بابائے قوم آخری دم تک ملک و ملت کی تعمیر میں مصروف عمل رہے، ان کے افکار میں قومی بحرانوں کا حل موجود ہے۔
ماضی میں قائداعظم کی سوانح حیات کے صرف وہی پہلو منظرِعام پر آسکے جن کا منظرِعام پر آنا حکومتوں کو منظور تھا۔ حیاتِ قائداعظم کے وہ درخشاں پہلو جو ہماری ریاستی پالیسیوں سے میل نہیں کھاتے تھے بڑی ہوشیاری کے ساتھ تلف کردیے گئے یا انھیں دبیز پردوں کے پیچھے چھپا دیا گیا۔ بدقسمتی سے ہم نے نہ صرف قائداعظم کے تصورات و افکار اور ان کے طرزِفکر کو سمجھنے میں ٹھوکر کھائی ہے بلکہ جوں جوں وقت گزرتا گیا ہمارے ہاں ایسے لوگوں کی تعداد میںبھی اضافہ ہوتا چلا گیا ہے‘ جنھوں نے پہلے تو قائداعظم کے نظریات کی نت نئی تاویلیں پیش کیں اور پھر اپنے نسخہ ہائے کیمیا کو قائد اعظم کے تصورات بناکر پیش کرنا شروع کردیا۔
یہ سلسلہ اس قدر دراز ہوچکا ہے اور اس کے اثرات اتنے دور تک پہنچ چکے ہیں کہ اب دانشِ حاضر کی پہلی ذمے داری ہی یہ قرار پاتی ہے کہ فی الفور قائداعظم کے ان تصورات کا کھوج لگائیں جن پر امتدادِ زمانہ کی گرد اور تحریف پسندوں کی ضرب پڑ چکی ہے۔
قائداعظم کے تصورات کے تذکرے اور ان کی تشریح سے قبل دو بنیادی باتوں کی وضاحت ضروری ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ قائداعظم بجا طورپر ایسے راہ نمائوں میں شمار ہوتے ہیں جو اپنے غیرمعمولی شخصی اوصاف، اپنی تاریخ فہمی اور تدبر کے حوالے سے اپنے زمانے پر اثرانداز ہوئے اور حالات کا رخ موڑنے میںاہم کردار ادا کیا۔ ان کی کام یابی کا بڑا راز معروضی حالات کے ان کے فہم میں پوشیدہ تھا۔ قائداعظم کے تصورات کی اہمیت بھی اسی حقیقت میں مضمر ہے کہ یہ تصورات ذاتی ہوتے ہوئے بھی روحِ عصر کے بہترین عکاس تھے۔
قائداعظم کے تصورات کی تفہیم کے ضمن میں دوسری قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ مختلف امور کے حوالے سے ان کے طرزِعمل یا ان کے ردِعمل میں تبدیلیوں کے باوجود اہم ترین امور پر ان کے یہاں استقلالِ فکروعمل کی کارفرمائی کو دریافت کرنا کوئی زیادہ مشکل نہیں۔ بعض لوگوں نے ہندو مسلم تعلقات، ہندوستان کے اتحاد یا ایسے ہی دیگر موضوعات کے حوالے سے قائداعظم کی جانب سے مختلف ادوار میں اختیار کردہ مؤقف میں تضاد کی نشان دہی کی ہے۔
یہ قائداعظم کی دلیل اور ان کے مدعا کے فرق کو نہ سمجھنے کا نتیجہ ہے۔ قائداعظم کی حیثیت مسلمانوں کے مقدمے کے ایک مستعد اور صاحبِ نظر وکیل کی تھی۔ وہ بیسویں صدی کے دوسرے عشرے میں ہندوستانی سیاست میں وارد ہوئے اور انھوں نے مسلمانوں کی نمائندگی اور ان کے کاز کی بہترین عملی تعبیر کی تلاش کے کام کو اپنا مطمح نظر بنایا۔
یہ دور ہندوستان کی سیاست میں ہمہ جہتی تبدیلیوں، سیاسی تحریکوں، آئینی اصلاحات اور تصادم و تعاون کے مختلف النوع رجحانات کا دور تھا۔ ہمہ وقت بدلتی سیاسی صورتِ حال کے علاوہ یہ بات بھی واضح تھی کہ ہندوستان کے مستقبل کا حتمی فیصلہ ابھی ہونا باقی ہے۔ ایسے میں مسلمانوں کے مقدمے کے وکیل کی حیثیت سے قائداعظم کے دلائل، ان کے الفاظ اور ان کی لغت میں بھی تبدیلیاں آتی چلی گئیں۔
ظاہر بیں نظروں نے قائداعظم کی استعمال کردہ اصطلاحات اور ان کی ڈکشنری ہی کو ان کی منزل تصور کرلیا ہے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ ان کی سیاست میں تضاد دیکھنے پر مجبور ہیں۔ سوال یہ ہے کہ قائداعظم کی اصل منزل کیا تھی یا ان کا حقیقی مدعا کیا تھا۔ اس سوال کا جواب یوں بھی اہم ہے کہ اگر قائداعظم کے مقصد کو سمجھ لیا جائے تو ان کے نظریات و افکار کی گرہیں بھی کھلنے لگتی ہیں۔
