علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ میں کیا بتاؤں کہ محبت کیسا جذبہ ہے؟ اس کی کیفیت اور تاثیر کیا ہے یہ ایسی زبردست قوت ہے کہ لکڑی جیسی خشک اور بے جان چیز میں جان ڈال دیتی ہے اور خشک آنکھوں میں آنسو لے آتی ہے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ذرا پرے ہوئے تھے تو ان کی جدائی میں خشک لکڑی فریادی ہوئی اور رونے لگ گئی تھی پھر میں کیا عرض کروں کہ حُبِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے کس سوز و گداز کی دولت سے نوازتی ہے۔
انسان جس ہستی سے محبت کرتا ہے اس کی ذات کے چمن سے نہ صرف فکر و نظر کے پھول چنتا ہے بلکہ سوز و گداز کی کلیاں بھی سمیٹتا ہے۔ اس سے وہ اپنے دل و دماغ کو معطر رکھتا ہے اور تنہائیوں میں بھی انجمن آرا رہتا ہے۔
محبت تعلق کو جنم دیتی ہے جب محبت نہ ہو تو تعلق کیسا۔۔۔؟ اگر دل میں کسی کی محبت نہ ہو تو پکار بن کر زباں پہ نہیں آتی۔۔۔ پکارتی بھی محبت ہے اور فریاد رس بھی محبت ہی ہوتی ہے۔۔۔ محبت کی آغوش دلیلوں سے کبھی نہیں بھرتی، اسے محبت کی پکار ہی کھولتی ہے۔۔۔ جو دروازے ہمیشہ کے لئے بند ہوتے ہیں انہیں کھولنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی، انہیں محبت کے چند آنسو ہی کھول دیتے ہیں۔۔۔ محبت بھکاری بن کر بھی آئے تو محروم نہیں لوٹتی۔ بلکہ احساسات کا تار تار جھنجھوڑ دیتی ہے اور اپنا سارا درد محبوب کے سینے میں انڈیل دیتی ہے۔۔۔ محبت کا یہ روپ کس قدر سندر ہوتا ہے، یہ کوئی اہل دل ہی سے پوچھے۔
محمود کو ایاز کا غلام بنانا کیامحبت کا ادنیٰ سا کرشمہ نہیں۔۔۔؟ قدرت بھی محبت کے لئے اپنی فطرت بدل دیتی ہے۔ عقل کی خاطر کبھی قانون قدرت نہیں بدلا، عقل کے لئے آتش نمرود کب گلزار بنی ہے۔۔۔؟ دریاؤں نے اسے کب راستہ دیا۔۔۔؟ صحراؤں کی وسعتیں کب اس کے قدموں تلے سمٹی ہیں۔۔۔؟ محبت جب صحابہ رضی اللہ عنہ کے روپ میں تسخیر کو نکلی تو دنیا بھر کی وسعتیں ان کے زیر پا تھیں اور پوری کائنات کی کامرانیاں ان کے کمند میں تھیں دراصل یہ تسخیر صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی نہ تھی بلکہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کی تھی جو ان کے سینے میں موجزن تھی۔ اگر دلوں میں محبت ہی نہ ہو تو نصرت و اعانت کے لئے فرشتے آسمان سے کیسے اتر سکتے ہیں۔۔۔؟ فرشتوں کو آسماں سے لانے کی قوت تو محبت ہی میں ہے۔ محبت نہ ہو تو خدا کی نصرت کیسی اور فرشتوں کا نزول کہاں۔۔۔؟
یہ ایک حقیقت ہے کہ کسی امت نے اپنے نبی سے اتنی محبت نہیں کی جس قدر مسلمانوں نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نبی کو ٹوٹ کر چاہا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت سے فیض یافتہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے علاوہ آج تک ملت اسلامیہ کی تاریخ عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مظاہر سے مالا مال ہے۔ صدیوں بعد آنے والے مسلمانوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہمیشہ اپنے جان و مال اور اہل و عیال سے بڑھ کر چاہا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی تمام تر محبتوں کا مرکز و محور جانا ہے۔
عہد حاضر جو فی الحقیقت دور فتن ہے۔ اس میں جن شخصیات نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کو حرزِ جاں بنایا ہوا ہے اور گمراہ انسانوں کو اسی محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے اسلام کی عظمت رفتہ لوٹانا چاہتے ہیں ان گنے چنے چند ناموں میں حضرت ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ کا نام سرِ فہرست ہے۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام نامی سے منسوب معارف اسم محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ضمن میں اپنی عقیدت کو ان الفاظ کی سندرتا میں سمویا ہے:
