حافظ ارشد اقبال

علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ دور جدید کے ایک موثر اور متحرک مفکر کی حیثیت میں نہ صرف پاکستان بلکہ عالمِ اسلام اور دنیا بھر میں نہایت سنجیدگی اور عزت و تکریم سے جانے جاتے ہیں۔ اقبال رحمۃ اللہ علیہ روایت اور جدیدیت کا حسین امتزاج پیش کرتے ہوئے ان تمام ممکنات کو زیر بحث لاتے ہیں جو انسانی زندگی کو درپیش ہیں۔ مشرقی اور مغربی تحریکوں کی مکمل آگہی انکے منفرد فکری نظام کا حصہ بن کر ان کے پیغام کو آفاقیت بخشتی ہے۔

چلی ہے لیکر وطن کے نقارخانے سے
شراب علم کی لذت کشاں کشاں مجھ کو

اقبال رحمۃ اللہ علیہ کا کلام انسان کی مخفی صلاحیتوں کو جلا بخشنے اور ان کے لامتناہی امکانات کو عمل میں لانے کا پیغام دیتا ہے‘ موضوعات کی وسعت اور فکر کی گہرائی کے باعث جدید مسلم مفکّرین میں اقبال رحمۃ اللہ علیہ کو بلاشبہ بطور حوالہ بہت کثرت اور اعتماد سے استعمال کیا جاتا ہے۔

اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے افکار مساوات اور ہم آہنگی پر مبنی ایک ایسے معاشرے کی تشکیل چاہتے ہیں جو نہ صرف اپنی ثقافتی، روحانی اور مذہبی اقدار سے مکمل آگاہ ہو بلکہ زمانے کی رفتار اور تقاضوں کا بھی بھرپور ساتھ دے۔ امن، عالمی بھائی چارے اور سماجی انصاف کی موثر ترجمانی کرنے والے اقبال تنوع اور رنگارنگی کو انسانیت کا حسن اور بنیادی وصف قرار دیتے ہیں۔

اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی شاعری کا مطمع نظر مسلم اُمّہ کی بیداری ہے۔ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی شاعری میں قوموں کے عروج و زوال کے بارے میں متعدد بصیرت افروز نکات ملتے ہیں لیکن شاعری کا اصل اور نچوڑ دیکھا جائے تو وہ ملت بیضاکی عظمت رفتہ کی بحالی ہے۔ انکا یہ ایمان تھا کہ عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں دین و دنیا کی فلاح ہے اور اسی جذبہ سے ملت بیضاکی عظمت رفتہ کو واپس لایا جا سکتا ہے۔ ملت اسلامیہ کی عزت و سربلندی کے حصول کے لیے وہ شریعت کے اولین سرچشموں سے سیرابی اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مثالی زندگیوں کوسامنے رکھتے ہوئے نوجوانان ملت کو بیدارکرتے ہیں۔

اقبال رحمۃ اللہ علیہ اپنے فکر و تخیل کی دنیا میں خود کو ہمیشہ قافلہ حجاز سے وابستہ سمجھتے رہے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی ان کے قلب و روح کے لیے سامان راحت بنی رہی اور سفرِ زندگی میں ہر قدم پر اقبال رحمۃ اللہ علیہ ذات مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کو اپنا ہادی و راہنما تسلیم کرتے رہے۔

سالار کارواں ہے میرحجاز صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنا
اس نام سے ہے باقی آرام جاں اپنا

اقبال رحمۃ اللہ علیہ ایک طرف تو مسلم امّہ کی زبوں حالی اور اسکی وجوہات کی نشاندہی کرتے ہیں۔ تو دوسری طرف اس مرض سے بچنے کی تدابیر تجویز کرتے ہیں۔ بانگ درا میں ’’خطاب بہ نوجوان اسلام‘‘ کے عنوان سے مسلمان نوجواں سے اس طرح مخاطب ہیں :

کبھی اے نوجواں مسلم تدُّبر بھی کیا تو نے
وہ کیا گردوں تھا تو جسکا ہے ایک ٹوٹا ہوا تارا

