سب سے پہلے میں غزالہ حسن قادری کو مبارک باد دینا چاہوں گی اور اپنی طرف سے خاص شکریہ ادا کرنا چاہوں گی کہ انہوں نے اپنے Thesis کے لئے اتنے خوبصورت موضوع کو چنا اور ہمیں موقع ملا کہ ہم انتہائی اہم موضوع پر بات چیت کرسکیں۔ میں ایک عرصہ سے خواتین کے مسائل پر کام کررہی ہوں۔ فیملی لاء ایک بہت بڑی فیلڈ ہے۔ ہم خواتین اور بچوں پر کام کرتے ہیں۔ اس میں سب سے بڑا مسئلہ خواتین کا ہی آرہا ہے۔ مرد تو پیدائش کے ساتھ ہی طلاق کا حق لے کر پیدا ہوتا ہے لیکن طلاق کے بعد عورت کا کوئی حق نہیں رہتا۔ یہ ایک انتہائی افسوس ناک حقیقت ہے۔ اسلام نے شادی کے وقت عورت سے اس کی رضا مندی کو پوچھنا بھی لازم قرار دیا ہے جسے ہمارے معاشرے میں انتہائی برے طریقے سے نظر انداز کیا جاتا ہے۔ ایک طرف نان و نفقہ کا ذمہ دار مرد کو قرار دیا گیا ہے تو دوسری طرف عورت پر کسی طرح کے ظلم و ستم کی سختی سے ممانعت کردی گئی۔ شادی ایک ایسا متبرک تعلق ہے جس میں دونوں فریقین کو ایک دوسرے کے ساتھ پیار و اور محبت عزت و احترام کے ساتھ رہنے کا پابند بنایا جاتا ہے بلکہ اس کی کچھ حدود و قیود کا بھی احترام کرنا پڑتا ہے۔ اگر فریقین اس حدود و قیود کو قائم نہ رکھ سکیں تو انہیں اپنے اپنے فرقے اور ملکی قوانین کے مطابق الگ ہونے کا اختیار ہے۔
1939 کا ایکٹ جو آج بھی ہمارے وطن عزیز میں رائج ہے آج بھی عورت اگر طلاق کے لئے عدالت میں جانا چاہے تو اسی قانون کے تحت عدالت سے رجوع کرسکتی ہے۔ اس قانون میں کچھ وجوہات بتادی گئی ہیں جن کو اگر خاتون عدالت میں ثابت کردے تو پھر عدالت خلع کی ڈگری عورت کے حق میں دے دیتی ہے۔ ان میں سے چند ایک کو آپ کے ساتھ شیئر کرنا چاہوں گی مثلاً ایک عورت کا شوہر گھر سے عرصہ 4 سال تک غائب رہے۔ خاتون سے اس کا کوئی رابطہ نہ رہے اور کسی کو اس کا کوئی علم نہیں۔ اس صورت میں عورت اس وجہ سے بھی طلاق لے سکتی ہے۔ دوسری وجہ اگر شوہر 2 سال تک خرچہ فراہم نہیں کرتا۔ اس پر بھی عورت طلاق لے سکتی ہے۔ اگر شوہر کو کسی بھی عدالت سے 7 سال کی قید ہوجائے۔ اس پر عورت عدالت میں جاکر طلاق لے سکتی ہے۔ اگر 2 سال کے عرصہ میں In seen رہے۔ ذہنی توازن کھوبیٹھے تو اس صورت میں عورت عدالت میں جاکر طلاق لے سکتی ہے۔
ایک بہت اہم وجہ جو اکثر خواتین کو معلوم نہیں ہوتی۔ ہمارے Muslim Law آرڈیننس کے تحت ہماری شریعت اجازت دیتی ہے مرد کو چار شادیوں کی لیکن قانون نے اس پر قدغن لگائی ہے کہ وہ اپنی پہلی بیوی یا بیویوں سے بذریعہ یونین کونسل اجازت حاصل کرے۔ اگر وہ اجازت کے بغیر دوسری شادی کرلیتا ہے تو اس گرائونڈ پر بھی عورت عدالت سے طلاق کی ڈگری لے سکتی ہے۔ ایک اور وجہ کم عمری کی شادی کا رواج بھی ہمارے خطے میں ہے۔ اگر 16 سال کی چھوٹی بچی کی اس کے والدین یا سرپرست شادی کردیتے ہیں تو بچی اس بنیاد پر طلاق لے سکتی ہے کہ میری کم عمری میں شادی کردی گئی جبکہ اب میں بالغ ہوگئی ہوں اور اب میں یہ شادی قائم نہیں رکھنا چاہتی۔
