حمد باری تعالیٰ و نعت رسول مقبول (ص)

ترتیب و تدوین : محمد یوسف منہاجین

اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا :

قَالَتِ الْأَعْرَابُ آمَنَّا قُل لَّمْ تُؤْمِنُوا وَلَكِن قُولُوا أَسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلِ الْإِيْمَانُ فِي قُلُوبِكُمْ.

’’دیہاتی لوگ کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ہیں، آپ فرما دیجئے، تم ایمان نہیں لائے، ہاں یہ کہو کہ ہم اسلام لائے ہیں اور ابھی ایمان تمہارے دلوں میں داخل ہی نہیں ہوا‘‘۔

(الحجرات 49 : 14)

ایمان اور اسلام میں فرق

دین کے روحانی مراتب کو واضح کرنے کے لئے تین الفاظ کا استعمال کیا جاتا ہے۔

  1. ایمان
  2. اسلام
  3. احسان

اسلام مراتب دین میں ظاہر کا درجہ رکھتا ہے، گویا اسلام، دین کا ظاہر ہے۔ ایمان، دین کا باطن ہے اور احسان اس باطن کا راز ہے یعنی سِرُّالباطن ہے۔ یہ اللہ اور اللہ کے بندے کے درمیان ایک خاص تعلق کا راز ہے جو باطن الباطن ہے، باطن کے باطن میں چھپا ہوا ہے۔

پس جو باطن میں چھپا ہے وہ احسان ہے۔ ۔ ۔ جو باطن میں جاگزیں ہے وہ ایمان ہے جس کا مقام قلب ہے۔ ۔ ۔ اس باطن کا جو ظاہر ہے یعنی جن کے ذریعے وہ باطن ظاہر ہوتا ہے وہ اسلام ہے۔ اس ترتیب کو ملحوظ رکھیں تو سب سے پہلے اسلام ہے، جب دین کے دائرے میں داخل ہوں تو مسلمان ہوجاتے ہیں پھر جب آپ اسلام کے باطن میں داخل ہوجاتے ہیں تو آپ ایمان میں داخل ہوجاتے ہیں اور پھر جب ایمان کے باطن میں داخل ہوتے ہیں تو احسان میں آجاتے ہیں۔ حدیث جبرائیل میں ان تینوں مراتب کو تفصیلاً بیان کیا گیا ہے۔

مذکورہ بالا آیتِ کریمہ کا پسِ منظر یہ ہے کہ شہر مدینہ کے اردگرد موجود دیہاتی لوگ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور کلمہ پڑھ کر اسلام میں داخل ہوئے، قرآن پاک ان کے قول کو بیان کررہا ہے۔

قَالَتِ الْأَعْرَابُ آمَنَّا قُل لَّمْ تُؤْمِنُوا وَلَكِن قُولُوا أَسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلِ الْإِيْمَانُ فِي قُلُوبِكُمْ.

’’دیہاتی لوگ کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ہیں، آپ فرما دیجئے، تم ایمان نہیں لائے، ہاں یہ کہو کہ ہم اسلام لائے ہیں اور ابھی ایمان تمہارے دلوں میں داخل ہی نہیں ہوا‘‘۔

(الحجرات 49 : 14)

ان دیہاتیوں نے کلمہ پڑھ کر یہ سمجھا کہ اب ہم مومن ہوگئے ہیں، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھنے لگے، روزہ رکھنے لگے، اسلام کے ظاہری اعمال، ظاہری معاملات، ظاہری واجبات، ظاہری تعلیمات پر عمل پیرا ہونے لگے تو یہ سمجھنے لگے کہ ہمیں ایمان نصیب ہوگیا اور ہم مومن ہوگئے۔ پس اس خیال کے مطابق انہوں نے کہا ’’اٰمَنَّا‘‘ ’’ہم ایمان لے آئے‘‘ ان کے اس اعلان پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میرے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے خیال کی اصلاح فرما دیں ’’قُلْ لَمْ تُومِنُوْا‘‘ ’’انہیں کہہ دیں کہ تم مومن نہیں ہوئے‘‘۔ گویا فقط کلمہ پڑھنے سے کوئی مومن نہیں ہوتا بلکہ انہیں یہ کہا کہ تم کہو ’’قُوْلُوْا اَسْلَمْنَا‘‘ ’’وہ کہیں کہ ہم مسلمان ہوگئے‘‘۔

قرآن پاک نے یہاں ایمان اور اسلام، مومن اور مسلمان میں فرق قائم کر دیا ہے۔ ہم جس سوسائٹی میں آج رہ رہے ہیں یہ مسلمانوں کی سوسائٹی ہے، مومنوں کی سوسائٹی نہیں۔ ہم جس امت، ملت میں ہیں یہ امتِ مسلمہ ہے، امتِ مومنہ نہیں بنی، ھم جس دور میں رہ رہے ہیں، یہ مسلمانوں کا دور ہے، خواہ مسلمان جس طرح کے بھی ہیں، مومنوں کا دور نہیں ہے۔

ان دیہاتیوں کو مومن اور مسلم کا فرق سمجھ میں نہیں آرہا تھا، انہیں ایمان اور اسلام میں کوئی فرق محسوس نہ ہوتا تھا، ان کے خیال میں کلمہ شہادت پڑھ کر توحید و رسالت کی گواہی اور دیگر اعمال کا اقرار کرلیا اور ان پر عمل شروع ہوگیا تو یہی سب کچھ ہے۔ لہذا ان کوبات سمجھ نہ آئی، ان کو سمجھانے کے لئے مزید ارشاد فرمایا :

وَلَمَّا يَدْخُلِ الْإِيْمَانُ فِي قُلُوبِكُمْ.

