شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے علمی تبحر اور تجدیدی خدمات کا ایک زمانہ معترف ہے۔ آپ کا نام عالم عرب و عجم کے علمی و دینی حلقوں میں یکساں مقبولیت اور اپنی پہچان رکھتا ہے۔ آپ سے اخذ فیض کرنے والوں میں دنیائے عرب کے نامور علماء کرام و شیوخ عظام بھی شامل ہیں۔ عالم عرب کے علماء سے آپ کا رابطہ اور تعلق اوائل عمری سے قائم ہوگیا تھا۔ آپ کے علمی سفر کا آغاز ہی مسجد نبوی میں مولانا ضیاء الدین مدنی کی صحبت و سنگت سے ہوا، جو آپ کے والد گرامی کے توسط سے اخذِ علم کے آخری دور تک جاری رہا۔ یوں جب آپ نے عملی زندگی میں قدم رکھا تو آپ ایک متبحر اور جید عالم دین کے طور پر عالم عرب و عجم میں متعارف ہوئے۔ آپ کے بارے میں عالم عرب کی عظیم المرتبت شخصیات کے تاثرات اس پر دلیل قطعی ہیں۔
عصر حاضر میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری شرق تا غرب پھیلی مخلوقِ خدا کے مرجع ہیں۔ آپ کی دینی اور عصری علوم میں سرپرستی و راہنمائی سے جہاں براہِ راست ہزاروں طلباء و طالبات زیورِ علم سے آراستہ ہو کر فارغ التحصیل ہوئے اور ہو رہے ہیں، وہیں تحریکِ منہاج القرآن سے وابستہ بالخصوص اور جمیع اُمتِ مسلمہ کے بالعموم کروڑوں افراد بھی آپ سے علمی طور پر مستفید ہو رہے ہیں۔ پاکستان کی حدود سے باہر بھی شیخ الاسلام جہاں جاتے ہیں ساری دنیا سے علم و روحانیت کے پیاسے آپ سے علمی و روحانی نسبت قائم کرنے کے لیے بے تاب ہو جاتے ہیں۔
زیر نظر سطور میں خطۂ عرب کے بعض نامور شیوخ کے آپ سے اخذ فیض کے چند جدید اور سابقہ مطبوعہ مواد کے علاوہ مظاہر درج کیے جا رہے ہیں۔ نیز یہ کوشش کی گئی ہے کہ سابقہ مطبوعہ مواد اور شخصیات کے تأثرات کا اعادہ نہ ہو۔ لہٰذا جدید اور مختصر مواد ہی درج کیا جارہا ہے۔
1۔ دورۂ مصر - 2012ء: علماء ازہر میں آپ کی بے پناہ پذیرائی
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے 2012ء میں ’المذہب المختار في الحدیث الضعیف‘ کے موضوع پر جامعۃ الازہر میں فنِ حدیث کے مستند اساتذہ، پروفیسرز، شعبہ علوم الحدیث کے سربراہان اور دیگر اہلِ علم و فن شیوخِ عرب کی موجودگی میں تین سے چار گھنٹے تک عربی میں خطاب فرمایا۔
- ان کے خطاب کے بعد جامعۃ الازہر کے علوم الدین اور فلسفہ ڈیپارٹمنٹ کے پروفیسر ڈاکٹر طٰہٰ جیشی نے اپنی گفتگو میں حاضرین سے مخاطب ہو کر کہا: ’’مجھے بے حد مسرت ہے کہ میں آج ایک محدّث کے سامنے بیٹھا ہوں اور یہ بات حق ہے (کہ آپ ایک عظیم محدّث ہیں)؛ بے شک آپ کا خطاب بیک وقت کئی علوم کے نہایت عمدہ اَذواق کا حسین امتزاج تھا، شیخ الاسلام نے نہایت خوب صورتی سے تفسیر، حدیث، فقہ اور عقیدہ کے مابین باہمی ربط پیدا کیا ہے۔ خطاب کے آخر میں اُنہوں نے ایک مثال سے شیخ الاسلام کی عظمت کو یوں واضح کیا کہ جامعہ الازہر مادر علمی ہے، جس طرح ماں اپنے بچھڑے ہوئے بچے کو پا کر خوشی سے سرشار ہوتی ہے، آج یوں محسوس ہو رہا ہے کہ یہ مادر علمی اپنے بچھڑے ہوئے فرزند سے مل کر اُسی طرح خوشی سے نہال ہے اور وہ فرزند شیخ الاسلام ہیں‘‘۔
