’’میں اپنی تمام تر صلاحیتوں اور وفاداری کے ساتھ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین اور قانون کے مطابق اپنے فرائض منصبی ادا کروں گا اور خلوص نیت کے ساتھ پاکستان کا حامی و وفادار رہوں گا اور ذاتی مفادات کو اپنے سرکاری فیصلوں پر اثر انداز نہیں ہونے دوں گا، آئین پاکستان کی حفاظت کروں گا۔ ہر حالت میں بلا خوف و تردد خدمات سرانجام دوں گا اور اپنے فرائض ہمیشہ پاکستان کی خودمختاری، سالمیت، استحکام، بہبود اور خوشحالی کی خاطر سرانجام دوں گا‘‘۔
یہ ہے ناخلف اشرافیہ کے اٹھاتے ہوئے حلف کی اس مظلوم عبارت کا مفہوم کہ جس کے تقدس کو ان کے ’’کردار‘‘ کی چھری اس طرح ذبح کرتی ہے کہ اس کے لہو کے چھینٹے ہر محلے، ہر گلی اور ہر گھر کے درو دیوار پر بکھرے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ جس ایوان میں یہ حلف اٹھایا جاتا ہے اس کے صدر دروازے پر اس حلف کی لٹکتی ہوئی بے گوروکفن لاش کے جگر شگاف منظر اور وطن عزیز کی نوحہ گر فضاؤں سے ایک ہی ہُوک اور ایک ہی ماتم کناں صدا اٹھتی سنائی اور دکھائی دیتی ہے:
اے رہبر مُلک و قوم بتا یہ کس کا لہو ہے؟ کون مرا؟
انہیں اتنی خبر ہی نہیں کہ حلفاً اٹھائے جانے والے اس حلف تار تار کی دھجیاں قبر کی تاریکیوں تک بھی ان کے تعاقب میں رہتی ہیں اور جب تک یہ ناسور ایک مدت معینہ تک دھرتی کے اوپر بوجھ بنے رہیں اس حلف غمزدہ و شکستہ کا ایک ایک ٹکڑا اور کٹے پھٹے بدن سے رِستا ہوا لہو کا ایک ایک قطرہ پکار پکارکر دہائی دے رہا ہوتا ہے کہ لوگو! جوخدا سے کئے ہوئے وعدے کی دھجیاں اڑا سکتے ہیں وہ تم سے کئے ہوئے عہد و پیمان کو بھی جوتے کی نوک پہ رکھ سکتے ہیں۔
ان کے حواس، حکمرانی کے خبط اور الگ سی مخلوق ہونے کے تصور میں ذلت کی اتھاہ گہرائیوں تک ڈوبے ہوئے ہیں۔ آسمان سے اترنے والی روشنی نے آواز دی تھی کہ قوم کا سردار اس کا خادم ہوتا ہے مگر یہاں تو سب ٹولے مخدوموں کے ہیں۔
ہائے روشنی کو ترستی ہوئی میری دھرتی! آواز دے غلاموں کی مہار پکڑنے والوں کو، صدا لگا ان خاک بسر اور بوریا نشینوں کو جو راتوں کو گلی گلی گشت کرکے زخم نہیں مرہم بانٹتے تھے۔ مظلوم کی صدا سماعتوں سے ٹکراتے ہی جن کی آنکھوں کے کشکول سے نیندیں چھلک جایا کرتی تھیں،
پکار! خدا کا اتارا ہوا رزق دجلہ کے کناروں تک پہنچانے والوں کو،
بُلا! پیوند لگے ہوئے لباسوں میں ملبوس تاریخ کے ان جھومروں کو جو خشک روٹی کے ٹکڑوں کو چبائیں تو پسینے کی بوندیں گر گر کر ان کے دامان اقدس کو چُومیں مگر جبرو استحصال کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں تو باطل لرز لرز جائے، کبر ٹوٹ ٹوٹ جائے، جبر بکھر بکھر جائے، جو مسندوں پر بیٹھے ہوں تو خونی رشتوں کے سینوں میں بھی عدل و انصاف کے جھنڈے گاڑ دیں۔
