خدا کو کیوں مانیں،مذہب کو کیوں اپنائیں (حضرت بشر الحافی سے ملاقات)

خصوصی خطاب: شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

ترتیب و تدوین: ثناء وحید

اَوَ مَنْ كَانَ مَیْتًا فَاَحْیَیْنٰهُ وَ جَعَلْنَا لَهٗ نُوْرًا یَّمْشِیْ بِهٖ فِی النَّاسِ كَمَنْ مَّثَلُهٗ فِی الظُّلُمٰتِ لَیْسَ بِخَارِجٍ مِّنْهَا ؕ كَذٰلِكَ زُیِّنَ لِلْكٰفِرِیْنَ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ۝

(الانعام،6: 122)

’’ بھلا وہ شخص جو مردہ (یعنی ایمان سے محروم) تھا پھر ہم نے اسے (ہدایت کی بدولت) زندہ کیا اور ہم نے اس کے لیے (ایمان و معرفت کا) نور پیدا فرما دیا (اب) وہ اس کے ذریعے (بقیہ) لوگوں میں (بھی روشنی پھیلانے کے لیے) چلتا ہے اس شخص کی مانند ہو سکتا ہے جس کا حال یہ ہو کہ (وہ جہالت اور گمراہی کے) اندھیروں میں (اس طرح گھِرا) پڑا ہے کہ اس سے نکل ہی نہیں سکت۔ اسی طرح کافروں کے لیے ان کے وہ اعمال (ان کی نظروں میں) خوشنما دکھائے جاتے ہیں جو وہ انجام دیتے رہتے ہیں۔‘‘

اللہ رب العزت فرماتے ہیں بھلا وہ شخص جو مردہ ہے یعنی ایمان کی زندگی سے محروم ہے یا محروم تھا پھر ہم نے اسے ایمان اور ہدایت کی دولت کے ساتھ زندہ کر دی۔ اور ہم نے اس کے لیے معرفت کا نور پیدا کی۔ وہ مردہ تھا، حیات ایمانی سے محروم تھا یعنی اُس کا دل مردہ تھ۔ ہم نے اُسے ایمانی ہدایت سے نوازا اور اُس کا دل زندہ ہوگی۔ پھر ہم نے اُس کے دل کو اپنی معرفت کا نور عطا کی۔ اُس کا دل روشن ہوگیا اور ہماری معرفت کا نور لے کر وہ شخص بقیہ لوگوں میں چلتا پھرتا ہےتو دوسرے لوگوں میں بھی وہ نور پھیلاتا ہے اور اس نور کو تقسیم کرتا ہے۔ یہ مثال دے کر ارشاد فرمایا کہ بھلا ایسا شخص اُس شخص کے برابر ہو سکتا ہے کہ جس کا حال یہ ہو کہ وہ ابھی بھی جہالت اور گمراہی کے اندھیروں میں اس طرح گرا پڑا ہے کہ وہ اُس اندھیرے سے نکل ہی نہیں سکتا جو لوگ گمراہی اور جہالت کے اندھیروں میں گم ہیں اور خود گمراہی کے اندھیروں سے نکلنے کے قابل نہیں کیا ایسے لوگ اُن لوگوں کے برابر ہو سکتے ہیں جن کے دلوں کو ہم نے ایمان کی زندگی سے زندہ کر دیا تھا اور جن کے دلوں کو اپنی معرفت کے نور سے روشن کر دیا اور پھر وہ نور اور روشنی ان کی اپنی ذات تک نہ رہی بلکہ وہ نور لے کر وہ لوگ پورے جہاں میں پھرتے ہیں اور وہ نور بانٹتے ہیں اور لوگوں کے دلوں کے اندھیروں کو دور کرتے ہیں۔ ایک طرف یہ لوگ اور دوسری طرف وہ جو خود اندھیرے میں گھرے ہوئے ہیں۔ اور اس اندھیرے سے نکلنے کی طاقت اور صلاحیت اور استطاعت نہیں ہے تو بتایئے یہ دو طرح کے لوگ کیسے برابر ہو سکتے ہیں؟

اللہ رب العزت نے اس مثال کےذریعے بتایا کہ کافر الله کی معرفت سے محروم لوگ ہیں، اللہ کی طرف سے نور ایمان سے محروم لوگ ہیں۔ اپنے اُلٹے سیدھے اچھے برے اعمال اور کرتوتوں کو وہ اپنے لیے اچھا جانتے ہیں اور اپنی نظروں میں ان اعمال کو خوشنما دیکھتے ہیں اور یہ ہم اُن کو دکھاتے ہیں۔ اُن کے اپنے اعمال غلط سوچیں غلط فکر، غلط طرز عمل ہم اُن کو مزین کر کے دکھاتے ہیں اور وہ اس دھوکے اور مغالطے میں عمر بھر گمراہی میں رہتے ہیں۔ اللہ رب العزت نے درج بالا سورہ الانعام کی آیت نمبر 122 میں بڑی ہی خوبصورت بات ایک مثال کے ذریعے دو قسموں کے لوگوں کا موازنہ کر کے بتا دی۔

اس آیت کریمہ میں جن لوگوں کا ذکر ہے۔ وہ لوگ جن کے دلوں کو اللہ نے ایمان کے نور سے زندہ کیا ایماں کے ذریعے۔ پھر ان کے دلوں میں اپنی معرفت کا نور پیدا کیا اور پھر انہیں چشمہ نور بنایا اور انہیں امر دیا کہ وہ پوری دنیا میں میرے نور کو پھیلائیں اور جو لوگ اندھیروں میں گھرے ہوئے ہیں انہیں اندھیروں سے نکالیں۔ یعنی جو نور ہم نے ان کو دیا اس نور کو بانٹیں۔

