ایک دن رسالت مآب صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم گھر میں آرام فرمارہے تھے کہ عالم خواب میں حضرت جبرائیل علیہ السلام سبز ریشمی پارچہ پر سیدہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہما کی تصویر لائے اور عرض کیا:
’’یارسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم! یہ خاتون اس دنیا اور آخرت میں آپ کی زوجہ ہے‘‘۔
بیوی کا چہرہ دیکھنے کے بعد آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خواب میں ہی ارشاد فرمایا:
’’اگر یہ خواب اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے ہے تو ضرور پورا ہوگا اور اللہ تعالیٰ ایسی زوجہ ضرور عطا فرمائے گا‘‘۔
اور یہ خواب مسلسل تین رات آتا رہا اور یہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہما کے لئے بہت بڑی منقبت ہے کہ حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان کے آنے سے پہلے ہی ان کے جمال پُرانوار کا محب و مشتاق بنادیا۔
ایک روز رسول کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم گھر میں تشریف فرما رہے تھے کہ حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کی زوجہ حضرت خولہ بنت حکیم رضی اللہ عنہما حاضر خدمت ہوئیں اور عرض گزار ہوئیں: ’’یارسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم! میرے ماں باپ آپ پر قربان، آپ دوسرا نکاح کرلیں‘‘۔
’’کس سے؟‘‘ آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت فرمایا۔ ’’بیوہ اور کنواری دونوں طرح کے رشتے ہیں جسے پسند فرمائیں‘‘۔
حضرت خولہ بنت حکیم رضی اللہ عنہما نے عرض کیا۔ ’’کون ہیں؟‘‘ ’’بیوہ تو حضرت سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہما ہیں اور کنواری آپ کے قریب ترین دوست اور عاشق زار حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہما ہیں‘‘۔
حضرت خولہ زوجہ عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ نے عرض کیا تو فرمایا: ’’دونوں جگہ بات کرو‘‘۔
حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اذن پانے کے بعد حضرت خولہ بنت حکیم رضی اللہ عنہما سیدھی سیدنا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے در دولت پر پہنچیں اس وقت وہ گھر پر نہیں تھے، ان کی اہلیہ محترمہ حضرت سیدہ زینب ام رومان رضی اللہ عنہما نے بڑی خندہ پیشانی سے انہیں بٹھایا تو حضرت خولہ رضی اللہ عنہما نے کہا:
’’بہن! میں عائشہ بیٹی (رضی اللہ عنہا) کے لئے رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پیام لے کر آئی ہوں‘‘۔
’’عائشہ رضی اللہ عنہما کے باپ کو آلینے دو، ان سے بات کروں گی پھر بتائوں گی، کل آنا‘‘۔ حضرت زینب ام رومان رضی اللہ عنہما نے کہا تو سیدہ خولہ بنت حکیم رضی اللہ عنہما اٹھ کر سیدہ سودہ رضی اللہ عنہما کے والد زمعہ کے پاس آتی ہیں، وہ انہیں دیکھ کر کہتے ہیں: ’’آئو خولہ (رضی اللہ عنہا) بیٹھو، آپ کو آج کا دن مبارک ہو‘‘۔ وہ بولیں۔
’’تمہارے لئے بھی خیرو برکت ہو، کیسے آئی ہو؟‘‘ زمعہ نے دریافت کیا۔ ’’آپ کی بیٹی سودہ رضی اللہ عنہما کے لئے پیام لائی ہوں‘‘۔ ’’کس کا؟‘‘ ’’سنیں گے تو خوش ہوجائیں گے‘‘۔ سیدہ خولہ نے جواب دیا۔ ’’بتاؤ تو سہی؟‘‘ زمعہ نے اپنی پوری توجہ اس کی طرف مبذول کردی۔ ’’اللہ کے محبوب ہادی برحق صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا‘‘۔ ’’لاریب ذاتی اور خاندانی لحاظ سے آپ سے بہتر اور کوئی نہیں ہے‘‘۔
زمعہ نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔ ’’پھر کیا ارادہ ہے؟‘‘ سیدہ خولہ رضی اللہ عنہما نے دریافت کیا۔ ’’ذاتی طور پر مجھے قطعاً اعتراض نہیں لیکن سودہ رضی اللہ عنہما کی مرضی دریافت کرلو‘‘۔
