انسانیت سے محبت اور عدمِ تشدد

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

عالمی میلاد کانفرنس (مینار پاکستان لاہور) میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا خصوصی خطاب

ترتیب و تدوین: محمد حسین آزاد الازہری، معاونت: ملکہ صبا

3 جنوری 2015ء کو مینار پاکستان کے گراؤنڈ میں 31 ویں عالمی میلاد کانفرنس کے عظیم الشان اجتماع سے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے خصوصی خطاب فرمایا۔ جس کی اہمیت کے پیش نظر ایڈٹ کرکے قارئین کی نظر کیا جارہا ہے۔ جو قارئین مکمل خطاب سماعت کرنا چاہتے ہیں وہ CD#2160 کو سن سکتے ہیں۔ (منجانب: ادارہ دختران اسلام)

آج کی شب میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گفتگو کا موضوع ’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کے کچھ اہم تقاضے ہیں جن میں ایک تقاضا ’’انسانیت سے محبت اور عدم تشدد‘‘ ہے جو آج بیان کررہا ہوں۔ اس موضوع کی اہمیت نہ صرف پاکستان کے لئے بلکہ اقوام عالم کے لئے یکساں ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:

وَمَآ اَرْسَلْنٰـکَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِيْنَ.

’’اور (اے رسولِ محتشم!) ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر‘‘۔

(الانبياء:107)

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس آیت کریمہ میں تمام کائنات کے لئے سراپا رحمت قرار دیا گیا یہی وجہ ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کیا گیا۔ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! آپ پر جو پتھر برسانے والی قوم ہے (مشرکین و کفار) اس کے لئے بددعا کریں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

’’میں بددعا کرنے والا بن کر مبعوث نہیں ہوا بلکہ میں تو سراپا رحمت بن کر مبعوث ہوا ہوں‘‘۔

اسی طرح دوسری روایت کے الفاظ ہیں:

انما بعثت رحمة ولم ابعث عذابا.

’’میں سراپا رحمت بناکر بھیجا گیا ہوں اور کسی کے لئے عذاب یا اذیت بناکر نہیں بھیجا گیا‘‘۔

یہاں سے دو تصورات واضح ہوتے ہیں جن کو میں نے اپنے موضوع کے طور پر بیان کیا ہے۔ ایک یہ کہ آقا علیہ الصلوۃ والسلام کی سیرت طیبہ اور تعلیمات کا نچوڑ ’’انسانیت سے محبت کرنا ہے‘‘ اور دوسرا زندگی کو عدم تشدد کی راہ پر گزارنا ہے۔ یہ آقا علیہ الصلوۃ والسلام کی سیرت طیبہ ہے۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہی کلمات مختلف مواقع پر فرمائے ہیں جنہیں حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے سنن ابی داؤد میں بیان فرمایا ہے۔ علاوہ ازیں حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ نے بھی روایت کیا ہے جن کے کلمات ہیں:

انما بعثنی رحمة للعالمين.

’’مجھے تو صرف اور صرف تمام دنیاؤں کے لئے اور تمام طبقات خلق کے لئے رحمت بناکر بھیجا ہے‘‘۔

یعنی میں ساری مخلوقات کے لئے سراپا امن اور محبت ہوں۔

اسی طرح امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں:

ان الله بعثنی رحمة للعالمين وهدی للعالمين.