اس کے علاوہ بڑی اہم گرائونڈ یہ بھی ہے کہ اگر شوہر ظلم کرتا ہو اور ظلم کی تعریف بھی قانون نے بہت وسیع کردی ہے۔ اس ظلم میں مار پیٹ تھپڑ مارنا، ڈنڈے مارنا یہ تو بظاہر نظر آتا ہے لیکن اگر وہ طعن و تشنیع کرتا ہے۔ اگر وہ ذہنی اذیت دیتا ہے تو وہ بھی اسی ظلم کے درجے میں آتا ہے۔ اسی طرح اگر وہ بری عورتوں سے میل میلاپ رکھتا ہو۔ عورت کو غیر اخلاقی زندگی گزارنے پر مجبور کرے یا مذہب پر عمل کرنے کی اجازت نہ دے۔ عورت کی جائیداد کو ضائع کر ڈالے یا اپنے استعمال میں لے آئے یا عورت کو اس کی جائیداد پر اس کا حق استعمال نہ کرنے دے۔ اگر عورت کا اپنا مکان ہے اور اس کا کرایہ خود لینا چاہتی ہے۔ وہ نہ لینے دے اور خود رکھے۔ یہ ساری باتیں ظلم کی تعریف میں آئیں گی۔ یہ باتیں بھی عورت ثابت کرکے طلاق کی ڈگری لے سکتی ہے۔ یہ وہ وجوہات ہے جن کو عورت عدالت میں اپنے گواہوں کے ذریعے ثابت کرے گی۔ عدالت ان وجوہات کا ثبوت لینے کے بعد طلاق کا کیس ڈگری کردے گی۔ اس صورت میں وہ اپنے مہر کی رقم کی پوری حقدار ہوگی۔
اس سارے عمل میں بہت لمبا عرصہ لگتا ہے گو کہ قانون نے 6 ماہ کا عرصہ دیا ہے۔ اس طرح Dissolution کا کوئی بھی کیس ہوگا اس کا 6 مہینے میں فیصلہ کرنا ضروری ہوگا لیکن جب شہادتوں پر کیس چلا جاتا ہے تو اس میں بہت ٹائم لگتا ہے۔ ہم وکلاء وقت بچانے کے لئے عورت کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ خلع کی گرائونڈ لے سکتی ہیں اور خلع کی بنیاد میں عدالت میں جاسکتی ہیں۔
2002ء سے پہلے خلع لینا بھی کوئی آسان کام نہیں تھا۔ خلع بھی طلاق ہی کی ایک قسم ہے۔ جس طرح مرد عورت کو طلاق دے سکتا ہے اس طرح عورت مرد سے طلاق لے سکتی ہے۔ لیکن فرق کیا ہے کہ طلاق کا حق جو مرد کے پاس ہے وہ انتہائی مطلق بااختیار اور بغیر کسی شرط اور قدغن کے ہے۔ وہ ایک مطلق اختیار ہے۔ وہ جب چاہے اس کو استعمال کرسکتا اور اپنی بیوی کو فارغ کرسکتا ہے۔ اس کے مقابلہ میں عورت کے پاس خلع کا حق ہے۔ خلع کے حق کے لئے اس کو عدالت سے رجوع کرنا پڑتا ہے۔ 2002ء سے پہلے اس کو اپنی نفرت، ناپسندیدگی اور نہ رہنے کی وجہ عدالت کو بتانا پڑتی تھی اور عدالت کو مطمئن کرنا پڑتا تھا۔ اگر بیوی کے گواہوں سے عدالت مطمئن ہے اور اس نتیجے پر پہنچتی ہے کہ اس کو اپنے شوہر سے ٹھیک نفرت ہے اور یہ دونوں اللہ کے قائم کردہ حدود میں نہیں رہ سکتے۔ پہلے عدالت سال دو سال کیس چلانے کے بعد عورت کے حق میں فیصلہ کرتی تھی۔ جس کے لئے بہت مسائل کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔
2002ء میں ایک ترمیم آئی۔ پہلے قانون میں خلع کے لئے یہ تھا کہ جو فائدہ عورت نے اٹھایا تھا وہ سارے کے سارا واپس کرنا پڑتا تھا مثلاً پلاٹ وغیرہ۔ اس طرح عورت کے خلع لینا ایک عذاب بن جاتا تھا اور عورت خلع کے لئے اس لئے نہیں جاتی تھی کہ میں اس کو کیسے واپس کروں گی۔ 2002ء کی ترمیم میں حق مہر کی حد تک پابند کردیا گیا۔ اگر شوہر نے ادا کیا ہے تو واپس کرنا پڑے گا اگر نہیں دیا تو معاف کردے گی اور حق مہر شوہر سے وصول نہیں کرے گی۔ ہمارے لاء میں خلع کا لفظ ہی نہیں آیا۔
