اللہ کی مدد اور آزمائشوں کی حقیقت

سعدیہ کریم

اسکالر۔ مسز سعدیہ کریم

جنگ بدر کے بعد ایک طرف خود اہل مکہ کے دل مسلمانوں کے لیے انتقام کی آگ میں جل رہے تھے تو دوسری طرف مدینہ کے یہودی اور منافق اس آگ پر تیل ڈال کر مزید بھڑکانے میں سرگرم عمل تھے۔ ابوسفیان کی بیوی ہندہ جس کے بھائی اور باپ غزوہ بدر میں مارے گئے تھے۔ وہ الگ ابوسفیان کو جنگ پر اکسا رہی تھی تاکہ باپ اور بھائی کے قتل کا بدلہ لے سکے۔ آخر کار سن 3 ہجری میں ان تمام عوامل کے پیش نظر احد کا معرکہ پیش آیا۔

تمام اہل مکہ یعنی قریش اور عرب کے دیگر تمام قبائل جن میں تمام بنو کنانہ اور اہل تہامہ شامل تھے۔ سب قریش کے حلیف و ساتھی بن گئے۔ مکہ کے حبشی غلاموں کو بھی لشکر میں شامل کیا گیا۔ رجز پڑھنے والے مرد اور بہادری کے لیے اکسانے والی عورتیں بھی لشکر میں شامل ہوئیں۔ ایک سال کی تیاریوں کے بعد تین ہزار افراد اور جنگجوؤں پر مشتمل یہ قافلہ ماہ شوال کی ابتدا میں روانہ ہوا۔ شعراء، عورتیں اور غلام ان کے علاوہ تھے جن میں جبیر بن مطعم کا غلام وحشی بھی شامل تھا۔ وہ حربہ یعنی چھوٹا نیزہ چلانے کا ماہر تھا۔ اس کا نشانہ خطا نہیں ہوتا تھا۔ جبیر بن مطعم نے اسے کہا کہ اگر تو حمزہ (حضورﷺ کے چچا) کو قتل کرے گا تو میں تجھے آزاد کردوں گا اور ابوسفیان کی بیوی نے کہا کہ اگر حمزہ قتل ہوگیا تو میں اپنے سارے زیور تجھے انعام کے طور پر دے دوں گی۔ جب یہ لشکر مدینہ کے قریب پہنچا تو آپﷺ کو اس کی خبر ہوئی۔

حضورﷺ کا خواب اور صحابہ کرام سے مشاورت

لشکر کی خبر سن کر آپﷺ نے اپنے تمام صحابہ کو جمع کیا اور مشاورت کی کہ اب کیا حکمت عملی اختیار کی جائے۔ مدینہ میں رہ کر ان کا مقابلہ کیا جائے یا مدینہ سے باہر نکل کر یہ لڑائی لڑی جائے۔ کچھ صحابہ نے مدینہ میں رہ کر لڑنے کو ترجیح دی۔ حضورﷺ کا بھی یہی خیال تھا کیونکہ آپﷺ نے خواب میں دیکھا تھا کہ تلوار کی تھوڑی سی دھار گرگئی ہے جس کی تعبیر آپﷺ نے یہ نکالی کہ اس معرکہ میں مسلمانوں کو تھوڑا سا نقصان پہنچے گا۔ پھر آپﷺنے خواب میں دیکھا کہ آپﷺنے اپنا ہاتھ زرہ میں ڈال دیا ہے۔ زرہ کی تعبیر کو آپﷺ نے مدینہ سمجھا۔ اس وجہ سے بھی آپﷺ نے مدینہ میں رہ کر لڑنے والی تجویز کو پسند فرمایا لیکن اکثر صحابہ کرامؓ کی رائے اس سے مختلف تھی جن میں نوجوان زیادہ تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ لڑائی مدینہ سے باہر ہو۔ یہ مجلس مشاورت 12شوال جمعہ کے دن ہوئی۔ اس کے بعد نماز جمعہ ادا کی گئی۔ نماز کے بعد آپﷺ اپنے گھر تشریف لے کر گئے اور زرہ پہن کر مسلح ہوکر باہر نکلے اور تمام لوگوں کے ساتھ مل کر مدینہ سے باہر جنگ کرنے کا ارادہ کیا۔ مدینہ میں ایک نابینا صحابہ ام مکتوم کو نماز کی جماعت کے لیے مقرر کردیا گیا۔