بنیادی طورپر قائداعظم برصغیر کے مسلمانوں کے لیے سماجی انصاف اور ان کے سیاسی و جمہوری حقوق کو یقینی بنانا چاہتے تھے۔ ابتدا میں انھوں نے یہ مقصد متحدہ ہندوستان کے پس منظر میں حاصل کرنا چاہا اور جب انھیں متحدہ ہندوستان کے اندر اس مقصد کا حصول ممکن نہیں نظر آیا تو پھر اسی مقصد کے لیے انھوں نے علیحدہ مملکت کی تجویز پیش کی۔
ایک علیحدہ مملکت کا تصور قائداعظم کے نزدیک دین کے بنیادی اراکین میں شامل نہیں تھا کہ جس پر زندگی کے ایک خاص مرحلے میں وہ ایمان لے آئے تھے بلکہ یہ برصغیر کے مسلمانوں کے لیے سماجی اور سیاسی حقوق کے حصول کے دیگر مجوزہ راستوں کے بند ہو جانے کے بعد بچ جانے والا واحد اور ناگزیر راستہ تھا۔ ایک بار جب انھوں نے اس راستے کو اختیار کرنے کا فیصلہ کرلیا تو ان کے دلائل کا رخ بھی اسی جانب مڑ گیا۔ انھوں نے مسلم قومیت کو اپنے مطالبے کی اساس بنایا مگر ایسا کرتے وقت وہ ایک دلیل ہی کا سامان کر رہے تھے۔ مسلم قومیت ان کا ہدف نہیں بلکہ ان کے ہدف کے حصول کی سیاسی دلیل تھی۔
جہاں تک سماجی انصاف کے مسئلے کا تعلق ہے تو اس ضمن میں قائداعظم کے خیالات میں اشکال کی ذرا سی بھی گنجائش موجود نہیں ہے۔
تحریکِ پاکستان کی مختلف تعبیرات میں ایک تعبیر یہ بھی ہے کہ اس کی پشت پر مسلمان سرمایہ دار یا مسلم بورڑوا طبقے کے مفادات کارفرما تھے۔ Hanna Papanek نے ایک تحقیقی مقالے میں بمبئی، گجرات اور کلکتہ کے مسلم بورڑوالے طبقے کے حقیقی عزائم پر سے پردہ اٹھایا ہے جس کا خیال تھا کہ قیامِ پاکستان کے بعد وہ ہندوستان میں اپنے تجارتی و صنعتی مراکز بدستور قائم رکھے گا، جب کہ پاکستان تو تمام تر اس کے لیے فرشِ راہ ہوگا۔
قائداعظم مسلم سرمایہ داروں کو ساتھ لے کر چلنے پر مجبور تھے کہ مسلم لیگ کو فنڈز کی ضرورت تھی مگر وہ سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کی ہوسِ زر سے بھی ناواقف نہیں تھے۔ چنانچہ 1943 ہی میں آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ دہلی میں انھوں نے تنبیہ کردی تھی کہ:
’’پاکستان میں عوامی حکومت ہوگی اور یہاں میں جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کو متنبہ کردوں جو ایک ظالمانہ اور قبیح نظام کے وسیلے سے پھل پھول رہے ہیں اور اس بات نے انھیں اتنا خود غرض بنا دیا ہے کہ ان کے ساتھ عقل کی کوئی بات کرنا مشکل ہوگیا ہے۔ عوام کی لوٹ کھسوٹ ان کے خون میں شامل ہوگئی ہے۔ انھوں نے اسلام کے سبق بھلا دیے ہیں۔ حرص اور خودغرضی نے ان لوگوں کو اس بات پر قائل کر رکھا ہے کہ دوسروں کے مفادات کو اپنے مفادات کے تابع بنا کر موٹے ہوتے جائیں۔ میں گائوں میں گیا ہوں‘ وہاں لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں ہمارے عوام ہیں جن کو دن میں ایک وقت کی روٹی نصیب نہیں۔ کیا یہی تہذیب ہے؟ کیا یہی پاکستان کا مقصود ہے؟ اگر پاکستان کا یہی تصور ہے تو میں اس کے حق میں نہیں ہوں۔۔۔‘‘
عدل عمرانی اور ایک عام مسلمان کی اقتصادی بہبود کے بارے میں قائداعظم کے یہ خیالات اپنی تشریح آپ ہیں۔ آج بھی یہ اتنے ہی برمحل ہیں جتنے اب سے نصف صدی قبل تھے۔
قائداعظم کی زندگی کے مشن میں جو دوسرا اہم ترین مقصد کارفرما تھا وہ برصغیر کے مسلمانوں کے سیاسی و جمہوری حقوق کی پاس داری تھی۔ ایک وسیع حلقے کے نزدیک قائداعظم کی جمہوریت پسندی ہی محلِ نظر ہے۔ مثلاً کانگریسی مصنّفین کی یہ عمومی رائے ہے کہ جناح جمہوریت کے ساتھ خود کو ہم آہنگ نہیں کرسکے۔ اور جب ہندوستان کی آزادی کا مرحلہ آیا تو انھوں نے اس خیال کے پیشِ نظر کہ اب ہندو اکثریت ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اقتدار میں آجائے گی، مسلمانوں کے لیے علیحدہ مملکت کا مطالبہ کردیا۔
یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ 1940 اور 1947 کے درمیان بظاہر خود قائداعظم نے غیر منقسم ہندوستان کے پس منظر میں جمہوریت پر عدم اعتماد کا اظہار کیا تھا۔ قائداعظم کے اس دور کے موقف کی تشریح اور ان کے جمہوریت کے بارے میں مکمل طرزِ فکر کا جائزہ لینے سے پہلے ایک مرتبہ پھر اس بات کو دہرانے کی ضرورت ہے کہ ایک خاص وقت میں دیے گئے جناح کے دلائل کو ان کا آخری مدعا تصور کرنا ایک زبردست خلط مبحث کو جنم دے سکتا ہے۔
اس خلط مبحث کے ابطال سے قبل ہم اس امر پر زور دینا چاہیں گے کہ قائداعظم اول تا آخر جمہوریت کے قائل تھے۔ قائداعظم کی تعلیم برطانیہ میں ہوئی تھی جہاں انھوں نے گلیڈ اسٹون (Gladstone) اور جان مارلے (John Morley) جیسے لبرل راہ نمائوں کے خیالات سے غیرمعمولی اثرات قبول کیے تھے۔ قائداعظم اپنی سیاسی زندگی میں تقریباً 35 سال تک ہندوستان کی امپیریل لیجسلیٹیو کونسل کے رکن رہے۔ اس دوران انھوں نے بارہا شہری آزادیوں اور قانون کی بالادستی کے لیے آواز اٹھائی۔
انھوں نے پریس سے متعلق اس مسودہ قانون (Press Bill) کی سخت مذمت کی جس کے ذریعے حکومت نے آزادی اظہار پر پابندی لگانے کے اختیارات حاصل کرلیے تھے۔ 1919ء میں رولٹ ایکٹ کی آمد پر انھوں نے امپیریل لیجسلیٹیو اسمبلی سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا۔ ایسا کرتے وقت انھوں نے جمہوریت سے نہیں بلکہ برطانوی حکومت سے اپنی مایوسی کا اظہار کیا۔ سِول لبرٹیز پر ان کے ایمان کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ وہ غدر پارٹی کے انقلابی بھگت سنگھ کے لیے بھی انہی حقوق کا مطالبہ کرتے نظر آتے ہیں جو انگریزوں کو حاصل تھے۔
وہ فوج کے سیاست میں ملوث ہونے کے اس درجہ مخالف تھے کہ جب سبھاش چندربوس نے جاپان کی مدد سے انڈین نیشنل آرمی قائم کی تو قائداعظم نے یہ کہہ کر اس کی مذمت کی کہ فوج کو سویلین اتھارٹی کی حکم عدولی کا اختیار حاصل نہیں ہے۔ قیام پاکستان کے بعد جون 1948 میں اسٹاف کالج کوئٹہ میں خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ فوج پر لازم ہے کہ وہ دستور کا احترام کرے۔ جس پاکستان کا خواب قائداعظم نے دیکھا تھا اس میں عوام مقتدر اعلیٰ کی حیثیت رکھتے تھے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر قائداعظم جمہوریت کے فلسفے کے اس درجہ قائل تھے تو قیامِ پاکستان سے قبل کے مختلف ادوار کی ان کی سیاست اور نقطہ ہائے نظر میں نظر آنے والے اختلاف کی کیا توجیہہ پیش کی جاسکتی ہے۔
جمہوریت امکانی طور پر تین میدانوں میں اکثریت کے ہاتھوں کج روی کا شکار ہوسکتی ہے، یا مسخ ہوسکتی ہے۔ اول، حکومتی امور میں اکثریتی جماعت جمہوریت کے نام پر آمرانہ اختیارات حاصل کرسکتی ہے۔ اس کا توڑ انسان نے یہ دریافت کیا ہے کہ جمہوریت کے ساتھ ساتھ اختیارات کو ایک سے زیادہ اداروں میں تقسیم کردیا جائے اور حکومت کی پارلیمنٹ کے سامنے جواب دہی کو ضروری قرار دے دیا جائے۔ اکثریت کی آمریت علاقائی تقسیم کے میدان میں بھی قائم ہوسکتی ہے اور اکثریتی آبادی کا علاقہ، اقلیتی آبادی کے علاقے پر جمہوریت کے نام پر اپنا استبداد قائم کرسکتا ہے۔