اے گزرے ہوئے زمانے! پلٹ اور ہمارے پیشہ ور خلیفوں اور محکموں کو دیمک کی طرح چاٹتے ہوئے ڈیموکریٹس، شماریات اور اعداد کی ہیرا پھیری کی مار مارتے ہوئے ٹیکنو کریٹس، ہوس اقدار میں ڈوبے ہوئے وطن کی سرحدوں کے محافظ جرنیلوں، ناکام پالیسیوں کے ماہر مشیروں، گردنوں میں سریا رکھنے والے وزیروں، قوم کی تقدیر بدلنے کا نعرہ لگانے والے مراعات یافتہ اور سہولتوں میں ڈوبے ہوئے بالشتیوں کو انداز جہاں بانی کے وہ منظر دکھا کہ کانٹوں پر چل کر بھی سُکھ دیئے جاسکتے ہیں، بھوکا رہ کر بھی کھلایا جاسکتا ہے، خود شب بیداری کرکے رعایا کو میٹھی نیند سلایا جاسکتا ہے، صرف پیغام بھیج کر بھی دشمن کو لرزایا جاسکتا ہے اور اگر صدق، اخلاص اور نیتیں راہ راست پر ہوں تو بڑے بڑے بحرانوں کا سر بھی جھکایا جاسکتا ہے۔ مگر جو مخدوم بن کر خود کانٹے، اذیت اور بحران بن جائیں وہ قوم کو زنجیریں تو ڈال سکتے ہیں تقدیریں نہیں اجال سکتے۔
اے شہنشاہ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (فداک امی و ابی) اے کائنات کے والی، آپ کی عظمتوں اور زیر پارفعتوں کو اس وطن کے ہر مظلوم، مقہور اور مجبور کے رخساروں پر ڈھلتے ہوئے ایک ایک آنسو کا سلام پہنچے۔
اے عرش معلی کے مکین! چشم فلک نے وہ منظر بھی دیکھا ہے کہ ایک پاگل، ہوش سے بیگانہ اور جنوں زدہ عورت مدینہ میں آپ کے دست اقدس کو تھامے گلیوں گلیوں گھمارہی ہے اور آپ اس کے ساتھ ساتھ چل رہے ہیں اس کی دلجوئی کے لئے کہ کہیں اس کا دل نہ ٹوٹ جائے، کہیں اس کا احساس شکستہ نہ ہوجائے اور یہ شکستگی کہیں اس کی پلکیں نہ بھگودے۔ اے پاگلوں اور جنوں زدوں کے بھی احساسات کا خیال کرنے والے، امت کے لجپال! آپ کے کلمہ طیبہ اور آپ کے نام پر حاصل کیا گیا یہ ملک، یہاں عقل والوں کو بھی پاگل بنایا جارہا ہے۔ انسانوں کے ہوش اڑائے جارہے ہیں۔ دل توڑ کر احساس کو گھائل کرکے، حق سے محروم کرکے، عزتوں کو پامال کرکے، خون کے چھینٹے چھینٹے اڑا اڑا کر، بھوک کی فصلیں اگا اگا کر، جبر سے نسلیں مٹا مٹا کر، گھر گھر اندھیرے بچھا بچھا کر، میرے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمت دیجئے، حوصلہ دیجئے، ہم ہارے ہوؤں کو، جبر کے مارے ہوؤں کو، کہ اس باطل نظام سے ٹکڑا کر اسے پاش پاش کرسکیں اور اس ملک کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ملک، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیغام کا ملک اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نظام کا ملک بناکر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں میں پیش کرکے سرخرو ہوسکیں اور میدان محشر میں صاحب آبرو ہوسکیں۔
