حرفِ دانش بھی تحریرِ مبہم میں ہے
یاخدا، یاخدا، یاخدا، یاخدا
ہر قدم پر ہے مطلوب تیری رضا
زندگی گریہ شب کے عالم میں ہے
چشمِ پرنم مری شامِ ماتم میں ہے
حرفِ دانش بھی تحریرِ مبہم میں ہے
مجھ کو رستہ دکھا، مجھ کو رستہ دکھا
یاسیت کے بھنور میں ہے کشتی مری
روشنی کب سے غاروں میں ہے جا چھپی
ہر طرف زخم خوردہ ہوا ماتمی
اشکِ تر میں ہیں میرے حروفِ دعا
ہر طرف خون ہے، آگ، بارود ہے
رقص میں آج ابلیسِ مردود ہے
ایک اک میری تدبیر بے سود ہے
اِس طرف کربلا، اُس طرف کربلا
کون حاجت روائی کرے گا مری
کون مشکل کشائی کرے گا مری
کون آخر بھلائی کرے گا مری
کون تیرے سوا، کون تیرے سوا
یاخدا، یاخدا، یہ مری بے بسی
دے رہی ہے دہائی ترے نام کی
رکھ سلامت قلمدان کی روشنی
دے وسیلہ مجھے اپنے محبوب کا
ہر طرف بھوک ہے، ظلم ہے ننگ ہے
زر کے جھوٹے خدائوں سے بھی جنگ ہے
آدمی کی خرد آج بھی دنگ ہے
یاخدا! اپنے بندوں کو دے حوصلہ
روشنی کا قلم یاخدا بھیج دے
پیرہن دے کے میری نوا بھیج دے
اپنی رحمت کی کالی گھٹائیں بھیج دے
اس قیامت میں ہے بس ترا آسرا
امنِ عالم کی، یارب! بشارت ملے
شہرِ مدحت کی مجھ کو سفارت ملے
جنتِ سرکار کی بھی حرارت ملے
میرے اندر بھی ہے اک ہجومِ انا
اپنی مخلوق کا تُو ہے روزی رساں
حکم تیرے سے ہر سنگ ہے ضوفشاں
تری مرض کا پابند ہے آسماں
اذن تیرے سے چلتی ہے بادِ صبا