پھر Family Court act میں ترمیم کی گئی اس میں کہا گیا کہ اگر میاں بیوی میں صلح نہیں ہوتی تو کورٹ خلع کے کیس کو فوری ڈگری کردے گی۔ اس وقت خلع کا لفظ استعمال ہوا اور اگر عورت خلع کے لئے جاتی ہے تووہ صرف حق مہر دے گی۔ علاوہ ازیں بری کے زیورات یا پلاٹ دیا تو اس کو واپس کرنے کی پابند نہیں۔ یہ تھوڑی سی کمی آئی عورت کے مسائل میں، 2015ء میں ایک اور ترمیم آئی ہے جس میں اور تھوڑی سی آسانی پیدا ہوگئی ہے۔ جب خاتون کیس فائل کرتی ہے فیملی کورٹ کو تو اس کے شوہر کو نوٹس جاتا ہے۔ اس کے بعد شوہر کی طرف سے جواب دعویٰ آتا ہے۔ اس جواب دعویٰ کے بعد عدالت ایک تاریخ مقرر کرتی ہے جس کو ابتدائی مصالحت کہتے ہیں۔ اس مصالحت کی تاریخ پر میاں بیوی کو بلایا جاتا ہے۔ عدالت ان کو موقع دیتی ہے کہ اگر جذبات میں آکر اور غصے میں یا کسی غلط فہمی کی بنیاد پر کیس فائل ہوگیا ہے تو وہ مصالحت کرلیں اور کیس ختم ہوجائے۔ لیکن اگر شوہر یا خاتون دونوں میں سے کوئی ایک کہتا ہے کہ میں نے اب آباد نہیں ہونا۔ میرا پکا فیصلہ ہے بس اس سے علیحدہ ہی ہونا ہے تو اب قانون کے لئے لازم ہے کہ اس وقت خلع کا کیس عورت کے حق میں کردے۔
حق مہر کی دو قسمیں ہوتی ہیں جو فوراً دعویٰ کرے اس کو دینا پڑتا ہے۔ شوہر پابند ہے کہ اس کو دے۔ اگر عورت کا شوہر فوت ہوجائے یا شوہر طلاق دے پھر وہ لینے کی پابند ہے عورت دعویٰ کرسکتی ہے۔ 2015ء کی ترمیم آئی ہے اگر وہ فوری طلب کرنے والا حق مہر ہے تو پھر خاتون 25% چھوڑے گی۔ باقی 75 فیصد لینے کی حقدار ہے پورا نہیں چھوڑے گی وہ خلع بھی لے گی اور خلع کی صورت 50% چھوڑیں گی۔ جس سے حالات کافی بہتر ہونے کے چانسز ہیں۔
یہ ہمارے مذہب نے ہمیں حق دیا ہے۔ یہ Awareness کرنے کی بات ہے جو ہم چھپاتے پھر رہے ہیں۔ اگر آپ اسلام کے پس منظر میں بات کریں وہ عورتوں کے لئے زیادہ موافق ہے۔
جسٹس ناصرہ جاوید اقبال
خلع کا اختیار ہمارے سپریم کورٹ نے 1967ء میں دیا تھا۔ خورشید بی بی ولد بابو محمد امین کا کیس ہے جس میں پانچ ججز نے فیصلہ کیا Page97 سپریم کورٹ۔ اگر کوئی عورت ان حدود کے ساتھ رہنا ممکن نہ سمجھے جو اللہ تعالیٰ نے مقرر کی ہیں تو وہ خلع لے سکتی ہے۔ اس کا حوالہ دیا مغیث سے شادی ہوئی تھی بریدہ کی اور بریدہ نے درخواست کی آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا آپ اس کے ساتھ رہنے کی کوشش کریں۔ تو اس نے پوچھا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! یہ آپ کا مشورہ ہے یا آپ کا حکم ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں حکم اس معاملے میں دے ہی نہیں سکتا۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں حکم نہیں دے سکتا تو کسی قاضی کو اجازت نہیں کہ وہ کسی عورت کو کہے جائو اپنے گھر میں بسو۔ اس کی بنیاد پر ہمارا قانون 2002ء اور 2015ء ہے۔ یہ اختیار اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں دیا ہے۔ اگر عورت نہیں رہ سکتی تو اپنے آپکو شادی کے بندھن سے علیحدہ کرسکتی ہے۔ 25% دینا اس لئے ہے کہ اگر کسی عورت کو کسی آدمی کے گھر جانا ہے تو وہ اس کے گھر میں جو بھی کرتی ہے اس کی بھی کوئی قیمت ہوتی ہے۔ وہ اس کی کوئی Slave تو نہیں ہے۔ اس بات کو بھی سوچنا چاہئے کہ وہ اس کے گھر میں کتنا عرصہ رہی۔ 25% چھوڑ سکتی ہے۔ باقی اس کے پاس رہے گا۔ ابھی اس کو حق مہر نہ ملا تو 50% وہ لے سکے گی 50% چھوڑ دے گی اور یہ بہت اچھا ہے جو آئین اور قانون میں تبدیلی آئی ہے یہ عورتوں کا حق تھا۔