’’اور ابھی ایمان تمھارے دلوں میں داخل نہیں ہوا‘‘۔

(الْحُجُرَات ، 49 : 14)

قلب و باطن کے جھکنے کا نام ایمان ہے

اسلام جسموں پر آتا ہے جبکہ ایمان دلوں میں داخل ہوتا ہے۔ جسم جب اطاعت گزار ہوجائیں، سر جب اللہ کے حضور جھک جائے، بندہ اللہ کے دروازے پر جب ہاتھ باندھ کر کھڑا ہوجائے، ماہ رمضان میں اللہ کے لئے روزہ داربن جائے، حج کے مہینے میں اللہ کے گھر میں لبیک اللھم لبیک کی آوازیں بلند کرتا ہوا چلا جائے، زکوۃ و صدقات دینا شروع ہوجائے۔ نیز احکامات دین پر عمل پیرا ہونا شروع ہوجائے تو یہ سب کچھ اس بات کا ثبوت ہے کہ دین اس کے جسم سے ظاہر ہورہا ہے۔ پس جب ظاہر اللہ کے حضور جھک گیا تو مسلم ہوگیا اور جب قلب و باطن اللہ کے حضور جھک گئے تو مومن ہوگیا۔ کئی مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ سر تو اللہ کی بارگاہ میں جھکا رہتا ہے مگر دل نہیں جھکتا۔ ۔ ۔ اگر دل جھک جائے تو ساری کایا ہی پلٹ جائے۔ ۔ ۔ دل جھک جائے تو ساری زندگی کے طور طریقے بدل جائیں۔ ۔ ۔ دل جھک جائے تو سوچ کے انداز بدل جائیں۔ ۔ ۔ دل جھک جائے تو انسانی زندگی کے تمام اعمال اور رویے بدل جائیں۔ ۔ ۔ دل جھک جائے تو اخلاق بدل جائے۔ ۔ ۔ وہ انسان ایک نیا انسان بن جائے گا۔ لیکن جب صرف ظاہر جھکتا ہے اور دل نہیں جھکتا تو پھر مومن ہونے کا دعویٰ نہیں کیا جاسکتا، اسی لئے ارشاد فرمایا کہ مومن ہونے کا دعویٰ اس وقت کرنا جب ایمان داخلِ قلب ہوجائے، جب ایمان تمہارے دل کی حالت بن جائے تب مومن ہونے کا دعویٰ کیا جاسکتا ہے اور اسی کو دل کی تصدیق کرنا بھی کہتے ہیں۔

ایمان۔ حاکمیت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تسلیم کرنے کا نام

اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :

فَلاَ وَرَبِّكَ لاَ يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لاَ يَجِدُواْ فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُواْ تَسْلِيمًاO

’’پس (اے حبیب!) آپ کے رب کی قسم یہ لوگ مسلمان نہیں ہوسکتے یہاں تک کہ وہ اپنے درمیان واقع ہونے والے ہر اختلاف میں آپ کو حاکم بنالیں پھر اس فیصلہ سے جو آپ صادر فرما دیں اپنے دلوں میں کوئی تنگی نہ پائیں اور (آپ کے حکم کو) بخوشی پوری فرمانبرداری کے ساتھ قبول کر لیں‘‘۔

(النسآء 4 : 65)

یہاں لَا یُوْمِنُوْنَ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں لایسلمون کے الفاظ استعمال نہیں کئے کہ مسلمان نہیں ہوسکتے بلکہ کہا مومن نہیں ہوسکتے اور حالت ایمان انہیں اسی وقت نصیب ہوگی جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حاکم مطلق تسلیم کرلیں۔

سیاقِ کلام کو مدنظر رکھتے ہوئے میں یہاں سے ایک اور نکتہ اخذ کرتا ہوں کہ مذکورہ آیت میں ایمان کی بات حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شروع ہوئی ہے کہ جب تک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے جمیع و مختلف فیہ امور و نزاعات میں حاکم و حکم تسلیم نہ کرلیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فیصلہ کن حیثیت نہ مان لیں یہ مومن نہیں ہوسکتے پس یہ ایمان بالرسالت ہے۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہاں ایمان کو ایمان بالرسالت کے ساتھ مخصوص کردیا گیا ہے پھر ایمان باللہ کہاں گیا؟

توحید، بواسطہ رسالت ہی مقبول ہے

ظاہراً اس کا ترجمہ و تفسیر کرنے والوں نے یہیں سے بات شروع کی اور دھیان اس میں پوشیدہ ایمان باللہ کے راز کی طرف نہیں گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ بات اصل میں ایمان باللہ سے شروع ہوئی ہے اور پھر ایمان بالرسالت کی بات آئی ہے۔

پس ایمان باللہ اس قَسم میں ہے جو سب سے پہلے اٹھائی گئی کہ فَلَا وَرَبِّکَ ’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رب کی قسم!‘‘ آپ کو حاکم مانیں گے تو مومن ہوں گے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حاکم مانا تو ایمان بالرسالت ہے اور مجھے (اللہ کو) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رب سمجھ کر مانا تو ایمان باللہ ہے۔ فرمایا قسم ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رب کی، یہ نہیں فرمایا کہ مجھے اپنی قسم، میرے رب ہونے کی قسم، مخلوق/ کائنات کے رب کی قسم، اپنی ربوبیت کی قسم، پس مجرد اپنے رب ہونے کی قسم نہیں کھائی، پس ایمان باللہ یہ ہے اگر مجھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رب سمجھ کر رب مانیں تو رب ماننا قبول کرتا ہوں اور اگر کسی اور کا رب سمجھ کر مانیں تو رب ماننا قبول نہیں ہے۔

