اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت کاملہ کے تحت دینِ اسلام کو قیامت تک باقی رکھنے کی خاطر یہ نظام قائم فرمایا کہ ہر صدی کے آخر میں ایسے ا شخاص کو پیدا فرماتا ہے جو دینِ اسلام کی تجدید کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں۔ یہ ضروری نہیں کہ تمام دنیائے اسلام کے لئے صرف ایک ہی مجدد ہو۔ ایک وقت میں دنیا کے مختلف گوشوں میں بہت سے آدمی تجدید دین کے لئے سعی کرنے والے ہوسکتے ہیں۔ تجدید دین کے لئے کارہائے نمایاں سر انجام دینے والے کو تاریخ میں مجدد کے لقب سے نوازا جاتا ہے۔
ہر مجدد، مصلح اور مجتہد قدیم افکار، اصلاحات اور اکابرین کی خدمات کو سامنے رکھتے ہوئے ماضی، حال اور مستقبل کے حالات کا گہری نظر سے جائزہ لیتے ہوئے اصلاحِ احوال اور تجدیدو احیاء دین کے لیے ایک ایسی فکر وضع کرتا ہے جس کے ذریعے جاء الحق و زھق الباطل کی عملی تصویر زمانے میں قائم ہوتی ہے۔ مجدد اللہ تعالیٰ کا منتخب کردہ ہوتا ہے۔ اس میں کسی شخص کی اپنی ذاتی کوشش کار فرما نہیں ہوتی۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
إِنَّ ﷲَ عزوجل یَبْعَثُ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ عَلَی رَأْسِ کُلِّ مِائَةِ سَنَةٍ مَنْ یُّجَدِّدُ لَهَا دِیْنَهَا.
اللہ تعالیٰ اس امت کے لئے ہر صدی کے آخر میں کسی ایسے شخص( یا اشخاص )کو پیدا فرمائے گا جو اس (امت) کے لئے اس کے دین کی تجدید کرے گا۔
(ابوداود، السنن، کتاب الملاحم، باب ما یذکر فی قرن المائة، 4: 109، رقم: 4291)
تاریخِ کے اوراق کا مطالعہ کریں تو یہ حقیقت ہے کہ مذکورہ بالا فرمانِ نبی کے مطابق تاریخِ اسلامی کا کوئی بھی دور اللہ رب العزت کے منتخب شدہ بندگان سے خالی نہیں رہا بلکہ ہر دور میں مجدد دین کا سلسہ جاری رہا اور تجدید و احیاء اسلامی کی تحریکات تعلیماتِ قرآن و حدیث کی ترویج و اشاعت کا فریضہ سر انجام دیتی رہیں۔ مجددّینِ اسلام کی طویل فہرست میں سے چند ایک مشہور شخصیات کے نام یہ ہیں مثلاََ پہلی صدی ہجری میں حضرت عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ، دوسری صدی ہجری میں امام محمدبن ادریس الشافعی، تیسری صدی ہجری میں امام ابو الحسن اشعری، چوتھی صدی ہجری میں امام ابو حامد الاسفرائنی رضی اللہ عنہ، پانچویں صدی ہجری میں حجۃ الاسلام امام محمد غزالی رضی اللہ عنہ، چھٹی صدی ہجری میںامام فخر الدین رازی رضی اللہ عنہ، ساتویں صدی ہجری میں امام تقی الدین بن دقیق رضی اللہ عنہ، آٹھویں صدی ہجری میں حافظ زین الدین عراقی رضی اللہ عنہ، نویں صدی ہجری میں امام جلال الدین سیوطی رضی اللہ عنہ، دسویں صدی ہجری میں محدث کبیر علامہ ملا علی قاری حنفی رضی اللہ عنہ، گیارہویں صدی ہجری میں مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی رضی اللہ عنہ، بارہویں صدی ہجری میں امام محمد عبد الباقی زرقانی رضی اللہ عنہ، تیرہویں صدی ہجری میں شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ، چودہویں صدی ہجری علامہ یوسف بن اسماعیل نبہانی رضی اللہ عنہ ہمیں بطور مجدد نظر آتے ہیں۔ جن کے مجدد ہونے پر اکثر ائمہ و محدثین کا اتفاق ہے۔