تجھے اُس قوم نے پالا آغوش محبت میں
کچل ڈالا تھا جس نے پاؤں میں تاجِ سردارا

اسی نظم کے اگلے اشعار میں افسوس کیساتھ کہتے ہیں کہ ہم نے جب اسلام کی میراث کو بھلا دیا توہمارا زوال شروع ہو گیا۔

تجھے آباء سے اپنے کوئی نسبت ہو نہیں سکتی
کہ تو گفتار، وہ کردار، تو ثابت وہ سیارہ

گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریا سے زمین پر آسماں نے ہم کو دے مارا

حکومت کا تو کیا تھا رونا کہ وہ ایک عارضی شے تھی
نہیں دنیا کے آئین مُسلّم سے کوئی چارہ

مگر وہ علم کے موتی، کتابیں اپنے آباء کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارا

ملت اسلامیہ کو اس کے شاندار ماضی کا آئینہ دکھاتے ہوئے اقبال رحمۃ اللہ علیہ اسے اپنے ماضی پر فخر کرنے کا درس دیتے ہیں اور اس میں سے اس کی نشاۃ ثانیہ کیلئے راہیں تلاش کرتے ہیں۔ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کو ایک تو اسلامی روایات بہت عزیز ہیں دوسرا ان کے نزدیک کوئی قوم اقوام عالم میں اس وقت تک اپنی حیثیت برقرار نہیں رکھ سکتی جب تک کہ وہ اپنی تاریخ، روایات، اقدار اور ملی خصوصیات کا تحفظ نہ کرے۔

اقبال کا ’’شکوہ‘‘ مسلمانوں کی ماضی کی تصویر ہے اور عظمت رفتہ کا نشان ہے جبکہ ’’جواب شکوہ‘‘ مسلمانوں کے حال کی ایک جھلک ہے۔ ’’جواب شکوہ‘‘ میں اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے عصر حاضر کے مسلمانوں کو جہاں اپنا چہرہ دیکھنے کے لیے آئینہ مہیاکیا ہے وہاں اُسے یہ بھی یقین دلایا کہ اگر وہ بے عملی کی دلدل سے نکل آئے، اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لے تو مستقبل بھی اُسی کا ہے ’’جواب شکوہ‘‘ حقیقتاً امت کی بیداری کیلئے نسخہ کیمیا ہے۔ اقبال بیداری امت میں حقیقی رکاوٹ کو ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں :

قلب میں سوز نہیں روح میں احساس نہیں
کچھ بھی پیغام محمد کا تمہیں پاس نہیں

امراء نشہ دولت میں ہیں غافل ہم سے
زندہ ہے یہ ملت بیضاء غرباء کے دم سے

رہ گئی رسمِ اذاں روحِ بلالی نہ رہی
فلسفہ رہ گیا تلقینِ غزالی نہ رہی

مسجدیں مرثیہ خواں ہیں کہ نمازی نہ رہے
یعنی وہ صاحب اوصافِ حجازی نہ رہے

وضع میں تم ہو نصاری تو تمدن میں ہو ہنود
یہ مسلمان ہیں جنھیں دیکھ کر شرمائیں یہود

یوں تو سید بھی ہو‘ مرزا بھی ہو‘ افغاں بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو بتائو تو مسلماں بھی ہو

ہرکوئی مست مئے ذوقِ تن آسانی ہے
تم مسلمان ہو! یہ انداز مسلمانی ہے

حیدری فقر ہے‘ نے دولت عثمانی ہے
تم کو اسلاف سے کیا نسبت روحانی ہے

وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر

جوابِ شکوہ میں مستقبل کا لائحہ عمل دیتے ہیں کہ امت کو کیا کرنا چاہیے؟ فرماتے ہیں :

قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دہر میں اسم محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اجالا کر دے

چشم اقوام یہ نظارہ ابد تک دیکھے
رفعت و رفعنالک ذکرک دیکھے

کی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں

بیداری امت میں حائل رکاوٹیں

بیداری ملت کے لیے اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی شاعری میں کبھی تو افراد ملت کو ان کا شاندار ماضی دکھایا تو کبھی اتحاد و یقین کی دعوت دی۔ کبھی تو اسکی غلامی پہ رضامندی، سستی و کاہلی اور عمل سے فراغت پر کڑی تنقید کی تو کبھی مغربی تہذیب سے بچنے کا درس دیا۔

