مرتبہ: نازیہ عبدالستار
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا شَیٰطِیْنَ الْاِنْسِ وَالْجِنِّ یُوْحِیْ بَعْضُهُمْ اِلٰی بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوْرًا.
(الانعام، 6: 112)
’’اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے لیے انسانوں اور جنوں میں سے شیطانوں کو دشمن بنا دیا جو ایک دوسرے کے دل میں ملّمع کی ہوئی (چکنی چپڑی) باتیں (وسوسہ کے طور پر) دھوکہ دینے کے لیے ڈالتے رہتے ہیں۔‘‘
وَذَرُوْا ظَاهِرَ الْاِثْمِ وَبَاطِنَهٗ ط اِنَّ الَّذِیْنَ یَکْسِبُوْنَ الْاِثْمَ سَیُجْزَوْنَ بِمَا کَانُوْا یَقْتَرِفُوْنَ.
(الانعام، 6: 120)
’’اور تم ظاہری اور باطنی (یعنی آشکار و پنہاں دونوں قسم کے) گناہ چھوڑ دو۔ بے شک جو لوگ گناہ کما رہے ہیں انہیں عنقریب سزا دی جائے گی ان (اعمالِ بد) کے باعث جن کا وہ ارتکاب کرتے تھے۔‘‘
باطنی خیالات، تصورات اور خواہشات جو جنم لیتے ہیں اس کے حصول کے لیے توجہ قائم ہوتی ہے۔ خواہ صحیح سمت ہو یا غلط۔ اللہ پاک غلط سمتوں سے محفوظ رکھے۔ صحیح صحت میں یکسوئی عطا فرمائے۔ ہر کام جو یکسوئی کو ختم کرے وہ شیطان کا عمل ہے۔ ہر وہ چیز جو شک پیدا کرے اور یقین کو کمزور کرے وہ عمل شیطانی ہے۔ تشکیک سے ہی انسان حق کا راستہ چھوڑتا ہے۔ اس کے داخلی و خارجی اسباب ہیں۔ جب افراد کے درمیان چپکلش ہوتی ہے اس کا اثر افکار، خیالات اور اذھان پر مرتب ہوتا ہے۔ اختلاف کسی فرد سے اس کے نکتہ نظر، اس کے رویہ سے اس کے طرز عمل سے ہوتا ہے۔ اس کا اثر اس کی اچھی سوچ پر پڑتا ہے کیونکہ دونوں خیر کی راہ پر تھے۔ لیکن باہمی اختلاف سے خیر کی راہ چھور کر شر کی راہ پر چل پڑتے ہیں۔ دوری صرف فرد سے نہیں ہوتی بلکہ دوری اچھی سوچ سے بھی ہوتی چلی جاتی ہے۔ کبھی سوچیں بندوں کو آپس میں قریب کردیتی ہیں، کبھی سوچیں بندوں کو دور کردیتی ہیں۔
اَوَمَنْ کَانَ مَیْتًا فَاَحْیَیْنٰـهُ وَجَعَلْنَا لَهٗ نُوْرًا یَّمْشِیْ بِهٖ فِی النَّاسِ کَمَنْ مَّثَلُهٗ فِی الظُّلُمٰتِ لَیْسَ بِخَارِجٍ مِّنْهَا ط کَذٰلِکَ زُیِّنَ لِلْکٰفِرِیْنَ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ.