’’محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا لفظ اتنا پیارا اور اتنا حسین ہے کہ اس کے سنتے ہی ہر نگاہ فرط تعظیم و ادب سے جھک جاتی ہے۔ ہر سر تسلیم میں خم ہوجاتا ہے اور زبان پر درود و سلام کے زمزمے جاری ہوجاتے ہیں لیکن کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ اس لفظ کا معنی و مفہوم بھی اس کے ظاہر کی طرح کس قدر حسیں اور دلآویز ہے۔ صرف نام کے لغوی معنی سے ہی نام والے کی عظمت کا اظہار ہورہا ہے۔ اس کا سادہ سا مفہوم ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہ ہے جس کی اپنے اوصاف کی بنا پر انتہائی محبت اور تسلسل سے اتنی تعریف و توصیف کی گئی ہو کہ اس سے زیادہ ممکن ہی نہ ہو‘‘۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مقدس و مطہر حیثیت محض ایک ہادی و رہبر کی ہی نہیں بلکہ ایک مسلمان کا مرکز محبت بھی ہے۔ اس والہانہ عقیدت و ارادت کا نام ہی ایمان ہے اور اس کے بغیر ایمان کی تکمیل ممکن ہی نہیں۔ جس دل میں آپ کی محبت نہیں وہ پتھر کا ایک بے حس ٹکڑا تو ہوسکتا ہے مگر دل نہیں۔ محبت بھی وہ جس کے آگے تمام محبتیں ہیچ ہیں۔ اس محبت کا سبب وہ دعوت حق ہے جس کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے۔ آپ کی اپنی ذات اس کا عملی پیکر تھی اور جس کے عملی نمونے (اسوہ حسنہ) کے سانچے میں حیات انسانی کو ڈھالا جانا مقصود تھا۔
امت مسلمہ کو جو خصوصیت دیگر اقوام عالم سے ممتاز کرتی ہے وہ اس کا جذبہ حُبّ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ خود یورپ کے عیسائی اس حقیقت کا بادل نخواستہ اعتراف کرتے ہیں۔ ’’اپالوجی فار محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ‘‘ کا مصنف لکھتا ہے:
’’محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیروؤں کا نشہ حواریان عیسیٰ علیہ السلام میں تلاش کرنا بے سود ہے، ان کا پیشوا موت کے پنجے میں گرفتار ہے، اس کے لئے صلیب تیار کی جارہی ہے اور وہ حواری اپنی جانیں بچانے کی فکر میں ہیں۔ اس کے برعکس محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام لیواؤں نے آپ پر اپنی جانیں نثار کرکے تمام دشمنوں پر آپ کو غالب کردیا‘‘۔
بلاشبہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس سے محبت و عقیدت ہر مسلمان کا جزو ایماں ہے۔ محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسلمانوں کی سب سے بڑی متاع زندگی ہے۔ جس شخص کا دامن اس متاع سے خالی ہے اس کا دعوی ایمان باطل ہے۔ جس شخص کا سینہ حب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا امین نہیں وہ سب کچھ تو ہوسکتا ہے مگر مسلمان نہیں۔ جو تیرہ بخت آپ کے دامن رحمت سے وابستگی کا دعویدار ہونے کے باوجود اپنے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم و مولا کی ذات اقدس میں تنقیص کا پہلو تلاش کرتا پھرے وہ شقی القلب مسلمان تو کیا انسان بھی نہیں ہوسکتا۔
مولائے کائنات حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے لب گوہر بار سے نکلے ہوئے یہ الفاظ اتنی جامعیت کے حامل ہیں کہ محبت کے سارے قرینے اس میں سمٹ آتے ہیں اور عشق اپنے کمال پہ دکھائی دیتا ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ سے کسی نے پوچھا کہ آپ حضرات (صحابہ کرام رضی اللہ عنہ ) رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کس انداز میں محبت کرتے تھے؟ ارشاد ہوا:
ہم رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے اپنے مال کو ٹھوکر مار دیتے تھے، ہماری اولاد رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نثار ہوجاتی تھی۔ محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے والدین کی محبت دم توڑتی نظر آتی تھی۔۔۔ کسی پیاسے کو ٹھنڈے پانی سے جو محبت ہوتی ہے اپنے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس سے بھی بڑھ کر ہے۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کا یہی جذبہ عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے جس کی نظیر تاریخ عالم پیش کرنے سے قاصر ہے۔ جس نے وقت کے بہتے دھارے موڑ دیئے۔حافظ مظہرالدین ان الفاظ میں محو ثنا ہیں:
پیکر نوری کو ہے سجدہ میسر تو کیا
اس کو میسر نہیں سوز و گداز سجود
قلب کا سوز اور دل کا گداز عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کا رہین منت ہے۔ اگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نسبت و تعلق نہ ہو تو سوز کہاں اور تڑپ کیسی؟ خاکم بدہن خاکم بدہن! محبوب دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی کی نفی کرنے کے بعد سوز و گداز کہاں سے مل سکتا ہے۔۔۔ یہ تڑپ یہ تپش کہاں سے میسر آسکتی ہے۔۔۔ آنکھوں میں ان آنسوؤں کے خزینے کہاں سے آسکتے ہیں جن کی رحمت پروردگار ہی خریدار ہوتی ہے۔ جلال کبریائی میں سوز نہیں اس لئے کہ سوز، عجز کا حصہ ہے اور رب جلیل عجز سے ماورا ہے۔ سوز کا مخزن محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عربی کا دل ہے، یہ یہیں سے ملا ہے اور یہیں سے ملے گا۔ جن لوگوں نے نور محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو صدیق رضی اللہ عنہ و فاروق رضی اللہ عنہ کی نگاہوں کے آئینے سے دیکھا انہیں چاندنی راتوں میں چکور کی سی مستیاں بھی ملیں اور محبت کی سرشاریاں بھی۔۔۔ ابوجہل کی میراث کی حامل نگاہوں پر ہمیشہ لاعلمی کا پردہ پڑا رہا، ان کی جرح و قدح کا سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوتا، قیل و قال کو تو محبت ہی ختم کرسکتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات بحث و تمحیص کا نہیں محبت کا تقاضا کرتی ہے اور کوچہءِ محبت۔۔ تکرار نہیں۔۔۔ پیار چاہتا ہے۔ محبت جب دل میں جاگزیں ہوجاتی ہے تو حسن و قبح کی گنجائش نہیں رہتی۔
حضورؐ آپ تو سینے کی دھڑکنوں میں ملے
میں سوچتا تھا ملنا محال ہے آپؐ کا
عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑھ کر اور کیا چیز ہوسکتی ہے۔ خدا کی معرفت اور رضائے الہٰی اسی کی رہین منت ہے۔ یہ بات مسلمہ ہے کہ وجہہ آفرینش اور مقصد حیات عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سوا کچھ نہیں۔ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عربی کی ذات والا صفات میں نجانے وہ کیا سحر ہے کہ اقبال ایسے بلند پایہ فلسفی نے مائل تشکیک والحاد ہونے کی بجائے اپنی عقل و فلسفے کا تمام سرمایہ ایک متاع حقیر کی طرح رسول عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں میں رکھ دیا۔