یہاں بات خلع کی ہے خلع کے بارے ہمارا قانون فیملی لاء ایکٹ کہتا ہے ابتدائی مصالحت کے لئے شوہر کو نوٹس دیں گے۔ 8 دن کے اندر نوٹس دیتے ہیں پندرہ دن کے اندر اس کو آنا ہے۔ مصالحت میں کہتے ہیں بیوی کو کہ تم اس کے ساتھ صلح کرنا چاہتی ہو۔ صلح کرلو۔ اگر ابتدائی مصلحت میں وہ فیل ہوجائے۔ ہمارا قانون کہتا ہے قاضی پر لازم ہے کہ فوری طور پر ایک پل کا وقفہ کئے بغیر طلاق دے دے۔ جو جرمانہ ہے۔ عورت کو 25% یا 50% اس کے علاوہ اس سے کچھ نہیں لیا جاسکتا۔ اگر اس نے موجل حق مہر دے دیا ہوا ہے۔ یہ ثابت کرنا مرد کا کام ہے کہ بیوی نے لے لیا ہوا ہے۔ اس کی کوئی لکھت پڑھت ہے یا نہیں۔ اگر وہ ثابت نہیں کرسکتا تو اس کو کچھ بھی نہیں دینا۔
یہ صورتیں ہیں خلع اس پر ہمارا قانون بالکل واضح ہے۔ ہر ایک عورت کو پتہ ہونا چاہئے اور بتا بھی دینا چاہئے۔ ہمارا قانون عورت کو خلع کا حق دیتا ہے۔ جس طرح مرد کو حق ہے طلاقوں کا۔ یہ وہ یونین کونسل کو لکھ دے اور یونین کونسل کو لکھنا ضروری ہے اس کے بغیر طلاق نہیں ہوتی۔ اگر وہ سمجھے 3 طلاقیں دے اور دھکے دے کر باہر نکال دیا ویسے بھی اس طرح کی طلاق اسلام میں بڑی سختی سے منع ہے۔ جب تک مرد کے پاس طلاق کا سرٹیفیکیٹ نہ ہو اس پر لازمی ہے کہ وہ بیوی کو خرچہ دے اور 2 سال اگر میاں خرچ نہ دے تو بیوی طلاق لے سکتی۔ وہ کہہ دیتا ہے کہ میں دبئی میں تھا اور Money Order ماں باپ کو بھجواتا تھا۔ ماں باپ بیوی نہیں ہے۔ بیوی کے ساتھ شوہر کا Contract الگ ہے۔ ماں باپ تو رکھ لیتے ہیں اور بیوی کو گھر میں غلام کی طرح Treat کرتے ہیں۔ اتنا زیادہ واضح ہوگیا ہے ہمارا قانون کہ عورت کو بہت آسانی ہے۔ کوئی عورت طلاق نہیں لیتی جب تک امر مجبوری نہ ہو۔ لہذا خلع کا یہ حق ہمیں ہمارے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیا ہے اور یہ قرآن مجید میں ہے توہم ان باتوں کو کیوں جھٹلائیں؟
Brig (Retd) Iqbal Ahmed
Dr. Ghazala Hassan Qadri, Distinguished guests, Ladies and gentlemen. It is my privilege this evening to welcome you all to this important gathering for eulogizing the courageous stance of Dr. Ghazala in picking up a topic so intrinsic to the fabric of every Muslim family. The topic selected for the thesis work is the grant of the provision of Khula to the Muslim Women in Pakistan. This provision of exercising the right to khula by Muslim women has been misused and misinterpreted by the ignorant Mullah denying them the very right ordained to them by the Lord and the Prophet PBUH. Interpreting this provision according to male dominated vims and wishes it has been made anathema even to mention it for the very reason of avoiding the societal backlash and ill-repute brought upon the family.