انھوں نے ایک طرف مومن کو پختہ عزمی، اسلاف سے روحانی نسبت اور خودی کا درس دیا تو دوسری طرف منافقت، مادہ پرستی، بنیاد پرستی سے بچنے کی تلقین کی۔ امت کی بیداری میں حائل چند اہم رکاوٹوں کا ذکر ہمیں اقبال کے افکار سے یوں ملتا ہے۔

-1غلامی

اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں ملت اسلامیہ کا سب سے بڑا مسئلہ اس کی غلامی ہے کیونکہ باقی جتنے مسائل تھے وہ صرف اس مسئلے کے حل ہونے میں مضمر تھے۔ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک غلامی ایک لعنت ہے اور اس سے نجات کیلئے وہ ملت اسلامیہ کو اس کے شاندار ماضی کی یاد دلاتے ہوئے آزادی اور حریت کا سبق دیتے نظر آتے ہیں۔

یورپ کی غلامی پہ رضامند ہوا تو
مجھ کو تو گلہ تجھ سے ہے یورپ سے نہیں ہے

غلامی کے مقابلے میں آزادی کو یوں بیان کرتے ہیں :

آزاد کا ہر لحظہ پیغام ابدیت
محکوم کا ہر لحظہ نئی مرگ مفاجات

آزاد کا اندیشہ حقیقت سے منور
محکوم کا اندیشہ گرفتار خرافات

محکوم کو پیروں کی کرامات کا سوتا
ہے بندہ آزاد خود ایک زندہ کرامات

مغلیہ خاندان (تیموریان ہند) تاراج ہوا۔ ان مغلوں کی سستی، کاہلی، تن آسانی اور بے حمیتی پر اقبال رحمۃ اللہ علیہ اپنی نظم ’’غلام قادر روحیلہ‘میں کہتے ہیں۔

مگر یہ راز کھل گیا سارے زمانے پر
حمیت نام ہے جس کا گئی تیمور کے گھر سے

اقبال رحمۃ اللہ علیہ اپنی بات کو بڑھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ کسی ایک شخص کے گناہ تو معاف ہو سکتے ہیں لیکن جب پوری قوم بے حمیتی پر ڈٹ جائے تو ان کیلئے کوئی چارہ ساز نہیں۔

فطرت افراد سے اغماض تو کر لیتی ہے
کبھی کرتی نہیں ملت کے گناہوں کو معاف

امت مسلمہ کو خدا کا قانون کچھ اس انداز میں سمجھایا :

تقدیر کے قاضی کا یہ فتوی ہے ازل سے
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات

اقبال رحمۃ اللہ علیہ غلامی کی لعنت پر کڑھتے ہوئے مسلمانوں کی تساہل پسندی کو ملت کا گناہ قرار دیتے ہیں اور تقدیر امم میں ملت اسلامیہ کو شمشیر بے نیام رکھنے کا درس دیتے ہوئے اسے اسکا شاندار ماضی یاد دلاتے ہیں کہ یہ ملت اسلامیہ ہی تھی جس نے قیصر وکسریٰ کے استبداد کو مٹایا۔

مٹایا قیصرو کسری کے استبداد کو جس نے
وہ کیا تھا زورِ حیدر، فقربوذر، صدق سلیمانی

غلامی کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ وہ بندہ مومن کو بندہ خدا نہیں بلکہ بندہ نفس و شیطان بنا دیتی ہے۔ نتیجتاً وہ توحید الٰہی کے حقیقی سبق کو بھلا بیٹھتا ہے۔ توحید کا حقیقی سبق یہ ہے کہ بندہ اللہ تعالیٰ کے سوا ہر طرح کے خوف سے آزاد ہو۔

قلندر جز دو حرف لاالہ کچھ نہیں جانتا
فقیہہ شہر قارون ہے لغت ہائے حجازی کا

لا الہ اِلا اللہ ہی وہ کلمہ ہے جو بندہ مومن کو غلامی سے نجا ت دلا سکتا ہے۔ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کو یقین ہے کہ توحید سے ایک دن یہ چمن معمور ہو گا۔