یہ لوگ اور نور سے محروم اور اندھیروں میں بھٹکے ہوئے لوگ برابر نہیں ہوسکتے۔ ایسی ہی ایک ہستی جن کو اللہ نے نور عطا کیا ان کا تذکرہ کرتے ہیں جو اللہ کے نور کو لوگوں میں بانٹنا تھا اور کئی زمانوں تک اس کے بانٹے ہوئے نور سے لوگوں کے دل روشن ہوتے رہے۔ اس خطاب کے ذریعے آپ سب کو لے کر ایک ایسی ہی ہستی سے ملاقات کے لیے چلتا ہوں اور مل کر ہم سب ایک ملاقات کے لیے چلتے ہیں۔ اس ہستی سے ملاقات کرتے ہیں اور ان سے بات چیت کرتے ہیں۔ ان کا نام ہے حضرت بشر الحافی۔

اس خطاب میں چند بزرگ ہستیوں کی کتب کے توسط سے حضرت بشر الحافی سے ملاقات کرتے ہیں اور اس ملاقات کے لیے جن ہستیوں اور ان کی کتب نے میری مدد کی ان میں کتاب ’’طبقات الصوفیاء‘‘امام ابو نعیم الاصبحانی ہیں انہوں نے اپنی کتاب "حلیۃ الاولیاء" کے ذریعے،امام ابوالقاسم قشیری ہیں انہوں نے "الرسالہ القشیریہ" کے ذریعے، امام ابن الجوزی ہیں انہوں نے صفت الصفواء کے ذریعے، امام ذھبی ہیں انہوں نے "سیر الاعلام النبلاء" کے ذریعے کی اور ان سے اوپر حضور غوث پاک شیخ عبد القادر جیلانی نے غنیۃ الطالبین کے ذریعے، حضور سیدنا داتا گنج بخش الہجویری ہیں نے کشف المحجوب کے ذریعے اور امام یافعی ہیں انہوں نے "روض الریاحین" کے ذریعے اس ملاقات میں میری مدد کی۔ جب آپ کو یہ معلوم ہوگا کہ اس ملاقات کے مصادر کون ہیں تو اس ملاقات میں جو گفتگو ہوگی آپ کو اس کے مصادر مے مکمل آگہی ہوگی۔ آئیے ایک مثال سے اس بات کا آغاز کرتے ہیں۔ ایمان کی مثال ایک بیج کی طرح ہے جو دلوں کی زمین میں بویا جاتا ہے پھر وہ بیج خود بخود پودا نہیں بن جاتا، خود بخود درخت نہیں بنتا،خود بخود بغیر کسی محنت اور مشقت کے وہ پھل دار نہیں ہوتا اور وہ لوگوں کے لیے نفع مند نہیں ہوت۔ یہ سارے مرحلے بہت ساری اضافی اندرونی اور بیرونی کوششوں کے محتاج ہوتے ہیں۔

چلیے تصور میں زمین میں ایک درخت بوتے ہیں میں آپ کو اس تمثیل سے سمجھاتا ہوں۔ ایمان ایک پودے کی طرح ہے۔ پہلے یہ بیج کی طرح ہوتا ہے۔ ابتداء میں زمین کو آپ کھاد دیتے ہیں کیمیکل دیتے ہیں۔ اور پھر پانی دیتے ہیں۔ ایک کسان اور مالی اس کی دیکھ بھال کرتا ہے۔ پانی کھاد اور کیمیکلز مل کر اور پھر اوپر سے سورج کی تپش،روشنی اور ہوا ماحول سے یہ سب اجزاء مل کر اس بیج کو پلانٹ بناتے ہیں جو چھوٹا سا پودا اگاتے ہیں اور پودا اُوپر کی جانب بڑھتا ہے آگے سے آگے بڑھتا چلا جاتا ہے۔ آگے چلیں جب مالی دیکھ بھال کرتا ہے، کھاد اچھی ملتی ہے، آب و ہوا اچھی ملتی ہے۔ تو مالی اس پودے کو نقصان دہ چیزوں سے بچانے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ کیونکہ مٹی میں تو کیڑے بھی آتے ہیں اور ایسی چیزیں آتی ہیں جو اسے نقصان دیتی ہیں تو مالی جب پودے کی حفاظت کرتا ہے تو یہ پودا بڑھتا پڑھتا ایک درخت بن جاتا ہے۔

لہذا ایمان بھی بیچ کی طرح ہمارے دلوں میں آجاتا ہے۔ مزید سمجھنے کے لیے کسی بھی فصل کو تصور میں لائیں کہ ایک فصل ہے اور کسان اُسے کیڑوں سے بچانے کے لیے کسان اپنی فصل کو سپرے کرتے ہیں۔ مکمل حفاظت کرتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں وہ پودا فصل اور درخت میں بدلتا ہے۔ اور پھل دار درخت بنتا ہے اور پھر آپ اس کا پھل کھاتے ہیں۔ اب دیکھئے یہ وہی بیج ہے جس کو کھاد ملی،کیمیکل ملے، اچھی زمین ملی اور مالی نے اس کی خوب دیکھ بھال کی، پرورش کی اس کو بُری چیزوں سے محفوظ کیا اور پالتے پالتے نیتجہ یہ نکلا کہ یہ گندم کی فصل تھی اور یہ پک گئی مالی کا دل خوش ہوا اور کٹ کے آپ کے گھروں پر پہنچ گئی اور آپ کی خوراک بن گئی۔ درج بالا ساری شرائط پوری کرنے کے بعد یہ بیچ اس مقام پر پہنچا اور آخر کار فصل تیار ہو گئی۔