’’بے شک اللہ رب العزت نے مجھے (بلا تفریق رنگ و نسل، مذہب، طبقہ، امراء و غربائ) سب کے لئے محض رحمت اور ہدایت بناکر بھیجا ہے‘‘۔

آقا علیہ الصلوۃ والسلام کی ذات، آپ کا جسم اطہر، آپ کی روح مبارک، آپ کا وجود مسعود خود پوری کائنات اور انسانیت کے لئے محبت، شفقت، ہدایت اور امن ہے۔ جس میں تشدد، جبر، زیادتی، ظلم اور اذیت کا کوئی گزر نہیں ہے اور یہی اسلام کی تعلیمات کا نچوڑ اور خلاصہ ہے۔

حضرت عطاء بن یسار رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے ملا اور میں نے پوچھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں جو کچھ قرآن میں اترا ہے وہ بھی ہم سنتے اور پڑھتے ہیں اور آقا علیہ الصلوۃ والسلام وقتاً فوقتاً خود جو کچھ ارشاد فرماتے ہیں۔ اپنی ذات اقدس، صفات عالیہ اور اپنے احوال و شان کے بارے میں وہ بھی ہم سنتے رہتے ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ ، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ان صفات کا ذکر کریں جس کا بیان پہلی کتابوں میں آیا ہے جو پہلے انبیاء و رسل پر اتری ہیں۔ خاص طور پر تورات میں جو موسیٰ علیہ السلام پر اتری تھی۔

حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے پھر تورات میں جو آقا علیہ الصلوۃ والسلام کا ذکر آیا اور آپ کی شان اور سیرت طیبہ جو اس میں تحریر تھی اس کے کئی پہلو بیان کئے۔ انہیں میں سے میں آج ایک جز بیان کررہا ہوں۔ انہوں نے فرمایا: آقا علیہ الصلوۃ والسلام کی یہ شان آپ کی آمد سے صدیوں پہلے تورات میں نازل ہوئی وہ یہ تھی:

’’پیغمبر آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ترش رو نہیں ہوں گے یعنی چہرہِ اقدس پر سختی و ترشی نہ ہوگی اور نہ آپ کے کلمات میں بھی کوئی ترشی و سختی ہوگی، نہ آپ سنگدل ہوں گے اور گلی کوچوں میں جاکر جب بات کریں گے تو شور مچانے والے نہیں ہوں گے، کوئی اگر ان سے زیادتی کرے گا تو اس کا بدلہ بھی برائی سے نہ دیں گے بلکہ اچھائی سے دیں گے۔ وہ معاف کرنے والے اور عفوودرگزر کرنے والے ہوں گے اور وہ انسانیت کے ہر فردو طبقہ سے محبت کریں گے‘‘۔

اس مضمون کو میں نے آج اسی لئے منتخب کیا ہے کیونکہ اس وقت سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی کا ملک پاکستان کو درپیش ہے اور ضرورت ہے کہ پوری قوم کو اس وقت یکجا اور یکجہت کیا جائے اور یہ واضح کیا جائے کہ اسلام کیا ہے؟ سیرت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا ہے؟ میلاد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پیغام کیا ہے؟ اور آج کی رات کی تعلیم کیا ہے؟ وہ ’’انسانیت سے محبت اور عدم تشدد‘‘ ہے جو شخص بے گناہ انسانیت کا قتل کرتا ہے۔ بچوں، عورتوں، بوڑھوں، مریضوں، جوانوں اور ڈاکٹروں کا خون بہاتا ہے اور وہ یہ سمجھتا ہے کہ اسلام کی خدمت کررہا ہے، وہ اسلام کی خدمت نہیں کررہا وہ کفر کی خدمت کررہا ہے۔ وہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین سے بغاوت کررہا ہے۔ وہ دین اسلام اور انسانیت کا دشمن ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ یہ دین کا یہ تصور واضح ہوکہ اسلام اور سیرت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں تشدد کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ اس کے برعکس اسلام کی تعلیمات تو انسانیت سے محبت ہے۔

متفق علیہ حدیث میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ ہم ایک غزوہ میں تھے تو میدان جنگ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے خبر دی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! کچھ عورتیں اور کچھ بچے بھی قتل ہوگئے ہیں جو کہ کافر تھے۔ آقا علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا: خبردار! میدان جنگ میں بھی کافروں کے عورتوں اور بچوں کو قتل نہیں کر سکتے‘‘۔