(الانعام، 6: 122)
’’بھلا وہ شخص جو مُردہ (یعنی ایمان سے محروم) تھا پھر ہم نے اسے (ہدایت کی بدولت) زندہ کیا اور ہم نے اس کے لیے (ایمان و معرفت کا) نور پیدا فرما دیا (اب) وہ اس کے ذریعے (بقیہ) لوگوں میں (بھی روشنی پھیلانے کے لیے) چلتا ہے اس شخص کی مانند ہو سکتا ہے جس کا حال یہ ہو کہ (وہ جہالت اور گمراہی کے) اندھیروں میں (اس طرح گھِرا) پڑا ہے کہ اس سے نکل ہی نہیں سکتا۔ اسی طرح کافروں کے لیے ان کے وہ اعمال (ان کی نظروں میں) خوشنما دکھائے جاتے ہیں جو وہ انجام دیتے رہتے ہیں۔‘‘
بعض اثرات دلوں کو مردہ کردیتے ہیں۔ بعض اثرات دلوں کو زندہ کردیتے ہیں۔ زندہ دلوں میں نور آجاتا ہے وہ نور پھر دوسرے دلوں کو منتقل ہوتا ہے۔ ایک شخص کے دل کا نور بہت سے دلوں کی ظلمت کو مٹاتا اور دلوں میں نور داخل کرتا ہے۔ یہ اثرات و ثمرات ہیں۔
خطرہ کو تصوف کی اصلاح میں الخواطر بھی کہتے ہیں۔ خواطر کی چار اقسام ہیں۔
خواطر کا معنی:
خواطر سے مراد جو پیغام دل پر وارد ہوتا ہے۔ وہ ایک کال ہے جو کسی سمت آپ کو رغبت دلارہی ہے۔ خواطر ایسی چیز ہے جو بغیر ارادے کے وارد ہوتا ہے۔ یہ ایسا خیال ہوتا ہے جو دل میں اچانک آتا ہے۔
کوئی شخص اس وقت تک شر کو دفع نہیں کرسکتا جب تک شر کو پہچانے نہیں، کوئی شخص گناہ کو اس وقت تک نہیں چھوڑ سکتا جب تک اس کو معصیت کی پہچان نہ ہو کہ یہ کیا ہے جس سے اللہ نے مجھے منع کیا ہے۔ کیوں منع کیا ہے؟ اللہ کی کتنی ناراضگی ہے اس کا انجام کیا ہوگا؟ اس کے میرے دل، میرے نامہ اعمال پر کیا اثرات ہوں گے۔ دراصل ہم نے دین کو اتنا ہلکا لے لیا ہے ہم کسی چیز کو رک کر غوروفکر کے ساتھ سوچتے ہی نہیں۔ سرسری سا سنتے، پڑھنے اور سوچتے اور چلے جاتے ہیں۔ ہماری زندگی میں تعمل اور تفکر نہیں ہے۔ جب تک نقصانات کی پہچان نہ ہو تب تک برائی کی جڑ کاٹ نہیں سکتے۔ جب برائی کا قلع قمع ہوگا تب دل کی تختی پر نیکی کے ثبت ہونے کی جگہ ہوگی۔
اس لیے برے خیالات کو مٹانے کو تو تزکیہ کہتے ہیں۔ اگر دل و دماغ میں گناہوں، معصیت اور برائی کا مضامین لکھا ہوا اور نیا مضمون لکھنے کے لیے پہلے برے خیالات کو مٹانا پڑتا ہے۔ اس لیے پہلے تزکیہ ہوتا ہے پھر تصفیہ ہوتا ہے۔ پہلے جگہ کو خالی کرتے ہیں پھر اسے نیکی، تقویٰ، اطاعت و عبادت سے مزین کرتے ہیں۔ جبکہ اگر ہمارے دماغ کی تختی بدی، برائی، شر، حسد، فاحشہ کاری، لالچ، تمنا اور تکبر ان تمام برائیوں سے بھری پڑی ہے۔ خواطر نفسانی کا ہجوم ہے معصیت کاری بھی ہے۔ اس کے ساتھ ہم نمازیں بھی پڑ رہے ہیں۔ روزے اور صدقہ خیرات بھی کررہے ہیں۔ گناہ اور بدی سے بھری ہوئی تختی پر نیکیوں کی عبارت بھی لکھنا چاہتے ہیں تو اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ نماز، روزہ، صدقہ خیرات کے باوجود بندہ نہیں بدلتا وہی کا وہی رہتا ہے۔ اس کے شر و معصیت میںکمی واقع نہیں ہوتی۔ سوچوں کی تباہی میں کمی نہیں آتی۔ اس لیے اللہ کے نبی نے ہمیں کلمہ طیبہ میں پہلے لا بتا کر باطنی معبدوں کی نفی کردی۔ کوئی عبادت و پرستش کے لائق نہیں۔ سارے باطل نقش و نگار مٹادیئے۔ اس کے بعد جگہ بنی تو فرمایا الا اللہ۔ الا اللہ تب ہوتا ہے جب نفی کے پانی سے باطل نقش و نگار مٹادیتے ہیں۔ جیسے جب پینٹ کرواتے ہیں تو پہلے پچھلے رنگ کو رگڑ کر صاف کرتے ہیں پھر جو رنگ چڑھانا چاہتے ہیں کرواتے ہیں۔ زندگی کے ہر معاملے میں ایک ہی اصول ہے۔ نظام قدرت کے اندر وحدت کا رنگ ہے۔