- شیخ الحدیث ڈاکٹر یُسری رُشدی جبر (خطیب مسجد جامعہ الازہر، مصر)نے کہا کہ ’’شیخ الاسلام کا خطاب انتہائی سہل، عام فہم اور محبت میں ڈوبا ہوا تھا۔ اتنے دقیق موضوع کو اتنے سہل انداز میں ایک محب اور صادق ہستی ہی بیان کر سکتی ہے۔ جو موضوعات شیخ نے بیان کیے اگر وہ محبت کے بغیر بیان کیے جاتے تو یقینا مشکل اور پیچیدہ ہوتے۔ آپ اپنے اس اُسلوبِ بیان سے ہمارے دلوں میں گھر کر گئے ہیں‘‘۔
- الشیخ اشرف حامد حسانین (امام و خطیب مسجد صالح جعفری) نے کہا کہ ’’ہم محترم المقام شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری صاحب کا بہت شکریہ ادا کرتے ہیں کہ انہوں نے جامعہ ازہر شریف کے دائرہ کار کو وسعت بخشی ہے اور اس کی مبنی بر اِعتدال فکر کو نوے سے زیادہ ممالک میں پھیلا دیا ہے۔ اس کی ہمیں جتنی اِحتیاج آج ہے، پہلے کبھی نہ تھی۔ ہم محترم المقام شیخ الاسلام کے بارِ دگر شکر گزار ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ اس لیکچر کی ترتیب و تدوین کی جائے اور اسے شائع کیا جائے تاکہ دیگر طلبا بھی اس سے استفادہ کر سکیں۔ شیخ الاسلام کی یونی ورسٹی کا نام منہاج القرآن ہے اور یہ نام تمسک بالقرآن و صاحب القرآن پر دلالت کرتا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ آپ کی یہ فکر پوری دنیا میں اور ہر خطے میں پھیل جائے‘‘۔
اس سے اگلے روز شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے مدینۃ البحوث الاسلامیہ میں مکانۃ الرسالۃ وحجیۃ السنۃ کے موضوع پر نہایت محققہ اور مدلل و مفصل خطاب فرمایا، جس پر شرکائِ مجلس بے پناہ داد دیتے رہے۔ پھر جامعۃ الازہر کی جامع مسجد میں بھی آپ نے نہایت ایمان افروز خطاب فرما کر حاضرین کے قلوب و اَذہان کی جلا کا سامان کیا۔
2۔ شیخ عبد اﷲ الحداد اور علماء مراکش کا آپ کی فصاحت کا برملا اعتراف
مراکش کے عظیم روحانی بزرگ شیخ عبد اﷲ الحداد، حضرت شیخ الاسلام سے بڑی عقیدت و محبت رکھتے ہیں۔ انہوں نے مجددِ رواں صدی شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری سے تمام اجازات بھی لی ہیں اور وہ خود کو عقیدتاً ان کا شاگرد کہتے ہیں۔ انہوں نے ’زاویۃ السلام‘ کے نام سے ایک خانقاہ بنائی ہوئی ہے جس میں وہ سالکین کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کرتے ہیں۔ انہوں نے 2016ء میں وہاں آپ کو دعوت دی۔ جب آپ وہاں پہنچے تو طلباء، فاس کے علماء اور مستفیدین کی قابلِ ذکر تعداد جمع تھی۔ شیخ عبد اﷲ الحداد نے شیخ الاسلام کا تعارف کرواتے ہوئے گفتگو کرنے کی استدعا کی۔ شیخ الاسلام نے عقیدۂ رسالت پر ایمان افروز خطاب کیا تو وہاں پر موجود حاضرین کی آنکھوں سے چھما چھم آنسو برسنے لگے۔ فاس اور مراکش میں علمی گہرائی اور استدلال و استنباط کرنے والے علماء نہ ہونے کے برابر رہ گئے ہیں، جس کی بنا پر وہ تشنہ تھے۔ جب شیخ الاسلام کا خطاب ختم ہوا تو سب نے بے پناہ عقیدت کا اظہار کیا، کوئی ہاتھ چوم رہا تھا اور کوئی معانقہ کر رہا تھا۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے خطاب کے بعد شیخ عبد اﷲ الحداد نے تمام حاضرین کو اظہارِ خیال کی دعوت دی۔ ان میں بڑے بڑے علمائ، پروفیسرز اور مختلف مکاتبِ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگ تھے مگر وہ سب آپ کے سامنے گنگ ہو گئے اور برملا معذوری کا اظہار کرنے لگے کہ بظاہر تو ہم عرب ہیں مگر حقیقی عرب تو جناب ہیں۔ عربی لغت میں ایسی فصاحت.... ہم تو بے زبان ہو گئے ہیں۔ پھر وہ معانقہ کرتے ہوئے کہنے لگے کہ آپ علم کا ایسا سمندر ہیں جو ہم بیان نہیں کر سکتے۔
3۔ مفتی الدیار المصریۃ ڈاکٹر شوقی ابراہیم علام نے ’سیوطی العصر‘ کا خطاب دیا
محترم صاحبزادہ ڈاکٹر حسن محی الدین قادری بیان فرماتے ہیں: ’’گزشتہ سال کے وسط میں دورۂ مصر کے دوران جب میں نے مفتی الدیار المصریۃ ڈاکٹر شوقی ابراہیم علّام سے ملاقات کی اور انہیں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی کتاب الإرھاب وفتنۃ الخوارج (فتوٰی) اور دیگر کتب پیش کیں تو وہ محبت و وارفتگی میں بے ساختہ پکار اٹھے کہ ’جب شیخ الاسلام کا کام دیکھتے ہیں کہ انہوں نے اپنی حیات میں ہی پانچ سو سے زائد کتب لکھ ڈالی ہیں اور اتنے عظیم کارہاے نمایاں سرانجام دیے ہیں تو وہ ’’سیوطی العصر‘‘ لگتے ہیں‘‘‘۔
4۔ ابو ظہبی کے شیخ علی الہاشم کا اِظہارِ عقیدت
آپ کے احوال میں سے ابو ظہبی کا ایک واقعہ بھی اِن صفحات کی زینت بنانا چاہیں گے۔ محترم صاحبزادہ ڈاکٹر حسن محی الدین قادری بھی اُس وقت حضرت شیخ الاسلام کی سنگت میں تھے۔ وہاں شیخ علی الہاشم تھے جو سلطان زید بن النیہان کے ساتھ الشؤون الإسلامیۃ (Islamic Affairs) کے مشیر، وزیر اور اَہم عہدوں پر فائز رہے۔ وہ ہمیشہ شیخ الاسلام کے میزبان ہوتے۔ آپ کے ساتھ بڑی محبت کا اظہار کرتے اور آپ کے اعزاز میں ایک بڑی مجلس کا اہتمام کیا کرتے۔ آپ ہمیشہ اس محفل میں تشریف لے جاتے۔ متحدہ عرب اِمارات کے بڑے بڑے شیوخ اس محفل میں مدعو ہوتے جس میں شیخ الاسلام کا خصوصی خطاب ہوتا۔
جب آخری مرتبہ آپ وہاں تشریف لے گئے اور شیخ علی الہاشم کو اطلاع کی گئی کہ آپ آرہے ہیں تو اس وقت اتفاق سے وہ جرمنی یا کسی اور ملک میں بغرضِ علاج گئے ہوئے تھے۔ انہوں نے یمن سے تعلق رکھنے والی معروف علمی شخصیت شیخ حبیب علی الجفری زین العابدین کی ڈیوٹی لگائی کہ میں علاج کے سلسلے میں کسی اور ملک میں ہوں۔ آپ میری جگہ پر میرے گھر میں بڑے عالی شان اور شاہانہ عشائیے کا اہتمام کریں۔ اس میں اُمرائ، سفرائ، علماء اور دیگر اکابر شخصیات کو دعوت دیں اور خود شیخ کا استقبال کریں، پھر وہاں شیخ کا خطاب ہو گا۔ جب آپ وہاں تشریف لے گئے تو شیخ علی الجفری نے بڑی محبت سے آپ کا استقبال کیا، پھر آپ نے تمام علماء سے ملاقات کی، اور خطاب کیا۔ بعد ازاں تمام علماء آپ کے گرد اکٹھے ہو گئے اور آپ سے اجازات طلب کیں تو آپ نے انہیں المنہاج السوی کی اجازت دی اور دیگر اجازات دِیں۔ پھر شیخ علی الجفری نے بھی اجازات لِیں۔ انہوں نے اس سے قبل آپ سے یمن میں بھی اجازات لی تھیں اور ان کے شیخ حبیب عمر الصالح نے بھی آپ سے اجازات لے رکھی ہیں۔ اُس وقت انہوں نے آپ سے یہ بھی عرض کیا: ’’شیخ! ہم سے وعدہ کریں کہ جس طرح یہاں ہم آپ کی سنگت میں ہیں، آخرت اور جنت میں بھی ہم اسی طرح آپ کی سنگت میں ہوں اور آپ ہمیں بخشوا کر جنت میں لے جا رہے ہوں‘‘۔
5۔ اُردن کے مؤسسۃ آل البیت الملکیۃ للفکر الإسلامی میں آپ مرکز نگاہ تھے
اکتوبر 2016ء میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اُردن میں ہونے والی اِنٹرنیشنل سیرت کانفرنس میں شرکت کی۔تین روزہ عالمی کانفرنس کا انعقاد ’’رائل آل البیت انسٹی ٹیوٹ برائے فکر اسلامی (The Royal Aal al-Bayt Institute for Islamic Thought)‘‘ نے کیا تھا اور میزبانی کے فرائض امیر غازی سرانجام دے رہے تھے جو شؤون الإسلامیۃ لملک عبد اﷲ للأردن کے مشیر ہیں۔ یاد رہے کہ اس ادارے کی کانفرنسز میں صرف اس کے اراکین ہی شرکت کرسکتے اور اپنے مقالات پیش کرسکتے ہیں۔ شیخ الاسلام بھی اِس اِنسٹی ٹیوٹ کے رکن ہیں اور آپ نے پہلی بار اس کانفرنس میں شرکت کی تھی۔ کانفرنس کا انعقاد حکومتی سطح پر کیا گیا تھا اور شاہ عبد اﷲ دوم خود اِنتظام و اِنصرام کی نگرانی کر رہے تھے۔ دنیا بھر سے آئے ہوئے عالم اسلام کے جید علماء و مشائخ، مفتیان کرام اور اسکالرز نے اس کانفرنس کے مختلف سیشنز میں شرکت کی اور اپنی اپنی تحقیقات و مقالات پیش کیے۔ شرکاء نے عالم اسلام کو درپیش مقامی و بین الاقوامی چیلنجز اور حالات و مشکلات پر تبادلہ خیال کیا۔
اس کانفرنس میں محترم صاحبزادہ ڈاکٹر حسن محی الدین قادری بھی ہمراہ تھے۔ وہ بیان فرماتے ہیں: ’’جب ہم ہوٹل کی لابی میں پہنچے تو وہاں مفتی تقی عثمانی صاحب سمیت دیگر علماء کرام اور بڑی بڑی شخصیات موجود تھیں۔ مہمانوں کو وہاں بٹھا دیا جاتا اور ان کے اکاؤنٹ ڈپارٹمنٹ کا نمائندہ آکر ہر رکن مہمان کو دو، دو ہزار ڈالر دے کر دست خط لے لیتا۔ ساتھ ہی کانفرنس سے متعلق مواد پر مشتمل بیگ تھما دیا جاتا۔ جب وہ نمائندہ ہمارے پاس آیا تو شیخ الاسلام نے اُسی وقت اتنی خطیر رقم لینے سے انکار کرتے ہوئے کاغذ پر لکھ دیا: أنا لا أرغب فیہ (مجھے اس میں رغبت نہیں ہے)۔ پھر فرمایا: ’آپ کا شکریہ مگر میں دین کا عوض نہیں لیتا اور نہ ہی یہ میرا معمول ہے۔ آپ کی رقم آپ کو مبارک ہو۔ یہ جملہ میں نے اس لیے لکھ دیا ہے تاکہ ریکارڈ درست رہے۔ باقی شرکاء کے لیے جو آپ کا نظام ہے، اسے جاری رکھیں۔‘‘
