ائمہ و علماء نے ایمان کے کئی درجات بیان فرمائے ہیں، اگر وہ درجات مکمل نہ ہوں تو ایمان کامل نہیں بنتا بلکہ ناقص رہ جاتا ہے۔ مثلاً: ایمان کبھی نظری طریق سے حاصل ہوتا ہے، یعنی انسان کسی شے کو دیکھتا ہے اور اس پر اعتماد کرتا ہے لیکن یہ کامل ایمان نہیں ہے، اس لیے کہ کامل ایمان وہ ہے کہ دل جس کی تصدیق کرے، زبان جس کا اقرار کرے اور جس شے یا عقیدے پر ایمان ہے اس پر انسان کے جسم کے تمام اعضاء عمل کریں۔ لہذا یہ تینوں چیزیں جب تک ایمان میں داخل نہ ہوں تو ایمان مکمل نہیں ہوتا۔ قرآن مجید نے اس حقیقت کو یوں آشکار کیا۔ فرمایا:
اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ.
’’بےشک جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کیے‘‘
(البقره، 2: 277)
یعنی ایمان لانے کے ساتھ ساتھ عملِ صالح کی شرط بھی ہے کہ جب انسان زبان سے اقرار کرتا ہے تو اس کے پیچھے دل کی تصدیق بھی ہو اور اس کے بعد وہ اس اقرار پر عمل بھی کرے۔
اللہ رب العزت نے جب تمام ارواح کو پیدا کیا تو ان سے ایک سوال فرمایا:
اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ ط قَالُوْا بَلٰی.
(الاعراف، 7: 171)
’’کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں، وہ (سب) بول اٹھے: کیوں نہیں؟ (تو ہی ہمارا رب ہے)‘‘۔
اس اقرار کا مطلب یہ ہے کہ ان ارواح نے عالمِ ارواح میں کیے گئے وعدے پر دنیا میں آنے کے بعد عمل بھی کرنا ہے کیونکہ اگر عمل نہ کریں تو وہ وعدہ ادھورا رہ جاتا ہے اور اظہارِ ایمان ناقص رہ جاتا ہے۔
لفظ ’’رب‘‘ میں پنہاں حکمت
اللہ رب العزت کے بہت سے اسماء اور صفات ہیں جس سے اُس کی مختلف شانوں کا اظہار ہوتا ہے لیکن اس آیت مبارکہ میں جب اس نے ارواح سے سوال کیا تو ایک خاص صفت ’’ربوبیت‘‘ کا اظہار فرمایا۔ اللہ تعالیٰ یہ بھی پوچھ سکتا تھا کہ کیا میں تمہارا خالق نہیں ہوں؟ کیا میں تمہارا رازق نہیں ہوں؟ کیا میں تمہارا علیم نہیں ہوں؟ کیا میں خبیر نہیں ہوں؟ یہ سب بھی اسی کے نام ہیں لیکن اس نے جب ارواح سے وعدہ لیا کہ کیا تم مجھے مانتے ہو کہ میں تمہارا رب ہوں؟ تو اس نے یہ وعدہ کسی اور اسم اور صفت پر نہیں لیا بلکہ صفتِ ربوبیت پر لیا ہے۔
لازمی بات ہے کہ اس اسلوب میں کوئی خاص حکمت کار فرما ہے۔ اس حکمت کو جاننے کے لیے لفظ ’’رب‘‘ کے معنی پر غور کرنا ہوگا کہ اس صفت میں کیا خاص بات ہے کہ جب ارواح سے وعدہ لیا، تب بھی اپنی صفت ربوبیت کا اظہار فرمایا اور پھر جب قرآن مجید کا آغاز کیا تو وہاں بھی ’’الحمدللہ رب العالمین‘‘ کے الفاظ بیان فرمائے۔
ائمہ و مفسرین اللہ رب العزت کی صفتِ ربوبیت کی تفسیر بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ لفظ ’’رب‘‘ سے مراد مربّی اور مالک ہے۔ کسی کی تربیت کرکے بتدریج اس کو کمال تک لے جانا ربوبیت ہے۔ کوئی رب، کامل رب تب بنتا ہے یا کسی کی صفتِ ربوبیت اپنے کمال کو تب چھوتی ہے جب کوئی کسی کی کماحقہٗ تربیت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ اسی صورت میں وہ صفتِ ربوبیت کا کمال پاتا ہے۔ اللہ رب العزت نے مذکورہ آیات میں جب لفظ ’’رب‘‘ استعمال فرمایا تو اس کے ذریعے اپنی تمام صفات کا اظہار فرمادیا۔ صفتِ ربوبیت ایسی جامع اور اعلیٰ صفت ہے جس میں صفتِ رزاقیت بھی آجاتی ہے، اس کا علیم و خبیر ہونا بھی شامل ہے، زندگی و موت دینا بھی اس میں آجاتا ہے کیونکہ کسی کی کامل تربیت کرنے کے لیے ہر پہلو کو پروان چڑھانا ضروری ہوتا ہے۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ اگرکوئی کسی کی کفالت میں ہے تو اسے صرف کتابیں پڑھائے مگر کھانا نہ دے یا اسے ذکر اذکار سکھائے مگر لباس نہ دے۔