منافقین کی علیحدگی

دو میل فاصلہ طے کرنے کے بعد تین سو منافقوں نے عبداللہ بن ابی کی قیادت میں لشکر سے علیحدگی اختیار کرلی کہ آپﷺ نے ہماری بات نہیں مانی۔ اس لیے ہم اس جنگ میں شریک نہیں ہوں گے۔ مسلمان صرف سات سو (700) رہ گئے تھے۔ ان میں سے بھی نوجوان عمر کے لڑکوں کو بھی حضورﷺ نے واپس بھیج دیا۔ باقی لشکر میدان احد میں پہنچ کر خیمہ زن ہوگیا۔ آپﷺ نے احدکی پہاڑی کو پس پشت رکھ کر اپنا مورچہ قائم کیا۔ اگلے دن آپ نے لشکر کی ترتیب مقرر فرمائی اور 50 تیر اندازوں کا دستہ عبداللہ بن جبیر کی قیادت میں پسِ پشت درے پر مقرر فرمادیا اور حکم دیا کہ میرا حکم ملنے تک اس جگہ کو نہ چھوڑا جائے کیونکہ آپﷺ اپنی نگاہ نبوت سے ملاحظہ فرماچکے تھے کہ کفار وہاں سے حملہ کرسکتے ہیں۔ اس لیے حفظ ماتقدم کے طورپر تیر انداز وہاں مقرر فرمادیئے۔

جنگ کا آغاز اور کفار کی شکست

لڑائی کا آغاز ہوا تمام صحابہ کرامؓ بشمول حضرت علیؓ، حضرت حمزہؓ، حضرت ابو دجانہؓ نے وہ مردانہ اور شجاعانہ جذبے دکھائے کہ کافروں کے حوصلے پست ہوگئے۔ حضرت حمزہؓ نے کافروں کے علمبردار کو قتل کردیا۔ اسی طرح یکے بعد دیگرے ان کے بارہ علمبردار شہید ہوگئے اور علم زمین پر گرگیا۔ حضرت حمزہؓ کو وحشی نے شہید کرکے ہندہ کو خبر دی تو اس نے حضرت حمزہؓ کی لاش کا مثلہ کیا اور کلیجہ چپا کر اُگل دیا جب کافروں کے لشکر کا علم گرا تو ان کے پاؤں اکھڑ گئے اور حوصلے پست ہوگئے اور انھوں نے اپنا سامان چھوڑ کر میدان جنگ سے بھاگنا شروع کردیا۔ ان کے شعراء اور عورتیں بھی میدان جنگ سے بھاگ رہی تھیں۔

حکم رسولﷺ کی خلاف ورزی اور اس کا انجام

مسلمانوں کو فتح کا یقین ہوگیا۔ انھوں نے کافروں کے پیچھے بھاگ گئی تھیں مارنے کا ارادہ کیا۔ درے پر موجود صحابہ کرامؓ بھی ان کے تعاقب درے کو چھوڑ کر نیچے اتر آئے۔ حضرت عبداللہ بن جبیرؓ نے انہیں سمجھایا کہ نہ جاؤ مکروہ نہ مانے یہ سمجھ کہ مسلمانوں کو فتح ہوچکی ہے اور اسی خوشی میں نے اپنی جگہ چھوڑ دی۔ جگہ خالی دیکھ کر کافروں نے پلٹ کر حملہ کردیا۔ حضرت عبداللہ بن جبیرؓ اور ان کے ساتھیوں کو شہید کردیا۔ بہت سے مسلمان شہید ہوگئے اور بہت سے مسلمان جن میں 65 اور 4 مہاجرین تھے شہید ہوگئے۔ نبی کریمﷺ کو بھی شدید زخم آئے لیکن صحابہ کرامؓ نے دیوانہ وار حضورﷺ کا دفاع کیا۔

اللہ کی مدد اور آزمائشوں کی حقیقت

غزوہ احد میں مسلمانوں کو جو مصائب اور تکلیفیں پیش آئیں وہ سزا نہیں تھی بلکہ ان کی آزمائش تھی اور بعد میں اللہ تعالیٰ نے انھیں معاف بھی فرمادیا تھا۔ غزوہ احد میں مسلمانوں کی شکست میں بہت سی حکمتیں تھیں۔ اس میں مسلمانوں کی سخت آزمائش تھی۔ اللہ تعالیٰ کھرے اور کھوٹے کو الگ الگ کرنا چاہتے تھے تاکہ منافقین کی اصلیت ظاہر ہوجائے۔