(شرح سنن ابی داؤد، جلد3، ص309)
ذیل میں چند مجددین کے دور کے حالات اوران کی طرف سے کی گئی اصلاحی کاوشیں قارئین کے پیشِ نظر ہیں۔
حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ
حضرت عمر بن عبدالعزیز بیک وقت ایک محدث، انتہائی متقی عالم اور خداترس حکمران تھے۔ آپ کو عظیم تجدیدی و اصلاحی کاوشوں کے باعث مجددِ اول کا لقب دیا جاتا ہے۔ آپ نے جس دور میں اصلاحات کیں اور شریعت کی روح کو تازہ کیا۔ یہ وہ دور تھا جب لوگ ذہنی، اخلاقی اور معاشرتی پستی کا شکار تھے۔ فاسد عقیدوں کی ترویج عام تھی، بدترین شاہی نظام کی بدولت معاشرے میں اخلاقی برائیاں جڑ پکڑ چکی تھیں، ظالم گورنر اور عاملین حکومت رعایا کی جان، مال اور آبرو پر غیر محدود اختیارات کے مالک بنے ہوئے تھے۔ اسلامی اقدار پامال ہو رہیں تھیں۔ ان حالات میں آپ نے اسلامی شریعت کی روح کو تازہ کرتے ہوئے اسے معاشرے میں عملی طور پر نافذ کیا، مسلمانوں میں دینی اقدار کو پھر سے زندہ کیا ۔ قرآن و سنت کی تعلیمات کو خلافت راشدہ کے ِمبارک دور کی طرح بحال کیا۔ معاشرے میں رائج فاسد عقیدوں کی ترویج و اشاعت کو روکا، عوام کی تعلیم کا وسیع پیمانہ پر انتظام کیا۔ قرآن و حدیث اور فقہ کے علوم کی طرف اعلیٰ دماغ طبقات کو دوبارہ راغب کیا اور ایک ایسی علمی تحریک پیدا کی جس کے اثر سے اسلام کو امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمھم اللہ جیسے مجتہدین میسر آئے
امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ
امام غزالی پانچویں صدی کے وسط میں پیدا ہوئے۔ آپ پانچویں صدی کے مجدد ہیں۔ آپ کے دور میں یونانی فلسفہ کا غلبہ تھا، نظام تعلیم بالکل فرسودہ ہو چکا تھا۔ آپ نے یونانی فلسفہ کا گہرا مطالعہ کیا۔ مسلمانوں کی زندگیوں پر اس کے جو اثرات مرتب ہوئے تھے انہیں قرآن و حدیث کی تعلیمات کی مدد سے ختم کیا۔ آپ کی اس کاوش کا اثر مسلم ممالک تک ہی محدود نہ رہا بلکہ یورپ تک پہنچا اور وہاں بھی اس نے فلسفہ یونان کے تسلط کو مٹایا۔ آپ نے اپنے دور کے تمام مذہبی فرقوں اور ان کے اختلافات کا مطالعہ کیا اور پوری تحقیق کے ساتھ بتایا کہ اسلام اور کفر کی امتیازی سرحدیں کیا ہیں؟
آپ نے دین کے فہم کو تازہ کیا اور لوگوں کو قرآن و سنت کے چشمہ فیض کی طرف پھر سے توجہ دلائی۔ احیاء العلوم، اسرار الانوار، جواہر القرآن، معراج السالکین جیسی درجنوں کتب کے آپ مصنف ہیں۔ آپ نے اپنے دور کے نظام حکومت پر بھی پوری آزادی کے ساتھ تنقید کی اور براہ راست حکام وقت کو اصلاح کی طرف متوجہ کرتے ہوئے عوام الناس میں بھی یہ شعور بیدار کیا کہ ظلم و جبر کے آگے سر تسلیم خم نہ کریں بلکہ اپنے حقوق کی بحالی کی جنگ لڑیں۔
شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ
شیخ احمد سرہندی( گیارھویں صدی ہجری) نے ایک ایسے وقت میں دینِ اسلام کی سر بلندی اور حفاظت کے لیے آواز بلند فرمائی جب ہندوستان میں اسلام ایک مہیب خطرے سے دوچار تھا۔ مغلیہ دور کے مشہور فرمانروا اکبر نے نیا دین ایجاد کر کے اس کی باقاعدہ تبلیغ شروع کر دی تھی اور اس کی بھرپور ترویج و اشاعت میں لگ گیاتھا جس کی وجہ سے شریعتِ اسلامی کی اہانت ہونے لگی اور ہندو دلیر ہو گئے، مسلمانوں پر مایوسی و ناامیدی کی کیفیت طاری تھی، علماء اور عوام اسلام کی اصل روح سمجھنے کی قاصر تھے۔ اسلامی اقدار پامال ہو رہی تھیں۔ ایسے حالات میں شیخ احمد سرہندی نے اصلاحِ احوال کا بیڑا اٹھایا اور ملک کی مذہبی و معاشرتی حالت کو اسلامی سانچے میں ڈھالنے اور اکبر کے من گھڑت دین کے خلاف اسلام کی حقیقی تعلیمات کو پھیلانے اور ان کے نفاذ میں پوری قوت صرف کرنے لگے۔ تاریخ میں آپ کو عظیم کارناموں کے باعث مجدد الف ثانی کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔
قارئین کرام! ہر دور کے مجددین اور ان کی تجدیدی کاوشوں کو یہاں احاطہ تحریر میں لانا ناممکن ہے۔ پس انہیں اوصاف اور تجدیدی کاوشوں کے پیمانے میں اگر ہم شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی زندگی کا جائزہ لیں تو درج ذیل پہلو سامنے آتے ہیں۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری
دینِ اسلام کی سر بلندی اور اسلامی اقدار کی بحالی کے لیے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی 37 سالہ عرصہ میں کی گئی تجدیدی کاوشوں میں سے صرف چند کارہائے نمایاں ذیل میں پیش کیے جا رہے ہیں وگرنہ یہ ایک ایسا گوشہ ہے جس کے لیے کئی کتب درکار ہیں۔ یہاں ان کی خدمات کا مختصراََ ذکر گویا سمندر کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہو گا۔
تحریک منہاج قرآن کا قیام
امتِ مسلمہ کی اجتماعی زوال پذیری کی حالت اس بات کی متقاضی تھی کہ کلی سطح پر اس مرض کی تشخیص اس طرح کی جائے کہ ہر زوال پذیر شعبہ بحال ہو کر عروج کی منزل کی طرف گامزن ہو سکے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے وقت کی اس ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے 1980 میں تحریکِ منہاج القرآن کی بنیاد رکھی جو آج 37 سالہ عرصے کے دوران دنیا کے سو سے زائد ممالک میں اپنا تنظیمی نیٹ ورک غیر سرکاری تنظیم ( NGO) کے طور پر منظم انداز میں پھیلا چکی ہے کہ ہر روز اس کا قدم اپنے مطلوبہ ہدف عالمی سطح پر عظیم مصطفوی انقلاب کی جانب تیزی کے ساتھ بڑھ رہا ہے۔ بلاشبہ اس تحریک کا قیام اور مختصر دورانیے میں دنیا کے بیشتر ممالک میں اس کا تنظیمی نیٹ ورک ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب کی عظیم مجددانہ کاوش کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
’’ عرفان القرآن‘‘ ترجمہ
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے قرآنِ حکیم کا ’’عرفان القرآن‘‘ کی صورت تجدیدی اہمیت کا حامل دورِ حاضر کے تقاضوں کے مطابق جدید اردو ترجمہ کیا ہے جو کئی جہات سے دیگر تراجم میں منفرد مقام رکھتا ہے۔ مثلاً ہر ذہنی سطح کے لیے یکساں قابلِ فہم اور منفرد اُسلوبِ بیان کا حامل ہے جس میں بامحاورہ زبان کی سلاست اور روانی ہے۔ ترجمہ ہونے کے باوجود تفسیری شان کا حامل ہے اور آیات کے مفاہیم کی وضاحت جاننے کے لیے قاری کو تفسیری حوالوں سے بے نیاز کر دیتا ہے۔ یہ نہ صرف فہمِ قرآن میں معاون بنتا ہے بلکہ قاری کے ایقان میں اضافہ کا سامان بھی ہے۔ یہ تاثیر آمیز بھی ہے اور عمل انگیز بھی۔ حبّی کیفیت سے سرشار اَدبِ اُلوہیت اور ادبِ بارگاہِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایسا شاہکار ہے جس میں حفظِ آداب و مراتب کا خصوصی اہتمام کیا گیا ہے۔ یہ اِعتقادی صحت و ایمانی معارِف کا مرقع ہے۔ اس وقت روئے زمیں پر دستیاب قرآنی تراجم میں موجود سائنسی آیات کے درست ترجمہ کے لحاظ سے عرفان القرآن واحد ایسا ترجمہ ہے جس میں اس خلاء کو پر کرتے ہوئے جدید سائنسی تحقیقات کو مدِ نظر رکھا گیا ہے۔ یہ ترجمہ ربط بین الآیات اور روحانی حلاوت و قلبی تذکرہ کا شاندار مظہر ہے۔ یہ علمی ثقاہت و فکری معنویت سے لبریز ایسا شاہکار ہے، جس میں عقلی تفکر و عملیت کا پہلو بھی پایا جاتا ہے۔
قارئینِ کرام! عربی و اردو کے بیس سے پچیس تراجم اور قرآنی معانی کو سامنے رکھ کرآپ بطور موازنے کے اس کی جامعیت کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ اس وقت دنیا کی مختلف زبانوں میں یہ ترجمہ شائع ہو چکا ہے۔
تصانیف و تالیفات
اگرچہ پرنٹنگ پریس کو شروع ہوئے دو، تین سو صدیاں بیت چکی ہیں لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کسی شخصیت کی زندگی میں اس کی پانچ سو کتابیں شائع ہو کر منظرِ عام پرآ جائیں یہ شیخ الاسلام کا تجدیدی نوعیت کا ایک عظیم کارنامہ ہے کہ اردو، انگریزی، عربی اور ہندی زبانوں میں قرآنیات، احادیث، علم الحدیث، اصولِ حدیث، فقہ، علم الفقہ، اصولِ فقہ، ایمانیات، اعتقادیات، سیرت و فضائلِ نبوی، ختمِ نبوت، عبادات، روحانیات، سائنسی علوم، اقتصادیات، جہادیات، فکریات، انقلابیات، سیاسیات، قانونیات، شخصیات، اسلام اور جدید سائنس، عصریات، تعلیماتِ اسلام جیسے موضوعات پر 515 کتابیں زیورِ طبع سے آراستہ ہو کر منظرِ عام پر آچکی ہیں، ان کے علاوہ دیگر زبانوں میں بھی ان کتب کی اشاعت پر کام جاری ہے۔ قارئینِ کرام! امام غزالی کے اہم کارناموں میں سے ایک تجدیدی کارنامہ سو کے قریب ان کی وہ عظیم کتب ہیں جن کے باعث تاریخ انہیں مجدد کے نام سے شمار کرتی ہے اگر اس پیمانے کو بھی سامنے رکھا جائے تو شیخ الاسلام کی شخصیت اس پیمانے پر بھی سو فی صد پورا اترتی ہے۔
علم بالحدیث میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث پر عظیم کام
برصغیر میں کئی صدیوں سے حدیث پر کام اور لٹریچر کا پیدا ہونا تعطل کا شکار تھا اور چھ، سات سو سال پہلے کے کیے گئے کام پر تکیہ تھا۔ آپ نے حدیث کے کام پر طاری اس جمود کو توڑتے ہوئے علم بالحدیث میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث پر المنہاج السوی، معارج السنن، عرفان السنہ، ھدایۃالامۃ اور اربعینات جیسی عظیم و نادر کتب پر مشتمل 200 کے قریب عظیم و نادر کتبِ احادیث امت مسلمہ کو دی ہیں۔ اس کام سے نہ صرف برصغیر پاک و ہند بلکہ عالم عرب و مغرب بھی مستفیض ہو رہا ہے۔ علم بالحدیث پر آپ کا یہ کام اپنی اہمیت و افادیت کے لحاظ سے کسی صورت بھی امتِ مسلمہ کے قرونِ اولیٰ کے عظیم محدیثین سے کم درجے کا نہیں ہے جو اپنے وقت میں حدیث پر کی گئی خدمت کے ذریعے مجدد کے مرتبے پر فائز ہوئے اور آج بھی تاریخ میں انہیں عظیم مجدد رقم کیا جاتا ہے۔
