اللہ تعالی اور رسول اکرم ﷺ کے حکم کی حجیت اور اتھارٹی ایک ہے

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری

حدیث و سنت کو حجت سمجھے بغیر اور ان کی مدد لیے بغیر دین، عقائد، احکام اور مسائل کی تشریح وتعبیرصرف قرآن مجید سے کرنا، ایک فتنہ اور گمراہی ہے، جو دین اور قرآن کے نام پر امت میں پھیلایا گیا۔ زیرِ نظر مضمون کے گزشتہ حصوں میں اس فتنہ کا قلع قمع کرنے اور حدیث و سنت کی حجیت کو ثابت کرنے کے لیے قرآن مجید کی آیات اور احادیث نبویہ کی روشنی میں متعدد دلائل بیان کیے گئے۔ آیئے!حدیث و سنت کی حجیت کے باب میں مزید قرآنی دلائل کا ایک اور تناظر سے مطالعہ کرتے ہیں:

قرآن مجید نے فرمانِ الٰہی اور فرمانِ رسول ﷺ کے اتھارٹی و حجت ہونے اور حکم کے اعتبار سے حقیقت میں ان دونوں کے ایک ہی ہونے کو بیان کرنے کے لیے یہ اسلوب بھی اختیارکیا ہے کہ قرآن مجید میں مذکور وہ احکام جن میں اللہ اور اللہ کے رسول کا ذکر اکٹھا آیا ہے، وہاں تثنیہ (دو) کی ضمیر بیان نہیں کی بلکہ واحد کی ضمیر استعمال کی ہے۔

عامۃ الناس اس بات کو اس مثال سے بخوبی سمجھ جائیں گے کہ ہر زبان کے اپنے کچھ اصول و قواعد ہوتے ہیں۔ مثلاً: اردو زبان میں ضمیر دو طرح کی ہوتی ہے: واحد اور جمع۔ ایک شخص کی بات ہے تو اس کے لیے کہیں گئے کہ ’اس شخص نے یہ کہا، وہ کھا رہا ہے، وہ بیٹھا ہے، وہ آ رہا ہے، وہ چل رہا ہے۔ ‘ یعنی ایک شخص کے لیے لفظ ’’وہ‘‘ اور ’’اس‘‘ استعمال کیا گیا ہے۔ اگر ایک سے زائد افراد ہیں، خواہ دو آدمی ہوں یا سو یا دس ہزار یا لاکھوں تو ان کے لیے جمع کا صیغہ استعمال ہوتاہے۔ ان کے لیے کہیں گے کہ ’وہ آرہے ہیں، وہ بیٹھے ہیں، وہ کھار ہے ہیں، اُن سب نے ہاتھ اٹھائے، اُنہوں نے نعرہ لگایا‘، ان کثیر افراد کے لیے یوں نہیں کہیں گے کہ ’ اُس نے نعرہ لگایا، وہ آرہا ہے، وہ بیٹھا ہے۔ ‘ ’’وہ، ہم، تو، تم، اس، انھوں‘‘ وغیرہ یہ ضمیریں ہیں جو اردو زبان میں استعمال ہوتی ہیں۔ انگریزی زبان میں ان ضمائر کو Pronoun کہتے ہیں۔ مثلاً: He, his, her,you, I, they, them وغیرہ۔ یہاں بھی ان ضمیروں کا استعمال اردو ہی کی طرح ہے۔

اسی طرح یہ ضمائر عربی زبان میں بھی ہیں مگر وہاں ان کا طریقہ اردو اور انگریزی سے جدا ہے۔ عربی زبان میں بہت زیادہ وسعت ہے، اس لیے اس کی ضمائر بھی وسیع ہیں۔ عربی زبان میں واحد کے لیے الگ ضمیر، تثنیہ (دو) کے لیے الگ ضمیر اور دو سے زیادہ یعنی جمع کے لیے الگ ضمیر ہے۔ اس اصولی بات کو سمجھنے کے بعد اب آیئے ہم زیرِ بحث موضوع کے تناظر میں قرآن مجید کی آیات کا مطالعہ کرتے ہیں۔

