حمد باری تعالیٰ
دیارِ ہجر میں شمعیں جلا رہا ہے وہی
مجھے وصال کا مژدہ سنا رہا ہے وہی
وہ بے نشاں ہے مگر پھر بھی اپنی قدرت کے
نشاں ہزارہا ہر سُو دِکھا رہا ہے وہی
اُسی کی ذات مِری دستگیر ہے ہمہ حال
ہر ابتلا میں مِرا آسرا رہا ہے وہی
ہزار ماؤں کی ممتا سے بھی وہ بڑھ کر ہے
کہ دے کے تھپکیاں ہر شب سلا رہا ہے وہی
نویدِ وصل وہی دیتا ہے فراق کے بعد
بچھڑنے والوں کو پھر سے ملا رہا ہے وہی
سمایا ہے میری رگ رگ میں وہ لہو کی طرح
مِری تمنا مِرا مدعا رہا ہے وہی
قریب تر ہے رگِ جاں سے ذاتِ پاک اُس کی
حریمِ ذات سے مجھ کو بلا رہا ہے وہی
وہ اپنے ذکر سے مہکائے جان و دل میرے
مِرا خرابہ گلستاں بنا رہا وہی
پکارتا ہے مجھے دھیان کے دریچوں سے
مِرے شعور کو نیّر جگا رہا ہے وہی
(ضیا نیّر)
نعتِ رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
جھک گئے قلب و نظر شہرِ مدینہ کی طرف
پائی جب راہ گزر شہرِ مدینہ کی طرف
بھیک انوار کی لینے کو درِ اقدس سے
روز جاتی ہے سحر شہرِ مدینہ کی طرف
اِک نئی شان سے ہونے کو طلوع بعدِ غروب
جھکتے ہیں شمس و قمر شہرِِ مدینہ کی طرف
پختہ ہوتا ہے یقیں حسنِ جناں پر اُس دم
جب بھی اٹھتی ہے نظر شہرِِ مدینہ کی طرف
ہے سدا خالق و مخلوق کی جانب سے رواں
’’سطرِ مدحت کا سفر شہرِِ مدینہ کی طرف‘‘
عرض کرنا اے صبا! میرا سلام اُن کے حضور
جانا تیرا ہو اگر شہرِ مدینہ کی طرف
اس کی لیتے ہیں بلائیں مہ و انجم بڑھ کر
جو بھی ہو محوِ سفر شہرِ مدینہ کی طرف
منتظر روز رہوں اِذنِ حضوری کے لیے
روز رہتی ہے نظر شہرِ مدینہ کی طرف
کاش آئے مری قسمت میں وہ دن ہمذالی
میں چلوں بارِ دِگر شہرِ مدینہ کی طرف
(انجینئر اشفاق حسین ہمذالی)