اور اگر اہم مذکورہ تمام شرائط نظر انداز کر دیں تو سمجھ لیں کہ آپ کا ایمان اس بیج کی مانند ہے جسے زمین میں بویا اور اسے اچھی کھاد نہیں ملی اچھی اُسے پانی نہیں ملا اور مسلسل ایک ترتیب کے ساتھ اپنے اپنے وقت پر مناسب دیکھ بھال نہیں ملی، آب و ہوا اچھی نہیں ملی، مالی نے دیکھ بھال نہیں کی،نقصان دہ چیزوں سے اُس کی حفاظت نہیں کی تو نتیجہ یہ ہوا کہ ایک عرصے کے بعد وہ بیج جل گی۔ اب آپ دیکھ رہے ہیں کہ یہ فصل کیسے تباہ ہوگئی۔ زمین تھی مگر ضروری چیزیں مہیا نہیں ہوئیں تو فصل جل گئی۔ سب کی سب جل گئی بارش نہیں ہوئی تب جل گئی کیڑے باہر سے لگ گئے تب بھی جل گئی۔ زمین میں کھاد نہیں ملی تب بھی جل گئی اور اگر سپرے نہیں کیا تب بھی جل گئی۔

بس اب سمجھ لیں یہ جو کھیتی ابھی آپ نے تصور کی ہے جو بیج سے پروان چڑھی ہے ہمارے دل کی کھیتی۔ آپ اور ہم مسلمان گھروں میں پیدا ہوئے اور ہم نے بچپن میں پیدا ہوتے ہی اذان سنی۔ مسجد کے ساتھ ہمارا تعلق جڑا نماز پڑھی ماں باپ نے دین سکھایا مسجد کے امام نے سکھایا علماء نے دین سکھایا اردگرد کے ماحول نے سکھایا اور ہم مسلمان بن گئے۔ ہم نے سمجھا چونکہ ہم مسلمان ہیں ایمان کا بیج تو ہمارے دل میں ہے ہی تو یہ خود بخود ایمان ایک پھل دار درخت بن جائے گ۔ اس مغالطے نے ہمیں برباد کر دی۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ بیچ جو ایمان کا ہمارے دلوں میں ہے یا عقیدت ہے یا مسلمان کے گھر میں پیدا ہوئے ہیں یا ماں باپ کی طرف سے میراث ملی ہے یا کوئی تعلق ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ خود بخود بڑھتے بڑھتے ہر چیز سے محفوظ بھی ہو جائے گا اور پھل دار درخت بن جائے گ۔ یہ نظام قدرت نہیں ہے۔ آپ کے اپنے ملک میں یا دنیا کے کسی ملک میں فصلیں اس طرح نہیں اُگتیں۔ درخت اس طرح اپنے آپ کبھی پھل دار نہیں ہوتے۔ اب یہ سمجھیے کہ ایمان کے بیج کو جو کھاد درکار ہے۔وہ کھاد کیا ہے؟ وہ کھاد اعمال صالحہ ہیں۔ نیکیاں ہیں نماز، روزہ، حج، زکوة، قرآن مجید کی تلاوت، قرآن کا فہم، قرآن کا تدبر، آقاعلیہ الصلاۃ السلام کی سنت، سنت کی متابعت، امر بالمعروف و نہی عن المنکر، برائی اور بھلائی کو سمجھنا اور دین کے احکام پر عمل کرنا یہ ساری کی ساری کھاد ہے جو اس بیچ کو پودے میں بدلتی، بڑھاتی، رفتہ رفتہ جوان کرتی اور درخت تک پہنچاتی ہے۔ پھر ان اعمال صالحہ میں پانی ملتا ہے۔ پانی اُس بیج اور درخت کو حیات دیتا ہے۔ قرآن مجید کا ارشاد ہے کہ زمین مردہ ہوتی ہے ہم بادلوں کو لاتے ہیں بادل بارش برساتے ہیں اور پانی کے ذریعے مردہ زمین کو زندہ کر دیتے ہیں۔ اب یہ وہی زمین ہے۔ ہمارے دلوں کی زمینیں بنجر ہو کر مردہ ہو چکی ہیں۔تو جو اردگرد بادل ہیں جو پانی دیتے ہیں اور آب و ہوا ہے یہ وہ ماحول ہے کہ آپ کی سنگت اور محبت کیسی ہے؟ اب سوال یہ ہے کہ ایمان کے بیج کی حفاظت کرنے کے لیے آپ کے اعمال کیسے ہیں؟ اعمال ایمان کے پروٹیکٹر ہیں اور ایمان کے پروموٹر ہیں اور اعمال کے ذریعے ایمان کی گروتھ ہوتی رہتی ہے۔