شب گریزاں ہو گی جلوہ خورشید سے
یہ چمن معمور ہو گا نغمہ توحید سے

-2 اتحاد کا فقدان

مسلم امہ میں لسانی، مسلکی اور علاقائی بنیادوں پر تفریق بیداری امت میں حائل رکاوٹوں میں سے ایک بڑی رکاوٹ ہے علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ اسی کی اہمیت کے پیش نظر فرماتے ہیں۔

بتانِ رنگ و خوں کو توڑ کر ملت میں گم ہو جا
نہ تورانی رہے باقی نہ ایرانی نہ افغانی

اسی تناظر میں دوسری جگہ فرماتے ہیں :

فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں بیرون دریا کچھ نہیں

علامہ ان اشعار میں ہمیں وہ بھولا ہوا سبق یاد دلا رہے ہیں جس درس کی تلاوت ہر مسلمان قرآن مجید میں کرتا ہے :

وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اﷲِ جَمِيْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا وَاذْکُرُوْا نِعْمَتَ اﷲِ عَلَيْکُمْ اِذْ کُنْتُمْ اَعْدَآءً فَالَّفَ بَيْنَ قُلُوْبِکُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهِ اِخْوَانًا.

(آل عمران : 103)

’’اور اللہ کی رسی کو سب مل کر مضبوطی سے تھام لو اور جدا جدا نہ ہو جاؤ اور اپنے اوپر اللہ کے اُس فضل کو یاد کرو کہ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اللہ نے تمہارے دلوں کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ دیا اور تم اُس کے فضل سے بھائی بھائی بن گئے‘‘۔

اسی آیت قرآنی کا مفہوم اپنے الفاظ میں یوں ادا کرتے ہیں :

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کیلئے
نیل کے ساحل سے لیکر تابخاک کاشغر

-3مغرب کی تہذیبی یلغار

علامہ اقبال مغربی تہذیب کے سب سے بڑے ناقد ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ یہ تہذیب مسلمانوں کیلئے زہرِ قاتل ہے مغربی تہذیب کی بنیاد ’’عقیدہ کفارہ‘‘ اور ’’مادی ترقی‘‘ ہے جبکہ اسلامی تہذیب عقائد، عبادات، معاملات اور اعمال و اخلاق کا ایک پورا نظام رکھتی ہے۔ ’’عقیدہ کفارہ‘‘ کا مفہوم یہ ہے کہ ’’جو کچھ کر لو سب کچھ جائز ہے‘‘ اس لیے کہ عیسیٰ علیہ السلام نے سولی پر چڑھ کر تمام عیسائیوں کے گناہوں کا کفارہ ادا کر دیا ہے۔ اِس طرح کی سوچ بعض مسلمانوں کے ہاں بھی ملتی ہے، جو عملاً سستی اور کاہلی کو جنم دیتی ہے اور بیداری کے راستے میں رکاوٹ ہے۔ اقبال رحمۃ اللہ علیہ اس تہذیب کے حوالے سے فرماتے ہیں :

نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیب حاضر کی
یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے

مسلمان دانشوروں کو مخاطب کر کے کہتے ہیں :

اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسولِ ہاشمی

اور اس حوالے سے اپنا نظریہ بیان کرتے ہیں :

خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوہ دانش فرنگ
سرمہ ہے میری آنکھ کا خاکِ مدینہ و نجف

-4منافقت اور مادہ پرستی

قوموں کے زوال اور بربادی میں ایک بڑی اور اہم وجہ منافقت اور مادہ پرستی ہے۔ منافقت بیداری کی بجائے بزدلی پیدا کرتی ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

فَتَرَی الَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ يُّسَارِعُوْنَ فِيْهِمْ يَقُوْلُوْنَ نَخْشٰی اَنْ تُصِيْبَنَا دَآئِرةٌ.