’’کانفرنس میں حضرت شیخ الاسلام نے التسویۃ بین الکتاب والسنۃ في الافتراض والحجیۃ (نفاذِ احکام میں قرآن و سنت کی متوازی حیثیت) کے منفرد موضوع پر نہایت خوب صورت اور جاندار گفتگو کی۔ آپ کے خطاب کے موقع پر اَجل علماء و مشائخ اور محققین موجود تھے۔ ان میں مفتی اعظم مسجدِ اقصیٰ شیخ محمد احمد حسین بھی تھے۔ کانفرنس میں ہر مقرر کے لیے پندرہ منٹ کا وقت مختص تھا، مگر صدرِ مجلس (moderator) کو کسی کے لیے وقت بڑھانے کا اختیار تھا۔ جب حضرت شیخ الاسلام نے خطاب کیا تو 15 کی بجائے 37 منٹ ہوگئے مگر صدرِ مجلس نے مداخلت نہیں کی کیونکہ وہ خود اس خطاب میں بہت زیادہ دلچسپی لے رہے تھے جوکہ اُن کے چہرے کے تاثرات اور body language سے عیاں تھی۔ وہ خود بھی اس موضوع کے پیاسے تھے اور چاہتے تھے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت و سیرت کی حجیت اور مکانت پر دلائل و براہین ملیں۔ عالمِ اسلام میں اس موضوع پر تذبذب اور اضطراب سے بھی آگے کافی سنگین صورت حال ہے۔ کوئی جید محقق اور مستند عالم اس کا دفاع اور اس پر بات کرنے والا نہیں اور ائمہ کی کتب کھنگال کر اس کی حجیت قائم کرنے والا نہیں۔
’’میرے دائیں طرف علم العقیدہ کے ماہر ازہری پروفیسر بیٹھے تھے۔ میں نے ان سے بات کی تو فرمانے لگے کہ میری دلچسپی اِسی موضوع میں ہے اور میں اِنہی شیخ کو سننے کے لیے یہاں بیٹھا ہوں۔ پھر جوں جوں شیخ الاسلام کا خطاب آگے بڑھا تو وہ أَحْسَنْتَ، أَحْسَنْتَ پکارتے رہے۔ سارے حاضرین اور سامعین کے چہرے بتا رہے تھے کہ وہ یہی موضوع سننے کے لیے بے تاب تھے۔ پھر شیخ الاسلام نے قرآن مجید میں ضمیرِ واحد کا بیان کیا کہ جہاں جہاں اﷲ رب العزت نے اپنے آپ کو اور اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایک ہی ضمیر میں ذکر کیا ہے اور اُن آیات سے استدلال اور استنباط کیا، حتی کہ علامہ ابن تیمیہ کے دلائل بھی اس میں بیان کیے۔ جب سیشن ختم ہوا تو نمازِ مغرب کا وقت ہوا چاہتا تھا۔ شیخ الاسلام نے نمازِ مغرب کی ادائیگی کے لئے جانا چاہا، مگر اسی اثناء میں الجزائر کے ایک شیخ کھڑے ہوگئے اور انہوں نے اعتراض کر دیا کہ ’یہ شیخ جو جا رہے ہیں انہوں نے اپنی گفتگو میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقام کو اﷲ کے ساتھ ملا دیا ہے، یہ حدیں عبور کر گئے ہیں، انہوں نے تو شرک کر دیا ہے۔ انہوں نے تو اسلام میں ایک اور بدعت کا آغاز کر دیا ہے‘۔ شیخ الاسلام اُن کا سوال سن کر رُک گئے اور فرمانے لگے کہ میں ان کا جواب دوں گا۔ صدرِ محفل خوش ہوگئے کہ شیخ خود جواب دیں گے۔ پھر شیخ الاسلام نے پے در پے دلائل سے ایسا کامل اور شافی جواب دیا کہ موجود حاضرین میں سب کے چہرے کھِل گئے۔ جب وہ اعتراض اٹھا رہے تھے تو سب کے چہرے مرجھائے ہوئے تھے اور کسی میں عقیدۂ رسالت اور حجیتِ سنت کا دفاع کرنے کی جرأت نہیں تھی حالاں کہ وہاں عالم عرب کے اجل علماء موجود تھے۔ مگر جب شیخ الاسلام گفتگو مکمل کر کے اٹھے تو کسی میں اس عقیدہ پر اعتراض کرنے کا حوصلہ پیدا نہ ہوا۔ اس کے بعد تمام علماء و شیوخ حضرت شیخ الاسلام کی طرف لپکے اور بے پناہ عقیدت کا اظہار کرنے لگے۔ اِس طرح آپ کی گفتگو کے بعد پوری کانفرنس کا رُخ ہی بدل گیا۔‘‘
