خاتمہ حکومت کی اولین ترجیح ہونا چاہیے۔
اگر پاکستان میں نظامِ تعلیم کا جائزہ لیا جائے تونہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان میں تعلیم اُن امور میں سے ہے جس کو حکومتوں نے کبھی اہمیت ہی نہیں دی ہے۔ یہ پہلو سب سے زیادہ عدمِ توجہ کا شکار ہے۔ جس کی بنیادی وجہ ریاست کا بیرونی مسائل میں الجھے ہونا ہے۔ اقتدار کو نسل در نسل منتقل کرنے والی حکومتیں تعلیم کو بنیادی وسائل فراہم کرنے میں بری طرح ناکام رہی ہیں۔ تعلیم کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے گزشتہ 70 سال کے عرصے میں 20 تعلیمی پالیسیوں کا اعلان کیا گیا لیکن کسی ایک پر بھی کما حقہ عمل نہ ہو سکا۔
اس پس منظر میں پاکستان کے نظامِ تعلیم کے حوالے سے مؤثر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ عمومی اور رسمی تعلیم اس پلاننگ کے ساتھ دی جانی چاہیے کہ وہ جدید سائنس، ٹیکنالوجی اور انجینئرنگ کی تعلیم کی راہ ہموار کر سکے۔ تکنیکی اور پیشہ وارانہ طرزِ تعلیم پر خصوصی توجہ مرکوز کرنی چاہیے جو طلباء کو ضروری پیشہ وارانہ مہارتوں سے لیس کر کے انہیں بہترین روزگار کے مواقع فراہم کرنے میں معاون ثابت ہو سکے۔
حصولِ تعلیم کے لیے صرف مدرسہ نظامِ تعلیم پر اکتفا کرنے کی بجائے ضروری ہے کہ طلباء کی مذہبی یا سیکولر تعلیم کے لیے اعلیٰ سطح پر مشاورت کی جائے جو ان کے مزاج، مہارتوں اور قابلیتوں کے مطابق ہو۔ حکومتی سطح پر اسکولوں، کالجوں اور یونی ورسٹیوں کی سطح پر باقاعدہ کیرئیر کونسلر تعینات کیے جائیں جو بچوں کے ذہنی رجحان کو مدِ نظر رکھتے ہوئے انہیں مناسب مشورے دے سکیں۔
8۔ بیرونی امداد کو ضابطے کے تحت لایا جائے
حکومتی سطح پر ایک ایسا فورم تشکیل دیا جائے۔ جو دینی مدارس، تنظیمات اور جماعتوں کو آنے والی بیرونی فنڈنگ کا بغور جائزہ لے۔ ان دینی مدارس، تنظیمات اور جماعتوں کو بیرونی ممالک سے مسلکی، جماعتی، تنظیمی یا ادارتی بنیادوں پر براہِ راست فنڈنگ پر پابندی عائد کی جائے۔ مغربی ممالک سے وظائف (scholarship) کی مد میں آنے والی اِمداد کی طرز پر اسلامی ممالک سے آنے والی امداد کے لیے بھی قومی سطح پر ایک pool تشکیل دیا جائے جہاں سے مساوی طور پر فنڈز تقسیم ہوں۔
9۔ مؤثر عدالتی نظام کا قیام
عدالتی نظام کو مؤثر بنانے کی ضرورت ہے، جس کا مقصد مذہبی ہم آہنگی اور رواداری کا فروغ ہو۔ اس کی خلاف ورزی کرنے والوں اور اس کے مقاصد کو تباہ کرنے والوں کی سزا مقرر کی جائے۔ ایسے لوگ جو فرقہ وارانہ تشدد میں ملوث پائے جائیں ان کے لیے تعزیراتی کارروائی کرتے ہوئے انہیں کیفرِ کردار تک پہنچایا جائے۔ یہ اقدام شرپسند عناصر کو لگام دینے میں مؤثر ثابت ہوگا۔ اِسی طرح دہشت گردی کی عدالتوں کے جج صاحبان کو دہشت گردی کے خوف سے بے نیاز ہو کر اسی جرات اور بے باکی سے دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ جات سنانے چاہییں، جس بے خوفی کا مظاہرہ وہ دیگر ملزمان کے خلاف فیصلہ جات کرتے وقت کرتے ہیں۔ سالوں یا مہینوں کی بجائے دنوں میں دہشت گردوں کو سزا دی جائے اور ان فیصلہ جات پر فوری عمل درآمد کرایا جائے۔
10۔ قومی سا لمیت اور سرحدوں کی حفاظت کو یقینی بنانا