اس امکان کو رد کرنے کے لیے جو بہترین Mechanism استعمال کیا جاسکتا ہے وہ وفاقیت یا Federalism کا اصول ہے جس کے تحت وحدتوں کے اختیارات ازروئے آئین طے کردیے جاتے ہیں، نیز قانون سازی کے لیے دو ایوانی مقننہ قائم کی جاتی ہے جس کا ایوانِ زیریں آبادی کی بنیاد پر اور ایوانِ بالا وحدتوں کی برابری کی بنیاد پر وجود میں آتے ہیں۔ جمہوریت کے نام پر ایک اکثریت اقلیت پر ایک اور میدان میں بھی اپنی آمریت قائم کرسکتی ہے اور یہ عقائد کا میدان ہے۔
ایک مذہبی کمیونٹی یا فرقہ اپنی اکثریت کو بنیاد بنا کر اقلیتی کمیونٹی کے اوپر تسلط کا دعوے دار ہوسکتا ہے۔ سیاسی و اقتصادی مفادات کے حوالے سے ظہور میں آنے والے گروہ مذہب اور عقائد کو اپنی شناخت کا ذریعہ قرار دے کر اپنے گروہی استحقاق یا Legitimacy کا دعویٰ کرسکتے ہیں اور یوں مذہب سیاسی مقاصد کے لیے استعمال ہوسکتا ہے اس کا تدارک جس Mechanism سے کیا جاسکتا ہے وہ Secularism ہے، جس کی رو سے ریاست مذہبی معاملات میں غیر جانب دار بن جاتی ہے۔
قائداعظم ان تینوں Mechanisms کو ناگزیر سمجھتے تھے اور ہندوستان کے مخصوص پس منظر میں ان کا پختہ یقین تھا کہ اگر یہاں جمہوریت ان تینوں انتظامات کے بغیر نافذ ہوتی ہے تو یہ مسلمانوں کو مستقل طور پر ہندو اکثریت کے سامنے بے بس بنادے گی۔ قائداعظم کا پورا سیاسی کیرئیر ان تینوں نظاموں کی وکالت یا ان کے تقاضوں کی تکمیل میں گزرا۔
وفاقیت قائداعظم کی کاوشوں کا ایک اہم محور تھی۔ برصغیر میں نمائندہ اداروں کا قیام مرحلہ وار اصلاحات کے ذریعے ہوا۔ مطالبہ پاکستان پیش کیے جانے کے بعد قائداعظم نے مختلف مواقع پر مجوزہ مملکت کے لیے وفاقی نظام کی وکالت کی۔ 8 نومبر 1945ء کو ایسوسی ایٹ پریس آف امریکا کے نمائندے کو انٹرویو دیتے ہوئے قائداعظم نے فرمایا:
’’نظریہ پاکستان اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ قومی حکومت کو وہ پوری خودمختاری حاصل ہوگی جو ممالک متحدہ امریکا، کینیڈا اور آسٹریلیا کے دساتیر میں ملتی ہے۔ البتہ بعض نہایت اہم اختیارات مرکز کے پاس ہوں گے۔‘‘
قائداعظم کے تصورِ جمہوریت کا ایک اور لازمی اور ناگزیر جزو سیکولرازم تھا۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں سیکولرازم کے بارے میں طرح طرح کی غلط فہمیاں پھیلائی گئی ہیں۔ یہاں تک کہ اس کا ترجمہ بعض لوگوں نے لادینیت کر کے سیکولرازم کے نظام سے لوگوں کو متنفر کرنے کی کوشش کی ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ سیکولرازم کا لادینیت سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ اصطلاح تھیوکریسی کے الٹ کے طور پر استعمال ہوتی ہے۔ تھیوکریسی ایک ایسے نظام کو کہتے ہیں، جس میں حکومت کلیسا کے احکام کے تابع ہوتی ہے جب کہ سیکولرازم میں حکومت کلیسا کی مداخلت سے آزاد ہوتی ہے۔
سیکولر نظام میں ریاست خود کو مذہبی مناقشات اور مسلکی اختلافات سے آزاد رکھتی ہے اور غیر جانب دارانہ طرزِ عمل اختیار کرتی ہے۔ قائداعظم کے ذہن میں بھی پاکستان کا جو تصور تھا وہ ایک ایسی مملکت ہی کا تصور تھا جس میں ریاست مذہبی اختلافات سے خود کو دور رکھتی اور ایک غیر جانب دار ادارے کی حیثیت سے کام کرتی ہے۔ قائداعظم کا پورا سیاسی کیرئیر مسلم اقلیت کے حقوق کی وکالت کی نذر ہوا۔
آئینی اصلاحات کے ہر موقعے پر انھوں نے مسلمانوں کے لیے زیادہ سے زیادہ سیاسی تحفظات کے حصول کی بھرپور کوشش کی مگر ایک اقلیت کے حقوق کی حمایت اور مذہب کو سیاست کے لیے استعمال کرنے میں جو فرق تھا وہ قائداعظم کی سیاست میں نمایاں تھا۔ چنانچہ عین اس زمانے میں جب کہ وہ مسلم اقلیت کے سیاسی حقوق اور اس کے خلاف کسی قسم کے امتیاز کے امکان کے خلاف برسرپیکار تھے، انھوں نے تحریک خلافت سے خود کو الگ رکھا۔