کانفرنس میں شیخ الاسلام کی ملاقات اُردن کے شاہ عبد اﷲ دوم سے بھی ہوئی۔ جب کانفرنس کے منتظمِ اَعلیٰ نے شیخ الاسلام کو شاہ عبد اﷲ دوم سے متعارف کروانا چاہا تو شاہ نے فرمایا کہ ’’آپ تعارف نہ کروائیں، ڈاکٹر صاحب کو کون نہیں جانتا! انہوں نے تو دہشت گردی کے خاتمے اور عالمی اَمن کے قیام کے لیے بے پناہ علمی و فکری اور تحقیقی خدمات سرانجام دی ہیں۔‘‘
6۔ جامعۃ الازہر اور تحریک منہاج القرآن
یہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی علمی وجاہت اور مجددانہ بصیرت کا اعتراف ہی ہے کہ جامعۃ الازہر نے پاکستان میں الرابطۃ العالمیۃ لخریجی الأزہر (WAAG—The World Association for Al-Azhar Graduates) کھولی تو اس کی میزبانی تحریک منہاج القرآن کو ملی اور تحریک منہاج القرآن کی سپریم کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر حسن محی الدین قادری اس کے صدر بنے۔ پھر 24 ستمبر 2011ء کو تحریک منہاج القرآن کے زیر اہتمام لندن میں ہونے والی Peace for Humanity Conference میں بھی نائب شیخ الازہر اور صدر جامعۃ الازہر نے اپنے وفد سمیت بھرپور شرکت کی۔ علاوہ ازیں پاکستان میں بھی مختلف مواقع پر جامعۃ الازہر کے شیوخ و سربراہانِ شعبہ تحریک منہاج القرآن کے پروگرامز میں شرکت کرتے رہتے ہیں۔ یہ بھی شیخ الاسلام سے محبت کا اظہار تھا کہ آج سے ربع صدی قبل جامعۃ الازہر اور جامعہ اسلامیہ منہاج القرآن میں اساتذہ اور طلباء کے تبادلے و اشتراک کا معاہدہ طے پایا تھا۔
7۔ اسانید و اِجازاتِ علمیہ
عرب و عجم کے جن کثیر نامور علماء کرام اور شیوخ نے باقاعدہ آپ سے اجازاتِ علمیہ اور روایتِ حدیث کی اجازات لی ہیں، ان میں سے چند کے نام درج ذیل ہیں:
(1) مصر سے تعلق رکھنے والے علماء
- شیخ حامون احمد بن عبدالرحیم (جامعہ الازھر، مصر)
- شیخ عبدالمقتدر بن محمد علوان (جامعہ الازھر، مصر)
- شیخ یوسف بن یونس احمد عبدالرحیم (جامعہ الازھر، مصر)
- شیخ حمید محمود بن احمد محمود (جامعہ الازھر، مصر)
- شیخ احمد عبداللہ محمد الجیاد (جامعہ الازھر، مصر)
- شیخ عبدالواحد یوسف بن محمد ماطیٰ (جامعہ الازھر، مصر)
- ایمن عید عبد الحلیم الحجار الازہری (منسق الشؤون العلمیۃ بالجامع الازہر الانور)
(2) شام سے تعلق رکھنے والے علماء
- الفقیہ الشیخ اسعد محمد سعید الصاغرجی (سینئر امام، جامع اُمویہ دمشق)
- الشیخ دکتور ابوالخیر شکری (خطیب جامع امویہ دمشق، سربراہ جامعہ المحدث الاکبر، شام)
- الشیخ السید ابوالھدیٰ الحسینی (حلب، شام)
(3) کویت سے تعلق رکھنے والے علماء