پاکستان اس وقت تک فرقہ واریت کے ناسور سے چھٹکارا نہیں پا سکتا جب تک یہ ’اپنے دوستوں(حلیفوں)‘ کی خفیہ جنگ (proxy war) کے لیے میدانِ جنگ بنا رہے گا۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ قومی سا لمیت اور سرحدوں کی حفاظت کے لیے (red lines) بنائی جائیں۔ بیرونی اثر و رسوخ اور بلا روک ٹوک تسلسل سے ملنے والے غیر ملکی سرمایے کے حصول کو نہ صرف ممنوع اور غیر قانونی قرار دیا جائے بلکہ اس کا حصول عملاً ناممکن بنا دیا جائے۔ غیر ملکی سطح پر فیصلہ سازی کے عمل میں قومی مفادات کو ہر حالت میں مدِ نظر رکھا جائے۔
11۔ شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنانا
ریاست کو اپنا کھویا ہوا مقام بحال کرنے کی ضرورت ہے، جو غیر ریاستی عناصر کے ہاتھوں بتدریج نقصان کا شکار رہا ہے۔ یہ تب ہی ممکن ہو سکتا ہے جب ریاست اپنے شہریوں کو ان کے جان و مال کے تحفظ کی مکمل یقین دہانی کروائے اور اس دوران غیر جانبدارانہ رویہ رکھے۔ ریاست کو فلاح و بہبود کی پالیسیوں پر عمل درآمد کے ذریعے ممتا کا کردار ادا کرنا چاہیے یعنی حقوق کی تقسیم میں بلا امتیازِ رنگ و نسل مساوی طرزِ عمل اختیار کرے۔ یہ شہریوں اور ریاست کے درمیان سماجی معاہدے کی تجدید کا مطالبہ کرتا ہے۔ ریاست اور اس کے اداروں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے فریضہ کو ادا کرے، ایسا کرنے سے جمہوریت کی بحالی اور دوام میسر آئے گا۔
12۔ بیداری شعور اجاگر کرنے میں میڈیا کا کردار
صوبائی، علاقائی، نسلی، لسانی، مذہبی تعصبات اور فرقہ واریت کے نقصانات کے حوالے سے شعور اجاگر کرنے میں میڈیا کلیدی کردار کا حامل ہے۔ ایسے لوگ جو وطنِ عزیز میں نفرت و عناد کے بیج بو رہے ہیں ان عناصر کو بے نقاب کرتے ہوئے ان کے خلاف لوگوں کا شعور بیدار کرنے اور قومی اتحاد و یگانگت کی فضا قائم کرنی چاہیے۔
13۔ نوجوانانِ ملت کا کردار
نوجوانوں کو چاہیے کہ تشدد اور انتہا پسندی پھیلانے والوں کی باتوں پر دھیان نہ دیں۔ ایسے نام نہاد علماء اور سیاستدانوں کو مسترد کریں جو ہر وقت الزام تراشی میں مشغول رہتے ہیں اور مختلف مسالک اور گروہوں کے درمیان اختلافات پیدا کرنے کی کوشش میں مصروف رہتے ہیں۔ نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ اپنی توجہ اسلام کے حقیقی پیغام پر مرکوز رکھیں اور اسلام کی امن پر مبنی درست تعلیمات کو اپنانے کی کوشش کریں، جس کا درس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اسوہ حسنہ سے دیا ہے، جنہیں بعد ازاں خلفائے راشدین، صحابہ کرام l، تابعین، تبع تابعین اور قرونِ اولیٰ کے ائمہ و پیروکاروں نے اپنے عمل کے ذریعے معاشرے میں فروغ دیا۔ اس طرح اجتماعی کاوشوں کے ذریعے ہم انتہا پسندی کو شکست دے سکتے ہیں۔
14۔ نفرت انگیز تحریر و تقریر پر مکمل پابندی
دہشت گردی کی جڑیں انتہا پسندی، فرقہ واریت اور تکفیریت میں چھپی ہوئی ہیں۔ مسلمانوں کے باہم کفر کے فتوؤں کے اِجرا پر قانوناً پابندی عائد کی جائے اور اس کے لیے کڑی سے کڑی سزا مقرر کی جائے۔ نیز فرقہ واریت، انتہا پسندی، تکفیریت اور دہشت گردی کے فروغ کا سبب بننے والے لٹریچر کی اشاعت اور تقسیم پر کلیتاً پابندی عائد کی جائے۔
15۔ اختلافِ رائے کے اِحترام کی تعلیم