یہی وجہ ہے کہ اللہ رب العزت نے والدین کے لیے بھی لفظ ’’رب‘‘ استعمال فرمایا ہے۔ ان کو بھی ’’رب‘‘ اس لیے کہا جاتا ہے کہ جب اولاد ان کے زیر سایہ ہوتی ہے تو ان کی ہر ضرورت کا خیال رکھنا والدین کی ذمہ داری ہے۔ وہ ان کی تعلیم، خوراک، لباس، رہائش، صحت، تربیت الغرض والدین جملہ پہلوئوں سے اولاد کا خیال رکھتے ہیں۔ اس لیے والدین کو مجازاً رب کہا جاتا ہے۔ اللہ رب العزت کی ربوبیت کا کمال یہ ہے کہ جس شے کو وہ بتدریج کمال تک پہنچانا چاہتا ہے، اس کے لیے اپنی ہر صفت کو کام میں لاتا ہے۔ جب اس نے عالمِ ارواح میں اپنی سب سے اعلیٰ صفت ربوبیت کے ذریعے ارواح سے وعدہ لیا تو اب ارواح کا اللہ سے یہ وعدہ اس کی صرف ایک صفت کے اعتبار سے نہیں بلکہ ارواح نے اس کی ہر صفت پر اس سے وعدہ کیا ہے۔
درجات میں فرق کی بنیاد علم ہے
سوال پید اہوتا ہے کہ جب تمام ارواح سے اللہ رب العزت وعدہ لے رہا تھا تو کیا وہاں موجود تمام ارواح درجے میں برابر تھیں؟ نہیں، بلکہ ان میں غیر مسلموں، نافرمانوں، فرمانبرداروں، صدیقین، صالحین، اولیائ، شہداء، انبیاء اور رسولوں کی روحیں بھی ہوں گی اور پھر سب سے اعلیٰ اور ارفع تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روح بھی ہوگی۔ معلوم ہوا وہ ساری ارواح مرتبے میں ایک نہیں تھیں۔
یہ بات ذہن نشین رہے کہ مختلف لوگوں کے مراتب میں فرق کی بنیاد علم ہوتا ہے۔ یعنی درجات کی تقسیم علم کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ انبیاء علیہم السلام میں بھی درجات کی تقسیم کی بنیاد علم ہے۔ جو علم میں جتنا زیادہ ہے، اس کو اللہ نے اتنی فضیلت عطا کردی۔ جیسے نبی پر رسول کا علم زیادہ ہے، اس لیے رسول کو ہر نبی پر فضیلت عطا کردی۔
عالمِ ارواح میں بھی جب تمام ارواح الست بربکم کے کلمات سماع کررہی تھیں اور اس کا جواب دے رہی تھیں تو وہاں بھی اللہ رب العزت کے بارے میں تمام ارواح کا علم اور معرفت ایک جیسی نہ تھی۔ کسی کی معرفت اللہ کے بارے میں زیادہ ہے تو کسی کی کم ہے۔ جس کی معرفت اللہ کے بارے میں جتنی زیادہ تھی وہ عالمِ ارواح میں اتنے درجے بلند مقام پر فائز تھا اور اس کے مطابق اللہ رب العزت کے سوال ’’الست بربکم‘‘ کا جواب دے رہا تھا۔
مثلاً: اگر کوئی سائنس دان کسی شخص سے پوچھے کہ کیا تم مجھے مانتے ہو؟ تو وہ شخص جب یہ جواب دے گا کہ ہاں، جانتا ہوں تو اس جواب کو دیتے ہوئے اس کی نگاہ میں صرف اس کی سائنسی تحقیقات ہوں گی اور وہ اس کے صرف اس پہلو کو جانتا ہوگا اور اسی کو نگاہ میں رکھ کر کہے گا کہ ہاں میں تجھے جانتا ہوں۔ اس موقع پر وہ اس کی زندگی کے دیگر معاملات و معمولات کو نہ جاننے کے باعث صرف اس کی سائنسی خدمات کے حوالے سے اس کو ماننے اور جاننے کا اقرار کرے گا۔
