اِسلام دشمن طاقتیں ازل سے ہی اسلام کے خلاف بر سر پیکار ہیں۔ اس حوالے سے اسلام دشمن عناصر آج بھی ایک کے بعد دوسرا محاذ کھول کر فرزندانِ اِسلام کی طاقت کو منتشر کردینے کی کوشش میں ہیں۔ اسلام دشمنی کی وجہ سے مسلمان کمزور سے کمزور تر ہوتا جا رہا ہے اور شومئی قسمت کہ مسلمانوں کی اکثریت کو اس کا احساس بھی نہ رہا۔ بقول ِ علامہ
وائے ناکامی! متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا
یوں محسوس ہوتا ہے کہ فرزندانِ اسلام غافل اور محوِ استراحت ہیں اور دشمنانِ اسلام ہمہ وقت محوِ فکر وعمل ہیں۔
80ء کی دہائی میں ملک دشمن عناصر کی سازشیں:
معزز قارئین !محرم الحرام 1400ھ (1980ء) جب نئی صدی ہجری کا آفتاب طلوع ہوا تو ملک پاکستان کی صورتِ حال انتہائی زوال کا شکار ہو چکی تھی۔ دینِ اسلام کی اصل کو اسلام دشمن طاقتیں مسخ کرنے میں مصروف عمل تھیں۔ بین الاقوامی سطح پر فکری و نظریاتی زوال اور صریح مقصد نہ ہونے کے باعث مسلما ن بےحمیتی کی زندگی گزار رہے تھے۔
اس عرصہ میں مسلکی منافرت اپنے عروج پر تھی۔ ایک دوسرے پر کفر و شرک کے فتوے لگانا عام تھا۔ دوسرے مسلک کے فرد کے ساتھ گفتگو کرنا، اُس فرد سے تعلق رکھنااور حتی کہ دوسرے مسلک کی مسجد میں نماز کی اَدائیگی تک کو نہ صرف نا جائز بلکہ حرام سمجھا جاتا تھا۔ اِسلام دشمن قوتوں کی سازشوں اوراپنے چند مسلمان نادان دوستوں کی وجہ سے کئی مواقع ایسے بھی آئے کہ قریب تھا کہ ملک میں فرقہ وارانہ قتل و غارت گری شروع ہو جائے اور بات چلتے چلتے خانہ جنگی تک پہنچ جائے۔ متنازع اور نفرت آمیز موضوعات پر سینکڑوں تصانیف شائع ہوئیں۔ جہادکے نام پر کئی فسادی تنظیمیں بنیں، کئی جیش اور سپاہ بنیں حتی کہ سیاسی تنظیموں نے بھی اپنے عسکری ونگز قائم کیے اور مسلکی جماعتوں کے رہنما اور کارکن قتل ہوئے۔
الغرض دہشت گردی، تنگ نظری اور اِنتہا پسندی عروج پر تھی۔ ہر شعبے، جماعت اور تنظیم نے اپنی فکرو سوچ کے مطابق دِین کی اَقدار کو ڈھال لیا ہوا تھا، منبر و محراب سے لے کر معاشرتی سطح پر کفر کے فتوے کوچہ و بازار میں سر عام فروخت ہو رہے تھے۔ حد یہ ہوئی کہ وطنِ عزیز کے در و دیوار بھی ایک دوسرے کو کافر قرار دینے کے نفرت انگیز نعروں سے آلودہ کیے گئے۔
بین المسالک نفرتوں کا تدارک: شیخ الاسلام کا کردار
ان حالات میں ملکِ پاکستان سے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی ایک توانا آواز ابھری، جس نے اس خون آشام منظر میں محبتوں کے پھول بکھیرے اور امن وسکون کی طرف دعوت دی۔ ذیل میں بین المسالک نفرتوں کے تدارک میں شیخ الاسلام کی کاوشوں کا ایک اجمالی خاکہ نذرِ قارئین کیا جارہا ہے:
1۔ دعوت و تبلیغ سے تکفیری رویوں کا خاتمہ
1980ء کی دہائی میں دعوت و تبلیغ کا معیار تھا یعنی دوسرے مسالکِ فکر کو کافرو مشرک سمجھنا اور اُن پر کفر کا فتویٰ لگانا ہر مسلک اپنی دینی و مذہبی ذمہ داری سمجھتا تھا۔ محرم کے دن آتے تو ملک میں متعدد شہروں میں کرفیو لگ جاتا۔ ربیع الاول آتا تو ایک دوسرے پر فتوئوں کا بازار گرم ہوجاتا۔ ایک مسلک کے شخص کا دوسرے کے ہاں جانا اِس قدر معیوب سمجھا جاتا کہ بعض اوقات دوسرے مکتبِ فکر کے فرد کے مسجد میں آجانے کے باعث مسجد کو دھلوایا جاتا۔ ایسے پُر فتن اور تکفیری ماحول میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اَمن اور رواداری کا علم اٹھا کر تکفیر سے پاک دعوت و تبلیغ کا آغاز کیا اور نفرتوں اور تکفیری رویوں کو دھو ڈالا۔
2۔ اعلامیہ وحدت
1990کی دہائی شیعہ سنی فسادات کا وہ دور جب پاکستان میں شیعہ سنی فسادات کو ہوا دی گئی تھی، لشکرِ جھنگوی، لشکرِ مہدی، سپاہِ محمد، سپاہِ صحابہ، حزب اللہ اور مہدی فورس جیسی تنظیمیں ایک دوسرے کو قتل کرتی تھیں۔ کبھی امام بارگاہ پہ حملہ ہوتا تو کبھی مساجد پر۔