اے اہل وطن! اس ملک کے روگ کا مداوا انتخاب نہیں انقلاب ہے، انقلاب ہے، انقلاب ہے۔ جو آپ کی زندگی اور حواس پر مسلط ہر ناسور کو کاٹ کر رکھ دے اور شفایابی کا عمل آپ کے ذہنوں، جسموں، روحوں، نسلوں، زندگی، شعور اور وجدان میں جاری و ساری ہوسکے۔ اونچ نیچ، تفریق، طبقاتی تقسیم اور حکام کے ذہنوں سے آقائی کا تصور خباثت جب تک دور نہیں ہوتا، زندگی ڈگر پر نہیں آسکتی، نسلیں محفوظ اور مامون نہیں ہوسکتیں۔ مخدوم جب تک خادم نہیں بنتے آپ کی عزت اور وقار بحال نہیں ہوسکتا۔
من حیث القوم یا تو ہم پاگل ہوچکے ہیں یا شعوری طور پر یہ عذاب خود پر مسلط کئے بیٹھے ہیں اور جب قومیں اپنے ہاتھوں اپنی قبر خود کھودنے پر تُل جاتی ہیں تو انہیں تباہی اور بربادی سے کون بچاسکتا ہے۔ کیا ہم میں احساس ذمہ داری، قومی غیرت و حمیت اور ظلم و جبر کے خلاف آواز اٹھانے کی جرات ہے؟ جب قوم، چوروں اور لٹیروں کو ہی اپنا قومی ہیرو تصور کرلے اور ان کے ظالمانہ ہتھکنڈوں اور جبر کو اپنی تقدیر مان کر بیٹھ جائے اور ہمدردیوں کے تاریک غلافوں میں لپٹے ہوئے کھوکھلے نعروں پر ایمان لے آئے تو ایسی قوم نہ خوشحال ہوسکتی ہے نہ اقوام عالم میں باوقار اور معزز گردانی جاسکتی ہے پھر یہ ہاتھ ووٹ تو ڈال سکتے ہیں مگرجن کھلاڑیوں کے ہاتھ میں ہماری جمہوریت ہے ان کی بد اعمالیوں پر ان کے ہاتھ ان کے گریبانوں تک نہیں پہنچ سکتے۔
قوم کو ذلتوں اور پستیوں کی اتھاہ گہرائیوں سے نکلنے اور نکالنے کے لئے سب سے اہم کردار اگر کسی چیز کا ہے تو وہ شعور کی بیداری ہے۔ یہی وہ جوہر ہے جو لٹنے والوں میں احساس زیاں پید اکرکے انہیں گہری نیند سے بیدار کرتا اور خواب غفلت سے جگاکر زندگی اور دنیا کے حقیقتوں سے روشناس کراتا ہے۔ زندگی کو آزادی اور آسودگی سے گزارنے کا راستہ صرف اور صرف اجتماعی شعور کی بیداری میں پنہاں ہے۔ شعور بیدار ہوجانے سے صرف قومیں ہی نہیں ان کے مقدر بھی بیدار ہوجایا کرتے ہیں۔
وطن عزیز پر افلاس، محرومی اور غربت کے چھائے ہوئے عفریت اس لئے مسلط نہیں کہ یہاں وسائل کی کمی ہے۔ وجہ صرف نااہل قیادتیں اور ان جعلی رہبروں سے ہمیشہ کے لئے جان چھڑا کر اہل قیادتوں کو موقع فراہم نہ کرنے کی ہماری بہ حیثیت قوم مجرمانہ غفلت اور بزدلی۔ ملک و قوم کے دشمنوں میں سب سے بڑا دشمن مروجہ انتخابی نظام ہے۔ یہی وہ دروازہ ہے جس سے شیطنت اپنی تمام تر مکروہ فنی صلاحیتوں کے ساتھ داخل ہوتی اور پھر شہ رگوں پر مسلط ہوجاتی ہے۔
یہ انتخابی نظام ہے سبز باغ ایسا
جو مفلسوں کے لئے اگاتا ہے بس امیدیں
کہ جس کا پھل چند خاندانوں کا رزق ٹھہرے
جو قوم کی سمت صرف چھلکے اچھالتے ہیں
نچوڑ لیتے ہیں قطرہ قطرہ لہو رگوں سے
اور اس سے اپنی غلیظ نسلوں کو پالتے ہیں
قدرت کسی کا برا نہیں چاہتی مگر کوئی زہر کھانا چاہے توہاتھ بھی نہیں پکڑتی، کوئی خودکشی
کرنا چاہے تو پابہ زنجیر بھی نہیں کرتی۔ اب لمحہ فکریہ یہ ہے کہ ڈگر تو ہماری آج بھی
وہی بلکہ ماضی سے بھی بدتر ہے اور اگر آج رہا سہا پاکستان اپنوں اور غیروں کی تمام