بلاتشبیہ و بلامثال اللہ رب العزت کا تمام ارواح سے سوال بھی مطلق ہے کہ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ یعنی کیا تم مجھے مانتے ہو؟ اب جواب دینے والا جتنا جانتا ہے، اتنا ہی مانے گا۔ ظاہر ہے کہ تمام ارواح اللہ رب العزت کے بارے میں علم میں برابر نہ تھیں، کسی پر اللہ کی صفتِ رزاقیت واضح تھی تو اس نے جب ’’بلیٰ‘‘ کہا تو اس وقت وہ اللہ کا صرف رزاق ہونا جانتا تھا۔۔۔ کسی پر اللہ کی شان علیمی عیاں تھی تو اس نے جب ’’بلیٰ‘‘ کہا تو اس وقت اس کو بس یہی علم تھا کہ مولیٰ علیم ہے۔۔۔ کسی پر اس کی صفتِ خبیری عیاں تھی تو اس نے جب ’’بلیٰ‘‘ کہا تو اس قت اس کی نگاہ میں اس کی شانِ خبیری عیاں تھی۔۔۔ کسی پر اس کی صفتِ شافی عیاں تھی تو اس نے جب بلیٰ کہا تو اس کی نگاہ میں اس کا شفا دینا تھا۔۔۔ کسی پر خدا کا رحیم و کریم ہونا عیاں تھا تو اس نے جب ’’بلیٰ‘‘ کہا تو اس پر اس کی یہی شان عیاں تھی۔ الغرض جتنی ارواح تھیں اور جس جس پر اللہ کی جو جو شان عیاں تھی تو اس نے اس کے مطابق اس پر ’’بلٰی‘‘ کہہ دیا۔ کسی پر ایک شان عیاں تھی تو اس نے اس پر ’’بلٰی‘‘ کہا، کسی پر اس کی دو شانیں عیاں تھیں تو اس نے اس پر ’’بلٰی‘‘ کہا اور کسی پر اس کی دس شانیں عیاں تھیں تو اس سے اس پر ’’بلٰی‘‘کہا۔ پس اپنے اپنے علم اور مرتبے کے مطابق حاصل معرفتِ شانِ الہٰی کے جواب میں ہر ایک نے ’’بلیٰ‘‘ کہا۔
ان ارواح میں سے ایک روح تاجدار کائنات حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بھی تھی جو اللہ کو اس کی ہر شان سے جانتی اور پہچانتی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اقدس پر اللہ کی ہر شان عیاں تھی۔ جب میرے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روح مبارک نے ’’بلٰی‘‘ کہا تو انہوں نے اللہ کی ہر شان اور ہر معرفت کو ’’بلٰی‘‘ کہا۔ کیونکہ جب وہ ’’بلٰی‘‘ کہہ رہے تھے تو اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر خدا کی صفتِ رزاقیت بھی عیاں تھی، اس کا کریم ہونا بھی عیاں تھا، اس کا شافی ہونا بھی عیاں تھا، اس کا علیم و خبیر ہونا بھی عیاں تھا، اس کا زندگی اور موت دینا بھی عیاں تھا۔ الغرض جس پر جتنی شانیں عیاں تھیں اس کا ’’بلٰی‘‘ اتنا جامع تھا اور اس نے اللہ کی معرفت کو سامنے رکھ کر بلٰی کہا کہ مولا ہاں تو میرا رب ہے اور میں ان سب شانوں کے ساتھ تجھے مانتا ہوں۔
یہی وجہ ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب دنیا میں تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ رب العزت کی تمام شانوں کے مظہرِ اتم بن کر تشریف لائے۔ اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کی تمام شانوں کی معرفت کے حامل تھے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عالم ارواح میں بلیٰ کہا تھا تو مراد یہ کہ آپ سب جانتے تھے۔ اللہ رب العزت کا یہ فرمان بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وسعتِ علم کا اظہار ہے:
وَعَلَّمَکَ مَالَمْ تَکُنْ تَعْلَمُ.
’’اے حبیبِ مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم نے آپ کو ہر وہ چیز سکھا دی جو آپ نہیں جانتے تھے‘‘۔
آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چونکہ سب سے زیادہ جانتے تھے اور جانتے ہیں، اس لیے اللہ رب العزت نے نہ صرف تمام مخلوق میں سب سے بلند مرتبہ آقا علیہ السلام کو عطا فرمادیا بلکہ جو کرم اور انعام اللہ رب العزت نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات بابرکات پر فرمایا، وہ کسی اور پر نہ فرمایا۔
