قسط نمبر 18
منہاج یونیورسٹی کالج آف شریعہ سے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی تفسیری خدمات کے حوالے سے پہلا ایم فل کرنے کا اعزاز جامعہ کے ابتدائی فاضلین میں سے علامہ محمد حسین آزاد نے حاصل کیا ہے جو جامعۃ الازہر سے ’’الدورۃ التدریبیہ‘‘ میں بھی سند یافتہ ہیں اور مرکزی ناظم رابطہ علماء و مشائخ کے علاوہ مجلہ دختران اسلام کے منیجنگ ایڈیٹر ہیں جن کا مقالہ قارئین کے استفادہ کے لئے بالاقساط شائع کیا جا رہا ہے۔
5۔تحفۃ السرور فی تفسیر آیۃ النور کے علمی نکات
اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب سیدنا و نبینا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عظمت و بزرگی کی جن بلند شانوں سے نوازا ہے انہیں میں ایک آپ کی شان نورانیت ہے۔ حقیقت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق خود حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یار غار اور مزاج شناس نبوت حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے ذریعے تصریح فرما دی تھی کہ صدیق رضی اللہ عنہ! میری حقیقت کا شناسا میرا اللہ ہے۔ اب کسی منکر یا محقق کی کیا مجال کہ وہ اپنی فکر وتحقیق کے گھوڑے دوڑا کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت و رفعت کی لا محدود شانوں کو اپنے محدود عقلی، علمی اور فکری پیمانوں پر تولتا پھرے جبکہ وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ (الانشراح،94: 4) اور وََلَلْاٰخِرَةُ خَيْرٌلَّکَ مِنْ الْاُوْلٰی (الضحیٰ،93: 4 ) کے ربانی فیصلے دم بدم رو بہ عروج ہیں۔ تاہم حضور سیدِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فضائل و مناقب پر لکھی جانے والی لا تعداد کتب میں آپ کی عظمت و شان کے مختلف پہلوؤں کا حتی المقدور ذکر کیا گیا ہے۔ ہر مصنف، محدث اور سیرت نگار نے اپنے طبعی ذوق اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے قلبی وابستگی کے معیار کے پیش نظر بعض نازک پہلو زیر بحث لائے ہیں۔ نورانیت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بیان بھی ایسے ہی موضوعات میں سے ایک ہے جس کو کم فہم لوگوں نے متنازعہ بنا دیا ہے۔ مسلمانوںکو باہمی اختلاف و انتشار میں رکھ کر دائمی سیاسی و اقتصادی پستی سے ہمکنار کرنے کیلئے صدیوں سے مسلسل غور وفکر کرنے والوں نے بقول اقبال بالآخر یہ نسخہ تجویز کیا کہ’’ روح محمدا ان کے بدن سے نکال دو‘‘ اب یہی ذات جو مرکز اتحاد اور محور ایمان ہے بد قسمتی سے یوں وجہ نزاع بن گئی کہ محراب و منبر اور مکتب و مدرسہ میں حاضر و ناظر، نور و بشر اور علم غیب پر جھگڑے ہو رہے ہیں۔ امت مسلمہ ترقی یافتہ اقوام کے شانہ بشانہ عروج کی راہوں پر آگے بڑھنے کی بجائے ان مسائل سے پیدا شدہ ماحول میں پھنس کر رہ گئی ہے۔ نوجوان تعلیم یافتہ طبقہ اس مسلکانہ کشاکش سے تنگ آ چکا ہے۔ ان حالات میں ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اپنے خطبات اور دروس میں ایسے تمام متنازعہ عقائد پر بصیرت افروز گفتگو کی ہے جس میں بہت سے منفرد پہلو (امتیازات اور تفردات) بھی شامل ہیں انہوں نے مخالفین کا جواب دینے کے علاوہ ایسے علمی نکات بیان کئے ہیں جن سے ادب و محبت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشبو آتی ہے۔ مثلاً وہ اپنی کتاب’’ تحفت السرور فی تفسیر آیہ نور‘‘ کے صفحہ نمبر41 پر نور محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے باب میں دو طرح کے اقوال بیان کر کے ان میں تطبیق کرتے ہوئے مثل نورہ کے مختلف معانی کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’حضرت کعب الاحبار (ف32ھ) اور حضرت سعید بن جبیر (ف95ھ) رضی اللہ عنھما، اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد گرامی مَثَلُ نُوْرِهِ کَمِشْکَاةٍ فِيْهَا مِصَبَاحٌ (النور،18: 35) کا معنی یان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’المراد بالنور الثانی ھنا محمد آیت کریمہ میں دوسرے نور سے مراد محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔
اس میں دو چیزیں بیان کی گئی ہیں۔
- مثل نورہ ای نور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (اس صورت میں نور مضاف اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مضاف الیہ ہے)
- مثل نورہ ای محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ( بغیر اضافت کے یہاں نور سے مراد ذات محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے)
مذکورہ بالا دونوں اقوال میں فرق ہے۔ جب یہ کہا جائے مثل نورہ ای محمدا تواس صورت میں نورہ کی ضمیر کا مرجع ذات الٰہی ہو گی اور معنی کلام یہ ہو گا: مثل نورہ ای محمدا’’اللہ کے نور کی مثال محمدا ہیں‘‘۔ اس قول کی روشنی میں گویا کہ ابن جبیر رضی اللہ عنہ اور کعب الاحبار رضی اللہ عنہ اللہ کے نور کو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وجود قرار دے رہے ہیں۔ اگر پہلا قول مثل نورہ ای نور محمدا یعنی اضافت کی صورت میں لیں تو اس صورت میں مثل نورہ میں ’’ہ ‘‘ ضمیر کا مرجع ذات اقدس محمدی اقرار پائے گی اس طرح مثل نورہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد اَللّٰهُ نُوْرُ السَّمٰواتِ وَلْاَرْضِ (النور،18: 35) سے عطف بیان(عطف بیان علم نحو کی ایک اصطلاح ہے۔ اس کی تعریف یہ ہے کہ عطف بیان وہ تابع ہوتا ہے جو اپنے متبوع کی وضاحت تو کرتا ہے لیکن اُس کی صفت ) ہو گا۔ گویا مثل نورہ سے حضور کا نور مبارک اور مثل نور ای محمد اسے مراد آپ کی ذات مبارک ہے۔
موصوف اپنی مذکورہ کتاب کے صفحہ نمبر 52 پر بعض کو تاہ بین اور کم فہم لوگوں کی طرف سے بیان کی گئی اس غلط فہمی کہ نعوذباللہ حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نور، نور الٰہی کا جزو یا ٹکڑا ہے کا ازالہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی نہیں بنتا جیسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ابو حفص عمرکہا جاتا ہے۔ اس میں ابو حفص وضاحت کے لیے ہے۔ لیکن لفظ عمر کی صفت نہیں بن رہا۔
حدیث کے یہ الفاظ خلق اللّٰہ نور نبیک من نورہ بہت اہم ہیں۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ من نور اللّٰہ ہونے سے کیا مراد ہے؟ اللہ کا نور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نور کیلئے نہ تو مادہ ہے اور نہ ہی جزاور ٹکڑا ہے بلکہ یہ اس کے فیض سے پیدا کیا گیاہے۔اور حدیث پاک میں جو لفظ مِنْ آیا ہے یہ جزئیت کے لیے نہیں ہے بلکہ تشریف کے لئے ہے۔ اس لئے کہ نور ذاتِ محمدی ابراہ راست نور ذات الٰہی کے فیض سے پیدا کیا گیا ہے۔