قرآن مجید میں کئی مقامات ایسے ہیں جہاں اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کا اکٹھا ذکر آیا ہے مگر کسی حکم کو بیان کرتے ہوئے دونوں کے لیے واحد کی ضمیر استعمال کی گئی ہے۔ اس اسلوب کو اختیار کرنے کا مقصود یہ تھا کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے حکم کے اندر دوئی کے تصور کو بھی ختم کر دیا جائے تاکہ یہ واضح ہوجائے کہ بے شک اللہ اور رسول ﷺ ذاتیں دو ہیں مگر ان کا حکم ایک ہے۔۔۔ ان کے فرمان کا معنی ایک ہے۔۔۔ ان کے حکم کی حجیت اور اتھارٹی ایک ہے۔ چند آیات ملاحظہ ہوں:

پورے قرآن مجید میں صرف آیتِ صلوٰۃ ہی ایک ایسا مقام ہے جہاں اللہ نے فرشتوں کو واؤ عاطفہ کے ساتھ اپنے فعل صلوٰۃ علی النبی میں شریک کیا ہے۔ گویا صرف عظمتِ مصطفی ﷺ کی خاطر مخلوق کو اپنے ساتھ شریک کیا مگر وہاں بھی ضمیر جمع کی استعمال کی ہے

1۔ وَ مَنْ یَّعْصِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ یَتَعَدَّ حُدُوْدَهٗ یُدْخِلْهُ نَارًا خَالِدًا فِیْهَا ۪ وَ لَهٗ عَذَابٌ مُّهِیْنٌ۠۝

(النساء، 4: 14)

’’اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نافرمانی کرے اور اس کی حدود سے تجاوز کرے اسے وہ دوزخ میں داخل کرے گا جس میں وہ ہمیشہ رہے گا، اور اس کے لئے ذلّت انگیز عذاب ہے۔ ‘‘

اس آیت میں اللہ اور اللہ کے رسول دونوں کی نافرمانی پر سزا کی بات ہورہی ہے، اس لیے عربی زبان کے قاعدے کے مطابق یہاں تثنیہ کی ضمیر استعمال ہونی چاہیے تھی کہ؛ وَیَتَعَدَّ حُدُوْدَہُمَا کہ ’’ جو دونوں کی حدود سے تجاوز کرے، توپھر اللہ ان کو جہنم میں ڈال دے گا۔ ‘‘ لیکن یہاں ایسا نہیں کیا گیا بلکہ واحد کی ضمیر استعمال کی گئی اور فرمایا وَیَتَعَدَّ حَدُوْدَہٗ (اور جو اس کی حدود سے تجاوز کرے)۔

قرآن مجید نے اللہ اور رسول ﷺ دو کا ذکر کیا مگر دونوں کی نافرمانی کو ’’ان کی‘‘ کی حدود توڑنا قرار دینے کے بجائے ’’اس کی‘‘ حدود توڑنا قرار دیا۔ اس اسلوب سے واضح فرمادیا کہ ان دونوں کا حجت ہونا اور دونوں کی اطاعت و احکام کا وجوب و لزوم اپنی الگ الگ حیثیت کے ساتھ ساتھ آپس میں ضم بھی ہوجاتا ہے۔ جب اللہ اور اس کے رسول کا حکم متعین کرتے ہیں تو وہ دونوں مل کر ایک ہوجاتے ہیں۔