ان حالات میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے مثبت اندازِ فکر، باہمی احترام و رواداری اور بین المسالک رابطوں کی افادیت اور باہمی نفرتوں کے تدارک کا واضح ثبوت 10 جنوری 1990ء کا اعلامیہ وحدت ہے۔ یہ اعلامیہ پاکستان عوامی تحریک اور تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کے مابین قرار پایا جس میں ازواجِ مطہرات، اہلبیتِ اطہار، صحابہ کرمؓ، خلفائے راشدین اور ائمہ کرام کی گستاخی کو حرام قرار دیا گیا تاکہ باہمی نفرتوں کو ختم کیا جا سکے اور امن کا درس دیا جا سکے۔ پاکستان میں اتحادِ امت کے فروغ، فرقہ ورایت اور شیعہ، سنی فسادات کو روکنے کے لیے پاکستان عوامی تحریک اور تحریک نفاذ فقہ جعفریہ نے 10 نکاتی اعلامیہ پر دستخط کیے۔
3۔ دفاع شانِ علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم
2008ء میں نفرت پھلانے کی ایک اور مذموم کوشش لاہور کے ایک عالمِ دین کی طرف سے کی گئی یعنی حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی شان اقدس میں ایک بڑا نقب انکی گستاخی کر کے لگایا گیاجس کے باعث ملک بھر میں فرقہ واریت کے طوفان کو ہوا دی گئی۔ شیعہ، سنی نفرت کا ایک بازار گرم کیا گیا۔ ملک بھر میں میڈیا کے تمام ذریعے استعمال کر کے دنگا، فساد، فتنہ،نفرت اور شر پھلانے کی اسلام دشمنوں نے بھرپور کوشش کی۔ یہ نہ صرف کوشش تھی بلکہ ایک حد تک دشمنانِ اسلام اس سازش میں کامیاب ہوگئے تھے۔ فتنہ و انتشار کے اس ماحول میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے اس فتنہ کا تدارک اپنے 16گھنٹے کے خطاب دفاع شانِ علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم) کے حوالے سے کیا۔ سند ِحدیث، راویوں کی جرح و تعدیل اور بیانِ حدیث کی شرائط و تقاضے کے موضوعات پر اس قدر مفصل بحث کی کہ ائمہ حدیث کے زمانے کا منظر آنکھوں کے سامنے گھومنے لگا اور ملک میں پھیلے ہوئے نفرت کے فتنے کا خاتمہ ہوا اور گستاخوں کی زبانیں بند ہوئیں۔
4۔ ازواجِ مطہراتؓ کی شان و عظمت کا دفاع
1993ء میں پاکستان میں صحابہ کرام کی شان میں گستاخی کا ہوا اس پرشیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے حکومت ایران سے رابطہ کیا اور ان سے مطالبہ کیا وہ گستاخیِ ازواج مطہرات، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اور ائمہ کی گستاخی کو حرام قرار دے۔ شیخ الاسلام کے اس مطالبے پر حکومتِ ایران نے ازواجِ مطہرات، صحابہ و ائمہ کی گستاخی کو حرام قرار دیا۔ یوں یہ فتنہ پیداہوتے ہی دفن ہوگیا اور وطن عزیز کے ماحول میں فرقہ واریت کو ہوا دینے والے ناکام ہوئے۔
5۔ خلفاء راشدین اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی عزت و ناموس کا دفاع
امن کے دشمنوں کی سازشوں اور اپنوں کی نادانیوں کے باعث اُمت میں کئی مرتبہ مسلکی منافرت پھیلانے کی کوشش کی گئی۔ چند سال قبل برطانیہ میں بعض شر پسند علماء نے صحابہ کرام اور خلفاء راشدین کی عزت و ناموس پر حملہ کیا تو دنیا بھر میں کوئی اُن کا دفاع نہ کر سکا۔ حتیٰ کہ متعدد علماء اور قائدین نے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری سے رابطہ کیا اور درخواست کی کہ صحابہ کرام اور خلفاء راشدین کی عزت و ناموس کے دفاع میں اپنا کردار ادا کریں۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے 60 لیکچرز ریکارڈ کروائے۔ آپ نے اہل سنت اور اہل تشیع کے درمیان تمام اختلافی مسائل پر خصوصاً اہل تشیع کی کتب سے اس قدر جامع گفتگو کی کہ اس فتنے کو ہمیشہ کے لئے دفن کر دیا۔
6۔ سیدۂ کائنات کی عفت و عصمت کا دفاع