مسلمانوں کو متقین کا درجہ حاصل کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور استغفار کی اہمیت و ضرورت کو اجاگر کیا گیا کہ اگر خطا ہوجائے تو کثرت استغفار کرنی چاہئے۔ غزوہ احد کی شکست کی بنیادی وجہ نبی کریمﷺ کے حکم کی خلاف ورزی تھی۔ اس شکست کے ذریعے مسلمانوں کو اس بے ادبی کی حقیقت دکھائی گئی اور آئندہ کے لیے بے ادبی رسولﷺ سے سختی سے منع کردیا گیا اور بتادیا گیا کہ نبی کی نافرمانی قوم پر کتنی بھاری پڑتی ہے۔

اس شکست کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو خواب غفلت سے بیدار کیا اور حقوق رسولﷺ (ادب، محبت، اطاعت، اتباع اور نصرت دین) کو آخری حد تک پورا کرنے کی ترغیب دلائی اور واضح کردیا کہ جو کوئی نبی کریمﷺ کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی کرلے گا وہ ہمیشہ فاتح بن کر بھی ناکام ہی رہے گا اور کامیابی اس کو نصیب نہیں ہوسکے گی۔

اس غزوہ کے ذریعے مسلمانوں کی آزمائش کی گئی جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں فرمایا کہ

وَ لِیَبۡتَلِیَ اللّٰہُ مَا فِیۡ صُدُوۡرِکُمۡ

(آل عمران، 3: 154)

اس آیت مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ غزوہ احد میں مسلمانوں کو جو مصائب پہنچے وہ سزا نہیں تھی بلکہ آزمائش تھی اور اس آزمائش کا مقصد مومنین مخلصین اور منافقین کی پہچان کروانا تھا۔ بظاہر اس کی صورت سزا کی ہی تھی مگر یہ سزا مربیانہ اصلاح کے لیے تھی جس کا مقصد مسلمانوں کو ادب وا طاعت مصطفیﷺ کی مشق کروانا تھا۔ آیت کے آغاز میں ولیبتلی کے الفاظ اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ مصائب کے وقوع کا سبب ربانی حکمتیں تھیں جن میں اہم ترین حکمت لوگوں کو یہ باور کروانا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے تمام انبیاء کرامؑ اللہ کے نزدیک کتنے اہم اور محبوب ہیں اور اگر ان کی امت کے لوگ ان کی حکم عدولی کریں یا ان سے سرکشی و بے ادبی کا معاملہ کریں تو اللہ تعالیٰ کا عذاب ایسے لوگوں پر واجب ہوجاتا ہے کیونکہ نبی جس چیز کا حکم دیتے ہیں وہ منشائے الہٰی ہوتی ہے۔ غزوہ احد کے اس واقعے کے ذریعے مسلمانوں کے لیے نبی کریمﷺ کی اطاعت کو فرض کردیا گیا۔ مرشد و مربی کی صفات کا تذکرہ کرکے ان کے آگے سرتسلیم خم کرنے کا حکم دیا گیا۔

جب مسلمانوں نے نبی کریمﷺ سے حکم سے ذرا سا منہ موڑا تو اس کی سزا فوراً ظاہر کردی گئی اور فتح کو شکست میں تبدیل کردیا گیا۔ گویا انھیں یہ شعور دیا گیا کہ نبی کریمﷺ کی چھوٹی سے حکم عدولی بھی انہیں کتنے بڑے نقصان سے دو چار کرسکتی ہے۔ اس کے بعد نبی کریمﷺ کو خود انھیں معاف کرنے، اللہ تعالیٰ سے ان کے لیے استغفار طلب کرنے اور انھیں دوبارہ اپنا قرب عطا فرمانے کا حکم دیا گیا۔

مسلمانوں کو ہمیشہ صبرو استقامت ظاہر کرنے کا حکم دیا گیا اور اس کی حکمتیں اور معارف ان پر ظاہر کردیئے گئے۔ غزوہ احدکے نتائج و اثرات کے ذریعے مسلمانوں کو دینی و سیاسی عوامل کو سمجھنے کا موقع ملا۔ انھیں مشاورت کی اہمیت و ضرورت اور اسے اختیار کرنے سے متعلق رہنمائی ملی اور یہ سبق دیا گیا کہ نبی کریمﷺ کے ارشادات و فرمودات کو مان لینے میں ہی ان کی کامیابی و عظمت ہے۔