اگر ہم مسلم کمیونٹی میں اتحاد پیدا کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں فراخ دلی سے اختلافِ رائے کا احترام کرنا ہو گا۔ ان معاملات کو کبھی بھی نزاعی مسائل نہیں بنانا چاہیے۔ اِختلافِ رائے کو عوام میں جھگڑوں اور دشمنی میں بدلنے کے بجائے علماء کے مابین علمی نوعیت کا ہی رہنا چاہیے جو آپس میں خوشگوار تعلقات پیدا کرنے کا باعث بنے گا۔ صحابہ کرام l، تابعین و تبع تابعین، پیروکاروں اور چاروں ائمہ کے درمیان کئی مسائل پر اختلاف رائے پیدا ہوتا تھا لیکن ان کے اختلافات کبھی بھی باہمی جھگڑوں اور دشمنی میں نہیں بدلے تھے۔
لہذا یہ طے کیا جانا ضروری ہے کہ اختلاف رائے کہاں جائز ہے اور کہاں ناجائز؟ اس مسئلہ کے حل کے لیے ہمیں دو خاص نکات ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے:
- اختلافِ رائے کو مذہب کے بنیادی اور حتمی مسئلہ کے طور پر نہیں سمجھنا چاہے۔
- اگر اختلاف رائے مذہب کے ثانوی اور غیر قطعی اصولوں کے ذریعے حل ہو جاتا ہے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کیوں کہ مسلمانوں کی تاریخ میںاہلِ سنت والجماعت سوادِ اعظم (بڑی اکثریت) میں اختلاف رائے کبھی بھی عداوت، مخالفت اور بری خواہش کا نتیجہ نہیں تھا۔ مگر آج بد قسمتی سے مسلمانوں کے درمیان معاملات ناقابل مفاہمت صورت حال اختیار کر چکے ہیں۔
جب اختلاف رائے کو تحمل سے سنا اور قبول نہیں کیا جائے گا تو یہ عمل تنگ نظری متصور ہوگا جو بعد ازاں غیر متشدد اور غیر مسلح انتہا پسندی میں بدل جائے گا۔ آج بعض مخصوص مدارس اور مذہبی تعلیمی ادارے اسی رجحان کو فروغ دینے کی نرسریاں ثابت ہو رہے ہیں۔ اسلام کے ابتدائی زمانہ میں علمی اختلافات کبھی بھی جھگڑوں اور طویل المیعاد conflicts میں نہیں بدلے تھے۔ اسلام کی روح میں مشاورت و جمہوریت کار فرما ہے، وہ تمام انسانوں سے مساوات اور برابری کی سطح پر مخاطب ہوتا ہے۔ آقائیت اور پایائیت کا تصور اسلامی تعلیمات سے ہم آہنگ نہیں۔ مزید برآں دعوتِ دین اور تبلیغ حق کا فریضہ ادا کرتے ہوئے شائستگی اور متانت کا دامن ہاتھ سے چھوڑنا یکسر روا نہیں۔ اسلام کی رواداری اور وسیع المشربی اس بات کی متقاضی ہے کہ مخالفین کے نقطہ نظر کو تحمل، خندہ پیشانی اور قوتِ برداشت سے سنا جائے اور کسی پر زبردستی اپنی بات نہ ٹھونسی جائے۔ لیکن آج صورت حالت اس کے بالکل برعکس ہے اور کسی کے معمولی سے معمولی اختلافِ رائے کو بھی برداشت نہیں کیا جاتا جس کی اسلام میں اجازت ہے۔
16۔ نزاعی مسائل کا متفقہ حل
اس وقت متنوع معاشی، سیاسی اور بین الاقوامی مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ ایسی صورت حال میں حکومت اور عوام کی انتہائی اہم مشترکہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ علماء دین کو قرآن و سنت کی توضیح و تشریح کی ذمہ داری سونپیں تاکہ وہ عصرِحاضر کے تقاضوں کے مطابق باہمی موافقت کے ساتھ مسلسل تحقیق کے ذریعے مسائل کا مثبت اور تسلی بخش جواب فراہم کرسکیں۔ اس کے لیے ایسے علماء کا انتخاب کیا جانا چاہیے جو اس تفویض کار کو سر انجام دینے کے قابل ہوں اور قرآن و سنت سے ماخوذ شریعہ پر مہارت رکھتے ہوں، جس کا استعمال جدید سائنسی علوم سے آگاہی کے بغیر ممکن نہیں۔ اختلافی اور نزاعی معاملات کا ایسا متفقہ حل قرآن و سنت کی روشنی میں مستعد کاوشوں کے ذریعے تلاش کیا جائے، جو بدلتے ہوئے تقاضوں سے مکمل ہم آہنگی رکھتا ہو۔
17۔ مستقل مصالحتی کمیشن کا قیام
