انسداد دہشتگردی عدالت لاہور میں سانحہ ماڈل ٹاؤن کے حوالے سے دائر استغاثہ مروجہ قانونی طریقہ کار کے مطابق آگے بڑھ رہا ہے۔ استغاثہ مارچ 2017ء میں منظور ہوا تھا اور مارچ 2018ء میں اسے منظور ہوئے ایک سال بیت گیا ہے۔ منظوری کے بعد دوسرا قانونی مرحلہ فردِ جرم عائد کیے جانے سے متعلق ہے۔ استغاثہ کے تحت اے ٹی سی نے 124 ملزمان طلب کیے لیکن یہ ملزمان گزشتہ ایک سال سے فردِ جرم عائد کیے جانے کے قانونی عمل کو تاخیر کا شکار بنانے کیلئے ایک سال سے مختلف ہتھکنڈے اختیار کررہے ہیں۔ گزرے ہوئے ایک سال میں پولیس ملزمان کی طرف سے درجنوں درخواستیں دائر کی گئیں اور درجنوں مرتبہ غیر حاضر رہے اور درجنوں بار مختلف عذر پیش کر کے تاریخیں لیں۔ ہمارے نظامِ عدل کی یہی پیچیدگی ہے کہ فیئر ٹرائل کی آڑ میں ملزمان عدالت کا وقت ضائع کرتے اور کیس کو تاخیر کا شکار کرنے کیلئے قانونی عذر تراشتے رہتے ہیں۔ 16 مارچ 2018ء کو اے ٹی سی میں سانحہ ماڈل ٹاؤن کی تاریخ تھی اور اس تاریخ پر ملزمان نے لمبی تاریخ لینے کا ایک دلچسپ عذر پیش کیا۔ ملزمان کے وکلاء نے اے ٹی سی جج سے استدعا کی کہ پی ایس ایل کرکٹ مقابلوں کی وجہ سے تاریخ بڑھا دی جائے جس پر اے ٹی سی جج نے مسکراتے ہوئے کہا کہ انصاف کے عمل اور پی ایس ایل کا آپس میں کیا تعلق ہے؟ اور انہوں نے ملزمان کے وکلاء کو ہدایت کی کہ وہ بلاتاخیر اپنے ’’آرگومنٹ ‘‘مکمل کریں تاکہ فردِ جرم کا قانونی تقاضا پورا کر کے ٹرائل کا آغاز کیا جا سکے۔
گزشتہ تواریخ پر اے ٹی سی جج نے ملزمان کے وکلاء کی طرف سے مسلسل غیر حاضری اور تاریخ پر تاریخ لینے کے عمل پر برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ ہم یہاں پر صرف درخواستیں وصول کرنے کیلئے نہیں، فیصلے سنانے کیلئے بیٹھے ہیں اور انہوں نے ملزمان کے وکلاء کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ جتنی مرضی تاخیر کر لیں لیکن اس استغاثہ نے ہر حال میں قانونی پراسیس میں جانا ہے اور پراسیس کے بغیر کسی کو کوئی ریلیف نہیں ملنے والا، لہٰذا اپنا اور عدالت کا وقت مت ضائع کریں۔ اے ٹی سی جج نے یہ ریمارکس بھی دئیے کہ کوئی ایسی مثال نہیں کہ محض فردِ جرم عائد کرنے کے حوالے سے ایک سال سے زائد کا عرصہ گزر جائے؟
آج کل استغاثہ کیس کے حوالے سے قانونی عمل تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ غالب امکان ہے کہ اپریل 2018ء میں فردِ جرم عائد ہو جائے گی اور ٹرائل کا باقاعدہ آغاز ہو جائے گا۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے مرکزی کردار اُس وقت کے ڈی آئی جی آپریشن رانا عبدالجبار مسلسل عدالت سے غیر حاضر ہیں اور ان کے قابلِ ضمانت وارنٹ جاری ہو چکے ہیں۔ 16 مارچ 2018ء کے دن استغاثہ کیس کی سماعت کے موقع پر اے ٹی سی جج نے سختی سے ہدایت کی کہ رانا عبدالجبار کو پیش کیا جائے۔ یہ وہی رانا عبدالجبار ہیں جو 17 جون 2014ء کے دن آئی جی آفس اور وزیراعلیٰ ہاؤس کے درمیان رابطہ کار اور سانحہ ماڈل ٹاؤن کے خونی آپریشن کے نگران تھے۔ عوامی تحریک کے وکلاء ہر تاریخ پر معزز عدالت سے استدعا کرتے ہیں کہ رانا عبدالجبار کو حاضر کروایا جائے یا انہیں اشتہاری قرار دیا جائے۔ امید ہے آئندہ تواریخ پر یا تو ملزم رانا عبدالجبار پیش ہونگے یا پھر مستقل اشتہاری قرار پائیں گے۔
سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس کا دوسرا پہلو ان ملزمان کی طلبی ہے جنہوں نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے قتلِ عام کی منصوبہ بندی کی اور ان کی نگرانی میں بے گناہ شہریوں کا قتل عام ہوا، ان میں نواز شریف، شہباز شریف، رانا ثناء اللہ و دیگر حواری شامل ہیں، ان کی طلبی کیلئے بھی لاہور ہائیکورٹ میں کیس زیر سماعت ہے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ سانحہ کے مرکزی ملزمان بھی ایک دن قانون کے کٹہرے میں کھڑے ہوں گے کیونکہ سانحہ سے ان کا تعلق جسٹس باقر نجفی کمیشن کی رپورٹ میں ثابت ہو چکا ہے۔