سیدنا آدم علیہ السلام کو آب و گل سے پیدا کیا اور تاجدارِ کائنات کو اپنے نور سے پیدا کیا اور پھر فضیلتیں بھی ایسی دیں جیسی کسی اور کو نہ ملیں۔ آقا علیہ السلام کو رحمۃ للعالمین بنایا اور یہ شان کسی اور کو عطا نہ کی۔۔۔ سیدنا آدم علیہ السلام کو اپنی بارگاہ میں رکھ کر زمین پر بھیج دیا جبکہ تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو زمین سے بلا کر اپنا دیدار کرادیا۔۔۔ وہ سیدنا ادریس علیہ السلام پر کرم فرماتا ہے تو ان کو لوح و قلم کا علم عطا کرتا ہے مگر تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لوح و قلم عطا فرمادیتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تقدیریں لکھیں یعنی کسی کو صرف علم دیتا ہے اور کسی کو اس کی ملکیت دے دیتا ہے۔۔۔ سیدنا نوح علیہ السلام کو یہ شان دی کہ انہوں نے کشتی کے ذریعے اپنے چند لوگوں کو بچایا، مگر تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ شان دی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارب ہا انسانیت کو دوزخ کی آگ سے بچایا۔ یعنی بات چند لوگوں تک محدود نہ رکھی۔۔۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو اپنا خلیل بنایا تو آقا علیہ السلام کو اپنا محبوب بنایا۔۔۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے دعا کی کہ میرے مولا لوگوں میں میرا ذکر بلند کردے جبکہ اپنے محبوب کے لیے خود فرمایا ’’ورفعنا لک ذکرک‘‘۔۔۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو آگِ نمرود میں ڈلوایا تو نمرود کی لگوائی آگ ٹھنڈی کردی اور یہاں پر اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کو یہ شان دے دی کہ دوزخ کی آگ ان پر ٹھنڈی ہوجائے گی۔۔۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو اللہ رب العزت نے شانِ کلیمی عطا کی مگر اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنا دیدار بھی عطا فرمادیا۔۔۔ موسیٰ علیہ السلام کو یدِ بیضاء عطا فرمایا تو اپنے محبوب کو ایسا جسد عطا کیا کہ صحابہ کرام فرماتے ہیں کہ اندھیرے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پورا جسمِ اطہر چمکتا تھا اور اندھیرا چھٹ جاتا تھا۔۔۔ سیدنا یوسف علیہ السلام کو ایسا حُسن عطا فرمایا کہ جس پر چند زنانِ مصر مر مٹ گئی تھیں، جبکہ میرے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حُسن یہ تھا کہ یہاں ارب ہا امت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عشاق اور دیوانے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر صبح شام بن دیکھے مرتے ہیں۔۔۔ سیدنا یوسف علیہ السلام کو مصر کے خزانوں کی چابیاں عطا کردیں جبکہ اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو زمین کے سارے خزانے عطا فرمادیئے۔۔۔ سیدنا دائود علیہ السلام کو وہ ہاتھ دیئے جن میں لوہا پگھل جاتا تھا جبکہ میرے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وہ دستِ مبارک دیئے جن میں لوگوں کے پتھروں سے بھی سخت دل پگھل جاتے اور وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر قربان ہو جاتے۔۔۔ سیدنا سلیمان علیہ السلام کو طئی زمانی اور مسافت کی طاقت دی کہ تھوڑے عرصے میں زیادہ کائنات دیکھ لیتے تھے جبکہ یہاں اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غلاموں کو بھی وہ طاقت دے رکھی ہے کہ حضور سیدنا غوث الاعظمؓ فرماتے ہیں کہ میں دنیا کو اپنی ہتھیلی پر ایسے دیکھتا ہوں جیسے رائی کا دانہ ہو۔۔۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ ’’ربی اشرح لی صدری‘‘ یہاں اپنے محبوب کو خدا خود کہتا ہے ’’الم نشرح لک صدرک‘‘۔۔۔ سیدنا عیسی علیہ السلام چند مُردوں کو زندہ فرماتے تھے جبکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قیامت تک کھرب ہا لوگوں کے دل زندہ فرمادیئے۔۔۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے عصا سے بارہ چشمے رواں ہوئے تھے جبکہ یہاں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی انگشتانِ مبارک سے ہزاروں چشمے رواں ہوئے۔
حضور ﷺ مظہرِ صفاتِ الہٰیہ ہیں
اللہ رب العزت نے آقا علیہ السلام کو کثیر شانیں عطا کیں اور اپنی صفات کا رنگ بھی عطا کیا۔ صحابہ کرامؓ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسے سامنے دیکھتے تھے، ویسے پیچھے دیکھتے تھے کیونکہ اللہ کی ہر صفت پر بلیٰ کہا تھا لہذا اس کی اس صفت کا رنگ بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں موجود تھا۔۔۔ اللہ رب العزت کو نہ اونگھ آتی ہے اور نہ نیند۔ آقا علیہ السلام کی شانِ مظہریت کا عالم دیکھئے کہ صحابہ کرامؓ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب آرام فرماتے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خبر گیری کا عالم جتنا جاگنے کی صورت میں تھا، اتنا سوتے میں بھی تھا۔۔۔ اللہ حیا دار ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات میں اللہ کی اس صفت کا فیض دیکھئے کہ صحابہ کرامؓ بیان فرماتے ہیں کہ آقا جیسا حیا دار ہم نے کسی کو نہ دیکھا تھا۔۔۔ خدا سخی اور غنی ہے۔ آقا علیہ السلام کے بارے میں صحابہ بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اتنے غنی تھے اور اتنا عطا فرماتے کہ فقر کا خیال تک نہ آتا اور ہر کسی کی جھولیاں بھر بھر کے بھیجتے تھے۔۔۔ اسی طرح اللہ کی ایک شانِ تخلیق بھی ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُس کی اس شان کا بھی مظہر تھے۔ غزوۂ بدر کے موقع پر ایک صحابی کی تلوار ٹوٹ گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُسے درخت کی شاخ (ٹہنی) عطا فرمائی کہ جائو اس کے ساتھ لڑو۔ وہ صحابی اس ٹہنی کے ساتھ میدان میں کفار سے لڑے اور وہ درخت کی ٹہنی تلوار کی طرح کفار کو کاٹتی چلی گئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے دستِ اقدس سے لکڑی کی ٹہنی کو لوہے کی تلوار بنادیا۔ وہ صحابی کہتے ہیں کہ میں نے کئی سال اس تلوار کے ساتھ غزوات اور جنگیں لڑیں۔ یہ سب معجزہ نہیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لکڑی کی اصل ہیئت کو بدل کر رکھ دیا، یہ شانِ تخلیق ہے۔۔۔ اسی طرح ایک موقع پر صحابہ کرام حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں پانی کی خالی چھاگل لے آئے جس میں چند قطروں کے سوا کچھ نہیں تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا دستِ اقدس چھاگل میں ڈالا تو پانی کے ایسے چشمے رواں ہوئے کہ اس سے ایک ہزار صحابہ سیراب ہوجاتے ہیں۔ یہ بھی شانِ تخلیقی ہے جس کے مظہر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بن چکے تھے۔۔۔ کہیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھوڑے سے کھانے میں اپنا لعابِ دہن ڈالتے تو ہزاروں لوگوں کی خوراک کا انتظام ہوجاتا اور کھانے میں اضافہ ہوجاتا۔۔۔ کبھی سیدنا ابی ہریرہؓ کی سترہ کھجوروں کو اپنی توجہ اور خیرات سے اتنا بڑھا دیتے ہیں کہ وہ فرماتے ہیں کہ جس دن سیدنا عثمان غنیؓ شہید ہوئے، میں نے اس وقت تک اس پوٹلی میں سے اتنی کھجوریں کھائیں اور لوگوں میں تقسیم کیں کہ شاید کئی ٹن بن جائیں۔
یہی وہ علم کے مراتب تھے کہ جب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خدا کو ہر شان کے ساتھ مانا اور جانا تو خدا نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی ہر شان کا مظہر اتم بنادیا۔ یہ وہ شانیں اور عظمتیں ہیں جن کی وجہ سے کائنات میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چرچے ہیں۔
حضور نبی اکرم ﷺ کے اخلاقِ عالیہ
آقا علیہ السلام کے اخلاقِ عالیہ کی بات کی جائے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اخلاقِ حسنہ کے اعلیٰ ترین مقام پر فائز نظر آتے ہیں۔ بچوں اور گھر والوں پر شفقت فرماتے، آپ کی طبیعت میں مزاح بھی تھا، ہر حال میں صرف حق بات فرماتے، فحش گوئی سے دور تھے، کسی خادم کو کبھی تکلیف نہ دی، اپنی ذاتی وجہ سے کسی سے ناراض نہ ہوتے، جب صحابہ کرامؓ گفتگو فرماتے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے ساتھ شریک ہوجاتے اور جب صحابہ، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بات کرتے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکمل توجہ سے سنتے، لوگوں کی مشکلات حل کرتے اور ان کی حاجت روائی فرماتے، بازار میں آواز اونچی کرنا پسند نہ فرماتے، برائی کا بدلہ برائی سے نہ دیتے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تواضع اور بردباری کا پیکر تھے، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نرم دل تھے، پاکیزہ نفس کے مالک تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق کامل تھے، شکر گزار تھے، صاحبِ حیا اور پردہ پوشی فرمانے والے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عباد (بندوں) میں سب سے کامل عبد تھے، عابد بھی ایسے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدمین مبارک متورم ہوجاتے۔ خدا پر توکل کرنے والے تھے، امت پر شفیق تھے اور امت کو نقصان سے باخبر فرمانے والے تھے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اتنے کریم اور شفیق تھے کہ انسان تو انسان رہا، جانوروں پر بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفقت عیاں تھی۔ کیوں؟ اس لیے کہ وہ خدا کی ہر شان کے مظہر تھے اور خدا بھی تو مخلوق میں جانوروں کی خبر گیری کرتا ہے، انہیں رزق دیتا ہے اور انہیں تکلیف سے بچاتا ہے۔ کبھی کوئی اونٹ اور کبھی کوئی ہرنی آتی ہے اور اپنی زبان سے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کہتی ہے کہ اس شخص نے مجھے قید کیا ہے، میں نے جنگل میں اپنے بچے کو دودھ پلانا ہے۔ قربان جائیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کمال شفقت پر کہ اس ہرنی کے درد کا بھی احساس فرماتے ہیں اور مالک سے فرماتے ہیں کہ میں اس ہرنی کی گارنٹی دیتا ہوں اور اس کی جگہ میں کھڑا ہوں، اس کو چھوڑ دے تاکہ یہ اپنے بچے کو دودھ پلاکر واپس آجائے۔