اقبال کی شاعری کا مرکزو محور، مرجع و مصدر صرف حب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ اقبال کو ذات رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی سے والہانہ عشق ہے اور یہی عشق اس کی زندگی، اسی عشق نے اس کے خیالات میں بلندی اور جذبات میں گیرائی پیدا کی۔ اسی عشق کی بدولت وہ اسلام کی اصل سے روشناس ہوا۔ اس نے اسی سے خدا کو پہچانا اور قومِ رسول ہاشمی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نقابت کو اپنی زندگی کا شعار بنالیا۔ اقبال کی فکر بلند نے خودی یا ایمان کامل کا جو راستہ اختیار کیا ہے وہ خودبخود اپنے مقصد کی تکمیل کے لئے جناب رسالتمآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی تک پہنچ گیا۔ شاعر ملت اس ذات قدسی میں اس قدر ڈوب گیا کہ وہ ان کی شخصیت اور اپنی تخلیق دونوں میں عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک داستاں گو نظر آتا ہے۔
علامہ اقبال نے محبوب انس و جاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات قدسی کو جب اپنی شاعری کا اوج کمال بنایا تو ملت کا اقبال بن گیا۔ اقبال کو بھی خدا نے کیا محبوبیت بخشی ہے معلوم نہیں۔ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کو مولوی میر حسن کی دعا لگی یا والد نے ان کے لئے خدا سے کچھ مانگ لیا، اقبال مرجع خلائق بن گیا جب سے اس نے خاک مدینہ و نجف کو اپنا سرمایۂ چشم بنالیا تو خدا نے اس کو عزیز جہاں بنادیا۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ انہوں نے راز الوہی منکشف کیا ہو اور ان کی لحد زیارت گاہ اہل عزم و ہمت بن گئی۔
شہید عشق نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہوں میری لحد پہ شمع
قمر جلے گی
اٹھا کے لائیں گے خود فرشتے چراغ خورشید سے جلاکر
یا باالفاظ دگر
شوق تیرا اگر نہ ہو میری نماز کا امام
میرا قیام بھی حجاب میرا سجود بھی حجاب
یہ عشق ہی کا کرشمہ ہے کہ وہ فرشتوں پر انسان کی عظمت و برتری کا سکہ بٹھاتا ہے۔
مقام شوق ترے قدسیوں کے بس کا نہیں
انہیں کا کام ہے یہ جن کے حوصلے ہیں زیاد
اقبال کے نزدیک عشق ہی اصلِ حیات ہے اور اسی پر زندگی کا انحصار۔ اس عالم رنگ و بو کی تمام رونق عشق ہی کی بدولت ہے۔ اگر عشق نہ ہوتا تو اس خاکدان آب و گِل میں کسی قسم کی رونق یا چہل پہل نہ ہوتی۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات کا موضوع محض دینی، علمی اور ادبی نہیں بلکہ روحانی اور جذباتی بھی ہے۔ مہرو وفا کی دنیا میں ایسے لوگ بھی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام کے ساتھ جن کے ضبط کے بندھن ٹوٹ جاتے ہیں اور آنکھوں کے پیمانے چھلک اٹھتے ہیں۔ اقبال انہی میں سے ایک تھے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر آتے ہی وہ آبدیدہ ہوجاتے اور اکثر اوقات اُن پہ رقّت طاری ہوجاتی۔
عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پاک کا اعجاز دیکھنا
اشکوں میں انبساط، ٹھنڈک جلن میں ہے
اقبال کے نزدیک عشق کا بہت بڑا مقام ہے اگر عشق ہے تو سب کچھ ہے اگر عشق نہیں تو کچھ بھی نہیں لیکن سوال یہ ہے کہ عشق کیا کس سے جائے؟ محبوب بنایا کسے جائے؟ عشق کا مرکز و محور کون ہو؟ بقول اقبال رحمۃ اللہ علیہ
ہست معشوقے اندر دلت
چشم اگر داری بیا بنمایت
’’وہ محبوب جس سے تمہیں محبت کرنی چاہئے کہیں اور نہیں تمہارے گوشہ قلب میں متمکن ہے۔ تم اگر اسے نہیں دیکھ سکتے تو آؤ میں تمہیں دکھاؤں، یہ محبوب مقامِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے جو ہر دل میں موجود ہے‘‘۔
اس محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حُسنِ سراپا میں گم اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی محبت بھری زباں یوں لب کشا ہوتی ہے:
جو دنیا بھر کے خوش جمالوں سے خوش تر و زیبا ترو محبوب تر ہے۔۔۔ دل جس کے عشق سے توانا اور خاک ہمدوشِ ثریا ہوجاتی ہے۔۔۔ وہ دلوں کا مکیں اور ہماری آبرو جس کی نسبت گرامی سے۔۔۔ جلوہ طور جس کے درکار موجِ غبار۔۔۔ وہ شبستانِ حرا کا تنہا مسافر۔۔۔ قوم و آئین حکومت کی طرح ڈالنے والا۔۔۔ جس کی تلوار جنگ میں لوہا پگھلاتی اور آنکھ نماز میں نم ہوجاتی تھی۔۔۔ جو نسخہءِ کونین کا دیباچہ۔۔۔ ایسا آقا تمام عالم غلام جس کا۔۔۔ وہ نگاہِ عشق و مستی میں اوّل بھی آخر بھی۔۔۔ جو قرآن بھی فرقان بھی۔۔۔ اور یٰسین و طہٰ کے سجیلے نام جس کے۔۔۔ جو الکتاب بھی اور آیہءِ کائنات کا معنی دیریاب بھی۔
امام بوصیری اس حسنِ کائنات کا تذکرہ یوں فرماتے ہیں:
’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رخ انور کی روشنی سے صبح نمودار ہوتی ہے اور آپ کے گیسوئے واللیل کی سیاہی سے رات کو تاریکی میسر آتی ہے‘‘۔
سلطانِ عشاق سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے کسی نے پوچھا کہ آپ کو اللہ تعالیٰ سے زیادہ محبت ہے یا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے؟ ایک زاہد فوراً ہی جواب دے گا کہ مجھے اللہ کی ذات سے زیادہ محبت ہے کیونکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ زیادہ محبت اُس کے نزدیک شرک ہوگا مگر قبلہءِ عاشقاں صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے فوراً جواب دیا کہ مجھے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ زیادہ محبت ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت سے پہلے ہم بھی یہیں موجود تھے اور اللہ بھی۔ نہ اُس نے ہم کو پوچھا، نہ ہم نے اُسے پہچانا۔ اب جو اللہ کا رسول آگیا تو ہم نے اللہ کو پہچان لیا اور اللہ نے ہمیں چن لیا۔
قُدسی مقال اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے الفاظ میں۔۔۔ ’’اللہ جانتا ہے اگر تو میری بات کو اپنی سوچ کا محور بنالے اور سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی محبت شناس آنکھوں سے دیکھے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تیرے لئے دل و جگر کی قوت بن جائیں گے اور اُن کی ذاتِ گرامی خدا سے بھی زیادہ محبوب قرار پائے گی کیونکہ ہم نے خدائے عزوجل کو بھی آپ کے وسیلے سے ہی پہچانا۔
مانا خدا کو ہم نے توسط سے آپ کے
مفہوم کیا ہے اس کے سوا لا الہٰ کا
عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس کسی کا سرمایہ ہو بحرو بر اس کے گوشہ دامن میں ہیں۔سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اور مولا علی رضی اللہ عنہ کے دل کا سوز اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک ذرّہ خدا سے مانگ کیونکہ ملت اسلامیہ کی حیات عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دم سے ہے۔
کاش حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک نام لیوا کے الفاظ میں میرے احساسات بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں پذیرائی کا حُسن پالیں۔ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! آپ کی جتنی بھی تعریف و توصیف بیان کی جائے وہ ہمیشہ تشنہ رہے گی۔ میرا جسم و جاں اور قلب و روح قربان ہو آپ پر، کہ آپ کو تمام عالم کے لئے رحمت بناکر بھیجا گیا ہے۔
حضرت شاہ عبدالطیف بھٹائی رحمۃ اللہ علیہ ان الفاظ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی ایمان کا مرکز ٹھہراتے ہیں کہ
