صدائے بے نوا ہے اور میں ہوں
(ڈاکٹر علی اکبر الازہری)
مدینہ طیبہ کی حالیہ حاضری کے پہلے دن 20 اپریل کی شام بند چھتریوں کے نیچے ڈھلتی
شام کے خوبصورت منظر میں کہے گئے اشعار
عطائے کبریا ہے اور میں ہوں
’’دیارِ مصطفی ہے اور میں ہوں‘‘
الٰہی ہے تیری شانِ کریمی
در خیر الوریٰ ہے اور میں ہوں
چراغاں ہی چراغاں ہر طرف ہے
مدینہ کی فضاء ہے اور میں ہوں
طلب بارِ دگر مجھ کو کیا ہے
نوازش ہے عطا ہے اور میں ہوں
مشام جاں معطر ہو رہے ہیں
نکہت کی یہ فضاء ہے اور میں ہوں
ملائک جس درِ اقدس کو ترسیں
وہ در ان کا کھلا ہے اور میں ہوں
سنہری جالیوں کے سامنے ہوں
یہ منظر دلربا ہے اور میں ہوں
تہی دامن، نہیں دامن کسی کا
کرم کی انتہاء ہے اور میں ہوں
مدینے کا تصور ہے عبادت
صبائ، خوشبو، گھٹا ہے اور میں ہوں
کرم کی اک نظر مجھ پر ہو آقا
صدائے بے نوا ہے اور میں ہوں
اشک آنکھوں سے بہتے جارہے ہیں
لب حرفِ دعا ہے اور میں ہوں
فضاء ہے مسجد نبوی کی دلکش
تجلی جا بہ جا ہے اور میں ہوں
مجھے رنج و الم سے خوف کیوں ہو؟
تیری چاہت ردا ہے اور میں ہوں
مجھ عاصی کی ہے کیا اوقات یارو!
چراغِ التجا ہے اور میں ہوں