اگر اعمال صالحہ نہ ہوں تو ایمان کی صالحہ گروتھ رک جاتی ہے۔ لوگ اس معاملے پر فکر مند ہی نہیں ہوتے۔ لوگوں کا تصور یہ ہے کہ ہمیں احکام اور اعمال کی ضرورت نہیں ہے، دل مسلمان ہونا چاہیے بس باہر بھلے کفر ہوتا رہے۔ دل صاف ہونا چاہیئے،میں دل کا مسلمان ہوں، یہ ایسا کفریہ نظریہ داخل ہوگیا ہے ہماری زندگی میں گزشتہ نشستوں کے موضوعات کی بحث میں جو اُنہی باطل افکار و نظریات پر مبنی تھی میں سے ایک نظریہ یہ ہے دہریت کے نام پر نظریات قائم کیے ہوئے ہیں کہ بس پردہ دل کا ہونا چاہیے، طہارت دل کی ہونی چاہئیے، سچائی دل کی ہونی چاہئیے، ایمان مسلمان کے دل میں ہونا چاہیے، میں دل کا مسلمان ہوں۔ یاد رکھیں کہ یہ اللہ اور رسولﷺکے احکام کے خلاف بغاوت ہے۔ کوئی شخص جس کے ظاہر میں کفر ہے وہ دل کا مومن نہیں ہوسکت۔ جس کے ظاہر میں فسق و فجور ہے وہ دل کا صالح نہیں ہوسکت۔ جس کے ظاہر میں گندگی، غلاظت ہے جس نے اللہ کی مخالفت کی اور اللہ کے رسولﷺ کی مخالفت کی اس کا دل اور باطن کبھی پاکیزہ اور کبھی ستھرا نہیں ہو سکت۔ کسی کے دل میں صالحیت نیکی، پرہیز گاری اللہ کی محبوبیت اُگ ہی نہیں سکتی وہ فصل پک ہی نہیں سکتی جس کے ارد گرد کے ماحول میں کیڑے ہیں اور کوئی دکھ بھال نہیں۔

’’ بھلا وہ شخص جو مردہ (یعنی ایمان سے محروم) تھا پھر ہم نے اسے (ہدایت کی بدولت) زندہ کیا اور ہم نے اس کے لیے (ایمان و معرفت کا) نور پیدا فرما دیا (اب) وہ اس کے ذریعے (بقیہ) لوگوں میں (بھی روشنی پھیلانے کے لیے) چلتا ہے اس شخص کی مانند ہو سکتا ہے جس کا حال یہ ہو کہ (وہ جہالت اور گمراہی کے) اندھیروں میں (اس طرح گھِرا) پڑا ہے کہ اس سے نکل ہی نہیں سکت۔ اسی طرح کافروں کے لیے ان کے وہ اعمال (ان کی نظروں میں) خوشنما دکھائے جاتے ہیں جو وہ انجام دیتے رہتے ہیں۔‘‘

تقوی کیا ہے؟ تقویٰ وہ سپرے ہے جو سپرے کر کے فصلوں کو آپ نقصانات سے بچاتے ہیں۔ اردگرد کے حملوں سے بچاتے ہیں تو تب جا کے فصل آگے پروان چڑھتی ہے۔ تقوی اللہ رب العزت نے آپ کے اردگرد 24 گھنٹے ایک سپرے کی۔ ایک حفاظتی دیوار قائم کی ہے۔ اگر باہر کی وہ حفاظتی دیوار ہٹا دیں تو اندر بھلائی کی آرزو بھی ہو تو وہ آرزو گل سڑ جاتی ہے۔ یہ جو تصور ہے کہ ظاہر کو رد کر دینا غیر اہم سمجھنا اور سمجھنا کہ دل میں مسلمانیت ہے۔ دل میں صفائی ہے۔ اُس دل کی صفائی کا کوئی معنی نہیں۔

مثال کے طور پر اگر ایک کیلے کو لیں اور اس کا چھلکا اتاریں جو کہ اس کا ظاہر ہے۔ اب یہ اندر کیلا ہے۔ آپ نے یہ کیلا کھانا ہے۔ آپ کے منشا کی مطلب کی چیز اس کا اندر جو کھانا ہے۔ مگر اس کا ظاہر اس کی جلد اتار کے پھینک دیں اور اس کو دو دن رکھ دیں اپنے گھر میں جہاں چاہیں رکھ لیں فریج میں رکھ لیں باہر کاؤنٹر پر رکھ لیں۔ اب بتایئے کیا دو دن کے بعد کھائیں گے آپ اس کو؟ کیلا تو وہی ہے۔ اس کا چھلکا اتار کے رکھ دیں چند دن تو اندر تو اصل چیز ہے نا اگر نہیں کھاسکتے سوچیئے کہ یہ کیسے کہتے ہیں کہ بس اندر کی مسلمانیت ہونی چاہئیے۔ ظاہر کے بغیر باہر رکھا گیا کیلا اندر کی مسلمانیت کی مانند ہے تو بتایئے کیا ظاہر کے بغیر رہے گی آپ کی اندر کی مسلمانیت سلامت؟

آپ اُٹھا کے پھینک دیں گے۔ کہیں گے کہ یہ تو یہ گل سڑ گیا ہے۔ لہذا جیسے یہ پھل گل گیا ہے نا ظاہر کا چھلکا اتار دینے کے بعد وہ جو پروٹیکیٹر تھا گل گی۔ اسی طرح انسان کا من بھی گل جاتا ہے سڑ جاتا ہے۔ کھانے کے قابل نہیں رہت۔ اچھا یہ تو وہ پھل ہے جس کے اندر کے حصے کا فائدہ تھا مگر ظاہراً چھلکا اس کے باطن کی حفاظت کرتا تھا باہر کا چھلکا فائدہ مند نہیں تھا آپ کے کھانے کے کام نہیں آتا تھا اُس کے اندر کی افادیت کو برقرار رکھتا تھا۔