- الشیخ السید یوسف ہاشم الرفاعی (ممتاز صوفی اسکالر، مصنف اور سابقہ وزیر کویت)
(4) عراق سے تعلق رکھنے والے علماء
- مفتی اعظم شیخ عبدالرزاق (مفتی اعظم، بغداد عراق)
- شیخ عبدالوھاب المشھدی (فقہ حنفی سے تعلق رکھنے والے معروف مصنف، بغداد عراق)
(5) یمن سے تعلق رکھنے والے علماء
- شیخ حبیب عمر بن سلیم بن حفیظ (بانی و پرنسپل دارالافتاء ، یمن)
- شیخ حبیب علی زین العابدین الجفری (فقہ شافعی کے ممتاز اسکالر، یمن)
(6) لبنان سے تعلق رکھنے والے علماء
- السید وسیم الحبل (اسلامی فقہ کے عالم، لبنان)
(7) یورپ و امریکا سے تعلق رکھنے والے علماء
- شیخ عبدالحکیم مراد (لیکچرار اسلامک سٹڈیز، کیمبرج یونیورسٹی، برطانیہ)
- شیخ بابکر احمد بابکر (امام، یوسف اسلام اسلامیہ سکول، برطانیہ)
- شیخ عبدالعزیز فریڈریکس (ممتاز اسکالر، گلاسگو برطانیہ)
- شیخ فیصل حمید عبدالرزاق (اسکالر، ٹورانٹو کینیڈا)
ان کے علاوہ پاکستان و خطۂ برصغیر کے ہزارہا علماء کرام و تلامذہ آپ سے علمی وفکری طور پر مستفید ہو رہے ہیں۔
8۔ شیخ الاسلام کی نئی عربی کتب
یہ حقیقت کسی سے مخفی نہیں ہے کہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مد ظلہ العالی کی خدمات کا دائرہ پوری دنیا پر محیط ہے۔ عرب دنیا کے لیے آپ کی کثیر کتب عربی زبان میں موجود ہیں، جن کی تفصیلات کا یہ مختصر مضمون متحمل نہیں ہوسکتا۔ حال ہی میں آپ کی شہرۂ آفاق کتاب ’’دہشت گردی اور فتنہ خوارج‘‘ کا عربی ترجمہ کویت کے معروف پبلشر دار الضیاء نے شائع کیا ہے۔ اس پر جامعۃ الازہر کے تحقیقی ادارے مجمع البحوث الاسلامیۃ کی مفصل تقریظ بھی موجود ہے۔
فی الوقت حضرت شیخ الاسلام کی متعدد کتب عربی زبان میں زیر تکمیل ہیں، جن کی مختصر تفصیل اِفادۂ قارئین کے لیے بیان کی جاتی ہے:
- البیان الصریح في الحدیث الصحیح
- حکم السماع عن أهل البدع والأهواء
- حسن النظر في أقسام الخبر
- الإکتمال في نشأة علم الحدیث وطبقات الرجال
- القول المتقن في الحدیث الحسن
- القول اللطیف في الحدیث الضعیف
- القواعد المهمة في التصحیح والتحسین والتضعیف عند الأئمة
- فلسفة الحروف المقطّعة (تفسیر الٓمّٓ نموذجا)
- تکوین الشخص الإنسانی في سورة السبع المثاني
- فلسفة الحیاة في الإسلام
- أیها الولد الصالح
- التکشف في أصول الولایة والتصوف
- الرقائق والحقائق
- آداب الصحبة والأخوة
اِس مختصر جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ اَہلِ عرب کے لیے حضرت شیخ الاسلام کی نئی تحقیقات بڑی کثرت سے جلد منظر عام پر آئیں گی (اِن شاء اﷲ)۔ مزید یہ کہ علاوہ تفسیرِ قرآن پر بھی آپ کا عربی زبان میں کام جاری ہے۔ آپ نے تفسیر پر ایک مبسوط مقدمہ بھی عربی زبان میں لکھا ہے جو کہ دو جلدوں میں طبع ہوگا۔ اِس کے علاوہ اپنے قلم سے عربی زبان میں جدید اُسلوب پر احادیث کی شرح کا کام بھی کررہے ہیں۔