دہشت گردی کے خلاف تاریخ ساز فتویٰ اور فروغِ امن اور انسدادِ دہشت گردی کا اسلامی امن نصاب
9/11 کے بعد سے دہشت گردی اور انتہا پسند کی لہر نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ اس ناسور سے نبٹنے کے لیے عالمی سطح پرعالمِ اسلام کی نمائندگی کرنے والی واحد شخصیت شیخ الاسلام کی ہے جنہوں نے اس فتنے کو چیلنج کرتے ہوئے اس کی مذمت میں 600 صفحات پر مشتمل ایک مبسوط تاریخی فتویٰ پیش کیا جو اس وقت دنیا کی کئی زبانوں میں شائع ہو چکا ہے۔ عالمی سطح پر اس کی شاندار پذیرائی اس کی کامیابی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ عملی طور پرآپ نے انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے25سے زائد کتب کی صورت میں فروغ امن اور انسداد دہشت گردی کا اسلامی نصاب بالخصوص امت مسلمہ اور بالعموم عالم انسانیت کو دیا جس کو معاشرے میں عملاََ نافذ کر کے اس ناسور کا کلی قلع قمع ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ آپ نے دہشت گردی کے خاتمے اورقیامِ امن کے فروغ کے لئے پاکستان سمیت بلادِ عرب و عجم میں ملکی و بین الاقوامی سطح پر امن کانفرنسز میں شرکت کی اور اسلام کے حقیقی پیغامِ امن کو پوری دنیا میں پہنچایا۔ آپ کا یہ اقدام اپنی نوعیت کا ایک تجدیدی کارنامہ ہے جس نے اسلام کے خلاف اسلام دشمن عناصرکی مکروہ چالوں کو خاک میں ملا کر دینِ اسلام کے حقیقی چہرے کو دنیا کے سامنے مانندِ خورشید منور و تاباں کیا اور عالمِ مغرب میں بسنے والے مسلمانوں میں اسلام پر اعتماد کو بحال کیا اور نوجوان نسل کو دہشت گردوں اور اسلام دشمنوں کے غلط بیانیے کے خلاف متبادل بیانیہ (counter narrative) دیتے ہوئے گمراہ ہونے سے بچایا۔ شیخ الاسلام کی یہ کاوش آج کے اس دور میں نوجوانوں کے ایمان و عقائد کو بچانے کے لحاظ سے بالکل ایسے ہی تجدیدی اہمیت کی حامل ہے جیسے اما م غزالی رحمۃ اللہ علیہ، امامِ اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ، امام مالک رحمۃ اللہ علیہ، شیخ احمد سر ہندی رحمۃ اللہ علیہ، امام احمد رضاخان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ اور علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ جیسے مجدیدینِ وقت نے اپنے اپنے ادوار میں کیں اور نوجوان نسل کو گمراہ و بے بہرہ ہونے سے بچایا۔
اردو سمیت دنیا کی بیشتر زبانوں میں خطابات کا لامتناہی سلسلہ
مختلف موضوعات پر آپ کے آٹھ ہزار سے زائد اردو، انگریزی اور عربی زبانوں میں علم العقائد، تصوف و روحانیت، فقہ و اصولِ فقہ، حدیث و اصولِ حدیث، محبتِ الٰہی اور محبتِ رسول، محبتِ اہلِ بیت اور صحابہ کرام، جدید علمی و سائنسی موضوعات، سیاسیات وغیرہ پر خطابات آپ کی تجدیدی کاوشوں میں سے ایک نمایاں کارنامہ ہے۔ ہر خطاب ایک اچھوتے موضوع کے ساتھ علمی نوعیت کا حامل ہے۔ آپ کے سامعین میں فقط عوام الناس ہی شامل نہیں ہوتے بلکہ عظیم معاصرینِ وقت، علماء و مشائخِ عظام، پیرانِ کرام، پروفیسرز، ڈاکٹرز، وکلائ، ہر شعبہ علم سے تعلق رکھنے والے طلباء و طالبات، عالمی دنیا کے عظیم تھنک ٹینک، لیڈرز، عالمِ عرب کے عظیم شیوخ و محدثین (جو اپنے مقام و مرتبہ کے لحاظ سے اسلام میں ایک سند رکھتے ہیں) وغیرہ جیسی شخصیات آپ کے سامعین میں شمار ہوتی ہیں اور خود کو آپ کے تلامذہ میں شمار کر کے فخر محسوس کرتے ہیں۔ آپ کی علمی مجالس میں شرکت کر کے کئی علمی عقدے حل ہوتے ہیں جن کا اہلِ علم نہ صرف برمَلا اعتراف کرتے ہیں بلکہ انہیں سراہتے بھی ہیں۔ معزز قارئین! یہاں میں آپ کی توجہ اس بات پر مرکوز کروانا چاہوں گی کہ شیخ الاسلام کے علمی حلقوں کا یہ منظر فیضِ غوثیتِ مآب کی علامت ہے کہ جن کے علمِ لدنی سے فیض یاب ہونے کے لیے معاصرینِ وقت اور ائمہ و مجتہدین آپ کے در پر حاضر ہوتے تھے اور اکتسابِ فیض کر کے وقت کے مجدد اور محدث بنے۔ اسی فیض کی جھلک آج ہمیں شیخ الاسلام کے علمی حلقوں اور نشستوں میں نظر آتی ہے جو آپ کی مجددِ وقت ہونے پر مہرِ کامل ثبت کرتی ہے۔
مبادیاتِ اسلام بالخصوص تعلق بالرسالت کی بحالی
اسلام دشمن قوتیں اقبال کے اس شعر کے مصداق
یہ فاقہ کش جو موت سے ڈرتا نہیں ذرا
روحِ محمد اس کے بدن سے نکال دو
امت کا اپنے نبی کے ساتھ تعلق کو کمزور کرنے میں کوشاں تھیں اورجہاں دیگر عقائدِ اسلامی کے تحفظ اور دفاع پر بھرپور زور دیا جا رہا تھا اس کی آڑ میں عقیدہ رسالت اور تعلق بالرسالت کے پہلو کو کمزور کیا جا رہا تھا۔ اس حوالے سے دلیل کا رجحان ختم ہو گیا تھا اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اقدس کے ساتھ محبت و عقیدت کو معاذ اللہ شخصیت پرستی کہہ کر اور امت کو نور و بشر اور حاضر و ناظر کے جھگڑوں میں ڈال کر امت کا اپنے نبی کے ساتھ تعلق کو کمزور کیا جا رہا تھا۔ عشق و محبت رسول، ادب رسول اور عظمت رسول کے پہلو امت کے اندر کمزور ہوچکے تھے ان پہلووں کے دفاع کے لئے دلیل ختم ہو چکی تھی۔ ان حالات میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے علامہ اقبال کی طرح اسلام دشمنوں کی جانب سے امتِ مسلمہ کے عقائد پر ہونے والے حملے کا نہ صرف تدارک کیا بلکہ اس کا ایک جامع عملی حل بھی پیش کیا اور اپنے خطابات، حلقات ذکر اور اپنی تصانیف کے ذریعے دلیل کی قوت کے ساتھ ان کمزور ہوتے پہلووں کو جلا بخشی۔ محبت و عشقِ مصطفیٰ، ادب و تعظیمِ رسالت اور تحفظِ ختمِ نبوت پر امت کو قرآن و سنت کی روشنی میں دلائل کا وہ عظیم خزانہ دیا کہ جس کے باعث لوگوں کی سوچ کا زاویہ بدلا، جو عقیدہ مغلوب ہو چکا تھا اسے دلیل کی طاقت کے ساتھ پھر سے غالب کیا۔
عشق و محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انوکھا اظہار