سانحہ ماڈل ٹاؤن پاکستان کی تاریخ کا ایک بدترین قتلِ عام ہے جس میں عوام کے جان و مال کے محافظ ادارے پولیس نے حکمرانوں کے ایماء پر بے گناہوں کی جانیں لیں جن میں خواتین، بوڑھے، جوان سبھی شامل تھے۔ پولیس کی درندگی کے مناظر کی ویڈیوز آج بھی محفوظ ہیں اور سانحہ ماڈل ٹاؤن استغاثہ کیس کا حصہ ہیں۔ یہ بے گناہوں کا خون ہے، یہ رنگ لائے گا اور قاتل کتنے ہی چالاک، عیار اور مالدار کیوں نہ ہوں بالآخر وہ اپنے انجام سے دو چار ہوں گے اور عبرت کا نشان بنیں گے۔ فرعون کو اپنی طاقت، اپنے اقتدار اور جاہ و جلال پر بڑا گھمنڈ تھا اور وہ زمین پر خود کو خدا سمجھتا تھا، ریاستی طاقت کے نشے میں کمزوروں کو ظلم کا نشانہ بناتا تھا، اپنے اقتدار کو مستحکم کرنے کیلئے ظلم اور ناانصافی سے کام لیتا تھا اور پھر جب اللہ کی لاٹھی حرکت میں آئی تو وہ اپنے عبرتناک انجام سے دو چار ہوا اور آج اسے عبرت کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ نواز شریف کو بھی اپنی سیاسی طاقت اور اقتدار پر بڑا گھمنڈ تھا، وہ خود کو مختارِ کل سمجھتا تھا اور یہ خناس اس کے ذہن میں سمایا ہوا تھا کہ کوئی طاقت اسے چیلنج نہیں کر سکتی اور پھر اللہ کی لاٹھی حرکت میں آئی، پاناما لیکس کیس میں نواز شریف بمعہ اہل و عیال عبرت کا نشان بنے اور اللہ نے اسے اس طرح رسوا کیا کہ پاکستان کی سب سے بڑی عدالت کے معتبر پانچ ججز نے انہیں جھوٹ بولنے، اثاثے چھپانے پر نااہل قرار دے کر ایوان اقتدار سے کک آؤٹ کر دیا اور اب پورا خاندان کرپشن ریفرنسز میں احتساب عدالت کی تاریخیں بھگت رہا ہے۔ ان کے خلاف کرپشن کے اتنے ٹھوس شواہد موجود ہیں کہ یہ کسی طور سزاؤں سے نہیں بچ پائیں گے اور یقینی سزاؤں ہی کے خوف میں آج کل تحریکِ عدل چلانے کا ناٹک کر رہے ہیں۔ تاہم اب کوئی ہتھکنڈہ انہیں ان کے انجام سے نہیں بچا سکے گا۔
گزشتہ رمضان المبارک میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے شبِ قدر کی رات شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء کے انصاف کیلئے اللہ رب العزت کے حضور ایک رقت آمیز دعا کی تھی کہ اے رب ان قاتلوں اور ظالموں کے محاسبہ اور مواخذہ کیلئے اپنی غیبی مدد اتار اور انہیں نشانِ عبرت بنا اور پھر پاناما لیکس کی صورت میں یہ مدد پہنچی اور یہ خاندان نشانِ عبرت بنا۔ ابھی یہ آغاز ہے، نواز شریف سانحہ ماڈل ٹاؤن کے حکم دینے والے ہیں، شہباز شریف اس پر عملدرآمد کروانے والے ہیں، یہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ظلم کا خمیازہ اور نتیجہ اسی دنیا میں بھگت کر جائیں گے۔
یہاں پر ہم شہدائے ماڈل ٹاؤن کے جرأت مند اور غیرت مند ورثاء کو بارے دیگر مبارکباد پیش کریں گے کہ انہوں نے تمام تر حکومتی پیشکشوں کو پاؤں کی ٹھوکر پر رکھا اور دیت کے نام پر خون معاف کرنے کی ہر حکومتی اور ان کے حواریوں کی درخواستوں کومسترد کر دیا۔ انہیں پیشکشیں بھی کی گئیں اور ہراساں بھی کیا گیا مگر قاتلوں کی بات نہیں بن سکی۔ گزشتہ ہفتے سماء ٹی وی نے اس حوالے سے خصوصی رپورٹ بھی دی کہ شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء کو کیس سے دستبردار ہونے کیلئے پہلے 50 لاکھ، پھر ایک کروڑ کی پیشکش کی اور اب قاتلوں کی طرف سے کہا جارہا ہے کہ آپ جو لینا چاہتے ہیں خود ہی بتا دیں لیکن پاکستان کی زمین پر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے چاہنے والے ایسے بھی ہیں جو انمول ہیں۔ وہ اپنی غربت اور تنگ دستی کے ہاتھوں بے بس نہیں۔ ان کی ایک ہی آرزو ہے کہ وہ شریف برادران کو پھانسی کے پھندوں پر جھولتا دیکھیں۔ ہم یہاں پر اپوزیشن لیڈر میاں محمود الرشید کے بھی شکر گزار ہیں کہ انہوں نے 16 مارچ 2018ء کو پنجاب اسمبلی میں شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء کو ہراساں کیے جانے کے خلاف ایک قرارداد جمع کروائی۔ ان شاء اللہ تعالیٰ وہ دن جلد آئے گا کہ جب سانحہ ماڈل ٹاؤن کے قاتل پھانسی کے پھندوں پر جھولیں گے اور انصاف کا سویرا طلوع اور مظلوم سرخرو ہونگے۔