جب ملک اور قوم مشکلات کا شکار ہوجائیں تو اس وقت حکمران سچ بول کر حالات کا مقابلہ اور قوم کا اعتماد حاصل کرتے اور ملک کو بحرانوں سے نکالتے ہیں مگر پاکستان میں صورت حال اس کے برعکس ہے۔ حکمرانوں نے اپنے اقتدار کے حالیہ 3 سال عوام کو دھوکہ دینے اور مسلسل جھوٹ بولنے میں گزارے، اس لیے موجودہ حکومت کی عوام میں اور بین الاقوامی سطح پر کوئی کریڈیبلٹی قائم نہیں ہو سکی اور اس کے خطرناک نتائج کا سامنا پاکستان بطور ریاست کررہا ہے۔ حکمران جھوٹ بولتے ہیں، جھوٹ کازہر قومی سیاسی جسم کی رگ رگ میں سرایت کر چکا ہے۔ الیکشن جیتنے سے لیکر اقتدار کے آخری دن تک جھوٹ بولا جاتا ہے۔ عوام کو ترقی اور خوشحالی کے سہانے خواب دکھائے جاتے ہیں اور گذشتہ69 سال سے اسی نام نہاد ترقی کا سفر جاری ہے۔
یہاں سفاکیت کا نام جمہوریت رکھ دیا گیا ہے۔ قومی ایکشن پلان کی روح کو اِن نام نہاد حکمرانوں نے ختم کردیا ہے۔ جمہوری نظام کی باگ ڈور ان عناصر کے ہاتھ میں ہے جو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں میں براہ راست ملوث ہیں۔ مہذب جمہوری ممالک اور عوام کی حقیقی نمائندگی رکھنے والی حکومتیں جب کسی مشکل کا شکار ہوجائیں تو عوام ان کے شانہ بشانہ کھڑی ہوتی ہے اور جمہوریت کے تحفظ کے لئے اپنی جانیں بھی قربان کردیتی ہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ عوام جانتی ہے کہ حکمران ہمارے حقوق کی فراہمی اور ہمارے وقار کی بحالی کے لئے ہماری امیدوں کے مطابق حکومت کررہے ہیں۔ اس کی واضح مثال گذشتہ ماہ ترکی میں عوام کا اپنے حکمرانوں پر اعتماد کی بناء پر جمہوریت کے تحفظ کے لئے جرات مندانہ کردار ہے۔
مگر پاکستان کے کرپٹ حکمرانوں کے نزدیک عوام کی کوئی حیثیت نہیں، عوام کے احتجاج کی کوئی وقعت نہیں، لوگ اپنے حقوق کے حصول کے لئے ہر آئے روز دھرنے دیتے ہیں مگر ان کے احتجاجات کو سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا۔ جب تک وزیر اعلیٰ ہاؤس، گورنر ہاؤس، وزیر اعظم ہاؤس یا پارلیمنٹ کے باہر دھرنا نہ دیا جائے تو ایف آئی آر تک درج نہیں ہوتی۔ اس صورت حال میں ان حکمرانوں کی یہ سوچ ان کی خوش فہمی کے سوا کچھ بھی نہیں کہ عوام ہمارے ساتھ ہیں اور عوام نے ہمیں حکمرانی کا مینڈیٹ دیا ہے۔ ان حکمرانوں نے اس ظلم کے نظام کے سہارے عوامی خواہشات کے برعکس منظم دھاندلی کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کررکھا ہے۔ بقول قائد انقلاب ڈاکٹر محمد طاہرالقادری: اس ظالم نظام کو ان حکمرانوں نے تحفظ دے رکھا ہے اور ان حکمرانوں کو اس ظالم نظام نے تحفظ دے رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں عام آدمی کمزور سے کمزور تر اور ہر آئے روز اپنے حقوق سے محروم چلا آرہا ہے۔
موجودہ حکمرانوں اور اس کرپشن زدہ نظام کا حصہ حزب مخالف کی متعدد سیاسی جماعتوں کے درمیان عوام کے حقوق کی پامالی اور اپنے آپ کو مضبوط کرنے کے حوالے سے ایک غیر تحریری معاہدہ اور ریڈ لائن ہے جسے دونوں طرف سے کوئی عبور نہیں کرتا اور اگر کوئی تیسری عوامی قوت اس ریڈ لائن کی طرف بڑھے تو یہ سب آپس میں اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن، 14 شہادتیں اور 80 سے زائد زخمی اس کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔ کرپشن کرنے والے حکومتوں میں بیٹھے ہیں اور کرپشن کے نظام کو تحفظ دے رہے ہیں۔ ٹی او آرز کمیٹی کا انجام آنکھیں کھول دینے کیلئے کافی ہے۔ موجودہ نظام کرپٹ حکمرانوں اور دیگر روایتی سیاستدانوں کا مشترکہ دسترخوان ہے۔
