سوال نمبر: عید کی رات عبادت کرنے کی کیا فضیلت ہے؟
جواب: عید کا دن جہاں خوشی و مسرت کے اظہار اور میل ملاپ کا دن ہوتا ہے وہاں عید کی رات میں کی جانے والی عبادت کی فضیلت عام دنوں میں کی جانے والے عبادت سے کئی گنا بڑھ کر ہے۔ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ قَامَ لَیْلَتَیِ العِیْدَیْنِ مُحْتَسِبًا لِلّٰهِ لَمْ یَمُتْ قَلْبُهُ یَوْمَ تَمُوْتُ الْقُلُوْب.
(ابن ماجه، السنن، کتاب الصیام، باب فیمن قام فی لیلتی العیدین، 2: 377، رقم: 1782)
جو شخص عید الفطر اور عید الاضحی کی راتوں میں عبادت کی نیت سے قیام کرتا ہے، اس کا دل اس دن بھی فوت نہیں ہوگا جس دن تمام دل فوت ہو جائیں گے۔
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ أَحْیَا اللَّیَالِی الْخَمْسَ، وَجَبَتْ لَهُ الْجَنَّةُ: لَیْلَةَ التَّرْوِیَة، وَلَیْلَةَ عَرَفَةَ، وَلَیْلَةَ النَّحْرِ، ولَیْلَةَ الْفِطْرِ، وَلَیْلَةَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ.
(منذری، الترغیب والترهیب، 1: 182)
جو شخص پانچ راتیں عبادت کرے، اس کے لئے جنت واجب ہوجاتی ہے۔ وہ راتیں یہ ہیں: آٹھ ذو الحجہ، نو ذوالحجہ (یعنی عید الاضحیٰ)، دس ذوالحجہ، عید الفطر اور پندرہ شعبان کی رات (یعنی شبِ برات)۔
سوال نمبر: ہم نماز ادا کرتے ہیں مگر ہماری دعا قبول کیوں نہیں ہوتی؟
جواب: ہم نماز پڑھتے ہیں لیکن ہماری دعا قبول نہیں ہوتی اس کی وجہ یہ ہے کہ جو چیز ہم مانگتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ ہمارے حق میں بہتر نہیں ہوتی یا اس دعا کے عوض اللہ تعالیٰ ہم سے دنیا و آخرت کی کوئی بلا ٹال دیتا ہے۔ یا اللہ تعالیٰ کے نزدیک ابھی اس چیز کی عطا کا وقت نہیں آیا وہ اس کو مؤخر کر دیتا ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ تین سو سال بعد قبول ہوئی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کی دعا مانگی جو دو ہزار سال بعد پوری ہوئی یا اس دعا کے عوض آخرت میں اجر عطا فرماتا ہے۔ یہ امور اس وقت مرتب ہوتے ہیں۔ جب بندہ مسلسل بغیر کسی گلے شکوے کے دعا کرتا رہے۔
حضرت ابراہیم بن ادہم رحمۃ اللہ علیہ اس کا جواب بڑے حسین پیرائے میں دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
اُدْعُوْنِی اَسْتَجِبْ لَکُمْ.
(الغافر، 40: 60)
تم مجھ سے دعا کرو میں قبول کروں گا۔
ہم دعا کرتے ہیں مگر قبول نہیں کی جاتی اس کی وجوہات یہ ہیں:
عرفتم الله ولم تؤدوا حقه.
تم نے اللہ تعالیٰ کو پہچانا مگر اس کی اطاعت نہ کی۔
قرأتم القرآن ولم تعملوا به.
تم نے قرآن کریم پڑھا مگر اس پر عمل نہ کیا۔
ادعیتم حب رسول الله ﷺ وترکتم سنته.
تم نے محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دعویٰ کیا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت چھوڑ دی۔
ادعیتم عداوة الشیطان و وافقتموه.
تم نے شیطان کے دشمن ہونے کا دعویٰ کیا مگر پھر اُسی کی موافقت کی۔
قلتم: إنکم تحبون الجنة و لم تعملوا لها.