محترم قارئین! ایسا کون کرتا ہے کہ جو ایک ہرنی کی صدا پر اپنے آپ کو بطور گارنٹی وہاں پر کھڑا کردے اور ہرنی بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گارنٹی کی ایسی لاج رکھتی ہے کہ وہ دودھ پلاکر واپس لوٹ آتی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس کی ادا تنی پسند آتی ہے کہ اس کے مالک کو فرماتے ہیں کہ کیا یہ مجھے بیچتے ہو؟ اس نے کہا: حضور، سب آپ کا ہے۔ فرمایا: پھر اسے آزاد کردو اور اس شخص نے اسے آزاد کردیا۔
محترم قارئین! یہ سب کچھ ہم میں بھی ہونا چاہئے کیونکہ ہم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے امتی ہیں، مگر افسوس! ہم بردبار نہیں ہیں، ہم شفیق نہیں ہیں، ہم خوش اخلاق نہیں ہیں، ہم محبتیں بانٹنے والے نہیں ہیں بلکہ ہم غصہ کرنے والے، نفرتیں بانٹنے والے، فتوے لگانے والے، قتل کرنے والے اور لوگوں کا جینا اجیرن کرنے والے ہیں۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات نہیں ہیں۔ حضور غمگسار تھے، بچوں پر رحم اور بڑوں کی غم گساری فرماتے۔ آج ہمارے پاس اپنے بوڑھے والدین کے ساتھ بیٹھنے کا وقت نہیں ہے۔ ہر وقت دوسروں کی ہم ٹوہ میں لگے رہتے ہیں کہ کسی کی کوئی خامی مل جائے تو اس کا دامن چاک کردیں، اس کو معاشرے میں بے عزت کردیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایسے نہیں تھے اور نہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات ہیں۔
آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم آقا علیہ السلام کی تعلیمات کو حرزِ جاں بنائیں اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت و عشق سے اپنے ایمان کو منور کریں۔ آقا علیہ السلام کی اطاعت و اتباع میں اپنی زندگیاں صرف کریں جس کے بارے میں اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:
قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللهُ وَیَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ.
(آل عمران، 3: 31)
’’(اے حبیب!) آپ فرما دیں: اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو تب اللہ تمہیں (اپنا) محبوب بنا لے گا اور تمہارے لیے تمہارے گناہ معاف فرما دے گا‘‘۔
ہمیں چاہیے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت و اتباع کا کامل نمونہ بن جائیں اس لیے کہ اگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سچی اطاعت کر لیں تو اللہ رب العزت نہ صرف ہمارے گناہ معاف کردے گا بلکہ ہمیں بھی اپنا محبوب بنا لے گا۔ اللہ کا محبوب بننے کا واحد ذریعہ اطاعتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ یاد رکھیں! اطاعت، محبت کے بغیر ممکن نہیں۔ اطاعت و محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی زندگی کا زیور بنالینا اصل زندگی ہے۔