جبکہ آج پاکستان کی صورت حال یہ ہے کہ سکولوں کے اندر پڑھتے ہوئے اپنی قوم کے بچوں کو قتل کردیں اور سمجھیں کہ یہ جہاد ہے۔ اسی طرح شہریوں کو قتل کرکے سمجھیں جہاد ہے۔ یہ ہرگز جہاد نہیں ہے۔ آقا علیہ الصلوۃ والسلام کو انسانیت سے اس قدر محبت ہے کہ میدان جنگ میں بھی کافروں کی عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے سے سختی سے منع فرمایا ہے۔ پھر اس سے بھی عجیب تر بات یہ ہے کہ آقا علیہ الصلوۃ والسلام کی انسانیت سے محبت کا عمل دیکھنے والا ہے وہ یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سے فرمایا:

’’دیکھو جب تم نماز پڑھاؤ (امامت کراؤ خاص طور پر عشاء کی نماز) تو چھوٹی سورتیں پڑھا کرو اس لئے کہ تمہارے پیچھے دن بھر کے تھکے ہوئے بوڑھے لوگ بھی کھڑے ہوں گے، ضعیف وکمزور بھی ہوں گے، بیمار بھی ہوں گے، پچھلی صفوں پر عورتیں اور بچے بھی ہوں گے۔ وہ تھک جائیں گے لہذا (آقا علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ) اللہ کی نماز میں قرآن مجید کی قرات کو مختصر کرلو تاکہ کمزور، بوڑھوں، بچوں، عورتوں کو نماز کی حالت میں بھی تکلیف نہ پہنچے۔‘‘

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آقا علیہ الصلوۃ والسلام اپنا عمل بیان کرتے ہیں:

’’میں خود نماز شروع کرتا ہوں (جماعت کراتا ہوں) اور تم (صحابہ رضی اللہ عنہ ) میرے پیچھے کھڑے ہوتے ہو اور میری خواہش ہوتی ہے کہ لمبی قرات کروں مگر عین اس وقت مجھے پیچھے کسی بچے کے رونے کی آواز آتی ہے اور جب بچے کے رونے کی آواز سنتا ہوں تو میں اپنی خواہش کو روک کر قرآن مجید کی قرات کو مختصر کر دیتا ہوں اس خیال سے کہ اگر میں نے لمبی قرات جاری رکھی اور بچہ روتا رہا تو اس کی ماں کو تکلیف ہوگی جو پیچھے صف میں باجماعت کھڑی ہے‘‘۔

یہ وہی بچے ہیں جنہیں ہم بے دریغ قتل کرتے ہیں، یہ وہی عورتیں ہیں جنہیں قتل کیا جاتا ہے۔ اس دہشت گردی کے معاشرے میں اس وقت پوری قوم پر امتحان کا وقت ہے۔ سیاسی جماعتیں، پارلیمنٹ اور خاص طور پر افواج پاکستان پر امتحان کا وقت ہے۔ لہذا حکمران اور خاص طور پر آرمی فیصلہ کرے جن میں جنرل راحیل شریف اور انکی پوری ٹیم اور تمام جنرل اور فوجی جوان شامل ہیں کہ وہ اس ملک کو پرامن اور عدم تشدد کا معاشرہ بنانا چاہتے ہیں یا اس ملک کو ہمیشہ کے لئے دہشت گرد معاشرہ بنانا چاہتے ہیں۔ وہ امن و سکون چاہتے ہیں یا پھر دہشت گردی اور قتل و غارت گری چاہتے ہیں، وہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی راہ پر چلنا چاہتے ہیں یا رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات سے بغاوت کرنا چاہتے ہیں۔ یہاں کسی کے قدم ڈگمگا نہ جائیں خواہ فوجی ہوں یا غیر فوجی، سیاست میں ہوں یا پھر پارلیمنٹ میں ہوں یا مذہبی جماعت میں ہوں۔ یہ فیصلے کا وقت ہے۔ اگر اب بھی لچک دکھادی گئی اور دہشت گردی کو اس ملک میں برقرار رکھا گیا اور دہشت گردوں کے بچاؤ کے راستے نکال لئے گئے تو اس ملک کا خدا حافظ ہے۔

