دین اسلام کی دو اہم عیدوں میں ایک عید الاضحی ہے، جو ذی الحجہ کی دسویں تاریخ کو عالمِ اسلام میں پورے جوش و خروش سے منائی جاتی ہے۔ اس عید کا آغاز 624ء میں ہوا۔ نبی کریمؐ کی ہجرت سے پہلے اہلِ مدینہ دو عیدیں مناتے تھے، جن میں وہ لہو و لعب میں مشغول رہتے تھے اور بے راہ روی کے مرتکب ہوتے تھے۔ آپ ؐ نے دریافت کیا کہ ان دونوں کی حقیقت کیا ہے؟ان لوگوں نے عرض کیا کہ عہدِ جاہلیت سے ہم اسی طرح دو تہوار مناتے چلے آرہے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا! اللہ تعالی نے اس سے بہتر دو دن تمہیں عطا کیے ہیں، ایک عید الفطرکا دن اور دوسرا عید الاضحی کا دن۔عیدالاضحی ایک انتہائی بامقصد اور یادگار دِن ہے، اس دِن کی دُعاؤں کی قبولیت کا عندیہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے دیا گیا ہے، لہٰذا ہمیں چاہیے کہ روزِ عید ہم سب مل کر توبہ استغفار کریں۔ زبانی نہیں، عملی توبہ۔ پروردگار کے حضور گڑگڑا گڑگڑا کر دُعا کریں، اپنی کوتاہیوں، گناہوں کی معافی طلب کریں اور اپنے رب کو راضی کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں۔ یاد رہے، دُنیا کی ابتدا ہی سے قربانی تمام مذاہب کا ایک لازمی حصّہ رہی ہے۔ یہ اللہ کے حضور جان کی نذر ہے، جو کسی جانور کو قائم مقام ٹھہرا کر پیش کی جاتی ہے۔ عیدالاضحی کے دن جانور کے گلے پر رسماً اور عادتاً چھری چلائی جائے تو بہت آسان ہے لیکن اگر اسوۂ ابراہیمی کو مدنظر رکھا جائے تو پھر اس کے لئے انسان کو پہلے ان مراحل کو سامنے رکھنا پڑتا ہے جن سے حضرت ابراہیم علیہ السلام گزرے تھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ساری زندگی مسلسل قربانیوں سے عبارت ہے۔
محبوبان الٰہی کو امتحان اور آزمائش کی سخت ترین منزلوں سے گزرنا پڑتا ہے، اور قدم قدم پر جاں نثاری، تسلیم ورضا کا مظاہرہ کرناہوتا ہے۔ امت مسلمہ کا اجماع ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بعد تمام مخلوقات میں انبیائے کرام علیہم السلام کا مرتبہ ہے، اور وہی اللہ تعالیٰ کے سب سے زیادہ قریب واقرب ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجی گئی آزمائش میں پورے اترے اور انہوں نے اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کے لئے ربّ کریم کے ہر حکم کے سامنے سر تسلیم خم کیے۔ انبیائے کرام علیہم السلام کو اشاعت دین کی محنت کے سبب امتحان وآزمائش سے دو چار ہونا پڑا، ہر نبی اور رسول کے امتحان کا انداز مختلف تھا۔ اللہ تعالیٰ کے انہیں برگزیدہ پیغمبروں میں سے ایک سیّدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں، آپ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے جلیل القدر پیغمبر اور تسلیم ورضا اور اطاعت ربانی کے پیکر تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنا خلیل (گہرا دوست) قرار دیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ساری زندگی استقامت دین کے لیے پیش کی جانے والی عظیم قربانیوں سے عبارت ہے۔ اللہ ربّ العزت کو آپ علیہ السلام کا جذبہ قربانی و استقامت اسقدر پسند آیا، کہ یہی جذبہ قربانی ہر دور کے لیے ایمانی معیار اور کسوٹی قرار دیا گیا ہے۔ آپ علیہ السلام ہر امتحان وآزمائش میں کامیاب وکامران ہوئے۔ یہاں تک کہ عقیدہ توحید بیان کرنے او ربت شکنی کی پاداش میں آپ علیہ السلام کو بادشاہ نمرود نے آگ میں ڈالا تو آپ علیہ السلام عظمت دین اور عقیدہ توحید کی سر بلندی کے لیے پوری طرح ثابت قدم رہے۔ بالآخر اللہ تعالیٰ کا فرمان مبارک جاری ہوا ہم نے حکم دیا آگ کو، اے آگ! سرد ہو جا اور ابراہیم علیہ السلام پر سلامتی والی ہو جا۔
اسلامی تاریخ جن خواتین پر فخر کرتی ہے اور جنہوں نے اپنے ایمان و یقین کی دلچسپ اورولولہ انگیز تاریخ رقم کی ان میں حضرت ہاجرہؓ کا نام اہم ہے۔ جن کی زندگی قیامت تک آنے والے انسانوں کے لیے بالعموم اور عورتوں کے لیے بالخصوص ایک پیغام اور سبق ہے۔ حضرت ہاجرہؓ حضرت ابراہیمؑ کی وفاشعار اہلیہ اور حضرت اسماعیلؑ کی عظیم ترین ماں تھی، ابنیاء کرامؑ کی فہرست میں یہ ایسا قابل ِ رشک گھرانہ ہے جس کا ہر فرد جذبہ عشق و محبت سے سرشار اور تسلیم ورضا کا پیکر تھا، اللہ تعالی کی محبت اور فنائیت میں حضرت ابراہیم ؑ، حضرت اسماعیلؑ اور حضرت ہاجرہؓ نے بڑے بڑے امتحانات دئیے اور رہتی دنیا تک ایک مثالی خاندان ہونے کی یادگار چھوڑ گئے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عیدالاضحی کے مقدس دن ایثار و قربانی کا پیکر بنائے اور زیادہ سے زیادہ مستحقین کی مدد کرنے کی توفیق دے۔