چنانچہ لفظ من سے مغالطہ میں مبتلا ہو کر یہ خیال کرنا کہ معاذ اللہ آپکا نور اللہ کے نور کا جز ہو گیا، یہ عقیدہ و خیال رکھنا واضح اور صریح کفر ہے۔ اور ملت ِاسلامیہ میں سے کسی ایک کا بھی یہ عقیدہ نہیں ہے کہ العیاذ باللہ حضور کا نور اللہ کے نور کا جزو ہے۔ تو اس سے یہ بات واضح ہو گی کہ ’’نور نبيک من نورهِ‘‘ آپ کا نور براہ راست اور بلا واسطہ اللہ کے نور سے پیدا ہو نے کے معنی میں ہے اور نور ذات الٰہی سے مُراد عین ذات الٰہی ہے۔
یہ ایک بد یہی بات ہے کہ جب نور ذات یا عین ذات بو لا جائے گا تو اس سے جزئیت مُراد نہیں ہوتی بلکہ جزئیت کا خیال کرنا کفر ہے۔ اِس لیے جب بھی نور ذات بولاجائے گا۔ تو اس سے مراد ہی عین ذات ہو گا۔ کیونکہ ’’اللّٰہ نور السمٰوٰت والارض‘‘ میں نور ہی حقیقت میں عین ذات الٰہی ہے۔ اس لیے کہ نورکا معنی ہے: الظاهر فی ذاته والمظهرلغيرهِ ’’یعنی جو اپنی ذات میں ظاہر ہو اور دوسروں کو ظاہر کرنے والا ہو‘‘۔ اس لحاظ سے اللہ نورُ السموٰت والارض میں نور اسم جلا لت مبتداء کی خبر ہے تواس کا معنی یہ ہوا کہ نورہی حقیقت میں عین ذات الٰہی ہے اور عین ذات الٰہی نور ہوئی تو یہا ں نور سے مراد نور حقیقی ہے۔ نور مستعار نہیں۔ تو جب نور حقیقی ہوا تو یہ تعر یف و کیفیت سے بالا تر ہُوا۔ اس لیے کہ نہ ہی تو اس کی تعر یف معلو م ہو سکتی ہے اور نہ ہی کیفیت و ما ہیت معلوم ہو سکتی ہے۔ تو اب نور نبیک من نور ہ کا معنی ہو گا۔ نورہ ای من ذاتہ تو اس میں من جز ئیت کے لیے نہیں ہے۔
(طاہرالقادری، ڈاکٹر محمد طاہرالقادری، تحفۃ السرور فی تفسیر آیۃ النور، لاہور، پاکستان، منہاج القرآن پبلیکشنز، ص 53)
قرآن حکیم سے استدلال
قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ تخلیق آدم کے باب میں فر ماتا ہے۔ کہ جب ہم نے آدم کوپیدا کر دیا تو اس کے بعد ہم نے اپنی رُوح اس میں پھونکی۔ارشاد ہوتا ہے :
وَنَفَخَ فِيْهِ مِنْ رُّوْحِهِ.
(السجدة،32: 9)
’’اور اس (خون کے لوتھڑے میں ) ایک روح اپنی طرف سے پھونکی‘‘
اسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا:
فَاِذَا سَوَّيْتُه وَ نَفَخْتُ فِيْهِ مِنْ رُّوْحِيْ فَقَعُوْالَه سٰجِدِيْنَo
(ص،38: 72)
’’پھر جب اس کو پوری طرح انسان بنا کر ٹھیک کر لوں اور اس میں اپنی روح سے فیضان پھونک دوں تو تم اس کے سامنے سجدہ میں گر پڑنا‘‘
ان دونوں آیات سے واضح ہو رہا ہے کہ اللہ تعا لیٰ نے اپنی رُوح میں سے کچھ پھونکا لیکن کیا پھونکا ؟اس کی ماہیّت وکیفیت کیا تھی؟ یہ سب تعر یف و ادراک سے بالا ہے اور پھر یہ بات بھی واضح ہے کہ ان دونوں مقامات پر منُ جزئیت کے لیے نہیں ہے۔ اس طرح جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام میں اپنی رُوح میں سے پھونکا اور انہیں زندگی عطا کی تو جو معنی قرآن کی اس آیت کریمہ میں من رُوحی کا ہے وہی معنی حدیث مبا رکہ میں من نورہ کا ہے۔ اس لیے مفسرین و محدثین نے یہاں پر ’’من‘‘ کو جزئیت کے لیے نہیں بلکہ تشریفیہ قرار دیا ہے۔ جس طرح کہ اضافت تشریف کے لیے ہوتی ہے۔
دُوسرا استدلال
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق ارشاد ہوتا ہے:
فََنَفَخْنَا فِيْهَا مِنْ رُوْحِنَا.