مختلف مکاتب فکر کے علماء پر مشتمل ایک سپریم کونسل قائم کی جائے جو قانونی طور پر ہر قسم کی فرقہ واریت کی حوصلہ شکنی کرے۔ ایک ایسا ضابطہ اخلاق ترتیب دیا جائے جو اس بات کی ضمانت فراہم کرے کہ کوئی بھی ادارہ کسی دوسرے پر بلا واسطہ یا بالواسطہ طعن و تشنیع نہیں کرے گا، یہ کونسل باوقار اور مؤثر علماء پر مشتمل ہونی چاہیے۔ ان علماء کے ذریعے اس بات کی یقین دہانی کرائی جائے کہ کوئی بھی مبلغ، خطیب یا مصنف اس ضابطۂ اخلاق کی خلاف ورزی کرے گا تو وہ نہ صرف ان علماء کو جواب دہ ہوگا بلکہ اس کے خلاف اداراتی و تنظیمی سطح پر تعزیراتی کارروائی بھی عمل میں لائی جائے گی۔
حکومت کو چاہیے کہ دو مختلف مکاتب فکر کے درمیان پیدا ہونے والی نزاعی صورت حال میں ان تنازعات سے نبٹنے کے لیے سرکاری سطح پر مستقل بنیادوں پر ایک مصالحتی کمیٹی تشکیل دے۔ مسائل اور جھگڑے مقامی سطح پر باہمی ہم آہنگی کے ذریعے حل نہیں ہوسکتے، اس وجہ سے جھگڑے اور تنازعات بڑھتے بڑھتے بڑے پیمانے پر فرقہ واریت اور کشمکش کی صورت اختیار کرجاتے ہیں اور اس طرز کے مسلسل رو نما ہونے والے واقعات اتحاد کو کمزور کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ قرآن حکیم میں ارشاد ہوتا ہے:
وَاِذَا قِیْلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِلا قَالُوْٓا اِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُوْنَo اَلَآ اِنَّهُمْ هُمُ الْمُفْسِدُوْنَ وَلٰـکِنْ لاَّ یَشْعُرُوْنَo
’’اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد بپا نہ کرو، تو کہتے ہیں: ہم ہی تو اصلاح کرنے والے ہیں۔ آگاہ ہو جائو! یہی لوگ (حقیقت میں) فساد کرنے والے ہیں مگر انہیں (اس کا) احساس تک نہیں۔‘‘
(البقره، 2: 11-12)
مذکورہ بالا آیات میں ان لوگوں کی نشان دہی کی گئی ہے جنہوں نے قومی اتحاد سے اپنے منہ پھیر لیے ہیں اور بغاوت اور فتنہ و فساد کی راہ اختیار کرلی ہے۔ جب انہیں اس باغیانہ طرز عمل کو چھوڑنے کا کہا جاتا ہے تو یہ مٹھی بھر افراد کا گروہ خود کو مصلح کی صورت میں پیش کرتا ہے۔ جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ در اصل یہی لوگ معاشرے میں انتشار اور فتنہ و فساد پھیلانے کے ذمہ دار ہیں اور فرقہ وارانہ تخریبی سرگرمیاں بھی بلاشبہ فتنہ و فساد کے زمرے میں ہی آتی ہیں۔ اسے قرآن حکیم نے بہت بڑا جرم قرار دیا ہے کہ یہ فتنہ و فساد قتل سے بھی زیادہ سنگین جرم ہے۔
فرقہ وارانہ تخریبی سرگرمیوں کے ذریعے مسلم معاشرے کے اتحاد کو متزلزل کرنا درحقیقت زمین پر انتشار اور بدنظمی کو جنم دیتا ہے اور شریعت محمدی کی روشنی میں زمین پر انتشار اور فتنہ پروری جیسے قبیح جرائم کے لیے قطعاً کوئی استثنا یا معافی و رخصت نہیں ہے کیوں کہ ان کے جملہ اقدامات سراسر اسلام کے منافی ہوتے ہیں۔
منفی اور تخریبی سرگرمیوںکے خلاف مذہبی سطح پر مثالی پینل کوڈ کے نفاذ کی ضرورت ہے تا کہ اس قسم کی تخریبی سرگرمیوں کا ارتکاب کرنے والوں کو سخت سزا دے کر ان کا کلیتاََ خاتمہ کیا جا سکے۔ المختصر یہ کہ اس طرح کی انتہا پسندانہ اور فتنہ پرور کارروائیاں مذہب کے نام پر روا رکھی جاتی ہیں لیکن یہ واضح ہونا چاہیے کہ ان کے خلاف اٹھائے جانے والے تعزیراتی اقدامات سے کسی صورت بھی مذہب کا تقدس پامال نہیں ہوگا۔ کیوں کہ اسے کسی صورت بھی مذہبی سرگرمی تصور نہیں کیا جانا چاہیے بلکہ اسے مذہب اور عقیدے کے خلاف ایک منافقانہ سازش کے طور پر بیان ہونا چاہیے۔