کرپشن، بددیانتی، ملک فروشی، مہنگائی، عدالتی توہین اور بدترین انتظامی کارکردگی کے تاریخی ریکارڈ قائم کرنے والے موجودہ حکومتی ڈھانچے کی مرکزی قیادت ذاتی مفادات کے کھیل میں اس قدر مگن ہو چکی ہے کہ اسے اب کوئی جرم، جرم ہی نہیں لگ رہا۔ قومی ادارے بدترین کارکردگی کی تصویر بن چکے ہیں۔ بے چینی اور اضطراب کا شکار عوام، مسائل کی چکی میں پسے چلے جا رہے ہیں مگر ان کے درد کی دوا دینے والا کوئی نظر نہیں آتا۔ گذشتہ مہینے میں خالی ہونے والی بعض نشستوں پر ضمنی انتخابات ہوئے جن کے حیران کن نتائج اس ملک کے سوچنے سمجھنے والے طبقے کے لئے مزید پریشانی کا باعث بن رہے ہیں۔ ان انتخابی نتائج نے چند اساسی نوعیت کے سوالات اٹھا دیئے ہیں۔ پہلا یہ کہ آیا میڈیا دن رات قوم کے سامنے جن بدترین حالات کا رونا روتا ہے یا جو مسائل زیر بحث آتے ہیں اور ان کی ذمہ داری حکومت پر ڈالی جاتی ہے، اس میں کہیں مبالغہ آرائی تو نہیں؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر یہ حقائق درست ہیں تو کیا یہ سب کچھ اب بھی ہمیں احساسِ زیاں دلانے میں ناکام رہا ہے؟ اگر ایسا ہے تو سوچنا پڑے گا کہ ہم بحیثیت قوم کب بیدار ہوں گے؟ پاکستان کی سلامتی خطرے میں ہے عوام لمحہ بہ لمحہ غربت اور بے روزگاری کی سونامی میں غرق ہو رہے ہیں لیکن اتنے ظلم ستم نا انصافیاں اور تلخیاں بھی اس قوم کو کسی واضح اور مثبت تبدیلی کی طرف متوجہ نہیں کر پا رہی ہیں تو مقام تعجب ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یا تو اس قوم میں صبر بہت زیادہ ہے کہ ہر ستم کو وہ آخری ستم سمجھ کر سہہ رہے ہیں۔ لیکن خود کشیوں کی روز افزوں تعداد صبر و تحمل کی علامت تو نہیں۔ البتہ ہم بطور قوم شاید بے شعور، بے جہت اور بے ضمیر ہو چکے ہیں۔ شاید ہمارے اندر باقی اقوام کی طرح کا احساس زیاں موجود نہیں ورنہ اس نام نہاد جمہوریت کے ہاتھوں جس قدر مسائل جنم لے چکے ہیں اور ان مسائل نے ہماری انفرادی اور قومی زندگی کو جتنا مشکل بنا دیا ہے یہ حالات کسی بھی قوم کے لیے زندگی موت کا مسئلہ ہوتے ہیں اور ان سے گلو خلاصی کے لئے مناسب جدوجہد کرتی ہے۔
اس میں تو کوئی شک نہیں کہ ہم اپنے مذہب کے ساتھ، اپنے ملک کے ساتھ اپنی آئندہ نسل کے ساتھ حتیٰ کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ بھی مخلص نہیں ہیں۔ نفاق کی بڑھی ہوئی یہ صورت حال مجرمانہ غفلت بھی ہے اور خطرناک قومی حالت بھی۔ ظلم کو اپنی نظروں کے سامنے پنپتا ہوا دیکھ کر اس کے خلاف آواز نہ اٹھانے والے لوگ دراصل اپنے اور قوم کے مشترکہ دشمن ہوتے ہیں۔ پاکستانی قوم اس جرم عظیم کی بار بار مرتکب ہو رہی ہے کیونکہ وہ اس منافقانہ جمہوری نظام کو خود اپنے اوپر مسلط کرنے کا جرم بھی بار بار کرتی چلی آئی ہے۔
ضمنی انتخابات کے حالیہ نتائج سے یہ افسوسناک صورت حال بھی واضح ہو گئی ہے کہ وطن عزیز کے دیہی علاقوں میں جس جاگیردارانہ نظام کی جڑیں مستحکم ہیں اس کے تحت حالات جو بھی ہوں وہاں کے استاد پٹواری اور پولیس والے اسی وڈیرے کے اشاروں پر پتلی کی طرح ناچتے ہیں۔ ان کی نہ اپنی سوچ ہے نہ کوئی پروگرام۔ وہ کل بھی اپنے سردار، مخدوم اور سائیں کے غلام تھے آج بھی ہیں اور اس وقت تک رہیں گے جس وقت تک اس ابلیسی جاگیردارانہ نظام کو جڑوں سے اکھاڑ کر پھینک نہیں دیا جاتا۔ ظاہر ہے اسے ختم کرنا اتنا آسان نہیں خصوصاً موجودہ نظام انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی یکے بعد دیگرے حکومتوں کی موجودگی میں تو یہ خواب ہی لگتا ہے۔ اس لئے کہ ہمارا بیورو کریٹ، ہمارا سرمایہ دار اور ہمارا حاکم سب اسی ظالمانہ نظام کی پیداوار اور اس کے محافظ ہیں۔ ورنہ کسی بھی مہذب ملک میں اس طرح لاشوں پر اپنی جیت کے رقص نہیں کیے جاتے جس طرح ضمنی الیکشن جیتنے پر کیے گئے ہیں۔ پولنگ ایجنٹس کے طور پر تعینات سکول کے اساتذہ پر تھپڑوں کے مناظر دیکھ کر ہمیں اس نظام میں پوشیدہ ’’غریب پروری‘‘ پر غور کرنا چاہئے۔ اگر پولیس افسر کی موجودگی میں ایک خاتون امیدوار پولنگ سٹیشن کی ذمہ دار اساتذہ خواتین کو تھپڑوں مکوں اور گھونسوں کا نشانہ بنا سکتی ہے تو اس طبقے کے مرد جاگیردار وڈیروں اور سیاستدانوں کی ’’غریب پروری‘‘ کا عالم کیا ہو گا؟ وہ جائز و ناجائز میں کتنا فرق روا رکھتے ہوں گے، معاملات میں کس قدر تحمل انصاف اور جمہوریت کا خیال رکھتے ہوں گے؟
یہ ساری صورتِ حال پوری قوم اور ان سیاستدانوں کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے جو ملک میں ’’تبدیلی کی سونامی‘‘ لانے کا دعوی کرتے ہیں اور نظام کو انتخابی نتائج کے ذریعے تبدیل کرنے کی خوش فہمی میں مبتلاء ہیں۔ ان تمام حالات و واقعات سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ آئندہ قومی انتخابات بھی اسی طرح دھونس، دھاندلی، دولت، اسلحہ اور سرکاری وسائل کے غلط استعمال کا شاخسانہ ہوں گے۔ اس قوم کی قسمت میں تبدیلی اس نام نہاد جمہوریت کے ذریعے ممکن نہیں۔ ہمیں اس ملک کے حالات خطے کی نفسیات اور مذہبی و تاریخی پس منظر کو سامنے رکھتے ہوئے اس جانبدارانہ جمہوریت کے چنگل سے نکلنا ہو گا۔ جس حلقے کے 93 ہزار لوگ نا تجربہ کار، بددیانت اور کرپٹ خانوادے کو اپنا نجات دھندہ اور نمائندہ سمجھنے میں بضد ہوں وہاں کب اور کیسے ووٹ کے ذریعے انقلاب آ سکتا ہے؟ ایں خیال است و محال است و جنوں۔
انہی حالات کو دیکھ کر پاکستانی قوم کے سامنے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے موجودہ نظام انتخابات سے بغاوت کی آواز بلند کی ہے۔ چند ماہ قبل ناصر باغ لاہور اور بعد ازاں لیاقت باغ راولپنڈی میں اجتماع عام میں بجا طور پر آپ نے اس کرپٹ نظام انتخابات سے بائیکاٹ کے لئے قوم کو جو کال دی تھی اس کی تائید اب خود حالات بھی کر رہے ہیں مگر ہمارا میڈیا بالعموم ایسے درد مندانہ افکار و نظریات کو در خور اعتنا نہیں سمجھتا کیونکہ ان تعمیری خیالات میں اسے خبریت اور گہماگہمی نہیں ملتی۔ ورنہ حالات جس سمت جا رہے ہیں اس میں علماء طلباء و کلاء اساتذہ اور بالخصوص میڈیا کے لوگ سب سے زیادہ ذمہ دار سمجھے جاتے ہیں۔ ان نمائندہ طبقات کو اس ملک کی سلامتی اور اس میں بسنے والوں کی عافیت عزیز ہے تو انہیں ابھی سے کسی نتیجے پر پہنچ جانا چاہیے اور آئندہ قومی انتخابات پر زیادہ امیدیں لگا کر مزید وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ موجودہ ضمنی انتخابات کے نتائج سے ہماری آنکھیں کھل جانی چاہیں۔ یہ ابھی ٹریلر تھا، مکمل فلم بھی ہمارے سامنے آ جائے گی۔ چھ ماہ یا ایک سال بعد پھر کیا یہی سیٹ اپ نہیں ہو گا؟ سر زمین پاکستان پر ابھی روشن سویرا نکلنے میں کتنی دیر باقی ہے یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے مگر شاید یہ قوم خود ابھی تاریکیوں میں بھٹکنا چاہتی ہے۔ ایسی صورت میں اسے کسی سے شکایت نہیں کرنی چاہئے بلکہ اپنے جمہوری تماشے پر غور کرنا چاہئے۔ روح عصر کی پکار نے تو اسے متنبہ کر دیا ہے۔ اب بھی قوم سمجھنے اور غور کرنے کے لئے تیار نہیں تو اس میں کون قصور وار ہے؟ لوٹنے والے یا خود کو لوٹ مار کے لئے بار بار پیش کرنے والے؟
ڈاکٹر علی اکبر قادری