عربی زبان کا ایک اور قاعدہ ہے کہ اگر ضمیر پہلے آئے اور اسماء بعد میں آئیں تو واحد کی ضمیر استعمال ہوسکتی ہے یا دو اسماء کے درمیان میں ضمیر آئے تو واحد کی ضمیر آسکتی ہے لیکن اگر دو اسماء پہلے آجائیں تو پھر کبھی واحد کی ضمیر نہیں آئے گی۔ اس عربی قاعدہ کی روشنی میں بھی اگر اس آیت کو دیکھیں تو اللہ اور رسول دونوں کے اسماء پہلے آئے ہیں، لہذا قاعدہ کے مطابق ضمیر تثنیہ (ھُمَا) ہونی چاہیے تھی مگر اللہ تعالیٰ نے ’’حَدُوْدَہٗ‘‘ میں ’’ہ‘‘ واحد ضمیر بیان فرمائی۔

اس اسلوب سے اللہ تعالیٰ نے واضح کردیا کہ اللہ اور اس کے رسول دونوں میں سے جس کی مقرر کردہ حد ہو، خواہ وہ قرآن سے مقرر ہو یا وہ حدیث و سنت رسول سے مقرر ہو، وہ ایک ہی شے ہے، وہ ایک ہی حد تصور کی جائے گی اور اسے دو الگ حدیں تصور نہیں کیا جائے گا۔

عربی زبان کے تمام قواعد قرآن مجید کے تابع ہیں

ذہن میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان آیات میں قرآن مجید نے عربی زبان کے مسلّمہ اصول کو نہیں اپنایا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ہم اس اُسلوب کو غلط نہیں کہہ سکتے کہ یہ آیت کریمہ عربی قاعدہ کے (معاذاللہ) خلاف ہے۔ نہیں، بلکہ ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ عربی کے تمام قواعد قرآن مجید کے تابع ہیں، اگر کوئی عبارت ظاہراً عربی کے معروف قاعدہ کے خلاف آئے تو ہم یوں نہیں کہیں گے کہ یہ عبارت عربی قواعد کے اعتبار سے (معاذ اللہ)غلط ہے، بلکہ ہم اسے بھی عربی کا ایک قاعدہ تسلیم کریں گے۔ یعنی قرآن کا اپنایا ہوا ہر اصول اور اُسلوب بذاتِ خود ایک نیا اصول قائم کر دے گا۔

یہاں عربی قاعدہ کی خلاف ورزی نہیں ہوئی، بلکہ قرآن مجید کی اس آیت کے اسلوب نے ایک نیا قاعدہ اورنیا حکم وضع کردیا اوریہ ثابت کر دیا کہ جب اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کا معاملہ آئے تو عربی زبان کے قاعدہ و اصول میں استثناء ہے۔ یہ عام لوگوں کی بات نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ الحمد سے والناس تک پورے قرآن مجید میں جہاں اللہ کے رسول کے علاوہ اللہ کے ساتھ کسی اور مخلوق کا ذکر آیا ہے تو وہاں واحد کی ضمیر استعمال نہیں ہوئی۔

واؤ عاطفہ ترتیب کے لیے نہیں بلکہ تشریک کے لیے ہے

یہ بات ذہن میں رہے کہ قرآن مجید میں بہت کم مقامات ایسے ہیں جہاں واؤ عاطفہ کے ساتھ اللہ تعالیٰ مخلوق کو اپنے ساتھ شامل کرے۔ بالعموم اللہ تعالیٰ مخلوق کو واؤ عاطفہ (اور) لگاکر اپنے نام کے ساتھ نہیں ملاتا۔ اس لیے کہ نحو اور عربی اصول کے اعتبار سے واؤ عاطفہ ان دونوں کے جمع، اقتران اور تشریک پر دلالت کرتی ہے۔ یعنی دونوں کا اکٹھا ہونا اور اس حکم میں یکساں طور پر شریک ہونا۔ اس لیے اس واؤ عاطفہ کو واؤ مشترکہ بھی کہتے ہیں کہ یہ دونوں کو اس حکم میں اکٹھا شریک کردیتی ہے۔