ہم نے جنوری 2013 ء میں غیر آئینی الیکشن کمیشن اور اس کے ممبرز کے غیر آئینی تقرر کے خلاف لانگ مارچ کیا تھا اور اس کیلئے سپریم کورٹ بھی گئے تھے مگر سٹیٹس کو اور دھاندلی زدہ نظام کی محافظ قوتیں ہمارے خلاف اکٹھی ہو گئی تھیں۔ بعد ازاں اگست 2014ء میں ہمارے اسلام آباد دھرنے کے دوران بھی ان کرپٹ حکمرانوں اور کرپٹ روایتی سیاستدانوں کا مذموم و مکروہ رویہ پوری قوم کے سامنے ہے۔ قائد انقلاب ڈاکٹر محمد طاہرالقادری انقلاب کی بات کرتے ہیں تو حکمران ان کے کارکنان کو گولیوں سے نشانہ بناتے ہیں جبکہ اس ظالم نظام کا حصہ سیاسی جماعتیں آپس میں صرف لفظوں کی جنگ کرتی ہیں اور اقتدار میں اپنے حصہ بڑھانے کے لئے صرف زبانی کلامی بظاہر مخالفت کرتے نظر آتے ہیں۔ اس مک مکا کے نظام نے ملک اور ادارے تباہ کر دئیے۔یہ اعزاز صرف پاکستان عوامی تحریک کو حاصل ہے کہ جس نے دھاندلی زدہ انتخابی نظام کو چیلنج کیا، دہشتگرد گروپوں اور ان کے سرپرستوں کو بے نقاب کیا۔ موسموں کی حدت اور شدت کی پرواہ کیے بغیر لانگ مارچ کیے، دھرنے دئیے اور اس ظالم نظام کی قباحات کو طشت از بام کرکے رکھ دیا۔
قائد انقلاب ڈاکٹر محمد طاہر القادری کا انقلاب آئین کے اُن غیر اعلانیہ معطل 40آرٹیکلز پر عملدرآمد سے عبارت ہے جو عوام الناس کے بنیادی حقوق سے متعلق ہیں۔ آئین پاکستان عوام کے لئے تعلیم، صحت، روزگار، انصاف، آزادانہ نقل و حمل، جان ومال، عزت کے تحفظ، خالص اور سستی اشیائے خورونوش کی فراہمی، ووٹ کے استعمال، سیاسی جمہوری حقوق کی فراہمی اور ہر طرح کے استحصال کے خاتمہ کے حوالے سے گارنٹی دیتا ہے مگر اس کرپٹ نظام کی وجہ سے یہ ضمانتیں معدوم ہو چکی ہیں۔ آج پاکستان کو آئین نہیں بلکہ خواہشات پر چلایا جا رہا ہے۔ ملک میں آئین و قانون کی بالادستی ہوتی اور پارلیمنٹ فعال کردار ادا کر رہی ہوتی تو الیکشن کمیشن کے ممبرز کے تقرر کے حوالے سے چیف جسٹس آف سپریم کورٹ کو سو موٹو ایکشن نہ لینا پڑتا، بلدیاتی اداروں کو اب تک اختیارات دے کر فعال بنادیا گیا ہوتا اور ملک کو اندرونی و بیرونی سطح پر اس طرح کے چیلنجز درپیش نہ ہوتے۔ آئین پر عملدرآمد کے حوالے سے پہلی ذمہ داری پارلیمنٹ کی ہے، مگر افسوس پارلیمنٹ اپنی اس ذمہ داری کو پورا کرنے میں ناکام ہے۔
کرپشن، بے ایمانی، اقربا پروری، انتہا پسندی اور دہشت گردی نے اسلام کے نام پر حاصل کیے جانے والے ملک پاکستان کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کیلئے خطرات پیدا کر دئیے ہیں۔ لہذا کرپشن کے نظام کے بانی اور دہشت گردوں کے سپورٹر یہ حکمران اور یہ نظام باقی رہے گا لاشیں اٹھتی رہیں گی اور خزانہ لٹتا رہے گا۔ کرپٹ حکمرانوں سے ان کی لوٹ مار کا حساب مانگنا ہرگز ہرگز جمہوریت کے خلاف سازش نہیں ہے بلکہ اب عوامی احتساب سے ہی قانونی احتساب کا راستہ کھلے گا۔ حکمرانوں کا طرز حکومت ملکی سالمیت، اتحاد ویگانگت کیلئے خطرہ ہے۔ صرف سڑکیں اور چند پل بنانے سے ملک مضبوط اور مستحکم نہیں ہوتا بلکہ غریب عوام کو بنیادی حقوق پہنچا کر ملک کی معیشت کو مضبوط بنایا جاتا ہے۔
کرپشن، ظلم اور استحصال پر مبنی سیاسی اور انتخابی نظام کے باعث پے در پے انتخابات کے باوجود پاکستان کو نمائندہ قیادت میسر آسکی اور نہ ہی ملک میں پائیدار امن قائم ہو سکا۔ جس دن عوام نے اس ظالم فرسودہ سیاسی نظام اور موجودہ نظامِ انتخابات کی قباحتوں کو جان لیا، وہی دن پاکستان کی حقیقی آزادی کی جانب راست اقدام کا پہلا دن ہوگا۔