Dr. Ghazala Hassan Qadri, has very ably selected this sensitive theme expounding upon the various aspects of neglect this law is suffering from. I am certain that in times to come, benefitting from this study, the fog of uncertainty, ignorance and constricted thinking will lift paving way for a pragmatic adoption of the law in favour of the Muslim women all over. The need for an expose on this difficult but all important topic existed since long. But for its difficult nature and the inherent societal resistance it is expected to receive from the male dominated society only a courageous person basking in the intellectual glow of Syakh ul Islam could grapple with this theme. She has done justice to the work and i can see the steaks of enlightenment from Syakh ul Islam radiating from the study.
I on my own and on behalf of the audience congratulate Dr. Ghazala for the successful competition of the Coctoral Undertaking acquitting herself with flying colours. Let us not forget that she is a mother, a wife and a Daughter in Law also advisor to HSI, and had to concurrently discharge her duties towards all these spheres. An Erudite Law Student she picked up the right theme and has done full justice to it. The study will find its way to release many from the oppression that they have been suffering purely for having been ignorant about their matrimonial rights. The enlightenment, I hope will transcend the bounds and borders and will reach where ever a Muslim woman is being kept away from her fundamental right bestowed upon her by the Creator Lord and The Messanger of Allah PBUH.
I once again thank you the distinguished guest, ladies and gentlemen for having joined us on this auspicious occasion.
خرم نواز گنڈاپور
محترم ڈاکٹر غزالہ حسن قادری کو مبارک باد دیتا ہوں۔ محترمہ غزالہ حسن قادری نے واقعی بہت عظیم کام کیا ہے۔ موضوع کے حوالے سے میں سمجھتا ہوں سب سے بڑی نالائقی والد کی اور اس کے ساتھ والدہ کی ہے جو عورت اپنی بیٹی کو بیاہ کے دے رہی ہوتی ہے خود اسی مرحلے سے گزری ہوتی ہے۔ وہ بھول جاتی ہے میں جس مرحلہ سے گزری ہوں کل میری بیٹی نے بھی اسی مرحلہ سے گزرنا ہے۔ ہمارے ہاں شادی کے معاملات میں تربیت کی بہت کمی ہے۔ آپ نے بہت broad subject کو Cover کیا ہے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے آئین کے سیکشن 62,63 کی جتنی وضاحت کردی ہے اور پورے پاکستان کو سمجھا دیا ہے۔ اب آگے جنہوں نے عمل کروانا ہے وہ ارباب اختیار ہیں۔ یہ ان قوموں کی خوش قسمتی ہے جن کے ارباب اختیار نے ایسا معاشرہ تشکیل دیا جن میں انسان (human) کو پہلے رکھا گیا اور ارباب اختیار کو بعد میں رکھا گیا۔
