8 مارچ کو دنیا بھر میں خواتین کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے ۔ہر سال مختلف ممالک اور ان کی حکومتیں خواتین کی ترقی و خوشحالی کیلئے بلند و بانگ دعوئوں کے ساتھ اہم قانون سازی اور پالیسی دینے کا اعلان کرتی ہیں مگر ہرگزرا ہوا سال خواتین کی مشکلات میں اضافے کے طور پر سامنے آتا ہے۔گھریلو تشدد ،دفتری Harassment سے لیکر عزت کے نام پر قتل ،سیاسی و معاشی استحصال کم ہونے کی بجائے اس میں اضافہ ہوتا ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں صورت حال نہایت ابتر ہے۔ پاکستان جسے اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا وہاں پر خواتین کی ترقی کے نعرے لگانے میں کوئی حکومت پیچھے نہیں رہی مگر عملاً خواتین کی بہتری کے حوالے سے پالیسی سازی اور عملدرآمد کا عمل انتہائی سست روی کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ خواتین کو آئینی، سیاسی کردار دینا ہو یا پالیسی سازی میں انہیں شامل کرنا ہو اور ملکی ترقیاتی عمل میں ان کی مشاورت لینا ہو تو حکمرانوں کے رویوں میں اور بیت اللہ محسود اور فضل اللہ کے رویے میں کوئی خاص فرق نظر نہیں آئے گا۔ ابھی حال ہی میں آٹھ سال کی تاخیر کے بعد جو بلدیاتی انتخابات ہوئے اس میں گزشتہ بلدیاتی نظام حکومت میں خواتین کو 33فیصد نمائندگی حاصل تھی جبکہ حالیہ جمہوری حکومتوں کی قانون سازی کے بعد یہ شرح 25فیصد سے بھی نیچے آگئی ہے۔ اسی طرح اسمبلیوں کے اندر بھی خواتین کی تعداد فکس ہے اور انہیں پالیسی سازی کے عمل سے دور رکھا جاتا ہے ۔ترقیاتی فنڈز کے معاملے میں خواتین پر مردوں کو ترجیح دی جاتی ہے اور پنجاب کابینہ میں بھی خواتین کی نمائندگی آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہے۔ خواتین کی ملازمتوں میں 10فیصد کوٹے کا اعلان کیا گیا مگر عملدرآمد کی نوبت نہیں آئی۔ اسی طرح 21ویں صدی میں بھی تمام تر awareness campaign کے باوجود خواتین کا عزت کے نام پر قتل ،کم عمری کی شادی اور انہیں جائیداد سے محروم رکھنے کی روش جاری ہے اور اس حوالے سے اسمبلیاں خواتین کے استحصال کی روک تھام میں اپنا موثر کردار ادا نہیں کر سکیں۔ اس کا نتیجہ خواتین کے استحصال میں روزبروز اضافے کی صورت میں سامنے آرہا ہے۔ خواتین کے استحصال کی مختلف شکلیں ہیں۔جن میں انہیں معاشی اور سیاسی دھارے سے الگ رکھنا ایک بدترین شکل ہے۔ خواتین کے خلاف جرائم میں بھی اضافہ کا رجحان ہے۔ سٹریٹ کرائم میں بھی سب سے زیادہ نشانہ خواتین بنتی ہیں اور انصاف کے حصول اور ایف آئی آر کے اندراج میں بھی ملکی قوانین اور تھانہ کلچر انہیں سپورٹ نہیں کرتا۔ یہاں پر اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ پنجاب جسے اپنی شرح خواندگی پر ناز ہے یہ صوبہ خواتین کے خلاف جرائم میں بھی سر فہرست ہے۔ گزشتہ 8 سال سے پنجاب اغواء برائے تاوان، ریپ، گینگ ریپ، تیزاب گردی اور گھریلو تشدد میں نمبر ون صوبہ ہے اور اس کے ساتھ ساتھ پنجاب میں خواتین میں خودکشی کا رجحان بھی بڑھ رہا ہے جو انتہائی تشویشناک ہے ۔یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پنجاب میں سب سے زیادہ احتجاجی مظاہرے ینگ لیڈی ڈاکٹرز، نرسز اور لیڈی ہیلتھ وزٹرز کے ہوئے ہیں۔ ان پڑھی لکھی خواتین کو یہ شکایت رہتی ہے کہ حکومت ان سے جو وعدے کرتی ہے انہیں پورا نہیں کرتی اور پھر پرامن احتجاج کے لیے جب وہ سڑکوں پرآئیں تو انہیں پولیس کے لاٹھی چارج اور جبر و تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
خواتین کے حقوق سے متعلق کام کرنے والی تنظیمیں اور اداروں کی ریسرچ بتاتی ہے دنیا میں 35فیصد خواتین ذہنی، جسمانی یا جنسی تشدد کا شکار ہیں۔ دنیا میں سالانہ 5 ہزار خواتین غیرت کے نام پر قتل کر دی جاتی ہیں۔ یہ بات باعث تشویش ہے کہ پاکستان کے 28 فیصد خواتین تشدد کا شکار ہیں۔ ایسی خواتین نہ صرف تشدد کے باعث احساس محرومی سے دوچار رہتی ہیں اور سیاسی، سماجی اور گھریلو زندگی میں بھی احساس کمتری میں مبتلا ہو کر عضو معطل بن کر رہ جاتی ہیں۔ پاکستان میں چاروں صوبوں میں بنیادی تعلیم کی فراہمی جو اول تا پنجم جماعت تک ہے میں سب سے زیادہ خواتین استحصال کا شکار ہیں۔ دیہات میں 68فیصد خواتین بنیادی تعلیم سے محروم رہتی ہیں جبکہ شہروں میں یہ شرح 50فیصد سے زائد ہے۔گھر کی دہلیز کے قریب ترین بچیوں کی تعلیم و تربیت کے سرکاری مراکز کے فقدان کے باعث بچیاں سستی تعلیم سے محروم رہ جاتی ہیں جبکہ آئین پاکستان کا آرٹیکل 25-A کہتا ہے کہ پانچ سے 16 سال کی عمر کے بچوں کو مفت اور لازمی تعلیم کی فراہمی ریاست کی ذمہ داری ہے۔ اس آرٹیکل کی منظوری کو 7واں سال جارہا ہے مگر ریاست اس آئینی ذمہ داری کو پوراکرنے میں ناکام ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ خواتین کے استحصال کی روک تھام، ان کی سیاسی، سماجی بہبود اور ترقی کے ضمن میں تعلیم بنیادی کردار ادا کرسکتی ہے جب تک حکومتیں تعلیمی فنڈز میں اضافہ نہیں کرینگی جسٹس سسٹم کی تنظیم نو نہیں کی جائیگی۔ استحصالی رویوں کی روک تھام کیلئے ادارہ جاتی اصلاحات بروئے کار نہیں آئیں گی اور خواتین کے آئینی، سیاسی کردارکو مضبوط اور مستحکم بنانے کیلئے انتخابی اصلاحات نہیں کی جائینگی تب تک ویمن ایمپاورمنٹ محض خواب رہے گی۔ وطن عزیز میں خواتین کے استحصال کے حوالے سے ایک رویہ Execution کا ہے یعنی کہ دنیا کو دکھانے کیلئے یا اپنا قانونی ٹریک ریکارڈ بہتر کرنے کیلئے قوانین تو بن جاتے ہیں مگر ان پر عمل درآمد نہیں ہوتا۔ جس کا نتیجہ بھی خواتین کے قانونی استحصال کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ اس کی مثال اس طرح بھی دی جا سکتی ہے کہ لاکھوں خواتین سالہا سال خانگی و عائلی امور میں فیملی کورٹس اور صوبہ کی مختلف عدالتوں سے رجوع کرتی ہیںمگر وہ طویل ترین قانونی پراسس کے باعث انصاف اور حق سے محروم رہتی ہیں۔حکومتیں اگر خواتین کو سیاسی، سماجی ،معاشی اعتبار سے باوقار بنانا چاہتی ہیں تو انہیں تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا جائے کیونکہ استحصال اور تشدد جہالت کی کوکھ سے جنم لیتا ہے۔