گویا رب کائنات نے فرمایا کہ اے میرے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان سے کہہ دیں کہ اگر صاحب ایمان بننا ہے تو مجھے (اللہ کو) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت سے پہچانیں۔ ۔ ۔ مجھے (اللہ کو)، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے واسطے سے مانیں، مجھے رب کہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رب کہہ کر، اگر مجھ تک آپ کی نسبت سے پہنچیں تو ایمان باللہ ہے۔

پس اللہ تعالیٰ نے اپنی پہچان وَرَبِّکَ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رب ہوکر کروائی اور امت کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پہچان اپنے اس حکم کے ذریعے کروائی کہ انہیں تمہارا حاکم بنایا ہے یعنی میں ان کا رب ہوں اور یہ تمھارے حاکم ہیں۔

پس مجھے ا ان کا رب جان کر ماناتو توحید ہے اور ان کاتمھارا حاکم ہونا رسالت ہے۔ پھر فرمایا۔

ثُمَّ لاَ يَجِدُواْ فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا.

(النِّسَآء ، 4 : 65)

اگر مومن ہونا ہے تو فوری اپنے دل کی حالت کو بدلو، یعنی جن کو حاکم مانا ہے ان کی حاکمیت تمہارے دل میں ہو، میری ربوبیت اور ان کی حاکمیت تمہارے دل میں ہو۔ ان کے ہر حکم کو مان کر دل کی طرف دھیان دو کہ دل میں اس حوالے سے کوئی بوجھ اور حرج محسوس نہ ہو۔ گویا اگر دل کی کیفیت بوجھ اور حرج والی ہو تو مومن نہیں ہے کیونکہ دلوں میں ایمان داخل ہونا ہی مومن کی نشانی ہے۔

دلوں میں دخولِ ایمان کیسے ہو؟

ایمان دلوں میں کیسے داخل ہوتا ہے؟ اس کی تفسیر اس آیت مبارکہ سے واضح ہوتی ہے فرمایا : ثُمَّ لاَ يَجِدُواْ فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا۔ ’’دل اس کی (حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی) حاکمیت کے ماننے میں متامل نہ ہو، دل میں کوئی رکاوٹ اور جھجھک نہ رہے کوئی بوجھ نہ رہے‘‘۔

آگے فرمایا :

وَيُسَلِّمُواْ تَسْلِيمًا

’’اور پھر اس کے سامنے یوں جھک جاؤ جیسے جھک جانے کا حق ہوتا ہے‘‘۔

یعنی تسلیم کرنے کا حق ادا کرو۔ قرآن پاک میں یسلموا تسلیما اپنے مصدر کے لحاظ سے دو مرتبہ آیا ہے اور دونوں مرتبہ اللہ نے یہ الفاظ اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے وارد کئے ہیں۔ یہاں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حاکمیت کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کا ذکر کیا تو فرمایا یسلموا تسلیما ’’میرے حبیب کی حکمت و حاکمیت کو اس طرح تسلیم کرو جیسے تسلیم کرنے کا حق ہے‘‘۔ گویا کوئی کمی، نقص پس و پیش اور کسی لحاظ سے کوئی عذر نہ رہے، حق ادا کردو۔

دوسری جگہ فرمایا :

إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًاO

’’بیشک اللہ اور اس کے (سب) فرشتے نبیِّ (مکرمّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) پر درود بھیجتے رہتے ہیں، اے ایمان والو! تم (بھی) اُن پر درود بھیجا کرو اور خوب سلام بھیجا کرو‘‘۔

(الاحزاب، 33 : 56)

یعنی اس سلام میں ہر ادب، احترام، پروٹوکول، تعظیم، توقیر و تکریم کا تقاضا پورا کرو جیسے سلام پڑھنے کا دنیا میں حق ہے اس طرح میرے حبیب پر سلام پڑھا کرو‘‘۔

ایک جگہ یسلموا تسلیما اور دوسری جگہ سلموا تسلیما فرمایا اور یہ تمام اس لئے ہے کی تمام کیفیات ظاہر سے باطن میں داخل ہوجائیں کیونکہ انہی کیفیات کا دل میں داخل ہونا اور دل سے ماننا ایمان ہے۔

ایمان۔ محبت و ادب و تکریم کا نام

یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ جب ایمان دل میں داخل ہو تو وہ نور ہوجاتا ہے اور اگر ایمان دل میں داخل نہ ہو تو بے شک سارا دن مسجد میں بیٹھا رہے، عبادتیں کرتا رہے، روزے، نماز، حج، زکوۃ تمام عبادات کرے یعنی ظاہراً جتنا چاہے حق ادا کرلے مگر ایمان کی وہ کیفیت دل میں داخل نہ ہو تو دل کا نور نصیب نہیں ہوتا۔ اس لئے ایمان کو محبت اور ادب و تکریم سے تعبیر کیا گیا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :

وَالَّذِينَ آمَنُواْ أَشَدُّ حُبًّا لِّلّهِ.