کوئی کہہ سکتا ہے کہ نحو کی بعض کتابوں میں یہ درج ہے کہ واؤ عاطفہ تشریک کے لیے نہیں بلکہ ترتیب کے لیے آتی ہے۔ جب مختلف احکام یا اسماء یا چیزوں کے درمیان واؤ عاطفہ آئے تو پھر وہ احکام اور چیزیں اسی ترتیب سے ہوں گی۔ یعنی واؤ عاطفہ ایک ترتیب کو ظاہر کرتی ہے کہ پہلے یہ ہوگا اور پھر یہ ہوگا، پھریہ ہوگا۔ اس حوالے سے یہ یاد رکھیں کہ یہ ذکر یقیناً کتب نحو میں آیا ہے مگر جمہور نے اسے رد کیا ہے۔ قرآن مجید میں ایسی کئی آیات ہیں جہاں ایک آیت میں کئی چیزوں یا احکام کے درمیان واؤ عاطفہ آئی ہے مگر دوسرے مقام پر ان ہی احکام یا چیزوں کو واؤ عاطفہ لگاکر بیان کیا گیا ہے مگر وہاں بات مختلف ترتیب سے بیان ہوئی ہے۔ اگر واؤ عاطفہ کا مطلب محض ترتیب ہوتا تو دوسرے مقام پراس ترتیب کوبدل کر آیت نازل نہ ہوتی۔ پس ثابت ہوا کہ واؤ عاطفہ ترتیب پر دلالت نہیں کرتی۔

قرآن مجید میں مذکور آیتِ وضو سے اس بات کو بآسانی سمجھا جاسکتا ہے۔ ارشاد فرمایا:

 اِذَا قُمْتُمْ اِلَی الصَّلٰوةِ فَاغْسِلُوْا وُجُوْهَكُمْ وَ اَیْدِیَكُمْ اِلَی الْمَرَافِقِ وَ امْسَحُوْا بِرُءُوْسِكُمْ وَ اَرْجُلَكُمْ اِلَی الْكَعْبَیْنِ.

(المائدۃ، 5: 6)

’’جب (تمہارا) نماز کے لیے کھڑے (ہونے کا ارادہ) ہو تو (وضو کے لیے) اپنے چہروں کو اور اپنے ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھو لو اور اپنے سروں کا مسح کرو اور اپنے پاؤں (بھی) ٹخنوں سمیت (دھو لو)۔ ‘‘

اگر واؤ عاطفہ ترتیب کا فائدہ دیتی تو وضو میں اس ترتیب کو قائم رکھنا بھی فرض ہوتا، جب کہ ائمہ فقہ نے وضو کے اندر ترتیب کو فرض قرار نہیں دیا۔ مذکورہ آیت میں چار فرائضِ وضو بیان ہوئے ہیں مگر ان میں ترتیب فرض نہیں ہے۔ اگر واؤ عاطفہ ترتیب پر دلالت کرتی تو جس طرح چار فرض ارکانِ وضو بیان ہوئے، اسی طرح ان کی ترتیب بھی پانچویں رکن کے طور پر فرض ہوجاتی، مگر ایسا نہیں ہے۔ اسی طرح کئی اور آیات بھی ایسی ہیں جہاں ایک حکم ایک ترتیب سے آیا ہے اور دوسرے مقام پر وہ ترتیب بدل گئی ہے۔ قرآن مجید کی ان آیات سے معلوم ہوا کہ واؤ عاطفہ ترتیب پر دلالت نہیں کرتی بلکہ تشریک پر دلالت کرتی ہے۔