پھر سوال ہوا کہ 1947ء میں یہ ملک کیوں بنایا گیا تھا؟ دہشت گردوں کے لئے! انسانیت کے قتل کے لئے! اب تک جو قدم اٹھ رہے ہیں افواج پاکستان اس پر قائم و دائم سینہ سپر نظر آتی ہیں۔ میں ان کی حوصلہ مندی پر مبارکباد پیش کرتا ہوں، سیاسی جماعتیں خوشی سے یا نہ خوشی سے، مجبوری سے یا رضا مندی سے تعاون کررہی ہیں۔ مبارکباد انہیں بھی دیتا ہوں مگر دہشت گردی پر سیاست کا کھیل نہیں ہونا چاہئے ورنہ دنیا ہم پر لعنت بھیجے گی۔ اس لئے میں نے چاہا کہ آج کی رات پوری قوم کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت طیبہ کا پیغام پہنچاؤں کہ ہم اس رسول کے امتی ہیں جو بچوں اور عورتوں کی تکلیف کے پیش نظر اپنی نماز یعنی اللہ کی عبادت کو مختصر کرلیتے تھے کہ ان کو اتنی تکلیف بھی نہ ہو کہ بچے نہ روئیں۔ ہم اس معاشرے میں (جہاں اللہ کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بچے کا رونا گوارہ نہیں کرتا اور اس کی وجہ سے اس کی ماں کا تڑپنا گوارہ نہیں کرتا) بچوں اور عورتوں کو سرعام قتل و غارت گری کا مرکز بنارہے ہیں۔ سوچو سانحہ پشاور کے والدین کے دل پر کیا قیامت گزری ہوگی۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے 14 شہداء کے لواحقین کے دل پر کیا گزرا ہوگا۔ وہ بھی دہشت گردی تھی یہ بھی دہشت گردی ہے اور 50,000 پاکستان کے بے گناہ لوگوں کی جانیں جاچکی ہیں ان کے گھرانوں پر کیا بیتا ہوگا اور بیت رہا ہے۔ قوم منتظر ہے اس معاشرے کو دیکھنے کے لئے جس کے لئے پاکستان بنا تھا۔

اگر ہم دہشت گردی سے اپنے ملک کو پاک نہیں کرسکتے تو اس پاکستان کے رہنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ کوئی جواز نہیں ہے پھر ہم منافق ہیں، ہم دھوکے باز ہیں۔ ہم دجل وفریب کررہے ہیں اللہ اور اس کے رسول سے، دین اسلام، پاکستان اور انسانیت سے۔ مگر اس کے برعکس اگر ہم دہشت گردی سے ملک کو بچانا چاہتے ہیں تو اس کے لئے ہمیں دہشت گردی کو جڑ سے اکھیڑ کر پھینکنا ہوگا اور ایسا معاشرہ دینا ہوگا جس میں انسانیت کا احترام ہو اور عدم تشدد ہو، اس کے لئے سخت عزم، سخت ارادہ اور سخت عمل کی ضرورت ہے۔

حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

’’جس شخص نے کسی اسلامی ملک کے اندر غیر مسلم کو قتل کردیا۔ وہ شخص قتل کرنے والا (خواہ داڑھی رکھے، پگڑی باندھے، 5 وقت کی نماز پڑھے) کبھی بھی جنت کی خوشبو نہیں سونگھے گا اور آقا علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا: اسے دوزخ کی آگ (جہنم) میں پھینکا جائے گا اور اس پر جنت کو حرام کردیا گیا ہے‘‘۔