الغرض شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری وہ ہستی ہیں جنہوں نے ایک قوم، ایک وطن یا ایک نسل کے لیے کام نہیں کیا۔؛ بلکہ انہوں نے دنیا کی ہر قوم، ہر وطن اور آئندہ آنے والی نسلوں کے لیے بے پناہ کام کیا ہے۔ انہوں نے اپنی دینی تعلیم کا آغاز مدینۃ النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کیا تھا اور آج وہ اسی فیض کو مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ اور حجاز مقدس سے لے کر عرب نسلوں بلکہ پوری دنیا کے لیے عام کررہے ہیں۔ عالم عرب میں عقیدۂ صحیحہ پر جو گرد و غبار چھا گئی ہے اور جو مغالطے و اشکالات جنم لے رہے ہیں، آپ ان تمام شکوک و شبہات کا ازالہ کررہے ہیں۔ آپ کے علم اور مساعی ہاے جمیلہ سے عقائد اِسلامیہ پر پڑی گرد دور ہورہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پوری عرب دنیا میں آپ کو نہایت احترام و توقیر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ شیخ الطنطاوی سے لے کر بعد میں آنے والے شیوخ الازہر آپ کا جتنا احترام کرتے ہیں، وہ اپنی مثال آپ ہے۔ آپ جس جگہ بھی گئے، مرکز نگاہ بن گئے۔ افغانستان میں قیامِ اَمن کے حوالے سے ترکی میں ہونے والی بین الاقوامی کانفرنسز میں بھی آپ عرب علماء و مشائخ کی توجہ کا مرکز رہے۔ شام ہو یا یمن، اردن ہو یا عراق، مصر ہو یا متحدہ عرب امارات، سعودی عرب ہو یا کویت؛ ہر جگہ آپ کو ملنے والی پذیرائی صرف اور صرف فرمانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم - یُوْضَعُ لَہُ الْقَبُوْلُ فِي الْأَرْضِ - کا فیض ہے۔ اجنبی علماء آپ سے ملاقات کے دوران بیان کرتے ہیں کہ ہم نے آپ کے دروس اور خطابات گوگل پر سنے تھے، یو ٹیوب پر دیکھے تھے، سوشل میڈیا پر دیکھے تھے۔ گویا آپ کی فکر اور علمی تحقیقات سوشل میڈیا کے ذریعے بھی پوری دنیا میں پھیل رہی ہیں۔ دنیا کی مختلف یونی ورسٹیز میں آپ کی شخصیت اور کام پر MPhil اور PhD کے مقالہ جات لکھے جارہے ہیں۔ جامعۃ الازہر اور یورپ کی جامعات میں بھی آپ پر تحقیقی کام ہورہا ہے۔ آپ کی کتب عرب علماء اپنے مدارس میں پڑھاتے ہیں۔ شام کے مفتی اعظم شیخ اسعد سعید الصاغرجی آپ کی کتاب المنہاج السوی کا باقاعدہ درس دیا کرتے تھے۔ اسی طرح جامعۃ الازہر کے شیوخ الحدیث جب اپنے تلامذہ کو اپنی اجازات اور اسناد دیتے ہیں تو آغاز شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری سے کرتے ہیں۔ وہ اپنی عالی سند شیخ الاسلام کے واسطے سے دیتے ہیں۔
یہ نکات صرف دیگ کے چند دانوں کے طور پر یہاں بیان کیے گئے ہیں۔ حق تو یہ ہے کہ صرف عرب دنیا کے لیے شیخ الاسلام کے کاموں کی وسعت اور دائرۂ کار کو بیان کرنے کے لیے یہ معدودے صفحات متحمل نہیں ہوسکتے۔ باری تعالیٰ ہمیں وقت کے اِس مجدد کی صحیح معرفت نصیب فرمائے اور آپ کے مصطفوی مشن کا سپاہی بنائے اور اس پر استقامت عطا فرمائے۔ (آمین بجاہِ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)