جو شخص اقلیتوں کے حقوق کے لیے تمام عمر برسرپیکار رہا ہو وہ قیام پاکستان کے بعد نئی مملکت کی اقلیتوں کو بے یارومدد گار کیسے چھوڑ سکتا تھا؟ چناں چہ 11 اگست 1947ء کی اپنی تقریر میں انھوں نے ریاست اور مذہب کے تعلق کے حوالے سے جو چشم کشا گفتگو کی وہ تاریخی اہمیت کی حامل ہے۔ اس تاریخی تقریر میں آپ نے فرمایا:
’بایں ہمہ اس تقسیم میں کسی ایک مملکت میں یا دوسری مملکت میں اقلیتوں کا وجود ناگزیر تھا۔ اس سے مفر نہیں تھا۔ اس کا بھی کوئی اور حل نہیں تھا۔ اب ہمیں کیا کرنا ہے؟ اگر آپ اپنا رویہ تبدیل کرلیں اور مل جل کر اس جذبے سے کام کریں کہ آپ میں سے ہر شخص خواہ وہ اس ملک کا پہلا شہری ہے یا دوسرا یا آخری سب کے حقوق و مراعات اور فرائض مساوی ہیں۔
قطع نظر اس سے کہ کس کا کس فرقے سے تعلق ہے اور ماضی میں اس کے آپ کے ساتھ کس نوعیت کے تعلقات تھے اور اس کا رنگ و نسل یا عقیدہ کیا ہے تو آپ جس قدر ترقی کریں گے اس کی کوئی انتہاء نہ ہوگی۔۔۔، اب آپ آزاد ہیں۔ اس مملکت پاکستان میں آپ آزاد ہیں۔ اپنے مندروں میں جائیں، اپنی مساجد میں جائیں یا کسی اور عبادت گاہ میں۔ آپ کا کسی مذہب، ذات پات یا عقیدے سے تعلق ہو، کاروبار مملکت کا اس سے کوئی واسطہ نہیں۔‘‘
پاکستان کی تاریخ میں ہم جن سیاسی بحرانوں سے گزرے ہیں ان کی پشت پر بنیادی طور پر تین مسائل ہی کارفرما رہے ہیں۔ جمہوریت کا مسئلہ، ایک قابل عمل وفاقی نظام کا مسئلہ، اور ریاست اور مذہب کے تعلق کا مسئلہ۔ کیا یہ دل چسپ اتفاق نہیں ہے کہ یہی تین امور قیام پاکستان سے قبل بھی قائداعظم کی سیاست میں مرکزی کردار ادا کرتے رہے اور ان کے حوالے سے ان کا طرز فکر بڑے واضح طور پر تاریخ میں محفوظ ہے۔ آج بھی ہمیں انہی مسائل سے سابقہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ آج جب کہ ہم تہ در تہ بحرانوں کی زد میں ہیں، کیا ہم بانی پاکستان کے ارشادات سے روشنی اخذ کرنے کی زحمت گوارا کریں گے؟
تاریخ ساز شخصیت
1948ء بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کی زندگی کا آخری سال تھا۔ اگرچہ آپ نے اپنی سیاسی زندگی نہایت سرگرمی اور تن دہی سے گزاری مگر آپ کی زندگی کے آخری دس سال جن میں آپ کو بڑھتی ہوئی عمر اور گرتی ہوئی صحت کے پیش نظر مکمل آرام کی ضرورت تھی نہایت ہنگامہ خیز سال تھے۔ قیام پاکستان کے بعد نومولود مملکت کے مسائل ایسے نہ تھے جن کو قائد اعظم نظر انداز کردیتے یا دوسروں پر چھوڑ دیتے۔
اسی لیے آپ نے ان مسائل کی جانب بھرپور توجہ دی۔ پاکستان کی داخلہ اور خارجہ پالیسی کا تعین اور اس پر عمل درآمد کو یقینی بنانا، ملک کے مختلف علاقوں کا دورہ کرکے وہاں کے عوام کے مسائل معلوم کرنا اور پھر ان کے تدارک کے لیے اقدامات، قومی معیشت کا فروغ و استحکام ، نظام تعلیم موثر بنانا، سرحدوں کا دفاع، آئین ساز اسمبلی، سرکاری ملازمین اور مسلح افواج کو نہ صرف ان کے فرائض سے آگاہ کرنا بلکہ ان کو یہ باور کرانا کہ قوم ان سے کیا توقعات رکھتی ہے۔
ان تمام امور سے قائد اعظم نے حتی المقدور عہدہ برا ہونے کی بھرپور کوشش کی۔ بقول پروفیسر شریف المجاہد تمام حالات و واقعات کا دیانت داری سے تجزیہ کیا جائے تو یہی نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ یہ نوزائیدہ قوم اپنی ہنگامہ خیز پیدائش کے فوراً بعد ہی پیش آنے والے تباہ کن اور ہول ناک بحرانوں میں بھی محض اس لیے زندہ سلامت رہی کہ اس دور میں قائد اعظم امور مملکت کے نگران تھے۔