جنت کی محبت کا دعویٰ کیا مگر اس کے لیے عمل نہ کیا۔
قلتم: تخاف النار وذهبت أنفسکم بها.
تم نے کہا کہ تم نارِ دوزخ سے ڈرتے ہو مگر تم اپنی جانوں کو اسی طرف لے کر گئے۔
سوال نمبر: نمازِ حاجت ادا کرنے کا طریقہ کیا ہے؟
جواب: حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سے یا مخلوق میں سے کسی سے کوئی حاجت در پیش آئے تو وہ وضو کر کے دو رکعت نماز ادا کرے اور پھر یہ دعا پڑھے:
لَا إِلٰہَ إِلَّا اللهُ الْحَلِیْمُ الْکَرِیْمُ، سُبْحَانَ اللهِ رَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ، الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ، اَللَّهُمَّ إِنِّیْ أَسْأَلُکَ مُوْجِبَاتِ رَحْمَتِکَ وَعَزَائِمَ مَغْفِرَتِکَ وَالْغَنِیْمَةَ مِنْ کُلِّ بِرٍّ وَالسَّلَامَةَ مِنْ کُلِّ إِثْمٍ، أَسْأَلُکَ أَنْ لَاتَدَعَ لِیْ ذَنْبًا إِلَّا غَفَرْتَهُ وَلَا هَمًّا إِلَّا فَرَّجْتَهُ وَلَا حَاجَةً هِیَ لَکَ رِضًا إِلَّا قَضَیْتَهَا لِی.
(ابن ماجه، السنن، کتاب إقامة الصلاه والسنة فیها، باب ما جاء فی صلاةِ الحاجة، 2: 171-172، رقم: 1384)
اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ برد بار بزرگ ہے بڑے عرش کا مالک، اے اللہ تیری پاکیزگی بیان کرتا ہوں، تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے، (اے اللہ!) میں تجھ سے تیری رحمت کے ذریعے بخشش کے اسباب، نیکی کی آسانی اور ہر گناہ سے سلامتی چاہتا ہوں، میرے تمام گناہ بخش دے میرے جملہ غم ختم کر دے اور میری ہر وہ حاجت جو تیری رضا مندی کے مطابق ہو پوری فرما۔
پھر اللہ تعالیٰ سے دنیا و آخرت کی جس بات کی طلب ہو سوال کرے وہ اس کے لیے مقدر کر دی جاتی ہے۔
2۔ ترمذی، ابن ماجہ، احمد بن حنبل، حاکم، ابن خزیمہ، بیہقی اور طبرانی نے بروایت حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ بیان کیا ہے: حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک نابینا صحابی کو اس کی حاجت برآری کے لیے دو رکعت نماز کے بعد درج ذیل الفاظ کے ساتھ دُعا کی تلقین فرمائی جس کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے اس کی بینائی لوٹا دی۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع میں اپنی حاجت برآری کے لیے اسی طریقے سے دو رکعت نماز کے بعد دعا کرتے تھے:
اَللّٰهُمَّ! إِنِّی أَسَأَلُکَ وَ أَتَوَجَّهُ إِلَیْکَ بِمُحَمَّدٍ نَبِیِّ الرَّحْمَةِ یَا مُحَمَّدُ! إِنِّی قَدْ تَوَجَّهْتُ بِکَ إِلٰی رَبِّی فِی حَاجَتِی هٰذِهِ لِتُقضَی، اَللّٰهُمَّ! فَشَفِّعْهُ فِیَّ.
(ابن ماجه، السنن، کتاب إقامة الصلاة والسنة فیها، باب ماجاء فی صلاة الحاجة، 2: 172، رقم: 1385)
اے اللہ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور تیری طرف توجہ کرتا ہوں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے، اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں آپ کے وسیلے سے اپنے رب کی بارگاہ میں اپنی حاجت پیش کرتا ہوں کہ پوری ہو۔ اے اللہ میرے حق میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت قبول فرما۔