اللہ تعالیٰ بالعموم مخلوق کو واؤ عاطفہ کے ذریعے اپنے ساتھ ایک فعل اور ایک حکم میں اپنے ساتھ شریک نہیں کرتا۔ یہ صرف رسول اکرم ﷺ کا استثناء ہے۔ قرآن مجید کی 100 آیات ایسی ہیں جن میں اللہ رب العزت نے واؤ عاطفہ کے ذریعے مختلف چیزوں، معاملات اور احکام میں حضور ﷺ کو اپنے ساتھ شریک کیا ہے۔ لفظِ اطاعت کے ساتھ مذکور آیات کی تعداد 38 ہے، جن میں حضور نبی اکرم ﷺ کی اطاعت کو اللہ تعالیٰ نے اپنی اطاعت کے ساتھ بیان کرتے ہوئے اسے بھی اسی طرح واجب قرار دیا ہے جس طرح اللہ کی اطاعت واجب ہے۔ قرآن مجید میں لفظ اطاعت کے ساتھ اور لفظ اطاعت کے بغیر دوسرے الفاظ کے ساتھ حضور ﷺ کی اطاعت، سنت، فرمان، حکم اور امر کے واجب ہونے کو 150 آیات کریمہ میں اس طرح بیان کیا جس طرح فرمانِ الٰہی واجب ہے۔

جبکہ اس کے برعکس اللہ تعالیٰ نے ایک جگہ پر بھی اپنا ذکر اور مخلوق کا ذکر واؤ عاطفہ کے ساتھ جمع نہیں کیا۔ اللہ تعالیٰ مخلوق کو واؤ عاطفہ کے ذریعے اپنے ساتھ شریک نہیں کرتا، یہ شان صرف حضور نبی اکرم ﷺ کو حاصل ہے۔ اس لیے کہ آقا ﷺ کے علاوہ اللہ کے احکام ہم تک پہنچانے والا کوئی اور ذریعہ نہیں ہے۔ اللہ کے ہر حکم کو عملی شکل دینے والے رسول اکرم ﷺ ہیں۔

قرآن مجید میں صرف ایک مقام پر اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو واؤ عاطفہ کے ذریعے اپنے ساتھ ملایا ہے اور وہ بھی حضور نبی اکرم ﷺ پر درود و سلام بھیجنے کا معاملہ ہے۔ ارشاد فرمایا:

اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىِٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ.

(الأحزاب، 33: 56)

’’بے شک اللہ اور اس کے (سب) فرشتے نبی (مکرمّ ﷺ ) پر درود بھیجتے رہتے ہیں۔ ‘‘

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے واؤ عاطفہ کے ذریعے محبوب ﷺ پر درود پڑھنے کے اپنے فعل میں فرشتوں کو اپنے ساتھ شریک کیا ہے۔ گویا صرف عظمت مصطفی ﷺ کی خاطر مخلوق کو اپنے ساتھ جمع کیا مگر یہاں بھی ضمیر واحد کی استعمال نہیں کی بلکہ جمع کی استعمال کی۔

دوسرے مقام پر جب مومنین پر درود کی بات آئی اور وہاں حضور ﷺ کا ذکر نہیں تھا تو وہاں اسلوب مختلف اختیار کیا اور ملائکہ کو ساتھ نہیں ملایا۔ ارشاد فرمایا:

هُوَ الَّذِیْ یُصَلِّیْ عَلَیْكُمْ وَ مَلٰٓىِٕكَتُهٗ لِیُخْرِجَكُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ.

(الأحزاب، 33: 43)

’’وہی ہے جو تم پر درود بھیجتا ہے اور اس کے فرشتے بھی، تاکہ تمہیں اندھیروں سے نکال کر نور کی طرف لے جائے۔ ‘‘

یہاں اپنے اور فرشتوں کے ذکر کے درمیان عَلَیْکُمْ کہہ کر فاصلہ اور فرق کیا۔ پہلے اپنے حوالے سے جملہ مکمل کردیا کہ وہی ذات ہے جو تم پر دردو بھیجتی ہے۔ اس کے بعد اب واؤ عاطفہ لگاکر فرمایا کہ اور فرشتے بھی بھیجتے ہیں۔ گویا جب مخلوق پر درود بھیجنے کی بات کی تو اپنا ذکر الگ حیثیت میں کیا اور ملائکہ کے عمل کو الگ بیان کیا مگر جب مصطفی a پر درود پڑھنے کی بات آئی تو ملائکہ کو بھی اپنے ساتھ ملا لیا۔

2۔ اللہ اور اس کے رسول ﷺ دونوں کے لیے واحد ضمیر کے استعمال کی وضاحت میں ایک اور آیت ملاحظہ ہو۔ ارشاد فرمایا:

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ لَا تَوَلَّوْا عَنْهُ وَ اَنْتُمْ تَسْمَعُوْنَ.