(الانبياء، 21: 19)
’’پھر ہم نے ان (حضرت مریم) میں اپنی روح پھونک دی‘‘
تو کیا اس سے یہ گمان کر لیا جائے گا کہ چونکہ عیسیٰ علیہ السلام رُوح اللہ ہیں اس لئے وہ عین ذات الٰہی یا جُزوِ ذات الٰہی ہوئے؟ بلکہ روح اللہ میں روح مضاف ہے اور اس کی اضافت اللہ کی طرف ہے تو وہ روح جس کا مضاف الیہ لفظ اللہ اسم جلالت ہے وہ رُوح عین ذات عیسیٰ ہے۔ جس کو رُوح اللہ قرار دیا گیا ہے تواس سے جُزئیت یا عینیتّ ثابت نہیں ہو تی ہے بلکہ ان دونو ں سے کوئی ایک چیز بھی ثابت نہیں ہوتی۔ اسی طرح آگے فرمایا:
وَکَلِمَۃٌ مِّنْ اس میں کلمہ اللہ کی صفت ہے تو جس طرح اللہ کی ذات کے لیے جزئیت ناممکن ہے اس طرح اُس کی صفات میں بھی جزئیت ناممکن ہے۔ جس طرح کوئی اللہ کی ذات کا جُزو نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح کوئی اس کی صفات کا جُزو نہیں ہو سکتا۔ اس لیے یہ رُوح اللہ اور کلمہ من اس طرح ہے جس طرح ونفخت فیہ من روحی تو قرآن مجید میں ان تینوں مقامات پر اضافت اور من درج ذیل دو معانی کے لیے ہو سکتی ہے۔
- تشریف کے لیے جیسے رُوح اللہ، بیت اللہ، نور اللہ۔
- بلا واسطہ معرض تخلیق میں آنے کے اظہار کے لیے۔
اس وضاحت کے بعداب آئیے نورنبیک من نورہ کی طرف تو یہاں پر یہ دو نوں معانی یعنی تشریف اور بلا واسطہ تخلیق کے لیے بھی ہو سکتا ہے کہ وہ نور حقیقت میں نور ذات الٰہی ہے۔ اب یہ کہا جا سکتا ہے کہ حضور کا نور ذات الٰہی سے یا نور ذات الٰہی سے پیدا ہوا۔ تو جب یہ کہا جائیگا تو اس کا معنی ہو گا کہ حضور علیہ السلام کا نور براہ راست ذات الٰہی کے فیضان سے پیدا ہوا ہے، تو چونکہ براہ راست اور بلا واسطہ نور ذات الٰہی سے حضور علیہ السلام کی تخلیق کی گئی۔ اس لیے قرآن نے فرمایا:
مثل نورہ ای مثل نور اللہ ای ھو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کہ اللہ کے نور کی مثال کیا ہے؟ وہ مُحمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ تو اس طرح دونوں باتیں صحیح ہو گئیں، کہ اللہ کے نور سے براہ راست، بلاواسطہ حضور کے نور کی تخلیق ہوئی۔ اسی معنی کو علامہ زر قانی رحمۃ اللہ علیہ (1055۔1122ھ/1645۔1710ء) نے اختیار کیا ہے وہ فرماتے ہیں:
ای من نور هو ذاتهِ لا بمعنی انها مادة خلق نوره منها بل بمعنی تعلق الارا دة به بلا واسطة شی فی وجودهِ.
(زرقانی،ابو عبداﷲ محمد بن عبدالباقی بن يوسف بن احمد بن علوان مصری ازهری مالکی، شرح مواهب اللدنية، بيروت، لبنان، دارالکتب العلميه، ج 1، ص90)
’’یعنی اس نور سے جو خود ذات باری تعالیٰ ہے یہ معنی نہیں کہ اللہ کا نور مادہ ہے جس سے نبی علیہ السلام کا نور پیدا کیا گیا بلکہ اس کا معنی یہ ہے کہ اس نور محمدی کو وجود میں لانے میں باری تعالیٰ کا ارادہ کسی واسطے کے بغیر تھا۔ ‘‘
اس تمام بحث سے یہ واضح ہو گیا کہ حضور خود نورہیں تو حدیث مذکور میں نور نبیک کی اضا فت بھی من نورہ کی طرح اضافت بیانیہ ہے۔سید عالم انے نعمت الہٰیہ کے اظہار دوام کیلئے عرض کی۔ واجعلنی نوراً اور خود اللہ عزوجل نے قرآن عظیم میں آپ کو نور قرار دیا فرمایا:
قَدْجَآءَ کُمْ مِّنَ اللّٰهِ نُوْرٌ وَّ کِتَا بٌ مُّبِيْنْ
(المائدة، 5: 51)