اب پھل کی دوسری قسم کی بات کرتے ہیں سیب کو ہم کھاتے ہیں۔ کیونکہ سیب کے چھلکے میں آئرن زیادہ ہوتا ہے تو لوگ دونوں طرح سے کھاتے ہیں چھلکے سمیت اور اس کے بغیر اور ہمارے پاکستان میں دیہاتوں کی زندگی میں پہلے رواج ہوتا تھا کہ چھلکے کو چاقو سے اتار دیتے تھے۔ خالی اندر کا سیب نکال کے چھلکے کے بغیر دیتے تھے۔ اس طرح بھی کھاتے ہیں۔ مگر اس کے اندر آئرن زیادہ ہوتا ہے۔ اس کا ظاہر (چھلکا) اس سے ایسا جڑا ہوا ہے کہ اس نے حفاظت بھی کر رکھی ہے اور خود اس کے اندر افادیت بھی ہے۔ ایسی افادیت بھی ہیں جو اندر والے گودے میں اتنی نہیں ہیں۔ اب آپ اس کو بھی کاٹ دیں تو اندر سے سیب نکل آئے گا ظاہر (چھلکا) اتار دیا تو اب اس کو رکھ لیں دو تین دن تو کیا اُس کے بعد کھائیں گے آپ اس کو؟ میں تو صرف آپ کو مثالیں دے رہا ہوں حالانکہ سیب کا ظاہر کیلے کے ظاہر سے مختلف ہے۔ کیلے کا ظاہر صرف حفاظت کے لیے تھا اور سیب کا خود کھانے کے لیے ہے، آئرن دیتا ہے۔ یہ خود غذائیت ہے مگر اس کو اُتار دیں تب بھی آپ سیب نہیں کھاتے۔ تو بات یہ ہے کہ ظاہر اتار کے اندر کا جو باطن ہے آپ اس کو خود نہیں کھاتے کیونکہ وہ گل جاتا ہے،براؤن کلر کا ہوجاتا ہے، آپ پھینک دیتے ہیں۔ ایسا کیوں کرتے ہیں؟ اگر انڈے کا اوپر کا چھلکا اُتار کے پھینک دیں اور جو کچھ اندر ہے اُس کو رکھ دیں پلیٹ میں ایک دو دن رکھ دیں۔ کوئی کھائے گا؟ نہیں کھائے گا کوئی بھی۔

اگر کینو (مالٹا) کی مثال لیں تو اس کا چھلکا اس کا ظاہر ہے چھلکے کو اتار دیں تو اس کا اندر اورینج، مالٹا نکل آیا ہے اس کو رکھ دیں کئی دن تک تو کیا کھائیں گے آپ؟ جواب نفی میں ہے۔ باطن کی حفاظت اس کے ظاہر سے ہوتی ہے۔ باطن کی افادیت ظاہر کے ساتھ رہتی ہے۔ مختلف پھلوں کو دیکھیں تو پھل کئی قسموں کے ہیں۔ کچھ کے ظاہر میں فرائض ہیں،کچھ کےواجبات ہیں کچھ کے سنن ہیں۔ کچھ کے نوافل ہیں کچھ مستحبات ہیں۔ ظاہر کے مختلف درجے ہیں۔اگر مثال کے طور پر کھجور کو دیکھیں تو اس کا سارا کچھ یعنی افادیت ظاہر میں ہے۔ اس کے گودے کو اتارتے چلے جائیں اینڈ پر نیچے گھٹلی رہ جائے گی۔ جو اس کا اندر ہے اس کے باطن میں وہ گھٹلی ہے۔ گھٹلی آپ کھانے کو ہی تیار نہیں ہیں اس کو پھینک دیتے ہیں۔ تو کھاتے بس وہ کچھ ہیں جو گھٹلی کے باہر ہے سار۔ اب یقیناً آپ کو ظاہر اور باطن کا آپس کا ربط اور ان کا تعلق بہت اچھے سے سمجھ آگیا ہوگا۔

اگر انگور کی مثال لیں تو انگور کے ظاہر اور باطن میں فرق ہی نہیں ہے؟ آپ اسے سارا کھاتے ہیں۔ اس کے اندر بیج ہی نہیں ہے۔ اس کا ظاہر بھی وہی ہے اور باطن بھی وہی ہے کوئی تفریق ہی نہیں ہے۔ یعنی اللہ رب العزت نے ان کے ظاہر اور باطن کو مکس کر کے ایک بنا دی۔ آپس میں جوڑ دیا ہے اور اگر بیچ والا انگور ہو تو وہ اتنا سا ہے۔ وہ آپ پھینک دیتے ہیں اور سارا ظاہر ہی کھاتے ہیں اور اینڈ پر جو بیج آتا ہے اُس کو پھینک دیتے ہیں۔ لہذا دو قسموں کے لوگ ہیں۔ باطن کو پھینک دیتے ہیں اور سارا ظاہر کھا لیتے ہیں۔ یا اگر انگور بیچ کے بغیر ہے تو سارا باطن اور ظاہر جو ایک ہی ہے کھالیتے ہیں۔ یہ میں نے چند ایک مثالیں آپ کو سمجھانے کی غرض سے پیش کی ہیں۔

سمجھانا مقصود یہ تھا کہ جو لوگ ہمیں دین کی راہ سے ہٹانا چاہتے ہیں، ہٹا رہے ہیں۔ اور کفر کے کلچر کی طرفلے جارہے ہیں جو کلچر ہمیں اللہ کے وجود کے انکار پر لے آیا ہے اور جب اللہ کی ذات کا انکار ہوتا ہے تو اللہ کے بھیجے ہوئے پیغمبروں، نبی اور رسول کا انکار ہوتا ہے جب اُن کا انکار ہوتا ہے تو اُس کی بھیجی ہوئی کتاب کا انکار ہے اور جب کتاب اور قرآن کا انکار ہے، دین کا انکار ہے تو پورے مذہب کا انکار ہے۔ اور جب مذہب کا انکار ہے تو اوامر و نواہی کا انکار ہے۔ حلال و حرام کا انکار ہے، ایمان اور اسلام کے اعمال صالحہ کا انکار ہے، تقوی کا انکار ہے۔