1۔ خواطر نفسانی:
خواطر نفسانی ایک ایسا خیال ہے جو دل پر وارد ہوتاہے جس میں نفس کے لیے کوئی لذت ہوتی ہے اس کو تصوف کی اصطلاح میں ھاجز بھی کہتے ہیں۔ اگر محسوس کریں کہ میرا دل اس طرف راغب ہورہا ہے۔ سمجھ لیں کہ خواطر نفسانی آیا ہے۔ یہ انسان کے اختیار میں ہے اس خواطر کو آن کرلیں یا بلاک۔ نفس ہو یا شیطان وہ القاء کرتے ہیں اس کو سپر آرٹیفیشیل انٹیلی جنس کہتے ہیں۔
آرٹیفیشیل انٹیلی جنس دفتروں میں بیٹھے یہاں تک کام کررہے ہیں اگر آپ نے ایک چیز ایک بار دیکھی وہ ان کو آپ کے سیل فون سے پتا چل جاتا ہے اس نے یہ چیز شوق سے دیکھی ہے۔ اگلی بار آپ سیل فون کھولیں گے انہی چیزوں کی ایڈ شروع ہوجائے گی۔ سپلائی لائن شروع ہوجائے گی۔ پہلے ایک خطرہ آیا تھا پھر خواطر شروع ہوجائیں گے۔ نئی سے نئی چیزیں بھیجیں گے جس کو دیکھتے رہیں گے۔ رفتہ رفتہ دیکھنے والے کے اندر اس کی رغبت پیدا ہوجائے گی۔
نفس و شیطان کا ایک جوڑ ہوتا ہے وہ ایک خیال پھینکتا ہے وہ دیکھتا ہے۔ یہ خواطر نفسانی ہے۔
2۔ خواطر شیطانی:
اگر ایسے خیالات آئیں جس میں احکام شریعت سے بیزاری، کراہت نماز نہ پڑھنے کو دل چاہے، غفلت آجائے۔ روزے سے اکتاہٹ ہو۔ تلاوت میں رغبت نہ رہے نیکی کے کاموں سے دور بھاگیں۔
شریعت کے احکام سے تنگ، کسالت، کمزوری، غفلت پیدا ہو۔ اللہ کے احکام سے دوری ہو۔ اس طرح محسوس کریں تو سمجھ لیں خواطر شیطانی ہے۔ شیطانی خواطر ہو تو اس کو وسوس کہتے ہیں جس کا ذکر قرآن میں سورۃ الناس میں کیا ہے۔ اس طرح فرق کرسکتے ہیں کہ طبیعت کے اندر کیا تبدیلی آرہی ہے۔ پہلے تلاوت کی طرف طبیعت مائل تھی۔ اطاعت و نیکیوں کی طرف رغبت تھی۔ شریعت کے احکام کی طرف دل یکسو تھا۔ اب بے رغبتی پیدا ہورہی ہے۔غفلت آرہی ہے۔ اکتاہٹ و کراہت آرہی ہے حتی کہ طبیعت مخالفت تک چلی جاتی ہے۔یہ شیطانی خواطر ہے ہر ایک کے لیے اصول ہے پہلے خواطر نے دستک دی اس کو وہیں رد کرنا ہے وہی بلاک کرنا ہے۔ اس کو جگہ نہیں دینی ورنہ ہجوم آئے گا۔ پھر حملے آئیں گے۔ کوئی نہ کوئی چیز آپ کو پسند آجائے گی پھر آپ اس میں گزرتے چلے جائیں گے۔
سوشل میڈیا جہاں اس سے خیر کے کام لیتے ہیں شر کے اعتبار سے بھی بڑا دجالی فتنہ ہے کیونکہ انسان کے ہاتھ میں پورا گناہوں کا منبہ ہے جو شے طبیعت کو رغبت دے اس کو کھولتے چلے جاتے ہیں دیکھتے چلے جاتے ہیں۔ گناہ دیکھتے اور سنتے چلے جاتے ہیں۔ پہلے یہ خرابیاں صرف TV پر تھیں اب سوشل میڈیا کے ذریعے ہاتھ میں آگئیں۔ اس کو دیکھتے چلے جاتے ہیں حتی کہ ہلاک ہوجاتے ہیں۔ بچ نکلنے کا راستہ نہیں رہتا۔
3۔ خواطر ملکی:
اسی طرح مثبت طرف بھی دو خواطر ہیں۔ خواطر نفس دل میں خواطر ڈالتی ہے۔ باہر شیطان اس کی افواج وہ بھی خیالات دل میں ڈالتے ہیں۔ گویا داخلی حملے کے ساتھ خارجی حملے بھی ہیں۔ اس طرح دو ذرائع اللہ تعالیٰ نے آپ کو خیر کی طرف لے کر جانے کے لیے بنائے ہیں اس کا نام داخلی ہے۔داخلی کو خواطر ملکی کہتے ہیں۔ یہ فرشتوں کا الہام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر ایک انسان کے ساتھ ایک فرشتہ اور ایک شیطان بھی مقرر کیا ہے۔ فرشتہ انسان کے اندر نیکی کے خیالات ڈالتا ہے جبکہ شیطان اور نفس یُوَسْوِسُ فِیْ صُدُوْرِ النَّاسِ (الناس، 114: 5) آپ کے دل میں برا خیال ڈالتے ہیں۔ وہ جنوں میں سے بھی ہے اور انسانوں میں سے بھی ہیں۔ پھر جنات اور الناس کہا جنوں کی سمجھ آگئی کہ جنات وسوسہ ڈالتے ہیں۔ انسانوں میں سے مراد یہ ہے اللہ تعالیٰ بعض انسانوں کو ایسی طبیعتیں دیتا ہے کہ انسانوں میں ایسی تبدیلی آجاتی ہے وہ شیطانوں کا رول اختیار کرلیتے ہیں۔
قرآن کا اختتام اس بات پر ہوا کہ بھولے بھٹکے نہ رہو جتنے انسان ہیں اتنے شیطان بھی ہیں جو شک، انتشار، حق سے ہٹانے، ہدایت سے محروم کرنے کے خیالات تمہارے دل میں ڈالتے رہتے ہیں۔ اسی قدر سوسائٹی میں اعزا اقارب میں انسان بھی ہیں۔ انہوں نے بھی شیطان کا روپ دھار لیا ہے۔ وہ بھی وسوسہ ڈالتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کیا کررہے ہو یہ پرانی باتی ہیں۔ یقین کو توڑتے ہیں۔ شکوک و شبہات پیدا کرتے ہیں تذبذب میں مبتلا کرتے ہیں۔ وہ بھی شیطانوں کی طرف گھڑے میں پھینکتے اور ہلاک کردیتے ہیں۔ اس کے توڑ کے لیے اللہ رب العزت نے ملائکہ بھی رکھے ہیں وہ جو نیک خیالات انسانوں میں ڈالتے ہیں۔ اگر دین کی طرف، اطاعت و نیکی کی طرف رغبت پیدا ہوجائے سمجھ لیں کہ فرشتہ نے الہام کیا ہے۔ اس کو خاطر ملکی کہتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
فَاَلْهَمَهَا فُجُوْرَهَا وَتَقْوٰهَا.
(الشمس، 91: 8)
’’پھر اس نے اسے اس کی بدکاری اور پرہیزگاری (کی تمیز) سمجھا دی۔‘‘
4۔ خواطر ربانی:
چوتھی قسم خیر کی خواطر ربانی ہے۔ دل نیکی پر جمع جائے۔ جب اللہ کی اطاعت میں پختگی آجائے، نماز، روزہ، خیر اور اطاعت میں پختگی آجائے اور شر سے نفرت آجائے۔ گناہ اور جھوٹ سے نفرت آجائے۔ سچ بولنے میں پختگی آجائے۔ کسی صورت و ضرورت کے وقت بھی جھوٹ نہ بولیں دل، تقویٰ، طہارت، عبادت اور نیکی پر جم جائے تو اس کو خواطر ربانی کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کے ساتھ ایک فرشتہ مقرر کیا ہے۔ اللہ اس کو کہتا ہے کہ تو میرے بندے کی مدد کر۔ پھر بندے پر چھوڑ دیا جاتا ہے کہ وہ نفس کے برے خیالات کی طرف جاتا ہے۔ یا نیکی کے خیالات کی طرف جاتاہے۔
یہ معرکہ میدان جنگ ہے اس کے بعدمجاہدہ، ریاضیات اور کوششیں ہیں۔ داخلی اور خارجی مدد جو ہونی تھی وہ ہوگئی۔ اس کے بعد بندے کی محنت و کوشش ان تصور کو حدیث مبارکہ میں بیان کیا گیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ راوی ہیں۔