زمعہ نے مشورہ دیا تو وہ اٹھ کر ان کے پاس چلی گئیں۔ انہوں نے سیدہ خولہ رضی اللہ عنہما کو دیکھا تو بڑی محبت سے بٹھایا۔ ’’کیسے آئی ہیں؟‘‘ انہوں نے دریافت کیا۔ ’’رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم تم سے شادی کرنا چاہتے ہیں، کیا مرضی ہے؟‘‘ سنا تو اپنی سماعت پر یقین نہ آیا کہ اس عمر میں جبکہ عمر پچاس سال ہے۔
دوسرے دن حضرت خولہ بنت حکیم رضی اللہ عنہما دوبارہ سیدنا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے گھر گئیں، وہ منتظر تھے جب وہ بیٹھ گئیں تو گویا ہوئے: ’’خولہ رضی اللہ عنہما! مجھے تمہارے توسط سے حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پیغام ملا ہے، میرا جو تعلق آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہے اس کی روشنی میں کیا یہ جائز ہے؟ عائشہ (رضی اللہ عنہا) تو رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بھتیجی ہیں‘‘۔
’’میں حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس ضمن میں بات کروں گی پھر اطلاع دوں گی‘‘۔ حضرت خولہ بنت حکیم رضی اللہ عنہما نے کہا اور اٹھنے لگیں تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’ایک اور بات ہے‘‘۔ ’’وہ کیا ہے؟‘‘ ’’میں عائشہ (رضی اللہ عنہا) کے لئے جبیر بن مطعم سے وعدہ کرچکا ہوں، وعدہ خلافی ہوگی تاوقتیکہ اس طرف سے کوئی جواب نہ ملے‘‘۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بتایا تو وہ اٹھ کر چلی گئیں اور سیدھی آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کاشانہ اقدس پر پہنچیں اور عرض کیا: ’’یارسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم! سودہ (رضی اللہ عنہا) نے آپ کو اختیار دے دیا ہے کہ جو چاہیں اس کے حق میں فیصلہ صادر فرمائیں‘‘۔
پھر عرض کیا: ’’میں آپ کے دوست اور جانثار کے ہاں بھی گئی تھی‘‘۔ ’’کیا کہتا ہے؟‘‘ ’’حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم! وہ کہتے ہیں کہ عائشہ (رضی اللہ عنہا) تعلق کے لحاظ سے آپ کی بھتیجی لگتی ہے، کیا یہ رشتہ جائز ہوگا؟‘‘ سماعت فرمایا تو ارشاد کیا: ’’ابوبکر (رضی اللہ عنہا) میرا صرف دینی بھائی ہے، نکاح جائز ہے‘‘۔
ایک بات انہوں نے یہ بھی بتائی تھی کہ عائشہ رضی اللہ عنہما کے لئے انہوں نے جبیر بن مطعم سے وعدہ کررکھا ہے۔ ’’ٹھیک ہے‘‘۔ حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا اور پھر حضرت سیدہ سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہما سے شادی ہوگئی جنہوں نے اپنے آقا و مولا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیٹیوں کی اپنی اولاد سے بڑھ کر دیکھ بھال کی۔
چند دنوں کے بعد جبیر بن مطعم نے خود ہی سیدنا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیٹی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہما سے شادی کرنے سے انکار کردیا اور وجہ یہ بتائی: ’’میں نہیں چاہتا کہ عائشہ کے گھر میں آنے سے میرے گھر میں اسلام داخل ہو‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے راستے کی تمام رکاوٹیں دور کردی تھیں۔ چنانچہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے سیدہ خولہ بنت حکیم رضی اللہ عنہما کو بلا بھیجا جب آئیں تو کہا:
’’جبیر نے عائشہ (رضی اللہ عنہا) سے شادی کرنے سے انکار کردیا ہے اب آپ جاکر آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہہ دیں کہ جب چاہیں، عائشہ (رضی اللہ عنہا) سے شادی کرلیں‘‘۔