دنیا کا ایک قاعدہ ہے کہ جب کسی کو کسی سے محبت عشق کی حد تک ہو جاتی ہے تو پھر وہ محبوب کا نام جپتے نہیں تھکتا اور اگر یہ عشق و محبت کسی کو اللہ کے محبوب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہو جائے تو پھر اس کا عالم کیا ہو گا اس کی عملی جھلک ہمیں شیخ الاسلام کی شخصیت میں نظر آتی ہے جو عاشقِ ساقی کوثر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں اور جنہوں نے سنتِ الٰہیہ کی اتباع میں اس روئے زمین پر اپنے محبوب آقا کا نام اس انداز سے پھیلایا کہ شاہد ہی تاریخ میں اس جیسی کوئی دوسری مثال مل سکے۔ آپ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات طیبہ کے ساتھ امت کے تعلق کو مضبوط کرنے اور عشقِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حصول کو ممکن بنانے کے لئے گوشہ درود قائم کیا جہاں روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد دنیا بھر میں سب سے زیادہ درود پاک پڑا جاتا ہے۔ یہ آپ کا تجدیدی کام ہے جو آج تک روئے زمین پر کسی شخص نے نہیں کیا۔
محکوم طبقات کی دادرسی اور بیداری شعور مہم
مجددّین کی تاریخ کو اگر کھنگالا جائے تو ایسی شخصیات مجددّین کی فہرست میں آتی ہیں جنہوں نے دیگر تجدیدی کارناموں کے ساتھ ساتھ ظالم حاکمِ وقت کے ظلم و جبر کے خلاف آوازِ حق بلند کرتے ہوئے محکوم طبقات کی دادرسی کے لیے اقدام کیے جن میں امامِ اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ، امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ، امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ، شیخ احمد سر ہندی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ جیسی شخصیات کے نام قابلِ ذکر ہیں جنہوں نے روحانی پہلووں پر کام کے ساتھ ساتھ عوام کی فلاح و بہبود کے کارناموں کو نظر انداز نہیں کیا اور خود کو منبر و محراب تک محدود نہیں کیا رسمِ شبیری نبھاتے ہوئے میدانِ کار زار میں اتر کر ظالم و جابر حاکمِ وقت کے سامنے کلمہ حق بلند کیا جس کے باعث تاریخ انہیں سلام پیش کرتی ہے اور انہیں عظیم مجددین کی فہرست میں سرِ اول رکھتی ہے۔ اسی طریق پر چلتے ہوئے شیخ الاسلام نے آج کے دور میں خود کو صرف وعظ و تبلیغ ٖ اور مسجد و منبر تک محدود نہ رکھا بلکہ سنتِ شبیر ادا کرتے ہوئے وقت کے فرعونوں کو للکارا اورشدید مخالفتوں اور مزاحمتوں کے باوجود غریب عوام کے حقوق کی بحالی کے قانونی و آئینی جنگ بھی جرات و بہادری کے ساتھ لڑ رہے ہیں آپ کا یہ اقدام بھی بلاشبہ مجدد کے پیمانے پر پورا اترتا ہے۔
المختصر یہ کہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی زندگی کا ہر لمحہ ’’میری زندگی کا مقصد تیرے دین کی سرفرازی‘‘ کا مصداق نظر آتا ہے۔ معزز قارئین کرام 19 فروری کی مناسبت سے یہ پیغام آپ کی نظر کرنا چاہوں گی کہ ہم وہ خوش نصیب ہیں جنہیں اللہ رب العزت نے اپنے اس محبوب بندے کا زمانہ، ان کی صحبتیں اور سنگت و قربت نصیب کی ہے اس نعمتِ خداوندی کا شکر ادا کرنے کے بے شمار طریقوں میں سے ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ ان کی عظیم کاوشوں کو صرف سراہا نہ جائے بلکہ ان کے پیغام کو عام کیا جائے اور ان کے نقشِ قدم پر چل کر اپنے اعمال کی اصلاح کے ذریعے ان کی نگاہوں کو ٹھنڈک بہم پہنچائیں کہ ایسی ہستیاں صدیوں بعدپیدا ہوتی ہیں اور ہمارے لیے رب اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضا کے حصول کا واحد ذریعہ آج کے دور میں شیخ الاسلام سے کامل وابستگی میں پوشیدہ ہے۔