(الأنفال، 8: 20)

’’اے ایمان والو! تم اللہ کی اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرو اور اس سے روگردانی مت کرو حالانکہ تم سن رہے ہو۔ ‘‘

اللہ رب العزت نے قرآن مجید کی متعدد آیات کریمہ میں اطاعت، احکام، معاملات اور دیگر کئی چیزوں میں واؤ عاطفہ کے ذریعے حضورنبی اکرم ﷺ کو اپنے ساتھ شریک کیا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ نے اس کے برعکس ایک جگہ پر بھی اپنا ذکر اور مخلوق کا ذکر واؤ عاطفہ کے ذریعے جمع نہیں کیا۔

عام عربی قاعدے کی رُو سے چاہیے یہ تھا کہ یہ کہا جاتا کہ؛ وَلاَ تَوَلَّوْا عَنْہُماَ کہ ان دونوں سے روگردانی مت کرو مگریہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے اور اپنے رسول ﷺ کے لیے واحد ضمیر استعمال کی کہ وَلاَ تَوَلَّوْا عَنْہُ کہ ’’اس سے‘‘ روگردانی مت کرو۔ آیت میں اطاعتیں دونوں کی بیان کیں مگر جب روگردانی کے حوالے سے حکم واضح کرنا تھا تو اس کے لیے کہہ دیا کہ وَلاَ تَوَلَّوْا عَنْہُ. (ہ) واحد کی ضمیر استعمال کی کہ ’اس سے روگردانی نہ کرو۔ ‘

سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ واحد ضمیر استعمال کرکے اللہ اور اس کے رسول دونوں میں سے کس سے روگردانی سے منع کیا جارہا ہے؟ اس لیے کہ پیچھے دونوں کی اطاعت کا حکم آ رہا ہے کہ اَطِیْعُوا ﷲَ وَرَسُوْلَہٗ کہ ’اللہ اوراس کے رسول کی اطاعت کرو۔ ‘ اگرایک کا ذکر ہوتا تو تَوَلَّوْا عَنْہُ کا معنی واضح تھا کہ جس کی اطاعت کا حکم ہے، اسی کے حکم سے روگردانی کرنے سے روکا جارہا ہے۔ یہاں حکم تو دو اطاعتوں کا ہے کہ اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اورپھر حکم آ گیا کہ ’اس کے حکم سے روگردانی نہ کرو۔ ‘ اب اس ’’ہٗ‘‘ ضمیر کا مرجع کیا ہوگا؟ اسے اللہ اور رسول دونوں میں سے کس کی طرف لوٹایا جائے گا؟

اللہ رب العزت اس اسلوب سے دراصل یہی حکم سمجھانا چاہتا ہے کہ جہاں میرے اور میرے محبوب ﷺ کے حکم سے روگردانی سے ممانعت کی بات آئے تو ’’اِس‘‘ اور ’’اُس‘‘ کے فرق کو مٹا دو۔ رسول کے حکم کی نافرمانی کرو گے تو تب بھی یہ اللہ کی نافرمانی متصور ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے اس اسلوب کے ذریعے اس فتنے کی جڑ کاٹ دی جو کہتے ہیں کہ ’ہم قرآن مجید کو حجت مانتے ہیں اورحکمِ رسول اور سنت و حدیثِ رسول کو حجت نہیں مانتے۔ ‘قرآن مجید کہتا ہے کہ اللہ کی اطاعت اور اس کے رسول کی اطاعت کا مطلب قرآن مجید کا حجت ہونا اور رسول کی حدیث کاحجت ہونا ہے۔ قرآن مجید کہتا ہے کہ ’’اُس‘‘ کے حکم کی نافرمانی نہ کرو۔ قرآن مجید نے دونوں کو ’’اُس‘‘ کہہ کر ثابت کردیا کہ حکم حدیثِ رسول کا ہو یا حکم کتابِ الٰہی کا ہو، حجیت کے اعتبار سے یہ دونوں ایک ہیں، دونہیں ہیں۔

3۔ اس اسلوب پر مبنی ایک اور آیت ملاحظہ ہو۔ ارشاد فرمایا:

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ لِمَا یُحْیِیْكُمْ.