’’ایمان والے وہ ہیں جو سب سے بڑھ کر، ٹوٹ کر اللہ سے محبت کرتے ہیں‘‘۔

(البقرہ، 2 : 165)

محبت کا مقام ظاہری جسم نہیں ہے بلکہ قلب و باطن ہے۔ محبت کا اظہار جسمانی علامات سے تو ہوسکتا ہے اور ہوتا ہے، محبت کی علامات ظاہر میں موجود ہوتی ہیں، اظہار، جسم کے طور طریقوں سے ہوتا ہے مگر محبت کا اپنا مقام ظاہر میں نہیں بلکہ دل میں ہے اس طرح حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

لَا يُوْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی اَکُوْنَ اَحَبَّ اِلَيْهِ مِنْ وَالِدِه وَوَلده وَالنَّاسِ اَجْمَعِيْنَ.

’’تم میں سے کوئی شخص صاحب ایمان ہو ہی نہیں سکتا جب تک وہ اپنے والدین، اولاد اور تمام لوگوں سے بڑھ کر مجھ سے محبت نہ کرے‘‘۔

اولاد، والدین سے جتنی محبت کرتی ہے وہ تمام محبتوں سے بڑھ کر ہے پس حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت والدین کی محبت سے بھی زیادہ ہو۔ ۔ ۔ گویا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ والدین کی محبت دنیا کی سب محبتوں سے بڑھ جاتی ہے۔ ۔ ۔ میری محبت والدین کی محبت سے بڑھ جائے۔ ۔ ۔ پھر فرمایا کہ ایک وقت ایسا آتا ہے کہ جب اولاد ہوجاتی ہے تو اولاد کی محبت اپنے والدین کی محبت سے بھی بڑھ جاتی ہے۔ گویا اولاد کی محبت سب خونی رشتوں پر مقدم ہے۔ ۔ ۔ فرمایا تم اس وقت تک صاحب ایمان نہیں ہو جب تک اولاد کی محبت سے بھی میری محبت بڑھ نہ جائے۔ ۔ ۔ محبتوں کا آپس میں مقابلہ و موازنہ کرتے ہوئے جب مثال دیتے ہیں تو اولاد کی محبت سے بڑھ کر اس دنیائے محسوس میں کوئی اور محبت متشکل نہیں۔ ۔ ۔ کوئی اور محبت متصور نہیں، کس اور محبت کا فہم ذہن میں نہیں آتا۔ گویا اس دنیائے محسوس و مادی اور رشتوں کی دنیا میں ساری محبتوں سے بڑھ کر اولاد کی محبت انتہا پر ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جب تک اولاد سے بھی بڑھ کر مجھے محبوب نہ جانو تو مومن نہیں ہو۔ پس اللہ تعالیٰ نے ایمان کے لئے ایک ہی پیمانہ مقرر کیا ہے وہی اپنے لئے اور وہی اپنے حبیب کے لئے یعنی محبت۔ ارشاد فرمایا :

قُلْ إِن كَانَ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَآؤُكُمْ وَإِخْوَانُكُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيرَتُكُمْ وَأَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسَاكِنُ تَرْضَوْنَهَا أَحَبَّ إِلَيْكُم مِّنَ اللّهِ وَرَسُولِهِ وَجِهَادٍ فِي سَبِيلِهِ فَتَرَبَّصُواْ حَتَّى يَأْتِيَ اللّهُ بِأَمْرِهِ وَاللّهُ لاَ يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَO

’’(اے نبی مکرم!) آپ فرما دیں : اگر تمہارے باپ (دادا) اور تمہارے بیٹے (بیٹیاں) اور تمہارے بھائی (بہنیں) اور تمہاری بیویاں اور تمہارے (دیگر) رشتہ دار اور تمہارے اموال جو تم نے (محنت سے) کمائے اور تجارت و کاروبار جس کے نقصان سے تم ڈرتے رہتے ہو اور وہ مکانات جنہیں تم پسند کرتے ہو، تمہارے نزدیک اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اس کی راہ میں جہاد سے زیادہ محبوب ہیں تو پھر انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکمِ (عذاب) لے آئے۔ اور اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں فرماتا‘‘۔

(التوبہ، 9 : 24)

مذکورہ بالا آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے ایک ایک مظہر محبت کو گنا کہ وہ تمام مظاہر محبت جن سے تم محبت کرتے ہو، جن کے لئے تم مارے مارے پھرتے ہو جن کے لئے تکالیف اٹھاتے ہو، دن رات جاگے ہو، مشقت اور مصائب برادشت کرتے۔ یہ تمام مظاہر محبت اگر اللہ اور اس کے رسول کی محبت کے سامنے مات نہ کھا جائیں، شکست نہ کھا جائیں تو تم مومن نہیں ہو۔ اللہ تعالیٰ نے ایمان کا مفہوم متعین کردیا۔

ایمان، ظاہری اعمال سے عبارت نہیں

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

اَلْاِسْلَامُ اَعْلَانِيَةً وَالْاِيْمَانُ فِی الْقَلْبِ.