اس طرح سارے احکام مٹا کر یہ کوشش صرف اور صرف Godless سوسائٹی اور حیوانی سوسائٹی بنانے کا منصوبہ ہے۔ لہذا یہ میں نے اس تفصیل سے اس لیے سمجھایا کہ ہمیشہ ظاہر کے اپنے فوائد ہوتے ہیں اور باطن کے اپنے فوائد۔ جب نماز پڑھتے ہیں اگر کہیں گے کہ نیت اچھی ہونی چاہیے اور نیت میں ہی سارا دین رکھا ہے۔ تو ایسا نہیں ہے نیت اُسی وقت معتبر ہوتی ہے جب کوئی عمل صالحہ کیا جائے۔

نیت از خود عمل صالحہ کی ہوتی ہے اور اگر ظاہر میں نیک عمل کریں اور اُس کی نیت اچھی ہو تو وہ اُسے مقبول بنا دیتا ہے اور اگر آپ سرے سے عمل ہی نہ کریں اور خالی نیت رکھیں تو بتایئے کونسا عمل قبول ہوگا اللہ کی بارگاہ میں؟ آپ صرف صبح کرنے کی نیت کر لیں اور حج کرنے نہ جائیں تو حج تو نہیں ہو گ۔ آپ ذکوة ادا کرنے کی صرف نیت کر لیں اور ذکوة نہ دیں تو ذکوة کا فریضہ ادا نہیں ہوگا۔ آپ خالی نیت کریں اور دن بھر کھاتے رہیں تو روزہ نہیں ہوگ۔ آپ خالی نیت کریں اللہ کی عبادت کی اور عبادت نہ کریں، فرائض ادا نہ کریں، نماز نہ پڑھیں تو صرف نیت کرنے سے وہ عمل نہیں بن جاتا۔ عمل کی ایک اپنی اہمیت ہے۔ اُس کا ظاہری وجود ہے۔ اُس میں آپ تکبیر تحریمہ کہتے ہیں، اللہ اکبر، جب اللہ اکبر کہتے ہیں تو اس کو تکبیر تحریمہ کیوں کہتے ہیں؟ یعنی یہ پہلی ایسی تکبیر ہے، جو باقی ساری چیزیں حرام کر دیتی ہے۔ ہم پاکستان میں تکبیر تحریمہ بولتے ہیں تو تحریم ہے حرام کر دینے والی۔ یعنی جب اسے بولتے ہیں نماز کے لیے تو معنی ہے کہ اب اللہ سے میری میٹنگ کا ٹائم شروع ہو گیا ہے۔

اللہ سے میرا میٹنگ ٹائم فکس تھا۔ إن الصلوة كَانَ علی المُؤمِنين کتابا موقوتا اللہ نے پانچ اوقات اپنی میٹنگ ٹائم کے لیے فکس کر دیئے ہیں کہ یہ میری ملاقات کے اوقات کار ہیں آجاؤ میری بارگاہ میں۔ اب اللہ سے ملاقات ہے۔ جب آپ کسی بڑے سے ملاقات کے لیے جاتے ہیں تو سیل فون بند کر دیتے ہیں۔ باہر کے تمام کنکشن بند کر دیتے ہیں، میٹنگ روم سے باہر بات چیت بند کر دیتے ہیں۔سارے کام چھوڑ دیتے ہیں۔ ہر کام حرام ہو جاتا ہے سوائے اُس کام کے جس میں داخل ہوگئے۔ تو یہ تکبیر کہتے ہی جب نماز میں داخل ہوتے ہیں تو اب یہ اللہ سے ملاقات کا ٹائم ہے۔ ساری ملاقاتیں بند، سارے میسجز سارے رابطہ بند، ساری گفتگو بند۔ اب دائیں بائیں اگر چہرہ بھی پھیر لیا تو نماز ٹوٹ گئی۔ ہر چیز جو تکبیر کہنے سے پہلے حلال تھی کتابیں پڑھنا، باتیں کرنا، کھانا پکانا، روٹی بنانا یہ سب کچھ حلال کام تھے جو دن بھر کرتے ہیں تکبیر کہتے ہی سارے کام حرام ہوگئے، کیوں؟ کیونکہ اللہ سے میٹنگ کا ٹائم آگیا۔ اب اللہ سے ملاقات کا وقت شروع ہوگیاہے۔ تو جان لیں کہ یہ عبادت ان شرائط کے ساتھ کریں گے تو پھر ہی نیت کام آئے گی نا اور اگر عبادت کا عمل ہی نہیں کرنا تو نیتیں جتنی چاہیں اچھی بنا کر پھرتے رہیں آپ کی نیت سے کیا فائدہ ہوگا۔

اگر اعمال صالحہ نہ ہوں تو ایمان کی صالحہ گروتھ رک جاتی ہے۔ لوگ اس معاملے پر فکر مند ہی نہیں ہوتے۔ لوگوں کا تصور یہ ہے کہ ہمیں احکام اور اعمال کی ضرورت نہیں ہے، دل مسلمان ہونا چاہیے بس باہر بھلے کفر ہوتا رہے

لہذا یہ ایک تصور ہے کہ جب آپ اپنے ایمان کو، کہتے ہیں کہ میں یہ ایمان رکھتا ہوں کہ یہ میرا اور میرے الله کے درمیان معاملہ ہے۔ تو یہ بھی کفر کو فروغ دینے کا نظریہ ہے اور ایک دھوکہ بندی ہے۔ اور یہ کہہ دینا کہ یہ میرا پرائیویٹ میٹر ہے۔ تو یاد رکھ لیں،میرے نوجوان بیٹے، بیٹیاں، سب ذہن میں رکھ لیں۔ کوئی پرائیویٹ میٹر نہیں ہے۔ دین سارا کا سارا اُس رب کی کمانڈمنٹس (Commandments) میں ہے۔