پاکستان کے عوام کو ان پر جو بے پناہ اعتماد تھا، لوگوں کے دلوں میں ان کے لیے جو زبردست عقیدت و محبت تھی، قائد اعظم نے اسی کو بروئے کار لاکر اپنی قوم کو درپیش مشکلات و مصائب سے نمٹنے کے لیے حوصلہ عطا کیا۔ آزادی نے عوام کے سینوں میں حب الوطنی کے جن جذبات کو بھڑکایا تھا ان کی حرارت اور توانائی کا رْخ تعمیری سرگرمیوں کی سمت موڑ دیا۔
1948ء میں 25 مئی کو آپ ڈاکٹروں کے مشورے پر کوئٹہ گئے، تاکہ وہاں ہر قسم کی فکر سے آزاد ہوکر مکمل آرام کرسکیں مگر کوئٹہ میں بھی مصروفیات کا سلسلہ جاری رہا۔ 29 جون کو آپ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا افتتاح کرنے کے لیے کراچی آئے اور پھر کام میں لگ گئے، نتیجتاً صحت مزید گرگئی۔ ڈاکٹروں کے مشورے پر 7 جولائی کو آپ دوبارہ کوئٹہ روانہ ہوگئے مگر آپ کی علالت اتنی سنگین صورت اختیار کرگئی کہ ڈاکٹروں نے فوری طور پر زیارت منتقل کردیا جو کوئٹہ کے مقابلے میں نسبتاً سرد مقام ہے۔
زیارت میں قیام کے دوران آپ کی طبیعت قدرے بہتر ہوئی اور آپ اکثر و بیش تر اپنی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح اور اپنے عملے کے ارکان سے مختلف امور پر تبادلہ خیال کرنے لگے۔ ڈاکٹر ریاض علی شاہ نے، جو اس وقت قائد اعظم کے معالج تھے، اپنے ایک مضمون میں تحریر کیا ہے: ’’جب میں 17 جولائی کو قائد اعظم کے کمرے میں داخل ہوا تو وہ مسہری پر دراز تھے۔ جسم نحیف اور کم زور لیکن چہرہ باوقار اور پر جلال، آنکھوں میں بلا کی چمک اور ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ۔ وہ بہت کم زور ہوگئے تھے، رخسار کی ہڈیاں ابھر آئی تھیں اور گال اندر کی طرف دھنس گئے تھے۔ بیماری کی وجہ سے رنگ اور زیادہ نکھر آیا تھا۔
بال بکھرے ہوئے تھے۔ ایک شاعر یا فلسفی کی طرح چہرے کی جھریاں ان کے گہرے مطالعے اور تدبر کی باریکیوں کو نمایاں کررہی تھیں۔ بیماری کے باوجود وہ روزانہ صبح شیو بنواتے اور صبح ساڑھے چھے بجے چائے پیتے۔ ہم نے اصرار کیا کہ اگر آپ سو رہے ہوں تو بہتر ہے کہ آپ کو نہ اٹھایا جائے کیوں کہ آپ کے لیے آرام اور نیند اشد ضروری ہے۔ قائد اعظم جواباً مسکرادیے اور فرمانے لگے ’’صحت کے لیے زندگی بھر کے اصول ترک نہیں کیے جاسکتے۔‘‘
زیارت میں قائد اعظم کے قیام اور بیماری کے بارے میں آپ کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح نے اپنی کتاب ’’مائی برادر‘‘ میں خاصی تفصیلات درج کی ہیں جو بہت اہم اور معلومات افزا ہیں۔ زیارت میں محترمہ فاطمہ جناح پورے انہماک سے قائد اعظم کی تیمارداری میں مصروف رہیں۔
قیام پاکستان کی پہلی سال گرہ قریب تھی لیکن قائد اعظم اپنی علالت کے سبب سالگرہ کی تقریبات میں شرکت سے معذور تھے۔ اس موقعے پر آپ نے قوم کے نام ایک پیغام میں فرمایا ’’پاکستان کا قیام ایک ایسی حقیقت ہے جس کی دنیا کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ یہ دنیا کی ایک عظیم ترین مسلمان ریاست ہے۔ اس کو سال بہ سال ایک نمایاں کردار ادا کرنا ہے اور ہم جیسے آگے بڑھتے جائیں گے ہمیں ایمان داری ، مستعدی اور بے غرضی کے ساتھ پاکستان کی خدمت کرنا ہوگی۔‘‘