’’اسلام ظاہر پر ہوتا ہے اور ایمان دل میں ہوتا ہے‘‘۔

یہی وجہ ہے کہ ایک شخص ظاہری تمام اعمال کرتا ہو آپ اسے کافر نہیں کہہ سکتے، منافق کہہ سکتے ہیں چونکہ کفر ظاہر کی نفی ہے اگر اس نے ظاہراً اسلام کو قبول کیا تو کافر نہ رہا اور اس کے ظاہر پر اسلام نظر آیا تو آپ اسے کافر نہیں کہہ سکتے۔ منافقین مدینہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھتے تھے، جہاد کرتے، روزہ رکھتے، ان کو قرآن نے منافق کہا قَالُوْا نَشْهَدُ اِنَّکَ لَرَسُوْلُ اللّٰه. وہ منافقین گواہی دیتے تھے کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! آپ اللہ کے رسول ہیں، اللہ نے فرمایا یہ لوگ جھوٹ بولتے ہیں، یہ لوگ منافق ہیں یہ ظاہری طور پر آپ کی رسالت کی گواہی دے رہے ہیں مگر باطنی طور پر ابھی تک کفر پر جمے ہوئے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے 6 ھجری میں ایک ایک کا نام لے کر کھڑا کیا فرمایا۔

يا فُلاَن فَاخْرُج مِنَ الْمَسْجِدِ اِنَّکَ مُنَافِقٌ.

’’اے فلاں مسجد سے نکل جا بے شک تو منافق ہے‘‘۔

وہ لوگ مسجد میں بیٹھے تھے، کوئی بت خانے میں نہیں تھے، مسجد بھی مسجد نبوی تھی، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے نماز کے لئے بیٹھے تھے، صحابہ کرام کے ساتھ صفوں میں بیٹھے تھے، حکم آیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! اب ان کو عریاں کردیں، بہت وقت گزر چکا ان پر پردے پڑے رہے، چھپ چھپ کر انہوں نے مسلمانوں کی صفوں میں وقت گزار لیا، اب اسلام طاقتور ہوگیا ہے، محتاجی نہیں رہی، انہیں بے نقاب کردیں، حکم آیاتو قرآن نے فرمایا :

لِيَمِيزَ اللّهُ الْخَبِيثَ مِنَ الطَّيِّبِ.

(الانفال، 8 : 37)

’’تاکہ اللہ تعالیٰ ناپاک کو پاکیزہ سے جدا فرمادے‘‘۔

اب خبیث کو طیب سے الگ کردیا جائے۔ یہ پاکوں کی صفوں کے اندر پلید اور خبیث ہیں ان کو چن چن کر نکال دو تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ صرف طیب اور پاک رہ جائیں۔ اس آیت کے نزول کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہوئے اور ایک ایک کرکے تمام منافقین کو مسجد سے نکال دیا۔ وہ ایک عجیب دن تھا، وہ لوگ جو سالوں سے مسلمان کہلاتے تھے اسلام کا لبادہ اوڑھ رکھا تھا، ان کے ظاہر پر اسلام نظر آتا تھا، آج ظاہر کا پردہ چاک کرنے کا حکم آیا تو ایک ایک کو نکال دیا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ لباس اسلام کا پہن رکھا تھا مگر منافق تھے، ان کو کافر نہیں کہہ سکتے اس لئے کہ منافق ہونا ایمان کی نفی ہے اسلام کی نفی نہیں ہے چونکہ دل میں ایمان نہ تھا، دل میں گستاخی رسول تھی۔

يُخَادِعُونَ اللّهَ وَالَّذِينَ آمَنُوا.

’’وہ اللہ کو اور ایمان والوں کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں‘‘۔

(البقرہ، 2 : 9)

وہ منافق لوگ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دھوکہ دیتے تھے مگر اللہ نے فرمایا کہ وہ اللہ کو دھوکہ دیتے تھے، دل میں نافرمانی و مخادعت تھی۔ لما یدخل الایمان فی قلوبکم ان کے دلوں میں ایمان داخل نہ ہوا تھا۔

حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

عَنْ عَبْدِاللّٰه ابن عمرو قَالَ قَالَ رسولُ اللّٰه يَاتی عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ يَجْتَمِعُوْنَ فِی الْمَسَاجِدِ لَيْسَ فِيْهِمْ مُوْمِنٌ.

(مستدرک، امام حاکم)(صحیح ابن حبان)

’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میری امت پر ایسا زمانہ آئے گا کہ لوگ مساجد میں جمع ہوں گے مگر ان میں سے مومن ایک بھی نہ ہوگا‘‘۔

دوسری روایت میں یہ الفاظ آئے ہیں۔

يَاتی عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ يَجْتَمِعُوْنَ فِی الْمَسَاجِدِهِم لَيْسَ فِيْهِمْ مُوْمِنٌ.

’’میری امت پر وہ وقت آئے گا کہ لوگ اپنی مسجدوں میں اجتماع کرکے بیٹھے ہوں گے لیکن ان میں کوئی مومن نہ ہوگا‘‘۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ مساجد میں لوگ کیوں بیٹھتے ہیں، کیا وہ وہاں کاروبار کرتے ہوں گے یا دنیاوی معاملات نبٹاتے ہوں گے۔ ۔ ۔ نہیں، بلکہ مساجد میں لوگ اللہ کے ذکر اور نماز کے لئے آتے ہیں پس وہ بھی ذکر اور نماز کے لئے اکٹھے ہوں گے مگر ان میں سے ایک بھی مومن نہ ہوگا۔