یہ حدیث غیر مسلم شہری کو قتل کرنے پر ہے کیونکہ وہ گھر سویا ہوا تھا یا کام کاج کررہا تھا، گرجا میں تھا یا معبد میں تھا، وہ آپ کے ساتھ لڑائی نہیں کررہا۔ لہذا اس کی زندگی کی حفاظت اتنی ہی ضروری تھی جتنی کسی مسلمان شہری کی۔

اب میں ان جوانوں کو بتانا چاہتا ہوں جنہیں دھوکا دیا گیا ہے کہ تمہیں جنت ملے گی، تمہیں حوریں ملیں گی۔ کونسی حوریں وہ کہاں سے آئیں گی؟ کونسی جنت؟ حالانکہ جس کا نام قرآن و حدیث میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جنت رکھا ہے وہ تو بے گناہ شہریوں (چاہے غیر مسلم ہوں) کو قتل کرنے والے پر حرام ہے تمہیں کونسی جنت کا وعدہ دے رکھا ہے؟ ان لوگوں نے جنہوں نے تمہیں اس راہ پر ڈالا ہے۔ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تو اللہ رب العزت کی طرف سے اعلان کردیا ہے کہ بے گناہ انسانوں کے قتل کرنے والوں پر خواہ وہ غیر مسلم ہی کیوں نہ ہوں۔ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جنت تو حرام ہے اور حوریں بھی جنت میں رہتی ہیں بلکہ ایسے قاتلوں کے لئے دوزخ واجب ہے۔

وہ جوان جن کو غلط فہمی دی گئی اور گمراہ کیا گیا کاش میری باتیں ان تک کوئی پہنچائے، جو پھسل گئے اس راہ سے جھوٹی تعلیمات کے ذریعے آقا علیہ الصلوۃ والسلام نے تو یہاں تک فرمادیا کہ جنت کی خوشبو 40 میل کی مسافت تک آئے گی اور ایک حدیث میں ہے کہ 80 میل تک جنت کی خوشبو آئے گی اور قاتل وہ بھی سونگھنے کے قابل نہیں ہوگا یعنی اسے جنت کے 80 میلوں کے قریب بھی پھٹکنے نہیں دیا جائے گا۔ یہ تو ہوگئی زندہ انسانوں کی بات، اسلام تو مردہ انسانوں کی بھی تکریم کی تعلیم دیتا ہے۔ دین اسلام نہ صرف مسلم مردہ انسانوں کی بلکہ غیر مسلم مردہ انسانوں کی بھی تکریم کی تعلیم دیتا ہے۔ یہ تعلیم پاکستان کے نصابات میں بھی شامل ہونی چاہئے۔

میں موجودہ پارلیمنٹ، گورنمنٹ اور سیاسی جماعتوں سے مطالبہ کرتا ہوں اور آرمی چیف سے مطالبہ کرتا ہوں جو اب مسلسل اس پورے Process  کا حصہ ہیں کہ نصابات میں تبدیلیاں کی جائیں۔ خواہ مدرسہ کا نصاب ہو یا سکول کا نصاب ہو، کالج کا ہو یا یونیورسٹی کا ہو کیونکہ کسی کے نصاب میں بھی امن نام کا کوئی باب قائم نہیں۔ اسی طرح جہاد کیا ہے؟ فساد کیا ہے؟ اس پر کوئی Chapter نہیں ہے۔ اسی طرح انسانیت سے محبت پر کوئی Chapter نہیں ہے۔ عدم تشدد اور برداشت پر کوئی تعلیم و تربیت نہیں ہے۔ غیر مسلموں کے حقوق پر بھی کوئی تربیت نہیں ہے، قتل و غارت گری اور دہشت گردی کی مذمت پر بھی کوئی باب نہیں ہے۔ آج کل کی نسل کو کچھ اصلاح و تربیت کے لئے نہیں پڑھایا جاتا لہذا آپ لیڈروں سے کیا توقع کرتے ہیں جنہوں نے اس قوم کو کھیل تماشے اور دھوکے میں مبتلا کر رکھا ہے۔ یہ کیسا نظام تعلیم ہے؟ جس میں انسانیت ہی نہیں سکھائی جارہی۔