اسلام نے تو ایک بلند مقام ایک عورت کو دیا۔ اس زمانہ جہالت میں جب پورا مغرب ابھی غاروں میں رہتا تھا لیکن ہم نے 70 سالوں میں اسلامی معاشرہ تشکیل دینے کی کوشش ہی نہیں کی۔ ارباب اختیار نے جہالت کو encouage کیا۔ جب انگریز آیا اس نےSystemtically اسلامک ٹیچر کو بے عزت کیا۔ ہمارا دوہرا مسئلہ ہے ایک یہ کہ ہمیں معلوم نہیں کیا ہمارے حقوق ہیں۔ دودسرا یہ کہ باپ کو چاہئے بیٹی کو بٹھائے اور اس کو بتائے کہ یہ یہ مسائل ہوتے ہیں۔ اگر ایسا نہیں کرتے تو بہت سے مسائل جنم لیتے ہیں۔ ہمارے معاشرہ میں کہا جاتا ہے اگر عورت کو طلاق کا حق (right of divorce) دے دیا جاتا ہے ’’لڑکیاں ہاتھ سے نکل جاتی ہیں‘‘ لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ اگر آپ نے اپنے بچوں کو اچھی تربیت کی ہوئی ہے وہ ایسا کبھی نہیں کرتیں۔ ہوسکتا ہے صرف 1 یا 2فیصد ہو۔ باقی اکثریت حالات سے تنگ آکر خلع لیتی ہے۔ میں آخر میں سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ میرا خیال ہے منہاج کالج میں نکاح و طلاق کے مسائل ضرور پڑھانے چاہئیں اور طلبہ کو نکاح نامہ پڑھانا چاہئے۔
بی بی صغراں
سب سے پہلے تو ہمارے لیے بڑے فخر کی بات ہے کہ یہ Thesis نہ صرف ایک خاتون کی کاوش ہے بلکہ وہ خاتون ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی بہو ہیں۔ آج کے پرفتن دور میں مذہبی گھرانوں کی خواتین کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی مگر کوشش اس سوچ کو غلط ثابت کرے گی ۔
آج کی ماڈرن خاتون جو اسلام کو Practice کرنا اپنے لیے معیوب سمجھتی ہے اور اس کا خیال ہے کہ اسلام اس کے بنیادی حقوق اور آزادی کی نمائندگی نہیں کرتا ۔اس خاتون کو اعتماد ملے گا اور وہ اس کو Accept کرے گی۔ اسلام کو پڑھنے کا سوچے گی اس مقالہ سے خلع کا رائٹ واضح ہو جائے گا جس سے اس کو کم از کم معیوب سمجھنے کی ریشو کم ہو گی ۔
وہ خا وند جو زبر دستی اپنی بیوی کو اپنے پا س رکھنا چا ہتا ہے اور طلا ق دے کر اس کو آزاد نہیں کر نا چا ہتا وہ کب یہ چا ہتا ہے کہ اس کو خلع کی اجا زت دے مگر اب خاوند کی اجازت کے بغیر خلع لینے سے عورت کیلئے بہت سا ری آسانیا ں پیدا ہوں گی۔
ڈاکٹر شاہدہ نعمانی
محترمہ غزالہ حسن قادری جہاں تحریک کا ایک عظیم ستون ہیں وہیں انہیں ہمارے محبوب قائد کی خدمت گزاری کا شرف بھی عطا ہوا ہے ۔اوروہ ہماری آئند ہ قیادت کی تربیت کی امین بھی ہیں۔ ان ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ اپنی تعلیم کی تکمیل ،ایک عظیم کارنامہ ہے جس پر انہیں دل کی اتھاہ گہرائیوں سے مبارک باد پیش کرتی ہوں۔ اس موقع پر قائد محترم کی شخصیت کے ایک پہلو پر بھی تبصرہ لازم ہے عموماً بڑی شخصیات برگد کا وہ درخت ہوتی ہیں جن کے نیچے دیگر پودے پنپ نہیں پاتے لیکن قائد محترم کی سرپرستی میں نہ صرف ان کاخاندان بلکہ تحریکی کارکنان نے اپنے صلاحتیوں کوضرب دے کر نقطہ کمال تک پہنچایا ہے خصوصاً خواتین کو تعلیمی ،تربیتی اور سماجی میدان میں نئی راہیں عطا کی ہیں خصوصاً غزالہ باجی کا موضوع ہذا بھی ہدیہ تبریک کا مستحق ہے۔ خلع جیسے موضوع پر تحقیقی مقالہ پاکستانی عورت کے سماجی مسائل کے حل میں معاون ثابت ہوگا۔ جب کسی عورت کے عائلی معاملات حد سے تجاوز کرتے ہیں تو وہ خلع کا دروازہ کھٹکٹھاتی ہے لیکن ہمارا عدالتی نظام ،کوٹ کچہری کے معاملات اور ماحول کی بناء پر اس کو تلخ ذہنی اور اعصابی مراحل سے گزرنا ہوتا ہے۔ محترمہ غزالہ باجی نے اپنے تحقیقی مقالہ میں جہاں قانونی اصطلاحات پر مواد پیش کیا ہے وہاںقانون کے حصول کی فراہمی کو آسان بنانے پر تجاویز بھی دی ہیں اگر ان مجوزہ اصلاحات کو حقوقِ نسواں کی تحریک کا حصہ بنایا جائے تو پاکستانی عورت کے استحکام کے لیے ایک مستحسن قدم ہو گا۔