تو اس کے بعد حضور کے نور ہونے میں کیا شُبہ رہ گیا۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم براہ راست ذات الٰہی سے تخلیق کیے گئے ہیں تو نور کیسے ہوئے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جب اللہ کی ذات ہی تنہا واسطہ تھی ولم یکن شی معہ’’اللہ کے سوا اس کے ساتھ کوئی شے موجود نہ تھی‘‘ تو جب اللہ نے پہلی مخلوق کو پیدا کیا تو اُس وقت اور کوئی مادہ تو تھا نہیں کہ جس کے واسطہ سے اُس کو پیدا کیا جاتا بلکہ اُس وقت فقط اللہ تھا اور کوئی نہ تھانہ مخلوق تھی اور نہ کوئی مادہ تھا تو ایسے میں کسی مخلوق کی تخلیق کس طرح ممکن تھی۔سوائے اس کے کہ اُسے اللہ کی ذات کے فیض سے براہ راست پیدا کیا جاتا کیونکہ وہ خود حقیقت میں نور تھا اور نور ہے۔سو یہ لازم تھا وہ پہلی مخلوق جو بلا واسطہ اوربراہ راست اُس کے فیض سے پیدا ہو وہ بھی نور ہو۔ پس جو مخلو ق سب سے پہلے تخلیق کی گئی،وہ اُس کے نور کی پہلی تجلی تھی جو معرض وجود میں آئی اور وہ وجود جو ذات الٰہی سے معرض وجود میں آیا وہ وجود ذات مُحمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھا۔ پھر یہ وجود جہاں اللہ نے چاہا سیر کرتا رہا اور اس سے باقی مخلوقات کی تخلیق عمل میں لائی گئی۔
اہم تفسیری نکتہ
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب ذات محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تقسیم سے دیگر مخلوقات کو پیدا کیا گیاتو اس سے نور نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں انقسام پایا گیا تو اس سے یہ لازم آتا ہے کہ دیگر تمام اشیاء آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نور کا جزو ہوں۔
علامہ قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ کا جواب
آپ فرماتے ہیں یہاں انقسام سے مراد اس نور کو پھیلانا ہے پھر اس پھیلائے ہوئے نور سے یہ چیزیں نکالیں اور پھر اس نور کو مزید پھیلادیا اور اس سے ان چیزوں کو پیدا کیا۔ اس انقسام میں بھی جزئیت کا معنی نہیں پایا جاتا۔ غرض کہ علامہ قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ (851۔923ھ/1448۔1517ء) کے جواب کا حاصل یہ ہوا کہ اس نور میں اضافہ ہوتا رہا اور مخلوقات معرض وجود میں آتی رہیں۔ مراد یہ کہ امام زرقانی رحمۃ اللہ علیہ (1055۔1122ھ/1645۔1710ء)نے من نورہ کا معنی یہ بیان کیا ھو ذاتہ تعالیٰکہ وہ براہ راست اللہ تعالیٰ کی ذات کے فیض سے اس کے پر تو سے پیدا ہوا۔ امام احمد قسطلانی مواہب اللدنیہ میں اس سوال کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
لما تعلقت ارادة الحق تعالیٰ بايجاد خلقه وتقديررزقه ابرز الحقيقة المحمدية من الانوار الصمدية فی الحضرة الاحدية ثم سلخ منها العوالم کلها علوها و سفلها..
(قسطلانی، ابوالعباس احمد بن محمد بن ابی بکر بن عبدالملک بن احمد بن محمد، المواهب اللدنيه بالمنح المحمدية، بيروت، لبنان،)
’’یعنی جب اللہ تعالیٰ نے مخلوقات کو پیدا کرنا چاہاتو صمدی نوروں سے مرتبہ ذات سے احدیت میں حقیقت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ظاہر فرمایا پھر اس سے تمام عالم علوی و سفلی نکالے‘‘۔