یہی وجہ ہے کہ یہ قوم اخلاق باختگی کا شکار ہورہی ہے۔ اب میں جو کچھ آپ کو بتارہا ہوں یہ قرآن و حدیث سے ثابت ہے کیونکہ اگر کسی معاشرے میں اسلام کے خلاف بغاوت پیدا ہوتی ہے تو اس قوم کے بچوں کو پڑھایا جائے کہ اصل اسلام کیا ہے تاکہ ان کو کوئی گمراہ نہ کرسکے۔

صحیح بخاری و صحیح مسلم کی کتاب الجنائز میں یہ حدیث ہے:

’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس سے جنازہ گزرا آپ جنازہ کو دیکھ کر (میت کی تکریم میں) کھڑے ہوگئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا گیا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! جس جنازہ کے لئے آپ کھڑے ہوئے ہیں یہ یہودی کا جنازہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا یہ انسان نہیں تھا؟ (یعنی میں نے انسانی جان کی تکریم کی ہے)

انسانی جان کی تکریم مرنے کے بعد بھی ہورہی ہے اور ہم زندہ انسانوں کی تکریم کا معاشرہ نہیں بناسکتے۔ وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو میدان جنگ میں عورتوں کو قتل کرنے سے منع کرتے ہیں اس رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام لینے والے حکمران انہوں نے اپنی پولیس کے ذریعے ماڈل ٹاؤن میں اس قوم کی دو مائیں، دو بیٹیاں جو دروازے پر کھڑی تھیں کو سامنے سیدھی گولیاں مار کر شہید کردیا اور پیٹ میں جو بچہ تھا اس کو بھی شہید کردیا اور بوڑھوں کو سفید داڑھی کے بالوں سے پکڑ کر گھسیٹا گیا۔ یہ کس منہ سے آقا علیہ الصلوۃ والسلام سے شفاعت طلب کریں گے؟ جب حکمران ایسا کریں گے تو وہاں کے عوام کیا کریں گے؟

صحیح بخاری و صحیح مسلم کی ایک اور حدیث میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ایک خاتون تھی اس نے بلی پال رکھی تھی۔ کسی وجہ سے اس بلی کو اس نے باندھ دیا اور اور اسے نہ کھلایا نہ پلایا اور نہ کھلا چھوڑا کہ خود جاکر کھاپی لے اور جان بچالے حتی کہ بلی اس اذیت سے مرگئی۔ لہذا صرف بلی کی جان لینے کی وجہ سے اس عورت کو دوزخ میں پھینک دیا گیا۔

آقا علیہ الصلوۃ والسلام آج کی رات رحمۃ للعالمین بن کر دنیا میں آئے اور انسانیت اور کائنات کے لئے کیا پیغام لے کر آئے؟ کیا دین لائے؟ کیا Message لائے؟ کیا اسوہ حسنہ لائے؟

صحیح بخاری و صحیح مسلم کی ایک اور حدیث میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:

ایک کتا ایک کنویں کے اردگرد گھوم رہا تھا۔ اسے سخت پیاس لگی ہوئی تھی۔ قریب تھا کہ پیاس سے مرجاتا۔ بنی اسرائیل کی ایک بدکار عورت نے (جو دوزخ کی حقدار تھی) دیکھا کہ کتا پیاسا ہے اور شاید مرجائے گا اس نے اپنا موزہ اتارا اور اس سے کنویں کا پانی بھرلیا پھر وہ پانی کتے کو پلایا جس کی وجہ سے کتے کی جان بچ گئی۔ آقا علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا: وہ بدکار عورت تھی صرف ایک کتے کی جان بچانے کی وجہ سے اللہ رب العزت نے اس کی بخشش کردی اور جنت مقدر کردی۔

