موجودہ حکمران پاکستان کی اشرافیہ کی شناخت، تعارف اور اشرافیہ کے کلچر کے پروموٹرز اور سپورٹرز ہیں ’’اشرافیہ‘‘ کی حکومت نے اپنے حالیہ عہد اقتدار میں قومی وسائل انسانی فلاح و بہبود پر خرچ کرنے کی بجائے فینسی منصوبوں پر بے دردی سے اڑائے اور نتیجتاً عام آدمی جن میں خواتین، بچے، بوڑھے ،پنشنرز ،بطور خاص شامل ہیں سماجی اور معاشی اعتبار سے دن بدن مسائل کی دلدل میں اترتے چلے جارہے ہیں۔ آج کل پنجاب کی حکمران اشرافیہ ’’اشرافیہ ‘‘کے خلاف بیان بازی کر کے عوام اور میڈیا کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش میں ہے، شاید اس بیان بازی کی وجہ سسٹم کا چل چلائو ہے یا پھر آئندہ انتخابات کی آمد آمد ہے۔ ’’اشرافیہ‘‘ کہہ رہی ہے اگر غریب عوام کے ساتھ زیادتیوں کا سلسلہ جاری رہا تو غریب سب کچھ بہا لے جائے گا، اشرافیہ کی پہچان موجودہ حکمران جو ماڈل ٹائون میں دو خواتین سمیت 14 افراد کو قتل کیے جانے کی ایف آئی آر کے نامزد ملزم بھی ہیں پنجاب میں ان کے حالیہ مسلسل 8 سالہ دور اقتدار میں سوسائٹی کے کمزور طبقات زیر عتاب ہیں، بالخصوص خواتین کے ساتھ امتیازی برتائو کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے، خواتین کو آئینی، سیاسی کردار کی ادائیگی میں سب سے زیادہ پنجاب میں رکاوٹوں کو سامنا ہے۔ 2013 ء کے عام انتخابات اور 2016ء کے بلدیاتی انتخابات میں پنجاب سے تعلق رکھنے والی 67 لاکھ بالغ خواتین ووٹر فہرستوں میں اندراج نہ ہونے کے باعث ووٹ کا حق استعمال نہ کر سکیں، اس پر اشرافیہ کی حکومت نے تشویش کا ایک لفظ اپنی زبان سے ادا نہیں کیا،پنجاب کی مقتدر اشرافیہ نے بلدیاتی اداروں میں خواتین کی نمائندگی کو 33فیصد سے کم کردیا ، ہر سال 28فیصد خواتین تشدد کا نشانہ بنتی ہیں، 44فیصد خواتین گھریلو تشدد کا شکار ہیں ،تشدد کے 74 فیصد واقعات پنجاب میں ہوتے ہیں اور اشرافیہ کے تربیت یافتہ ادارے خواتین کے خلاف تشدد کی روک تھا م میں مکمل طور پر لاتعلق ہیں۔ ہر سال ایک ہزار خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کر دیا جاتا ہے، اس تعداد کے 60فیصد کا تعلق پنجاب سے ہے۔ موجودہ حکومت کے ابتدائی 3سالوں میں خواتین سے زیادتی کے واقعات میں 59فیصد، تیزاب پھینکنے کے واقعات میں 51فیصد، غیرت کے نام پر قتل کے واقعات میں 47فیصد اور خواتین میں خودکشی کے رجحان میں 40فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ رواں سال جنوری میں سینیٹ آف پاکستان میں خواتین کی حالت زار پر قومی کمیشن کی سالانہ رپورٹ پیش کی گئی جس میں یہ انکشاف کیا گیا کہ 44فیصد خواتین تشدد کا شکار ہیں، 22فیصد ورکنگ ویمن کسی نہ کسی سطح کے استحصال سے دو چار ہیں، وزیراعلیٰ پنجاب آئے روز اشرافیہ کے خلاف بیان داغتے ہیں، نہ جانے ان کے قریب اشرافیہ سے کیا مرادہے؟ مرکز میں ان کے بڑے بھائی پورے لائو لشکر اور جاہ و جلال کے ساتھ برسراقتدار ہیں اور پاکستان کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب میں وہ خود حکمران ہیں اور یہ ایک خاندان3دہائیوں سے 65 فیصد پاکستان پر بلا شرکت غیرے سیاہ و سفید کامالک چلاآرہا ہے مگر سوسائٹی کے کمزور طبقات کی حالت زار میں کوئی مثبت تبدیلی نہ آسکی، خواتین سمیت سوسائٹی کے کمزور طبقات کو تعلیم، صحت، انصاف کے حوالے سے آئینی انسانی حقوق نہیں ملے؟ اگر ہم تعلیم کے شعبے کی حالت زار کا ذکر کریں تو اس وقت 2 کروڑ 20 لاکھ بچے سکولوں سے باہر ہیں ،انہیں تعلیم دینے کیلئے حکومت کے پاس مطلوبہ تعداد میں تعلیمی ادارے ہیں نہ اساتذہ نہ فنڈز، 21فیصد سکولوں میں صرف ایک استاد تعینات ہے، 14فیصد سکول صرف ایک کمرے پر مشتمل ہیں، صوبہ کے مختلف کالجز میں 7 ہزار لیکچررز کی اسامیاں خالی پڑی ہیں، جنوبی پنجاب میں سینکڑوں سکولوں کی بچیاں بغیر چھت کے تعلیم حاصل کررہی ہیں، آئین کہتا ہے 5 سے 16سال کی عمر کے ہر بچے اور بچی کو بنیادی تعلیم فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے مگر اشرافیہ کے مقتدر نمائندوں کو آئین کا یہ آرٹیکل نظر نہیں آتا۔ اکائونٹنٹ جنرل پنجاب کی 2015 ء کی رپورٹ کے مطابق جو پنجاب اسمبلی میں پیش کی گئی تھی، اس رپورٹ نے اشرافیہ کے چہروں سے پردے اٹھائے ہیں، یہ رپورٹ 833صفحات پر مشتمل ہے، رپورٹ میں بتایا گیا کہ پنجاب اسمبلی نے تعلیم کے لیے 27ارب کا ترقیاتی بجٹ منظور کیا لیکن حکومت نے 55فیصد کٹوتی کر دی جبکہ دوسری طرف امراء کے بچوں کو تعلیم دینے والے سکول لارنس کالج، گھوڑا گلی، صادق پبلک سکول کی سالانہ گرانٹ میں 100فیصد اضافہ کر دیا گیا یعنی انہیں 2ارب سے زائد کی گرانٹ دی گئی مگر ایسی کوئی گرانٹ راجن پور ،مظفر گڑھ کے سکولوں کو نہیں ملتی۔ اگر ہم صحت کے شعبہ کی بات کریں تو دوائیوں، ہسپتالوں کے فنڈز، یہاں تک کے قبرستانوں کے فنڈز بھی میٹرو بس منصوبے پر لگتے نظر آتے ہیں۔ پنجاب میں 40فیصد(2500)ہیلتھ سنٹرز نان فنکشنل ہیں،316 رورل ہیلتھ سنٹرز Missing Ficilities کا شکار ہیں،پاکستان کے 80فیصد لوگ جن میں خواتین اور بچے شامل ہیں پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں، اکائونٹنٹ جنرل پنجاب کی مذکورہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ 2015 ء میں پنجاب کے ضلعی و تحصیل ہسپتالوں کیلئے ایک ارب 49 کروڑ کا خصوصی بجٹ منظور کیا گیا تھا اس مد میں سے ہسپتالوں کو ایک روپیہ بھی جاری نہیں کیا گیا جبکہ دوسری طرف وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ نے مختص شدہ رقم میں سے 100فیصد زائد اخراجات کیے، صحت کے بجٹ میں 16فیصد، سرکاری سکولوں کے بجٹ میں 55فیصد کٹوتی کی گئی، غریب کے درد میں مبتلا وزیراعلیٰ پنجاب ان حقائق کا بھی جواب دیں، ان کے پاس اورنج ٹرین اور میٹرو بسوں کیلئے وافر فنڈز ہیں تو تعلیم اور صحت کی سہولتوں کی فراہمی کیلئے کیوں نہیں؟مذکورہ رپورٹ میں یہ انکشاف بھی شامل ہے کہ وزیراعلیٰ ہائوس پر ہر سال 25سے 29 کروڑ روپے خرچ ہوتے ہیں اس کے باوجود وزیراعلیٰ خود کو خادم کہتے ہیں، ہر سال 29کروڑ روپے خرچ کرنے والے دنیا کے اس مہنگے ترین خادم کا نام گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں درج ہونا چاہیے، اگر ہم انصاف کی بات کریں تو گزشتہ ماہ لاء اینڈ جسٹس کمیشن کی طرف سے جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ اس وقت پاکستان میں 19 لاکھ مقدمات التواء کا شکار ہیں۔ سپریم کورٹ میں 31 ہزار، لاہور ہائیکورٹ میں ڈیڑھ لاکھ، ضلعی عدالتوں میں 13 لاکھ کے لگ بھگ مقدمات التواء کا شکار ہیں، ظلم اور ناانصافی کا سب سے بڑا کیس سانحہ ماڈل ٹائون 32 ماہ سے التواء کا شکار ہے اور شہدائے ماڈل ٹائون انصاف کے منتظر ہیں جن میں دو شہید خواتین تنزیلہ امجد اور شازیہ مرتضیٰ کے لواحقین اور بچے بھی انصاف کے منتظر ہیں، سپریم کورٹ کے ایک سینئر ترین جج کا کہنا ہے کہ مقدمات میں التواء کے ذمہ دار حکمران یعنی اشرافیہ ہیں کیونکہ مطلوبہ تعداد میں ججز اور فنڈز دینا مقتدر اشرافیہ کی ذمہ داری ہے، مقتدر اشرافیہ بیان بازی کی بجائے کبھی آئینے کے سامنے کھڑی ہو۔