ماہ رمضان، دلوں میں ایمان کے دخول کا مہینہ

پس ان احادیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ ایمان ظاہری اعمال سے عبارت نہیں ہے۔ ایمان، قلب کی کیفیت سے عبارت ہے۔ ھم سال کے گیارہ مہینے مسلمان رہے، لوگو! آؤ یہ ماہ رمضان مومن بننے کا مہینہ ہے اور اعتکاف کے دس دن ایک ٹریننگ اکیڈمی کے طور پر ہیں اور اس ٹریننگ اکیڈمی میں اس بات کی تربیت دی جاتی ہے کہ ایمان دلوں میں کیسے داخل ہو۔ سال میں دس دن یعنی ماہ رمضان میں اعتکاف، ایمان کو دلوں میں داخل کرنے کا وقت ہے، ہر شخص حتی المقدور اس اجتماعی اعتکاف میں شرکت کا عزم کرے۔

ایمان کا مرتبہ کیا ہے؟

اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :

وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُوْلَئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ وَالشُّهَدَاءُ عِندَ رَبِّهِمْ لَهُمْ أَجْرُهُمْ وَنُورُهُمْ وَالَّذِينَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِآيَاتِنَا أُوْلَئِكَ أَصْحَابُ الْجَحِيمِO

(الحدید، 57 : 19)

’’اور جو لوگ اللہ اور اسکے رسولوں پر ایمان لائے وہی لوگ اپنے رب کے نزدیک صدیق اور شہید ہیں، اُن کے لئے اُن کا اجر (بھی) ہے اور ان کا نور (بھی) ہے، اور جنہوں نے کفر کیا اور ہماری آیتوں کو جھٹلایا وہی لوگ دوزخی ہیں‘‘۔

ایمان اگر دلوں میں داخل ہوجائے اور قلب و باطن کی کیفیت بن جائے تو ان لوگوں کا جو درجہ قرآن نے بیان فرمایا اسے سن کر آپ حیران ہوں گے، قرآن نے فرمایا :

أُوْلَئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ وَالشُّهَدَاءُ عِندَ رَبِّهِمْ.

(الْحَدِيْد ، 57 : 19)

اگر کوئی اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے اور سچا مومن بن جائے تو اللہ کی بارگاہ میں اس کا درجہ صدیق اور شہید کا ہے۔ گویا اللہ نے مومن کی تعریف کی کہ اگر کوئی سچا مومن ہوجائے تو وہ صدیق بھی ہے اور شہید بھی ہے۔ اللہ نے یہ نعمتیں اس قدر سستی کردی ہیں کہ اگر اب بھی کوئی نہ خریدے تو اس سے بڑا کوئی محروم نہیں ہے۔

کہاں وہ لوگ جو شہید بننے کے لئے لٹ جاتے ہیں، جان و مال کو قربان کر دیتے ہیں اسلام کی تاریخ میں موجود غزوات و سرایا اس بات کا بین ثبوت ہیں۔ ایک وہ وقت تھا کہ اللہ کی رضا اور جام شہادت نوش کرنے کے لئے سب کچھ لٹاتے تھے اور لٹانے کو تیار تھے اور ایک وہ وقت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امت کی کمزوری کو جانتے ہوئے شہادت کی نعمت اتنی سستی کردی کہ صرف حقیقی معنوں میں ایمان اپنے دلوں میں جاگزیں کرلو شہادت و صداقت کا مرتبہ و نعمت عطا کردوں گا۔

حقیقی ایمان کا انعام۔ ۔ دوگنا اجرو عطائے نور

ارشاد فرمایا : لَھُمْ اَجْرُھُمْ۔ ’’ان کے لئے انکا اجر بھی ہے‘‘۔

اور اجر بھی اللہ تعالیٰ انہیں دوگنا عطا فرمائے گا۔ ارشاد فرمایا :

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَآمِنُوا بِرَسُولِهِ يُؤْتِكُمْ كِفْلَيْنِ مِن رَّحْمَتِهِ.

(الحدید، 57 : 28)

’’اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اللہ تعالیٰ رحمت کے دو حصے تمہیں عطا کردے گا‘‘۔

عربی لغت کے مطابق ایک کفل ساڑھے تین سو حصوں کے برابر ہوتا ہے گویا فرمایا تم ایمان میں سچے بن جاؤ اوروں کو رحمت کا ایک حصہ ملے گا تمہیں دو کفل یعنی سات سوگنا زیادہ رحمت دوں گا۔

اگر تم وہ ایمان پیدا کرلو جو تمہیں مرتبہ صدیقیت پر فائز کردے، تمہیں مرتبہ شہادت پر فائز کردے، تمہارا ایمان، اللہ کی گواہی دینے والا بن جائے تو رحمت کے سات سو حصے عطا کروں گا اوروں کے لئے وعدہ ہے۔

مَنْ جَآء بِالْحَسَنَةِ فَلَه عَشرُ اَمْثَالِهَا.

’’کوئی شخص ایک نیکی کرکے لائے تو اس جیسے 10 اجر اللہ عطا کرے گا‘‘۔

اور جس کا بڑھانا چاہے 100 گنا کردیتا ہے دوسری طرف فرمایا کہ اگر تم ایما ن کو مرتبہ صدیقیت و شہادت تک پہنچا دو تو تمہیں اپنی رحمت خاصہ کے 7 سو حصے عطا کروں گا اور یہ اجر ہے، اس کے علاوہ کچھ اور بھی عطا کروں گا فرمایا :