بلی پر ظلم کیا تو دوزخ نصیب ہوئی، کتے کی جان بچائی تو جنت ملی، یہ ہے اسلام کا تصور رحمت، امن اور عدم تشدد۔اسی طرح حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا تو کچھ لڑکے مرغی کو باندھ کر نشانہ لگارہے تھے (تیر اندازی یا پتھر بازی کررہے تھے) انہوں نے یہ منظر دیکھا تو انہیں دیکھ کر لڑکے منتشر ہوگئے۔ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ یہ لڑکے کیا کررہے تھے۔ آپ کو بتایا گیا کہ یہ مرغی کو باندھ کر تیر اندازی کررہے تھے۔ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ فرمانے لگے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسا کرنے والوں پر لعنت فرمائی ہے کہ ’’جس نے جانور پر تیر اندازی کرکے اذیت دی اس پر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی لعنت ہے‘‘۔

اسی طرح ایک اور حدیث صحیح بخاری، ترمذی اور نسائی میں ہے:

آقا علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا: جانور ہو، پرندہ ہو، انسان ہو جس میں بھی روح ہے اس طرح پکڑ کر اس کو ہدف بنانا اور اس کو مارنا اس پر اللہ اور اس کے رسول کی لعنت ہے اور جس پر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی لعنت ہو اس پر جنت حرام اور دوزخ واجب ہوجاتی ہے۔

اس سے اگلی حقیقت اور اصل بات یہ ہے اس قوم کو دین اسلام کی اصل شکل دکھانے والا کوئی نہیں ہے۔ اگر آج مدارس، سکولز، کالجز، یونیورسٹیز حتی کہ پارلیمنٹ اور سیاسی جماعتوں میں بھی دہشت گردی کو ختم کرنے کی سوچ ہوتی تو کب کی قانون سازی ہوچکی ہوتی اور پاکستان کا قانون کبھی بھی دہشت گردوں کو تحفظ نہ دیتا جس کے باعث فوجی عدالتیں بنانے کی ضرورت نہ رہتی لہذا فوجی عدالتوں نے ثابت کردیا ہے کہ یہ نظام فیل ہوچکا ہے۔ اگر پاکستانی عوام اس مردہ لاش کے ساتھ چلنا چاہتے ہیں تو چلتے رہیں۔ اس نظام نے نہ Deliver  کیا نہ کر رہا ہے اور نہ کرے گا۔ یہ نظام طاقتوروں، غنڈوں اور دہشت گردوں کے لئے ہے۔ یہ نظام مزدوروں، کمزوروں، مجبوروں اور بے کسوں کے لئے نہیں ہے لہذا پاکستانی عوام کو اس نظام کو بدلنا ہوگا۔

حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کسی سفر پر جارہے ہیں اور آقا علیہ الصلوۃ والسلام آگے ہیں تو دیکھا کہ ایک جگہ بہت ساری چیونٹیاں تھیں (ان کا مسکن تھا) تو کسی نے آگ لگادی تاکہ چیونٹیاں مرجائیں اور لوگوں کے گزرنے کے لئے راستہ صاف ہوجائے۔ آقا علیہ الصلوۃ والسلام نے پوچھا: ان چیونٹیوں کو کس نے آگ لگادی؟ ایک شخص کھڑا ہوا اور عرض کی: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں نے لگائی ہے۔ آقا علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا: ’’خبردار! اس آگ کو فوراً بجھا دو کیونکہ ان کا خالق و مالک ان کا رب ہے اور رب کے علاوہ کسی کو بھی انہیں ایذا دینے کا حق نہیں ہے‘‘۔

اسی طرح یہ بھی منع ہے کہ بم باندھ کر خودکش حملہ آور خود کو بھی آگ لگائے اور دوسروں کو بھی جلادے۔ یہ سب کچھ کفر ہے اور اسلام سے بغاوت ہے۔ لہذا پورے پاکستان کی مسجدوں سے دہشت گردی کے خلاف کتاب و سنت کی صدائیں بلند ہونا چاہئیں اور عدم تشدد کا پیغام عام ہونا چاہئے اور دہشت گردوں کی کھل کر مذمت ہونی چاہئے۔