شیطان کا ابن آدم کے ساتھ جوڑ ہے۔ وہ اس کا قرین اور ساتھی ہے ترمذی میں ہے۔ ایک شیطان ہر ایک انسان کے ساتھ ہے۔ اس طرح ایک فرشتے کو انسان کے ساتھ جوڑا ہوا ہے۔ وہ وقتاً فوقتاً اپنا خیال ڈالتا رہتا ہے اور شیطان بھی ڈالتا رہتا ہے۔ وہ دو چیزیں القاء کرتا ہے ایک تو وہ شر کے لیے رغبت پیدا کرتا ہے، دوسرا خوف دلاتا ہے۔ حق کے بارے میں شک پیدا کرتا ہے۔ یقین کا درجہ علم کہتا ہے۔ اس میں وہ تکذیب کا عنصر شامل کرکے بندہ کو حق کا منکر بنانا چاہتا ہے۔ شک کیسے پیدا کرتا ہے۔ اس کی درجہ بندی ہے سب سے پہلے حق پر انسان کو یقین تھا۔ اس میں اس نے تھوڑی سی کمی کردی۔ پھر وہ نیچے آگیا اور یقین کا درجہ چھوٹ کیا اور ظن کے درجے پر آگیا اور یقین سے محروم ہوگیا۔ کمزور یقین آگیا پھر وہ آپ کے اندر برے خیالات ڈالتا ہے۔ پھر ظن سے گرا کر شک پر لے آتا ہے۔ شک میں آکر 50، 50 ہوجاتے ہیں راستے کے درمیان میں آگئے پھر سمجھ نہیں آتی کون سا راستہ درست ہے۔
شیطان جتنا حصہ رہ گیا ہے اس کو کمزور کرتا ہے شیطان محسوسات کے ذریعے بھی حملہ آور ہوتا ہے۔ عقل، نظریات بحث و تمحیص اور فلاسفی کے ذریعے بھی حملہ کرتا ہے۔ شیطان نے اللہ رب العزت سے وعدہ کیا ہے کہ میں سامنے سے بھی آؤں گا پیچھے سے بھی آؤں گا۔ تمہاری عقل میں اپنے فلسفے، خیالات، افکار ڈال دوں گا کہ تم برباد ہوجاؤ گے۔ دائیں سے بھی آؤں گا اور بائیں سے بھی آؤں گا۔ شہوتوں سے بھی آؤں گا اور چھپے ہوئے خیالات سے بھی آؤں گا۔ شیطان چاروں طرف سے جڑا ہوا ہے۔ وہ انکار کی طرف عوامل داخل کرتا ہے پھر زندگی کے حالات بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔ کاروبار خراب ہوگیا۔ چیزیں جڑ جاتی ہیں۔ ذہن یقین کو چھوڑ چکا ہوتا ہے۔ ظن کو چھوڑ کر شک پر آیا ہوا ہے۔ کاروبار نہیں جاب نہیں اس سے فرسٹریشن ہوتی ہے۔ انسان اپنے یقین کو زائل کرتا ہے اطاعت اور ختم ہوتی ہے۔ یکسوئی اور خراب ہوتی ہے نیکی اور ختم ہوتی ہے اس کے برعکس اور چیزیں زندگی کے اندر داخل ہوتی ہیں۔ گھر میں بیوی کے ساتھ جھگڑے، بچوں کے مسائل، جاب نہیں ہے، معاشی و سماجی کاروبار و تجارت، یہ سارے حالات و واقعات یکسوئی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ شک سے نیچے گرے تو وہم پر آگئے، بس ایک خیال سا رہ گیا۔ شیطان چاہتا ہے انکار تک لے جاؤں۔ انکار کا مطلب لاعلمی جب انسان آؤٹ ہوتا ہے۔ دل اتنا مردہ ہوچکا ہوتا ہے اس کو احساس بھی نہیں ہوتا۔ میرا کیا نقصان ہوگیا۔ فرشتہ چاہتا کہ یقین و حق کی طرح جائیں۔ شیطان چاہتا ہے شر کی طرف گریں۔ انکار کی طرف جائیں جو انسان اپنے دل کے اندر خیر کی رغبت پائے دل کو حق کے لیے تصدیق پائے۔ وہ جان لے کہ یہ کرم اللہ کی طرف سے ہوا ہے۔ اگر وہ سمجھے میرے اندر خیر کا سفر شروع ہوگیا ہے اللہ کی حمد کرے۔ اگر دوسرے کیفیت معلوم کریں شیطان سے پناہ مانگے شیطان تمہیں فقرو تنگی کا خوف دلاتا ہے۔ ظلم کی طرف لے جاتا ہے۔ معصیت و گناہ کی طرف لے جاتا ہے۔ فسق و ظلم کی طرف لے جاتا ہے۔ گناہ اور معصیت کی طرف لے جاتا ہے، غفلت کی طرف لے جاتا ہے۔