موصوف آخر میں اس بحث کو سمیٹتے ہوئے ایک اہم نکتہ کے تحت لکھتے ہیں: ’’جناب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے لفظ نوربولا جاتا ہے تووہ آپ اکی بشریت کی نفی کرنے والا نہیں ہوتااور نہ ہی ان دونوں میں کوئی تنافی،تناقض و تضاد ہے۔ اس لیے کہ تخلیقِ نور محمدی اایک الگ مسئلہ ہے اور ایجادِ بشریت محمدی اایک جدا مسئلہ ہے۔ اس لیے بات تو تنزلات کی ہو رہی ہے۔ نور محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پہلی تخلیق تومرتبہ احدیت میں ہوئی اور پھر نور محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دوسرا مفہوم عالم ارواح میں ہے اور مسئلہ بشریت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پانچویں مرتبہ عالم اجسام کی بات ہے۔ اس عالم اور مرتبہ میں سحضور علیہ السلام بشر ہیں اور آپ کی بشریت پر ایمان لانا ضروری ہے اوراس کا انکار کرنا کفر ہے۔اس لیے کہ آپ کی بشریت آیت قرآنی سے ثابت ہے۔
( المکتب الاسلامی، ج 1، ص55)
2. قُلْ اِنَّمَا اَنَا بَشَرٌ مِِّثْلُکُمْ يُوْحٰی اِلَیَّ o
(الکهف،81 : 110)
موصوف یہاں حاشیہ میں رقمطراز ہیں:’’ بشر کہنے میں ذرا احتیاط سے کام لینابہتر ولازم ہے۔ تنہا بشر یا ہماری طرح کا بشر کہنے سے بہتر ہے کہ انسان بارگاہ نبوت کے آداب کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اور سراپا عجز و نیاز بن کر یو ں عرض کرے السلام علیک یا افضل البشر۔ السلام علیک یا سیدالبشر۔ ان کلمات میں زیادہ ادب و احترام کی جھلک نظر آتی ہے جس کا یہ بارگاہ تقاضا کرتی ہے۔‘‘اورمرتبہ تنزل عالم ارواح میں حضورعلیہ السلام نور ہیں۔ یہ اسی طرح نور ہیں جس طرح ملائکہ اور کائنات کے دیگر انوار لیکن وہ نور جس کی مرتبہ احدیت میں تخلیق ہوئی۔ وہ نور ملائکہ وغیرہ سے بہت بلند اور اس سے جدا ہے۔ نہ وہ کسی تعریف کا محتاج ہے نہ متکیف ہے اور نہ ہی اس کی ہیئت ہے اور یہ تعریف وتخیل سے مبرا، پاک و بلند ہے۔ اس لیے ہم اس کا ادراک نہیں کر سکتے بس وہ ایک نام ہے۔ جس کو ہم ’’الله نورالسمٰوٰت والارض‘‘ کہتے ہیں۔اس کو ہم اپنے عالم تخیل میں نہیں لا سکتے، تو حضورا کی یہ پہلی تخلیق براہ راست اﷲ کے نور سے متجلی ہوئی۔ اس کا ظہور جو ذاتِ الٰہی سے براہ راست ظہور میں آیا یعنی اُس کے فیض سے اُ س کے پرتو سے۔ اب اس سے بشریت و نور محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میںکوئی تعارض باقی نہ رہا۔ اب جس طرح کوئی چاہے وہ حضورا کوبشر بھی کہے نور بھی کہے،مخلوق بھی قرار دے، رسول یا نبی بھی کہے۔ یہ سب چیزیں ایک ہی ہیں۔ان میں کوئی تعارض اور تنافی نہیں ہے۔ اس لیے کہ یہ سب مراتب ہیں جن کا آپس میں کوئی تعارض نہیں ہے۔ اس لیے وہ لوگ جو صبح وشام اپنی حیات مستعار کے قیمتی لمحات آپ کے نور و بشر ہونے کے جھگڑوں میں ضائع کر دیتے ہیں۔
انہیں چاہیئے کہ وہ بجائے آپ کی ذاتِ والا تبار کے متعلق اختلاف میں پڑنے کے زیادہ سے زیادہ وقت آپ کی بارہ گار میں ہدیہِ صلوٰ ۃوسلام پیش کرنے پر صرف کریں اور حضور علیہ والصلٰوۃوالسلام کاعاشق زار جس صفت سے بھی آپ کو یاد کرے اُسے یاد کرنے دیا کریں۔ اس لیے کہ نور اور بشر یہ دونوں آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کروڑوں صفات میں دو صفتیں ہیں اس لیے اس معلم اخلاق کی امت کے لیے ان جھگڑوں میں پڑ کر اپنے درمیان نفرتوں، کدورتوں اور عداوتوں کی دیواریں حائل کر لینا کسی طرح بھی مناسب نہیں ہے۔ اﷲ رب العزت اپنے حبیب مکرم اکے مقام و مرتبہ کی معرفت عطا کرے۔
(طاہرالقادری، ڈاکٹر محمد طاہرالقادری،تحفۃ السرورفی تفسیر آیۃ النور،لاہور، پاکستان،منہاج القرآن پبلیکشنز،ص 16 تا 63)