(المائده : 52)

’’سو آپ ایسے لوگوں کو دیکھیں گے جن کے دلوں میں (نفاق اور ذہنوں میں غلامی کی) بیماری ہے کہ وہ ان(یہود و نصاریٰ) میں (شامل ہونے کے لیے) دوڑتے ہیں، کہتے ہیں ہمیں خوف ہے کہ ہم پر کوئی گردش (نہ) آ جائے (یعنی ان کے ساتھ ملنے سے شاید ہمیں تحفظ مل جائے)‘‘۔

اقبال رحمۃ اللہ علیہ اس حوالے سے فرماتے ہیں :

باطل دوئی پسند ہے حق لا شریک ہے
شرکتِ میانہ حق و باطل نہ کر قبول

-5نسبت ِروحانی میں انقطاع

امت مسلمہ کی بیداری کیلئے ضروری ہے کہ امت کا تعلق اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بے پناہ عقیدت کے ساتھ ساتھ اتباع اور اطاعت کا تعلق بہت گہرا ہو۔

قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :

قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ يُحْبِبْکُمُ اللّٰهُ وَيَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ وَاللّٰهُ غَفُورٌ رَّحِيْمٌo

(آل عمران : 31)

’’(اے حبیب!) آپ فرما دیں : اگر تم اﷲ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو تب اﷲ تمہیں (اپنا) محبوب بنا لے گا اور تمہارے لیے تمہارے گناہ معاف فرما دے گا، اور اﷲ نہایت بخشنے والا مہربان ہے‘‘۔

اقبال رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کے پس منظر میں اس محبت کو یوں بیان کرتے ہیں :

بمصطفیٰ برساں خویش را کہ دین ہمہ است
گر بہ او نرسیدی تمام بولہبی است

در دل مسلم مقام مصطفی است
آبروئے ما ز نام مصطفی است

اور پھر ایک مقام پر یوں اِس عقیدت و محبت کا اظہار کرتے ہیں۔

وہ دانائے سبل‘ ختم الرسل مولائے کل جس نے
غبار راہ کو بخشا فروغ وادی سینا

نگاہِ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر
وہی قرآن، وہی فرقان، وہی یسین، وہی طہٰ

علامہ رحمۃ اللہ علیہ ’’ارمغان حجاز‘‘ میں اپنی نظم ’’ابلیس اپنے مشیروں سے‘‘ میں بیان کرتے ہیں کہ : ابلیس یہ مشورہ دیتا ہے کہ اگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا لایا ہوا دین اور آئین نافذ ہو گیا تو دنیا میں واقعی امن ہو سکتا ہے اس لیے اے میرے چیلو! تمہارا کام ہے کہ تم نظام مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کبھی نافذ نہ ہونے دینا۔

جانتا ہوں میں یہ امت حامل قرآن نہیں
ہے وہی سرمایہ داری بندہ مومن کا دین

جانتا ہوں میں کہ مشرق کی اندھیری رات میں
بے ید بیضا ہے پیران حرم کی آستین

عصر حاضر کے تقاضاؤں سے ہے لیکن یہ خوف
ہو نہ جائے آ شکار شرع پیغمبر کہیں

الحذر آئین پیغمبر سے سو بار الحذر
حافظ ناموس زن، مرد آزما، مرد آفرین

چشم عالم سے رہے پوشیدہ یہ آئین تو خوب
یہ غنیمت ہے کہ خود مومن ہے محروم یقین

ہے یہی بہتر الہیات میں الجھا رہے
یہ کتاب اللہ کی تاویلات میں الجھا رہے

اقبال رحمۃ اللہ علیہ اس جانب بھی توجہ مبذول کرواتے ہیں کہ آج کے مسلمان کا حال یہ ہے کہ وہ الفاظ کے پیچ و خم میں الجھے ہوئے ہیں اور اصل بات کہ خدا کے نظام کو خدا کی زمین میں کیسے نافذ کرنا ہے اس طرف غور وفکر سے خالی ہیں۔ امت کو اس جانب متوجہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

ترے دریا میں طوفان کیوں نہیں ہے
خودی تیری مسلمان کیوں نہیں ہے

عبث ہے شکوہ تقدیر یزداں
تو خود تقدیر یزداں کیوں نہیں ہے