وَنُوْرُهُمْ

’’اور انہیں نور عطا کروں گا‘‘۔

اور وہ نور ایسا ہوگا کہ وہ لوگ اس نور کے ساتھ اس دنیا میں چلیں گے، جہاں قدم رکھیں گے، اندھیرے روشنی میں بدل جائیں گے، گمراہی، ہدایت سے بدلتی چلی جائے گی۔ اس دنیا میں بھی ان کا نور اندھیروں میں بھٹکنے والوں کے کام آئے گا اور پھر فرمایا وَيَجْعَل لَّكُمْ نُورًا تَمْشُونَ بِهِ (الحدید، 57 : 28) اور قیامت کے دن بھی اللہ تعالیٰ انہیں وہ نور عطا کرے گا کہ وہ نور کے اندر چلیں گے۔ یوم قیامت مومن کی پہچان یہ ہوگی کہ ان کے آگے پیچھے، دائیں بائیں نور ہوگا اور وہ نور میں چلیں گے اور لوگ اشارہ کرکے کہیں گے کہ وہ نور والے آرہے ہیں۔

صحابہ کرام نے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قیامت کے دین اتنی مخلوق میں سے آپ اپنی امت کو کیسے پہچانیں گے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا میری امت کا مومن نور کے ہالہ میں محصور ہوگا، جدھر جائے گا نور اس کا طواف کرتے ہوئے اس کے ساتھ جائے گا۔ اس لئے اللہ نے ارشاد فرمایا کہ اے میرے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انہیں بتادیں کہ ایمان والوں کو تین مرتبے اور انعامات دیئے جائیں گے۔

  1. مرتبہ صدیقیت
  2. مرتبہ شہادت
  3. مرتبہ نور

روزِ قیامت ایمان والوں کی پہچان

اگر کسی کو شک ہو کہ ایمان والوں کو نور ملے گا یا نہیں تو ان لوگوں کے اس شک کو دور کرنے کے لئے سورۃ الحدید میں ہی ارشاد فرمایا :

يَوْمَ تَرَى الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ يَسْعَى نُورُهُم بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَبِأَيْمَانِهِم.

(الحدید، 57 : 12)

’’(اے حبیب) جس دن آپ (اپنی امت کے) مومن مردوں اور مومن عورتوں کو دیکھیں گے کہ ان کا نور ان کے آگے اور ان کے دائیں جانب تیزی سے چل رہا ہوگا‘‘۔

’’ترٰی‘‘ (دیکھیں گے) میں بین السطور معنی یہ ہے کہ مومنین کی یہ حالت دیکھ کر آپ کا دل خوش ہوجائے گا۔ مومنین کی یہ حالت دیکھ کر دنیا دور سے پہچان لے گی کہ اہل نور آرہے ہیں اور یہ اس لئے ہوگا کہ اس وقت ایمان اور عمل صالح نور میں بدل جائے گا اور جب مومنین نور کے ہالہ میں چل رہے ہوں گے تو آواز آئے گی۔

بُشْرَاكُمُ الْيَوْمَ جَنَّاتٌ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُO

(الحدید، 57 : 12)

’’(انہیں کہا جائے گا) آج کے دن تمہیں خوشخبری ہو آج (تمہارے لئے) جنتیں ہیں جن کے نیچے سے نہریں رواں ہیں (تم) ہمیشہ ان میں رہو گے یہی بہت بڑی کامیابی ہے‘‘۔

منافقین کی مومنین سے نور کے لئے التجا

دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو زندگی میں سنبھل نہ سکے اور سنور نہ سکے، حُبّ دنیا میں غرق ہوگئے، جن کی ساری زندگی دنیا، جاہ و منصب، حرص، لالچ، شہوت، مال و دولت، دنیا کے جھگڑوں اور خباثت میں گزر گئی۔ ان کے بارے ارشاد فرمایا۔

يَوْمَ يَقُولُ الْمُنَافِقُونَ وَالْمُنَافِقَاتُ لِلَّذِينَ آمَنُوا انظُرُونَا.

(الحدید، 57 : 13)

’’جس دن منافق مرد اور منافق عورتیں ایمان والوں سے کہیں گے ذرا ہم پر (بھی) نظر (التفات) کردو‘‘۔

یہ لوگ مسلمان ہوں گے مگر ان کا ایمان کھرا نہ ہوگا، اس میں نفاق اور کھوٹ ہوگا۔

کئی مترجمین نے ’’انظرونا‘‘ کا ترجمہ ’’ذرا ہمارا انتظار کرو‘‘ کیا ہے اور یہ ترجمہ علمی و فنی لحاظ سے درست نہیں۔ میں نے اس کا ترجمہ دوسرے مترجمین سے مختلف کیا ہے کہ ’’انظرونا‘‘ کا ترجمہ ’’ذرا ہم پر بھی نظر التفات کردو‘‘ ہے۔ گویا اس دن بھی نظر کرم کی حاجت و ضرورت ہوگی پھر کہیں گے :

نَقْتَبِسْ مِن نُّورِكُمْ قِيلَ ارْجِعُوا وَرَاءَكُمْ فَالْتَمِسُوا نُورًا.