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمدطاہرالقادری نے جو تصور دین سمجھایا ہے اس میں ازواج مطہرات، صحابہ کرام و اہلبیتِ اطہار اور ائمہ و اولیاء کرام سب کا احترام شامل ہے۔ لہذا ملک بھر کے جس طبقے کی طرف سے گستاخی و اہانت کی آواز بلند ہوتی ہے، شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اس کا دفاع کرتے نظر آتے ہیں۔
حال ہی میں دشمنانِ اسلام نے مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنے کی ایک اور انتہائی مذموم سازش کی جس میں لاہور کے ایک عالم دین نے سیدہ کائنات حضر ت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی شان میں گستاخی کی اور ایسے نازک مسئلہ کو ہوا دی جس کے باعث ملک بھر میں ایک نفرت کی فضا قائم ہوئی اور عشاقانِ اہلِ بیت کے دلوں کو انتہائی دکھ اور تکلیف پہنچی۔
شیخ الاسلام نے محبتِ اہل بیت اور سیدہ کائنات کی شان کے دفاع کو اپنا فریضہ سمجھتے ہوئے اپنے چار خطابات میں اس کا کماحقہ دفاع کیا اور سیدہ کائنات سلام اللہ علیہا کی شان و عظمت، ان کی آقاa کے ساتھ نسبت اور ہر قسم کی خطاء و لغزش سے پاک اور محفوظ و مبرا ہونے کے عقیدہ کو واضح کیا۔ جس سے محبانِ اہل بیت کے عشق و محبت میں اور اضافہ ہوا اور یوں ملک بھر میں اس فتنے اور نفرت کی آگ کو روک دیا گیا اور دشمن کی اس حرکت کو ناکام بنا دیا گیا۔
7۔ بین المسالک اتحادو یکجہتی کی عملی جدوجہد
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے نہ صرف اہل تشیع کی مجالس میں خطابات کئے بلکہ ہر مکتبہ فکر کے مرکز پر گئے اور سینکڑوں مواقع پرتمام مسالک کے علماء کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کر کے محبت و رواداری کو فروغ دیا۔ ہر مسلک کی اہم شخصیات کو تحریک میں ممبر شپ اور ذمہ داریاں دیں اور مل جل کر اُمت اور اِنسانیت کی فلاح کے لئے پلیٹ فارم مہیا کیا۔ یہ شیخ الاسلام کی مسلسل عملی جدوجہد کا ثمر ہے کہ مسلکی منافرت کا یہ فتنہ دم توڑ چکا ہے اور دوسروں کو مسلمان نہ سمجھنے والے اب مل کر جدوجہد کر رہے ہیں۔
شیخ الاسلام کی جدوجہد کے نتائج
اس پر فتن دور میں جب ہر طرف ایک مسلکی جنگ شروع ہو چکی ہے اور امتِ رسول ہاشمیaکو فرقہ واریت کی آگ میں دھکیلا جا رہا ہے،تحریک منہاج القرآن وہ واحد تحریک ہے جو تمام مکاتبِ فکر و مسالک کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے کیونکہ اس تحریک کی بنیاد کسی مسلکی و فرقہ وارانہ سوچ پر نہیں رکھی گئی، یہ ایک ہمہ گیر تحریک ہے جو اپنے قیام کے دن سے ہی فرقہ وارانہ سوچ کے خلاف بر سرِ پیکار ہے۔ تحریک کے دروازے تمام مکاتبِ فکر کے لئے ہمیشہ کھلے رہے ہیں۔
شیخ الاسلام کی شخصیت اس دور پر فتن میں ایک مسیحا کی حیثیت رکھتی ہے۔ جب بھی اسلام دشمن طاقتوں نے مسلما نوں کو زیر کرنے کی کوشش کی، شیخ الاسلام نے ہر فتنے کا مقابلہ کیا۔ مناظرانہ کلچر ہو یا تکفیری رویہ، آپ نے شانِ اہل بیت کا دفاع کیا،شانِ صحابہ کرام کا دفاع کیا شانِ ازواج مطہرات کا دفاع کیا الغرض ہر فتنہ اور نفرت پھیلانے والے کے خلافِ علم محبت بلند کیا۔
معزز قارئین! آیئے! عہد کریں کہ ہم ان نفرتوں،مسلکی منافرتوں اور اپنے تکفیری رویوں سے بالاتر ہوکر ایک امت ہونے کی حیثیت سے سوچیں اور اپنے اندر سے اِن تمام غلاظتوں اور نجاستوں کو نکال باہر کریں۔ یہی پیغامِ محبت و رواداری امن و یکجہتی شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری اور تحریک منہاج القرآن کا پیغام ہے۔ لہذا ہمیں چاہیے کہ اس عظیم اور بے مثال مقصد کے حصول کے لئے تحریک منہاج القرآن میں شمولیت اختیار کریں اس تحریک کی رفاقت حاصل کرکے اس عظیم کارِ خیر کے حصول میں اپنا کلیدی کردار ادا کریں۔
سات صندوقوں میں بھر کر دفن کردو نفرتیں
آج انسان کو محبت کی ضرورت ہے بہت