صحیح مسلم کی حدیث مبارکہ میں ہے کہ ایک گدھا کھڑا تھا اس کے پاس سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گزرے اس کے مالک نے گدھے کے منہ کو آگ لگاکر داغا ہوا تھا۔ آقا علیہ الصلوۃ والسلام گدھے کو دیکھ کر کہا: اس شخص پر اللہ کی لعنت ہو جس نے گدھے کے منہ کو آگ لگاکر داغا ہے۔

اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ گدھے کے بھی جسم کے حصے کو داغ نہیں سکتے، اذیت نہیں دے سکتے، ٹارچر نہیں کرسکتے جبکہ آج یہاں پوری سوسائٹی ٹارچر میں ہے۔ جس کو چاہے ٹارچر کرسکتا ہے۔ اس کو چاہے انفرادی طور پر ماردے یا پھر اجتماعی طور پر مارے، عوام کو مار دے یا پھر سکول کے بچوں کو ماردے یا پھر عورتوں کو ماردے پولیس آکر ماردے یا پھر دہشت گرد ماردے سارا معاشرہ اس وقت دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے۔ ہمیں اس لعنت سے نجات پانی ہے وگرنہ اس ملک کے برقرار رہنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ خدا کا عذاب اترے گا۔

حدیث صحیح میں حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آقا علیہ الصلوۃ والسلام ایک آدمی کے پاس سے گزرے۔ دیکھا کہ ایک آدمی ایک بھیڑ کو ذبح کررہا ہے (آقا علیہ الصلوۃ والسلام کھڑے ہوگئے) اور دیکھتے ہیں کہ اس نے پہلے بھیڑ کو گراکر اس کی گردن پر اپنا پاؤں رکھا ہوا تھا (جس کی وجہ سے) اس کی چیخیں نکل رہی تھیں۔ اس کے بعد وہ چھری تیز کررہا تھا۔ آقا علیہ الصلوۃ والسلام نے اس شخص کو ڈانٹا اور فرمایا: ظالم! اس کو گرانے اور اس کی گردن پر پاؤں رکھنے سے پہلے تم یہ کام نہیں کرسکتے تھے تم کئی موتیں دینا چاہتے ہو۔ (ایک موت وہ جو تم گردن پر پاؤں رکھ کر دے رہے ہو، دوسری وہ جو تم اس کے سامنے چھری تیز کررہے ہو اور تیسری وہ جو اس کی گردن ذبح کرکے کرو گے)۔ یہ ہے اخلاق، یہ ہے دین اسلام، یہ ہے سیرت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، یہ ہے سنت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، یہ ہے کردار رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔ ایسے معاشرے کے لئے پاکستان بنایا گیا تھا ہمیں ایسا ہی معاشرہ چاہئے۔

صحاح ستہ میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ آقا علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا جب تم کسی بکرے کو (جانور کو) ذبح کرنے لگو تو اس کے ذبح کرنے سے پہلے چھری کو خوب تیز کرلیاکرو (کُند چھری سے ذبح نہ کرو کیونکہ وہ زیادہ تڑپے گا اور زیادہ اذیت ہوگی) اور فرمایا: چھری کو اس کی آنکھوں کے سامنے تیز نہ کرو بلکہ پہلے کرلیا کرو‘‘۔

اس سے اندازہ کریں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کیا سیرت طیبہ، تعلیم اور کردار دیا؟ اور قرآن و سنت نے مسلمانوں کو کیا طرز زندگی، فہم و ادراک اور نظریہ دیا۔ کیا ہم اس نظریے پر چل رہے ہیں؟ کیا ملک میں جو کچھ ہورہا ہے وہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیم کے مطابق ہو رہا ہے؟