زیارت میں قیام کے دوران قائد اعظم کا بلڈ پریشر خاصا گرگیا اور پیروں پر ورم آگیا تھا، چنانچہ آپ کو ڈاکٹروں کے مشورہ پر زیارت سے کوئٹہ منتقل کردیا گیا۔ قائد اعظم کے ایک اور معالج کرنل الٰہی بخش نے اپنی کتاب ‘‘میں لکھا: ’’ پانچ ہفتہ کی تسلی بخش صحت کے بعد 3 ستمبر کو آپ کی حرارت بڑھ گئی۔ حرارت کا یوں اچانک بڑھ جانا بہت تشویش ناک تھا چنانچہ ہم نے بڑی احتیاط سے ان کا معائنہ کیا لیکن پھر بھی بخار کا سبب دریافت نہ کرسکے۔‘‘ 9 ستمبر کو کرنل الٰہی بخش نے معائنے کے بعد محترمہ فاطمہ جناح سے قائد اعظم کی زندگی کے بارے میں مایوسی کا اظہار کیا مگر محترمہ فاطمہ جناح نے امید کا دامن نہ چھوڑا اور برابر طبیعت کی بحالی کی آرزو مند رہیں۔ 10 ستمبر کو ڈاکٹروں کے مشورہ پر محترمہ فاطمہ جناح نے قائد اعظم کو کراچی لے جانے پر آمادگی ظاہر کردی۔ چناںچہ 11 ستمبر کو آپ کا طیارہ سوا چار بجے ماڑی پور کے ہوائی اڈے پر اترا۔
قائد اعظم کو ایک اسٹریچر پر لٹا کر بذریعہ ایمبولینس گورنر جنرل ہاؤس پہنچایا گیا۔ رات تقریباً ساڑھے نو بجے آپ کی طبیعت اچانک بگڑ گئی۔ چند منٹ کے بعد کرنل الٰہی بخش، ڈاکٹر ریاض علی شاہ اور ڈاکٹر مستری گورنر جنرل ہائوس پہنچ گئے۔ اس وقت قائد اعظم پر بے ہوشی طاری تھی۔ نبض کی رفتار بھی غیر مسلسل تھی۔ ڈاکٹروں نے معائنے کے بعد انجکشن لگایا مگر حالت بگڑتی چلی گئی۔ دس بج کر 25 منٹ پر فخر قوم، بطل جلیل، اسلامیان پاکستان کا ناخدا، عزم و استقلال، فراست اور ذہانت کا پیکر ہمیشہ کے لیے اللہ کی رحمت میں پہنچ گیا۔
قائد اعظم بلا شبہہ ہندوستان کی جدید تاریخ کے معمار تھے۔ ایک تاریخ ساز شخصیت۔ ایک ایسی شخصیت جس کی عصر حاضر میں کوئی اور دوسری مثال نہیں ملتی۔ بقول سرجنی نائیڈو جناح عصر حاضر کی سب سے سربر آوردہ اور جاذب نظر شخصیت تھے۔ قائد اعظم کے انتقال کو نصف صدی سے زاید عرصہ ہو چکا ہے مگر آج بھی ان کی شخصیت اپنے سیاسی کردار کے آئینے میں سماجی علوم کے ماہرین کے لیے ایک اہم ترین شخصیت ہے۔ ایک ایسی شخصیت جس کی تفہیم کے بغیر ہندوستان کی جدید تاریخ کا ابلاغ یقیناً ناممکن ہے۔
وہ مثالی شخصیت اور قابل رشک راہ نما تھے
قائد اعظم محمد علی جناح کی رحلت نہ صرف عالم اسلام کے لیے، بلکہ پوری دنیا کے لیے ایک عظیم سانحہ تھی، جس کا ثبوت ان تعزیتی پیغامات سے ملتا ہے جو آپ کے انتقال پر پوری دنیا کے راہ نمائوں نے جاری کیے۔ 12 ستمبر 1948ء اور 13 ستمبر 1948ء کے اخبارات دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ دنیا بھر میں مسلمانوں نے نہ صرف قائد اعظم کے انتقال پر سوگ منایا، بلکہ غائبانہ نماز جنازہ بھی ادا کی۔ کراچی میں نماز جنازہ کے موقع پر تقریر کرتے ہوئے تحریک پاکستان کے ممتاز راہ نما علامہ شبیر احمد عثمانی نے فرمایا، ’’وہ اورنگزیب عالمگیر کے بعد دوسرے عظیم مسلمان تھے۔‘‘
پاکستان کے پہلے وزیراعظم اور قائد اعظم کے دست راست نوابزادہ لیاقت علی خان نے 11 ستمبر1948ء کو قوم کے نام اپنے نشری پیغام میں کہا، ’’اللہ تعالیٰ نے قائد اعظم کو ایک ایسے وقت میں ہمارے درمیان سے اٹھالیا ہے جب کہ ہمیں ابھی اپنی قومی بقا کے دشوار ترین مراحل میں ان کی راہ نمائی کی اشد ضرورت تھی۔ ہم کو اس موقع پر اپنے اللہ کے سامنے عہد کرنا چاہیے کہ ہم غیرمتزلزل عزم کے ساتھ اس عظیم مقصد سے وابستہ ہوجائیں گے، جس کے لیے قائد اعظم نے حصول پاکستان کے بعد خود کو وقف کردیا تھا۔ اور وہ عظیم مقصد یہ ہے کہ ہم اس نومولود مملکت کو عظیم اور طاقت ور ملک بنائیں گے۔‘‘
برطانیہ کے شہنشاہ کنگ جارج نے محترمہ فاطمہ جناح کے نام ایک تعزیتی ٹیلی گرام میں کہا، ’’مجھے اور ملکہ کو آپ کے عظیم بھائی اور پاکستان کے پہلے گورنر جنرل قائد اعظم محمد علی جناح کے انتقال کی خبر سن کر شدید صدمہ پہنچا۔ یہ ایک ناقابل تلافی نقصان ہے۔ آپ کے لیے بھی اور پاکستان کے عوام کے لیے بھی، جن کے وہ عظیم راہ نما تھے۔‘‘ برطانیہ کے وزیراعظم کلیمنٹ آر ایٹلی نے کہا کہ قائداعظم کے انتقال سے پاکستان اپنے عظیم ترین شہری سے محروم ہوگیا ہے۔