’’اے چاند تو میرے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مدمقابل ہے، میں تجھے چیلنج کرتا ہوں کہ تُو چودھویں رات کا جو چاہے سنگھار کرلے، ساری کائنات کا حُسن اپنے دامن میں سمیٹ لے تو پھر بھی میرے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک جھلک کی بھی برابری نہیں کرسکتا‘‘۔
یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوبیوں کا کہاں تک شمار کروں۔۔۔ میرا شعور و ادراک عاجز ہے۔۔۔ میری ذات آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احسانات کا شمار کرنے سے قاصر ہے۔۔۔ آپ کے احسانات مجھ پر بے شمار ہیں، میں کسی بھی احسان کا انکار نہیں کرسکتا اور کسی بھی انعام کو فراموش نہیں کرسکتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات ایسی بابرکت ہے کہ جس کے صدقے بادلوں سے بارش طلب کی جاتی ہے بلکہ خود بادل آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ انور کے صدقے برسنے کی اجازت چاہتا ہے۔۔۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت اتنی ارفع و اعلیٰ ہے کہ ہر مصیبت کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلے سے اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگی جاتی ہیں۔
یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! مجھے اپنی شفاعت سے نوازیئے۔۔۔ میرے تمام تر معاصی و گناہوں کے باوجود اپنا دامان کرم دراز کیجئے۔۔۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نبی ہیں جن کی شفاعت کی روز محشر آس رہے گی۔۔۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی ہیں جن کے مبارک ہاتھوں سے جام کوثر کا انتظار رہے گا۔۔۔ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جوارِ رحمت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تقّرب کی توقع و تمنا رکھتا ہوں۔
اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! اے آمنہ رضی اللہ عنہ کے لال صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم !۔۔۔ آپ میری امیدوں کا سرچشمہ ہیں۔۔۔ میری آنکھیں آپ کے دیدار کی تمنائی ہیں۔۔۔ مجھے اپنی رضا کی کلیّوں کے ساتھ اپنی زیارت کی خوشبو سے سرفراز فرمائیں۔۔۔ حضور! مجھ سیہ کار پہ نظر کرم فرمائیں۔
یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! آپ پر درود و سلام کے ان گنت پھول نچھاور ہوں۔۔۔ آپ پر اللہ کی جانب سے تحیۃ و سلام کی گھٹائیں امڈتی رہیں اور یہ سلسلہ رہتی دنیا تک شب و روز قائم رہے۔۔۔ مالک حقیقی ہر لمحہ آپ پر صلوۃ و سلام کی مہکار نچھاور کرتا رہے۔۔۔ قیامت تک اس کی رحمتیں اور برکتیں آپ پر لگاتار نازل ہوتی رہیں۔۔۔ اللہ رب العزت، اس کے تمام فرشتے اور بندے آپ پر ہمیشہ ہمیشہ درود بھیجتے رہیں۔۔۔ وہ ملائکہ جو عرش الہٰی کو تھامے ہوئے ہیں اور وہ فرشتے جو عرش الہٰی کا طواف کرتے رہتے ہیں تاروزِ شمار آپ کے بلندیءِ درجات اور فیوض و برکات کیلئے دعا کرتے رہیں۔۔۔ میرے قلب و روح اور جسم و جاں ہمیشہ نثار ہوں اس لحد اطہر پر جس میں آپ آرام فرما ہیں۔
یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کرم کا محتاج ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اک عصیاں شعار امتی ہوں، مجھے بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نسبتِ عقیدت ہے۔ میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نظر عنایت کا طلب گار ہوں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے بھی اپنے لطف و کرم سے نواز دیجئے۔۔۔ لِلّٰہ اپنی کالی کملی کے سائے میں لے لیجئے:
اُن کے در کے سوا اور پہچان کوئی ہماری نہیں
چاہو اپنی نگاہوں میں جب آبرو تب انہیں سوچنا