تر ریشہ دوانیوں کے باوجود زندہ اور سلامت ہے تو یہ صرف خدا کے فضل کا کرشمہ ہے۔ ہماری
طرف سے اسے صفحہ ہستی سے مٹادینے میں تو آج بھی کوئی کمی نہیں۔ عمل، وطیرے اور طریقے
تباہ کن ہیں مگر شاید اسے اس کا سلامت رکھنا منظور ہے۔
آج پاکستان تو سلامت ہے مگر عذاب کی نوعیت بدل گئی کہ اب پاکستانی سلامت نہیں۔ اس ذات کے ساتھ کئے ہوئے عہد کو بھلا کر خود کو اور ملکی نظام کو اپنی اپنی روش پر چلانے کے باعث ذلتیں مقدر اور عذاب مستحکم ہوتا چلا جارہا ہے۔ اس سے بد عہدی، ہماری بدعملی، مجرمانہ انفرادی اور اجتماعی غفلت ہی کا نتیجہ ہیں یہ سفیران عذاب حکمران۔ ان کا جبر اور بے حسی، یہ لوڈشیڈنگ، مہنگائی، بے روزگاری، جہالت، بھوک، افلاس، عدم انصاف، محرومی، عزت نفس کی پامالی، اقوام عالم میں بے وقاری، قتل و غارت، دہشت گردی، یہ ناکے، یہ ڈاکے، یہ فاقے، یہ دھماکے، عدم تحفظ، فرقہ واریت کی آگ، یہ خدشوں میں گھرے قیام، خوف زدہ رکوع، لہو لہو سجدے، یہ افتراق، یہ انتشار، یہ جھگڑے، یہ دنگے، یہ فساد۔
یہ نگری دہشت والوں کی، یہ دیس نہیں مجبوروں کا
جہاں ذلت ہے ناداروں کی، جہاں غلبہ ہے ناسوروں کا
یہاں سکہ جھوٹ کا چلتا ہے، سچ کی کوئی پہچان نہیں
جو خواب تھا لاکھوں آنکھوں کا، یہ وہ تو پاکستان نہیں!
آیئے اس مظلوم پر رحم کریں، اسے پیار کریں جس نے زخمی زخمی ہوکر بھی ہمیں اپنی آغوش میں لے رکھا ہے۔ کبھی تھکن سے چور، زخموں سے نڈھال لہو لہو ماں کو بچہ گود میں لے کر پیار کرتے اور دودھ پلاتے دیکھا ہے؟ نہیں دیکھا تو پاکستان کو دیکھ لو۔ دھرتی کے فرزندو! اپنی اس دھرتی ماں کو دیکھ لو۔ اسے جرعہ جرعہ خون پیتے اس ظالمانہ نظام اور اس نظام کے درندے محافظوں کے خنجروں سے بچالو، اسے بیداری شعور کا مرہم دو اور اس کے ننگے سر پر مصطفوی انقلاب کی چادر دو۔
پاکستان کی طرح خدا کے وعدے بھی سلامت ہیں۔ یہ ہم پر منحصر ہے کہ کب ہم اٹھتے اور ظلمتوں کے پردے چاک کرتے ہیں۔ اس کے وعدے تو ہیں مگر ان کا ظہور تب ہوگا جب قوم خود کو بدلے گی۔ من حیث القوم اگر ہمارے لچھن یہی رہے تو پھر ہم نہیں آئندہ نسلوں سے جذبوں سے مزین بانکے سجیلے اٹھیں گے اور اسے تعمیر سے لے کر تکمیل تک کی منزل سے آشنا کرکے رہیں گے اور جب تک ہم اس ظالمانہ اور استحصالی نظام کو مضبوطی اور استحکام فراہم کرتے رہیں گے ہم خود بھی ظالم کہلاتے رہیں گے اور یقین رکھو، ظالموں پر خدا کے فضل ظاہر نہیں ہوا کرتے۔
ہمیں خدا نے اپنی رسی کو مضبوطی سے تھامنے کا حکم دیا تھا مگر کہیں ایسا تو نہیں؟ کہ ہم نے اس کی دراز رسی کو تھام لیا ہو۔ شاید یہ وقت ہمارے لئے وقت ہی نہ ہو صرف ایک مہلت ہو، وقت اور مہلت میں فرق ہوتا ہے۔ جب وقت ختم ہوجاتا ہے تو مہلت شروع ہوجاتی ہے۔
(محترم انوارالمصطفیٰ ہمدمی کے شعری مجموعہ’’پرچم بلند رکھنا‘‘ کے پیش لفظ سے انتخاب)