(الأنفال، 8: 24)

’’اے ایمان والو! جب (بھی) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہیں کسی کام کے لئے بلائیں جو تمہیں (جاودانی) زندگی عطا کرتا ہے تو اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، دونوں) کی طرف فرمانبرداری کے ساتھ جواب دیتے ہوئے (فوراً) حاضر ہو جایا کرو۔ ‘‘

اس آیت میں اِذَا دَعَاکُمْ ضمیرواحد ہے۔ عربی قاعدہ کی رو سے ہونا یہ چاہیے تھا کہ إذَا دعاواکم کہ جب وہ دونوں تمہیں بلائیں۔ ‘‘ یعنی تثنیہ (دو) کا صیغہ ہونا چاہیے تھا مگر یہاں تثنیہ کا صیغہ استعمال نہیں کیا بلکہ ضمیر واحد استعمال کی اور فرمایا: اِذَا دَعَاکُمْ؛’’جب وہ تمہیں بلائے۔ ‘‘

ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ عربی کے تمام قواعد قرآن مجید کے تابع ہیں، اگر کوئی عبارت ظاہراً عربی کے معروف قاعدہ کے خلاف آئے تو ہم یوں نہیں کہیں گے کہ یہ عبارت عربی قواعد کے اعتبار سے (معاذ اللہ)غلط ہے، بلکہ ہم اسے بھی ایک قاعدہ تسلیم کریں گے

اس اسلوب سے اللہ تعالیٰ نے واضح کردیا کہ کوئی اللہ تعالیٰ کے بلاوے کو رسول کے بلاوے سے الگ نہ سمجھے اور رسول کے حکم اور بلاوے کو اللہ کے حکم اور بلاوے سے الگ نہ سمجھے۔ اس اسلوب کو اختیار اس لیے کیا کہ اذہان میں یہ بات راسخ ہو جائے کہ ایک طرف حکمِ الہٰی، قرآن مجید اور اطاعتِ الہٰی ہے اور دوسری طرف حکمِ رسول، حدیث و سنت اور اطاعتِ رسول ہے، اِن دونوں کا حکم یہ ہے کہ دونوں کی دعوت ایک ہے۔۔۔ دونوں کی حجیت ایک ہے۔۔۔ دونوں کا وجوب و لزوم ایک ہے۔۔۔ اتھارٹی ہونے میں ان دونوں کو جدا جدا نہیں کرسکتے۔ اللہ تعالیٰ نے دو کو ایک کے حکم میں شامل کردیا۔ سو بحیثیت مسلمان ہمیں یہ اختیار نہیں پہنچتا ہے کہ ہم دَعَاکُمْ کو توڑ کر دعاواکم کردیں، ان کے حکم کی حجیت کو جدا کردیں اور ایک کو مانیں اور ایک کا انکار کریں۔ اللہ تعالیٰ نے اس اختیار کو رد کردیا ہے۔ پس کوئی رسول کے حکم اور ان کی اطاعت سے انکار کا راستہ پیدا نہ کرے۔ اس لیے کہ اللہ اور اس کے رسول کا بلاوا ایک ہے۔۔۔ حکم و فرمان ایک ہے۔۔۔ حجیت و وجوب ایک ہے۔۔۔ اطاعت ایک ہے۔۔۔ اور ان کی فرضیت و لزوم ایک ہے۔ ہم اسے علیحدہ نہیں کر سکتے۔

(جاری ہے)۔