آپ نماز پڑھ رہے ہیں اور جب نماز با جماعت پڑھ رہے ہیں تو پرائیویٹ میٹر کونسا؟ نماز میں مصلے پر کھڑے ہیں، قیام کر رہے ہیں، رکوع میں، سجود میں ہیں، تلاوت کر رہے ہیں۔ اکیلے پڑھیں تب بھی اور مسجد میں اگر باجماعت پڑھیں تو پھر ثواب 27 گنا بڑھ جاتا ہے۔ اب اُس کے اندر عمل کریں تو اُس کے اندر پرائیویسی یہ ہے کہ کہیں آپ ریا کاری تو نہیں کر رہے، دکھانے کے لیے تو نہیں پڑھ رہے۔ نماز کا مقصد کیا ہے؟ اللہ کی رضا کی طلبی، اللہ کی محبت، الله کی قربت، بخشش و مغفرت کو طلب کرنا یا لوگوں کو دکھانا۔ دین کا ہر عمل جو بندے اور اللہ کے درمیان ہے نیت کا تعلق ہے، اُس عمل کو یہ کہہ کے چھوڑ دینا کہ یہ میرا پرائیویٹ میٹر ہے غلط نظریہ ہے۔ اسی پرائیویٹ میٹرنے آج کل فحاشی، بدکاری، بے حیائی اور عریانی کو رواج دے دیا ہے۔ کہ یہ میرا اور میرے اللہ کے درمیان پرائیویٹ میٹر ہے۔ آپ حرام کرتے چلے جائیں، حرام کرتے چلے جائیں، حرام کھاتے جائیں۔ حرام پیتے چلے جائیں،زندگی حرام سے بھر دیں کوئی منع کرے تو یہ کہہ دیں کہ بھئی یہ میرااور میرے اللہ کا ذاتی میٹر ہے تو جان لیں کہ یہ تصور اللہ اور اللہ کے رسولﷺ نے نہیں دی۔ یہ میرا پرسنل میٹر ہے۔ یہ Godless society کفر و الحاد کی طرف لے جانے والے عناصر ہیں۔

دین اسلام ایک پورا نظام حیات ہے جس میں ہر طرح سے رہنمائی موجود ہے کہ کھانے کا طریقہ یہ ہے، پینے کا طریقہ یہ ہے، اٹھنے بیٹھنے کا طریقہ یہ ہے، ملنے ملانے کا طریقہ یہ ہے، رشتے یہ ہیں، دوستوں سے کس طرح ملنا ہے۔ لوگوں کے حقوق یہ ہیں، واجبات یہ ہیں، والدین سے اس طرح برتاؤ کرنا ہے، غریب سے اس طرح کا رویہ رکھنا ہے۔ کمزور سے پڑوسی سے، دشمن سے، دوست کے ساتھ کس طرح سے تعلق رکھنا ہے، لین دین میں یوں، کاروبار میں یوں، عبادت میں یوں، تجارت یوں چلتا ہے یہ ساری زندگی دین ہے۔ اس میں پرائیویٹ میٹر کہاں سے آگی۔ یہ حرام ہے یہ نہیں کر سکتے۔ یہ حلال ہے یہ کر سکتے ہیں۔ یہ اوامر ہیں یہ نواہی ہیں۔ پوری کی پوری زندگی ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو دین اسلام نے فراہم کیا ہے۔ اسی کوڈ آف لائف میں کچھ اعمال کی شکل ظاہر چل رہی ہوتی ہے اور کچھ کی باطن چل رہی ہوتی ہے۔ یہ دونوں ایک دوسرے کے لیے معاون ہوتے ہیں۔ یہ کفر کو اپنی زندگیوں میں جگہ دینے کے لیے، بے حیائی کو جگہ دینے کے لیے، حرام کاری اور حرام خوری کو اپنی زندگی میں جگہ دینے کے لیے، دین کے احکام سے جان چھڑانے کے لیے، دین کے فرائض و واجبات کا بوجھ اتار پھینکنے کے لیے، اپنے آپ کو مادر پدر آزاد کرنے کے لیے ہم نے یہ باتیں گڑھ لی ہیں کہ میرا پرائیویٹ میٹر ہے۔ یہ سارے ایسے کلمات ہیں جو کفر کے کلچر نے آپ کو سکھائے ہیں اور ہم تک پہنچائے ہیں۔

عزیزان محترم! توبہ کیجیے اور اس تقسیم کو ختم کریں۔ میں نے آپ کو یہ سارا نظام سمجھا دیا ہے۔ اگر ایک پودے کو دیکھیں تو جب پودا اگتا ہے اس کے بھی پبلک میٹر بھی ہیں پرائیویٹ بھی جو کچھ زمین کے اندر سے کیمیکل اس کے تنے کے اندر آ رہے ہیں اور وہ جوان ہو رہا ہے، تنا اور درخت بن رہا ہے تو جو چیز نظر نہیں آتی وہ اس کے اندر کا پروسیس ہے وہ پرائیویٹلی اللہ نے نظام چلایا ہے مگر اس کی حفاظت یعنی پبلک میٹر باہر سے ہو رہی ہے۔ مالی کام کر رہا ہے، وقت پر فصل کاٹ رہا ہے۔ اس کو سپرے کر رہا ہے بارش دی جا رہی ہے۔ آب و ہوا اچھی دی جا رہی ہے۔ اس کی دیکھ بھال ہو رہی ہے یہ ساری چیزیں باہر سے بھی ہو رہی ہیں اندر سے بھی ہو رہی ہیں۔ اگر باہر اور اندر ایک دوسرے سے جدا ہو جائیں کٹ جائیں تو جیسے پودا جل جاتا ہے ایسے ایمان کا درخت بھی جل جاتا ہے۔ باہر کو اندر سے جدا نہیں کر سکتے اور اندر کو باہر سے جدا نہیں کر سکتے۔