انہوں نے ایک مدت سے برصغیر کی ملت اسلامیہ کے لیے اپنی عظیم صلاحیتوں کو وقف کر رکھا تھا۔ وہ ایک راہ نما کی حیثیت سے نمایاں اور ممتاز تھے اور پاکستان میں ان کے انتقال سے جو خلاء پیدا ہوا ہے وہ شاید ہی پُر ہوسکے۔ برطانوی پارلیمنٹ کے رکن سراسٹینفورڈ کرپس نے، جن کو تحریک پاکستان کے دوران متعدد بار قائداعظم سے ملاقات و مذاکرات کا شرف حاصل ہوا تھا، کہا، ’’وہ بہ حیثیت انسان راست بازی اور دیانت داری کے اعلیٰ ترین مقام پر فائز تھے۔
ان کے ساتھ گفت گو کرنا متعدد وجوہات کی بناء پر دشوار ترین امر تھا، کیوں کہ وہ اپنے مقصد اور موقف پر غیرمتزلزل یقین رکھتے تھے۔ وہ بہت نفیس اور خوش اخلاق میزبان تھے اور اپنے موقف کے حق میں دوسروں کو ہم وار کرنے اور دوسروں کے اٹھائے ہوئے سوالات کا مدلل جواب دینے کے لیے پوری رات جاگنے کے لیے تیار رہتے تھے۔‘‘ برطانیہ کے سابق وزیر ہند لارڈ پیتھک لارنس نے کہا، ’’قائداعظم جناح کا نام ایک عظیم قوم کی تشکیل کرنے والے راہ نما کی حیثیت سے تاریخ کے صفحات میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔‘‘
امریکا کے صدر ہیری ایس ٹرومین نے کہا،’’پاکستان کے گورنر جنرل قائداعظم محمد علی جناح کے اچانک انتقال کی خبر سن کر شدید صدمہ پہنچا۔ وہ پاکستان کے خواب کو تعبیر سے ہم کنار کرنے والے، ایک مملکت کے معمار اور دنیا کی سب سے بڑی مسلم قوم کے بابائے قوم تھے۔ مسٹر جناح کی مقصد سے وابستگی، جاں نثاری اور بے مثل قیادت کی یادیں پاکستان کے عوام اور حکومت کی آیندہ آنے والے دنوں میں ہمیشہ راہ نمائی کرتی رہیں گی۔‘‘
امریکا کے سیکریٹری آف اسٹیٹ جارج مارشل نے کہا، ’’قائداعظم محمد علی جناح ان راہ نماؤں میں ممتاز و نمایاں تھے جو اپنے مقصد سے غیرمشروط وابستگی اور اس پر غیرمتزلزل یقین رکھتے تھے۔ انھوں نے نہ صرف دنیا کی ایک بہت بڑی قوم کی تشکیل کی، بلکہ اس کے مشکل ترین ابتدائی مرحلے میں دنیا کی دوسری اقوام کے ساتھ تعاون کو فروغ دے کر راہ نمائی کی۔ ان کی راست بازی، دیانت داری، خلوص اور ناقابلِ تسخیر عزم کی ان کے سیاسی دوست اور دشمن سب ہی قدر کرتے تھے۔ انہیں تنظیمی اور سیاسی امور میں جو مہارت تھی اس نے ان کو نہ صرف ایشیا بلکہ دنیا کے عظیم مدبروں کی صف میں نمایاں اور ممتاز کردیا تھا۔ ان کے انتقال سے نہ صرف پاکستان کے عوام بلکہ اقوام عالم کو شدید صدمہ پہنچا ہے۔‘‘
قائداعظم محمد علی جناح کے بعد گورنر جنرل کے عہدے پر متمکن ہونے والے راہ نما خواجہ ناظم الدین نے کہا،’’عظیم لوگ مرنے کے بعد بھی زندہ رہتے ہیں۔ قائداعظم بھی تاریخ اور پاکستان کے دوام و ثبات تک زندہ رہیں گے۔ یہ بات ہمارے لیے باعثِ فخر ہے کہ قائداعظم ہماری قوم میں پیدا ہوئے اور ہم نے ان کی بے مثل قیادت میں پاکستان حاصل کیا۔‘‘
بھارت کے وزیراعظم مسٹر جواہر لال نہرو نے ایک تعزیتی پیغام میں کہا کہ قائداعظم محمد علی جناح کے انتقال سے جو عظیم نقصان پاکستان کے عوام اور پاکستان کو پہنچا ہے، اس پر بھارت کے عوام، میرے رفقاء اور میری جانب سے دلی تعزیت اور ہم دردی قبول کیجیے۔ بمبئی کے وزیراعلیٰ اور قائداعظم کے دوست پی جی کھیر نے کہا کہ محمد علی جناح تاریخ ساز شخصیت تھے۔ ان کی قوت فیصلہ، خوداعتمادی اور بے مثال وکالت نے ان کو ایک قابل رشک راہ نما بنادیا تھا۔ ان کی موت ہم سب کا اجتماعی نقصان ہے۔