’’ہم تمہارے نور سے کچھ روشنی حاصل کرلیں، ان سے کہا جائے گا تم اپنے پیچھے پلٹ جاؤ اور (وہاں جاکر) نور تلاش کرو (جہاں تم نور کا انکار کرتے تھے)‘‘۔

(الحدید، 57 : 13)

یعنی وہ لوگ کہیں گے ہم آج اندھیرے میں ہیں، ہم پر نظر کرم کردو، کچھ نور ہم بھی تمہارے نور سے لے لیں۔ منافقین کی التجا کے جواب میں نور والوں نے یہ نہیں کہا بلکہ اللہ کی طرف سے انہیں کہا جائے گا کہ جاؤ، پیچھے سے لے کر آؤ، جہاں تم اس کا انکار کرتے تھے۔ اگر نور والے یہ جواب دیتے تو سیاق کے تقاضے کے مطابق قیل کی بجائے ’’قالوا‘‘ (وہ کہیں گے) کا لفظ آتا کہ پیچھے پلٹ جاؤ۔

نور والوں سے کہا جائے گا کہ نظر التفات کرو۔ ۔ ۔ چاہئے تو ان نور والوں کو تھا کہ وہ جواب دیں مگر جواب انہوں نے نہ دیا۔ بلکہ فرمایا قیل ارجعوا ’’آواز آئے گی‘‘ ’’ان سے کہا جائے گا‘‘ یہ کہنا فرشتوں کا ہوگا یا کسی اور کہنے والے کا کہنا ہوگا مگر نور والوں کا کہنا نہ ہوگا۔ آگے ارشاد فرمایا :

فَضُرِبَ بَيْنَهُم بِسُورٍ لَّهُ بَابٌ.

’’تو (اسی وقت) ان کے درمیان ایک دیوار کھڑی کردی جائے گی جس میں ایک دروازہ ہوگا‘‘۔

(الحدید، 57 : 13)

تاکہ مانگنے والے، بار بار مانگ کر انہیں تنگ نہ کریں۔ بعد ازاں یہ منافقین رشتہ داریاں گنوائیں گے۔ منافقین اس وقت نور والوں سے کہیں گے۔

أَلَمْ نَکُمْ مَعَکُمْ

’’کیا دنیا میں ہم آپ کے ساتھ نہیں تھے‘‘۔

(الحدید، 57 : 14)

کوئی کہے گا کہ کیا ہم آپ کے رشتہ دار، پڑوسی، دوست نہ تھے، اس وقت نور والے جواب دیں گے۔ قَالُوْا بَلٰی ’’ہاں‘‘ (اس میں تو شک نہیں کہ رفاقت تھی) مگر وَلَكِنَّكُمْ فَتَنتُمْ أَنفُسَكُمْ ’’لیکن تم نے اپنے آپ کو ہی فتنے میں مبتلا کرلیا تھا‘‘ وَتَرَبَّصْتُمْ ’’اور تم برائی و نقصان کے منتظر رہتے تھے‘‘ وَارتَبْتُمْ ’’اور تم شک کرتے رہتے تھے‘‘۔ یعنی یقین کامل نہ تھا ہر وقت شک تھا کہ باتیں تو اچھی ہیں مگر پتہ نہیں ایسا ہونا بھی ہے یا نہیں۔ وَغَرَّتْهُمْ اَمَانِيُّهُمْ ’’تمہیں امیدیں بڑی لمبی لمبی ہوگئیں تھیں اور ان امیدوں نے تمہیں دھوکے میں ڈال دیا تھا‘‘ اور غافل ہوگئے تھے۔ ہم میں سے ہر ایک یہ احساس پیدا کرلے کہ ہم دھوکے میں ہیں۔

مومنین کو ملنے والے نور کی مقدار

حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

اِنَّ مِنَ الْمُوْمِنِيْنَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ کَمَا بَيْنَ الْمَدِيْنَةِ اِلی عَدْنٍ.

’’مومنوں کو ملنے والا نور شہر مدینہ سے عدن ملک تک کے فاصلہ جتنا ہے اتنے فاصلے تک ہر مومن کو ملنے والا نور موجود ہوگا‘‘۔

اور کم سے کم نور جو ملے گا اس کی مقدار بھی اتنی ہوگی کہ قدموں کے اردگرد کو روشن کردے گا۔ پھر فرمایا :

کہ لوگوں کی منزلیں ان کی کاوشوں کے برابر ہوں گی۔

امام عبدالرزاق نے حضرت ابوہریرہ سے روایت کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

اِنَّمَا الشَّهيْدُ الَّذِیْ يموتُ عَلٰی فَرَاشِه وَلاَ ذَنْبَ لَه دَخَلَ الْجَنَّةَ.

’’ایسا شخص بھی شہید ہے جو گناہوں سے پاک رہے، ایمان کو دل میں متمکن کردے، ایمان کے صدق اور تمکن کے ساتھ بستر پر موت آجائے تو وہ بھی شہید ہے جنت میں جائے گا‘‘۔

لوگو! امیدوں، مہلتوں اور انتظار کو چھوڑ دو، شک اور دنیا پرستی کو خیر باد کہہ دو، ماہ رمضان ایمان کو دل میں داخل کرنے کا مہینہ ہے، اسلام سے ایمان کی طرف بڑھنے کا مہینہ ہے اور پھر ایمان سے احسان کی طرف جانے کا مہینہ ہے۔ ماہ رمضان میں محنت و مجاہدہ کرلیں، اللہ سے لُو لگالیں اور کوشش کریں کہ ایمان دل میں متمکن ہوجائے اور نور نصیب ہوجائے، جس نے آج نور پالیا اس کو قیامت کے دن نور نصیب ہوگا وہاں تو کوئی بھی سوداگری نہیں ہے سارا کچھ یہیں ہے۔ ۔ ۔ بازی یہاں ہے، وہاں تو جس نے جانا ہے یا تو جیت کر جانا ہے یا ہار کر جانا ہے۔ ۔ ۔ اعتکاف میں تشریف لائیں اور اعتکاف کے دوران یہ طے کرلیں کہ نور لے کر اٹھیں گے وہ نور جو قبر میں بھی کام آئے اور آخرت میں بھی کام آئے۔