٭ 17 جون: سانحہ ماڈل ٹاؤن کو ایک سال بیت چکا مگر شہداء کے ورثاء ابھی انصاف کی تلاش میں ہیں۔ انصاف کی تلاش میں نکلنے والوں سے بھی ظالم حکمرانوں نے ایسا ناروا سلوک کیا کہ ظلم کی نئی داستانیں رقم ہوگئیں۔ اللہ رب العزت کی طرف سے جب کسی شخص کو اس کے نامہ اعمال کی وجہ سے گرفت میں لئے جانے کا وقت آپہنچے تو اس کا آغاز اس عمل سے ہوجاتا ہے کہ وہ اپنی سرکشی میں مزید بڑھتا چلا جاتا ہے اور اس کی عقل پر پردے پڑجاتے ہیں۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے بعد جو کچھ حکمرانوں نے پاکستان عوامی تحریک کے کارکنان سے کیا اور جس کا سلسلہ آج تک جاری و ساری ہے اس کی ایک واضح مثال ہے۔ ان شہداء کے لئے فاتحہ خوانی پر آنے والوں کو بھی حکومتی گماشتوں نے ملک کے طول و عرض میں قیدو بند سے دوچار کیا اور پولیس گردی کے ہاتھوں کئی اموات بھی ہوئیں۔ بعد ازاں انقلاب مارچ کی قیادت کرتے ہوئے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ کی قیادت میں لاکھوں لوگوں نے اسلام آباد کا رخ کیا اور جائز مطالبات کے لئے مسلسل 70 دن تک تاریخ کے طویل ترین دھرنے کے ذریعے احتجاج کیا۔ اس دوران بھی حکومتی و ریاستی دہشت گردی تاریخ کا ایک سیاہ باب بن چکی ہے۔
ظالم کی فطرت ایک جیسی ہوتی ہے خواہ وہ حکومت میں ہو یا اپوزیشن میں۔ نہتے و پرامن عوام کے جائز مطالبات ماننے کی بجائے عوام دشمن سیاسی و مذہبی قیادت پارلیمان میں یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے اقتدار کے دستر خوان پر ہم نوالہ و ہم پیالہ ہوگئی اور ملک کے 18کروڑ عوام کے مقدر کو مزید تاریکیوں میں ڈبوئے رکھنے کا عزم کیا۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے دوران حکومت کی ظالمانہ کاروائیوں کی قلعی تو جوڈیشل کمیشن باقر نجفی نے بھی کھول دی مگر تاحال اس رپورٹ کو منظر عام پر نہیں لایا جارہا۔ حالیہ مہینوں میں JIT کی سیاسی خودغرضی اور جھوٹ میں لتھڑی ہوئی رپورٹ آئی جس میں یکطرفہ طور پر بیانات قلمبند کرکے پاکستان میں موجود عدلیہ اور انصاف کا جنازہ نکالا گیا۔
قائد انقلاب ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے شہداء کی پہلی برسی کی مرکزی تقریب میں کارکنان کی ہمت اور جوانمردی کو سراہا اور شہدائے ماڈل ٹاؤن کے مجرمین کو قرار واقعی سزا نہ ملنے تک جدوجہد جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے شہداء کے ورثاء و لواحقین کو بھی خراج تحسین پیش کیا کہ تمام تر حکومتی ہتھکنڈوں کے باوجود نہ ان کو ڈرایا جاسکا اور نہ ہی ان کو خریدا جاسکا اور وہ آج بھی شہداء کے قصاص کے مطالبہ پر قائم ہیں۔ پاکستان عوامی تحریک عوام کے حقوق کی بحالی اور آئین و قانون کی بالادستی کیلئے جنگ جاری رکھے گی۔ یوم شہداء میں شریک ہزاروں مردو خواتین نے عہد کیا کہ شہداء کا خون رائیگاں نہیں جانے دیا جائے گا۔ آج نہیں تو کل ظلم و جبر اور رشوت و کرپشن سے وجود میں آنے والی یہ حکومت ختم ہوجائے گی پھر ان کی JIT بھی ان کو نہیں بچاسکے گی اور نہ مفاداتی سیاست ان کو تحفظ فراہم کرسکے گی۔
٭ حالیہ مالی سال کے ’’عوام دوست‘‘ بجٹ نے غریب عوام کا جینا مزید حرام کردیا ہے۔ تمام ضروری اشیاء پر ٹیکس لگادیا گیا ہے جس کے فوراً بعد مہنگائی کا نیا طوفان امڈ آیا ہے۔ گذشتہ سال کے بجٹ کی طرح موجودہ بجٹ بھی IMF کے قرضوں پر بنایا گیا۔ حکمرانوں نے تعلیم، صحت، بلدیاتی انتخابات اور انصاف کی بجائے سڑکوں، پلوں پر قیمتی وسائل خرچ کرنے کی منصوبہ بندی کررکھی ہے۔ سڑکوں، سیمنٹ اور سریے کے استعمال سے قومیں اور معاشرے پروان نہیں چڑھتے بلکہ معاشرے میں انصاف، تعلیم اور شعور کا فروغ ہی کامیابی کا زینہ سمجھا جاتا ہے۔ شریف برادران کی نام نہاد گڈگورننس کا پول کھل چکا ہے۔ ملک پاکستان لہو میں ڈوبا ہوا ہے، معیشت دم توڑ رہی ہے، تعلیم و صحت کی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ان حکمرانوں کو غریب سے کوئی سروکار نہیں، ان کی دلچسپیاں انہی منصوبوں تک محدود ہیں جن سے انہیں زیادہ سے زیادہ کمیشن اور اپنی تشہیر کا موقع میسر آئے۔ اشیائے خوردو نوش کی قیمتوں میں 30% تک اضافہ ہوجانا اس حکومت کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ان حالات میں عوام کو اپنے بنیادی حقوق کی بحالی کے لئے بیدار ہونا ہوگا وگرنہ ان حکمرانوں کے اس طالمانہ دور حکومت میں غریب کے مسائل حل ہونے کے بجائے ان میں مزید اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔
٭ امت مسلمہ کے احوال غم نت نئے روپ میں سامنے آتے رہتے ہیں۔ ایک طرف عراق، شام، یمن جیسے پرامن مسلم ممالک میں باہمی جنگیں جاری ہیں جن میں نہتے شہریوں کا خون بہہ رہا ہے۔ ان ممالک کی معیشت برباد ہوچکی ہے اور نوجوان اپنے حال اور مستقبل سے مایوس ہوکر اخلاقی اور جنگی جرائم میں ملوث ہورہے ہیں۔ اس تصویر کا دوسرا رخ وہ ہے جس کے مناظر، آج کل برما کے روہنگیا مسلمانوں پر ہونے والے انسانیت سوخت مظالم کی شکل میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ ہزاروں بچوں، بوڑھوں، عورتوں اور نوجوانوں کو صرف اس جرم میں ظلم کا نشانہ بنایا جارہا ہے کہ وہ مسلمان ہیں۔ گویا مسلمان ہونا ایک جرم بن گیا ہے حالانکہ اسی دنیا میں سینکڑوں مذاہب اور عقائد کی اقوام ہیں جو پرامن بقائے باہمی کی بنیاد پر زندگی گزار رہے ہیں۔ روہنگیا کے مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پر اقوام عالم اور بالخصوص مسلمان ممالک کی مسلسل خاموشی انتہائی قابل افسوس ہے حالانکہ برما کی حکومت کو اگر کسی کا ڈر ہوتا اور وہ انسانیت نوازی میں ذرا سی بھی دلچسپی لیتی تو اس قدر مظالم نہ ہوتے۔ عرب ممالک سمیت OIC کے ممبر دیگر مسلمان ممبر ممالک کے حکمرانوں نے ان انسانیت دشمن خونیں واقعات پر افسوس کا اظہار نہیں کیا۔ حیوانات اور چرند و پرند کے حقوق کی پاسدار مغربی دنیا میں بھی قابل ذکر ردعمل سامنے نہیں آیا۔۔۔ اور تو اور ہمارے ملک کا میڈیا اور یہاں کے سیاستدان بھی تاحال خاموش ہیں۔ یہ لاتعلقی اس عالمی دینی جذبہ اخوت کی واضح نفی ہے جو ہمیں اسلام عطا کرنا چاہتا ہے۔۔۔ یہ وہی برماوی مسلمان ہیں جنہوں نے پاکستان بننے کے فوری بعد یہاں کے قحط زدہ مسلمان بھائیوں کے لئے ٹنوں چاول بھیجے تھے مگر آج وہ جاں بہ لب ہیں، بے خانماں برباد ہیں لیکن ہماری حکومت نے ظالموں کے منہ سے مکھی بھی نہیں اڑائی۔
٭ کراچی میں رینجرز نے دہشت گردوں اور ان کے مالی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے جن حقائق سے پردہ اٹھایا ہے وہ پوری قوم کے لئے حیران کن ہی نہیں بلکہ باعث تشویش ہیں۔ پاکستان میں اس سے قبل بھی دہشت گردوں کے ان مالی نیٹ ورک کے خلاف نیم دلی سے کاروائیاں ہوئیں مگر ان کو منطقی انجام تک نہیں پہنچایا گیا اور ہمیشہ ہی مصلحتیں آڑے آتی رہیں۔ ایک بڑی سیاسی جماعت کے شریک چیئرمین نے جس طرح رینجرز کی پریس ریلیز پر فوج کو دھمکیاں دیں اس سے واضح ہوتا ہے کہ پاکستان میں بڑی سیاسی جماعتوں، دہشت گردوں، کرپٹ عناصر، لینڈ مافیا اور بھتہ خوری کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ قومی ایکشن پلان پر ابھی تک صحیح معنوں میں عملدرآمد نہیں ہوا۔ حکومت اور اپوزیشن ایک غیر اعلانیہ اتحاد کے ذریعے اس کو ناکام بنانا چاہتے ہیں جبکہ پوری قوم مالی اور عسکری دہشت گردوں کے خلاف افواج پاکستان کے ساتھ کھڑی ہے اور عہد کرتی ہے کہ اس مرتبہ اس ناسور کو جڑ سے اکھاڑتے ہوئے اس کے منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا اور سرزمین پاکستان کو دہشت گردی کی ہر شکل سے پاک کردیا جائے گا۔ اگر خدانخواستہ ایسا نہ ہوا اور ایک مرتبہ پھر نام نہاد سیاسی مصلحتیں آڑے آئیں تو یہ دہشت گرد عناصر، ان کے مالی معاون، عملی سہولت کار اور ان کے سیاسی سرپرست اس آپریشن سے بچنے میں کامیاب ہوگئے تو پھر پاکستان میں ISIS جیسی تنظیموں کے عمل دخل کو نہیں روکا جاسکے گا اور پاکستان کا وجود خطرے میں پڑ جائے گا۔