تو یاد رکھیے کہ اگر آپ اللہ کے حضور نماز کے ہی تارک ہیں تو اللہ سے کونسا تعلق ہے جو آپ کے دل کا تعلق ہے۔ آپ نے اللہ کی نافرمانی کردی آقا علی آقا علیہ الصلوة والسلام نے بین الکفر والایمان الصلاۃ، بخاری اور مسلم کی متفق علیہ درجنوں احادیث میں آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کفر اور ایمان میں فرق کرنے والی چیز نماز ہے۔ من ترک الصلوة متعمدا فقد کفر جس نے جان بوجھ کر نماز چھوڑ دی اس نے کفر کی۔ تو آپ نماز نہیں پڑھ رہے اور جو کوئی کہتا ہے کہ پڑھیں تو کہتےہیں یہ میرے اور اللہ کے درمیان پرائیویٹ میٹر ہے آپ کون ہوتے ہیں یہ کہنے والے۔ اس کا مطلب تو یہ ہے آپ دین کو جھٹلا رہے ہیں کہ دین کون ہوتا ہے مجھے حکم دینے وال۔ دین کہتا ہے جس نے نماز چھوڑ دی جان بوجھ کر اس نے کفر کی۔

یہ کہنا کہ یہ میرا ذاتی معاملہ ہے میرے اور میرے اللہ کے درمیان معاملہ ہے۔ یہ مذہب آپ نے خود بنا لیا ہے؟ آپ خود پیغمبر بن گئے ہیں۔(نعوذ باللہ) خود خدا بن رہے ہیں۔ احکام خود وضع کر رہے ہیں؟ نہ یہ نظریہ قرآن میں ہے نہ حدیث میں ہے۔

دیکھئے! عزیزان محترم کس طرح کفر غیر شعوری طور پر لاشعوری طور پر ہماری زندگی میں داخل ہو رہا ہے۔ اور داخل کیا جا رہا ہے کہیں پرائیویسی کے نام پر کہیں (Personal freedom) کے نام پر ذاتی آزادیاں ہیں۔ طرح طرح کے عنوانات ہیں، یہ گمراہی ہے۔

لہذا ایمان کی حفاظت اُسی وقت ہوتی ہے جب ظاہر و باطن دونوں میں اللہ پاک کے دیئے ہوئے احکام کا نفاذ ہو اور پھر اُس کی کوالٹی کو بہر کیا جائے۔ قرآن مجید کو پڑھئے سورۃ البقرہ آیت نمبر 160 میں فرمایا:

اِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْا وَ اَصْلَحُوْا وَ بَیَّنُوْا فَاُولٰٓىِٕكَ اَتُوْبُ عَلَیْهِمْ ۚ وَ اَنَا التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ۝

(البقرہ،2: 160)

مگر جو لوگ توبہ کر لیں اور (اپنی) اصلاح کر لیں اور( حق کو) ظاہر کر دیں تو میں (بھی) انہیں معاف فرما دوں گا، اور میں بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا مہربان ہوں۔

یہ آیت توجہ طلب ہے کہ جن لوگوں نے گناہ کیے غلطیاں کیں خطائیں کیں اُن کے لیے عذاب ہوگ۔سوائے اُن لوگوں کے جو توبہ کرلیں اور پھر اپنی اصلاح کرلیں، جو فرائض چھوڑے تھے اُن کی ادائیگی کریں، جو سنتیں چھوڑی ہیں اُن کی ادائیگی کریں۔ جو واجبات چھوڑے اُن کی ادائیگی کریں۔ جو مظالم کیے اُن کی تلافی کریں۔ کسی کی حق تلفی کی اُس کو واپس حق لوٹائیں۔ یہ پوری تفصیلات ہیں یعنی توبہ کریں اور پھر اصلاح کرلیں یعنی عملاً اپنی اصلاح کر لیں اور آگے عجب لفظ قرآن نے استعمال کیا ہے وَ بَیَّنُوۡا اور اسطرح اصلاح کریں کہ اُن کے عمل سے اب حق ظاہر ہو جائے اور اُن کے عمل سے ثابت ہو جائے کہ یہ سنور گئے ہیں۔ غلط راہ کو چھوڑ گئے ہیں۔ اپنے عقیدے میں، اپنی فکر میں، اپنے عمل میں اپنے حال میں، اپنے قال میں وَ بَیَّنُوۡا تین لفظ ہیں اِلَّا الَّذِیۡنَ تَابُوۡتوبہ کر لیں یعنی پلٹ جائیں واپس نیکی کی طرف، حق کی طرف اللہ کی طرف، وَ اَصۡلَحُوۡا اور اپنے اعمال کی اصلاح کرلیں اور دوبارہ وہ کام نہ کریں۔ وَ بَیَّنُوۡا اور اصلاح اس طرح کریں کہ اصلاح پر جم جائیں کہ اُن کے عمل اور کردار سے ظاہر ہو جائے کہ یہ اب حق پر آگئے ہیں۔