مہر ادا ہوجانے کے بعد صحابیات کی ایک جماعت دلہن کے گھر پہنچی، سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہما کو دلہن بنایا گیا اور پھر اس کمرے میں لایا گیا جہاں انصار کی عورتیں منتظر تھیں۔ انہوں نے بڑی محبت و خوشی سے دلہن کا استقبال کیا اور کہا: ’’تمہارا آنا بخیرو بابرکت اور نیک فال ہو‘‘۔
تھوڑی دیر کے بعد رحمۃ للعالمین، سرور کونین صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی تشریف لے آئے اس شادی میں سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہما کی سہیلی حضرت اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہما بھی شامل تھیں، فرماتی ہیں:
اس وقت آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ضیافت کے لئے دودھ پیش کیا گیا۔ آنحضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پیالہ سے تھوڑا سا دودھ پیا اور پھر پیالہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہما کی طرف بڑھادیا۔ وہ شرمانے لگیں، میں نے کہا: ’’رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عطیہ واپس نہ کرو‘‘۔ پھر انہوں نے شرماتے شرماتے لے لیا اور ذرا سا پی کر رکھ دیا۔ رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’اپنی سہیلیوں کو دو‘‘۔ انہوں نے کہا: ’’یارسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم! ہم کو اشتہا نہیں‘‘۔ فرمایا: ’’جھوٹ نہ بولو، آدمی کا ایک جھوٹ لکھا جاتا ہے‘‘۔ اور پھر سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہما کی رخصتی ہوگئی۔ یہ شوال کا مہینہ اور سن ہجری کا دوسرا سال تھا۔ ام المومنین سیدہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہما جب میکے سے رخصت ہوکر حرم نبوی میں رونق افروز ہوئیں تو رہائش کے لئے آپ کو جو حجرہ ملا، وہ مسجد نبوی سے متصل تھا اس گھر کا دروازہ بجانب مسجد تھا اور ام المومنین سیدہ سودہ رضی اللہ عنہما جس گھر میں مکین تھیں اس کا دروازہ بجانب آل عثمان تھا اس وقت تک صرف دو ہی حجرے تعمیر ہوئے تھے۔ حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دونوں صاحبزادیاں سیدہ حضرت ام کلثوم اور سیدہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہما سیدہ ام المومنین حضرت سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہما کے ساتھ رہتی تھیں۔
جس حجرہ میں دنیا و آخرت کی زوجہ رسول اکرم سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہما قیام پذیر تھیں، اس کی لمبائی چوڑائی چند ذرائع پر محیط صرف ایک کمرہ کی صورت میں تھا، دیواریں خام اینٹوں اور کھجور کی شاخوں سے بناکر اوپر گارا لگادیا گیا تھا، چھت بھی کھجور کی شاخوں اور پتوں سے بنائی گئی تھی، بارش سے محفوظ رکھنے کے لئے اس چھت کے اوپر کمبل ڈال دیئے گئے تھے اور دروازے کو پردے کے لئے ایک کمبل سے ڈھانپ دیا گیا تھا اس سے متصل ایک بالا خانہ تھا جسے مشربہ کہتے تھے۔
گھر کا کل اثاثہ ایک چارپائی، ایک چٹائی، ایک بستر، ایک تکیہ جس میں چھال بھری تھی، آٹا اور کھجور رکھنے کے لئے ایک دو برتن، پانی کا ایک برتن اور پانی پینے کے لئے پیالہ سے زیادہ نہ تھا، کئی کئی راتیں گھر میں چراغ نہیں جلتا تھا۔
سیدہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہما جب شادی کے بعد کاشانہ نبوی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں تشریف لائیں تو انہوں نے اپنے نئے گھر کا جائزہ لیا۔ انہوں نے دیکھا کہ گھر میں دو جوان لڑکیاں موجود ہیں جن کی شادی ہونا چاہئے لیکن گھریلو حالات مالی طور پر سازگار نہیں تھے، دوسرے قریش کے بیشتر گھرانے مکہ میں رہ گئے تھے جو ابھی تک داخل اسلام نہیں ہوئے تھے اور مدنی ماحول ابھی نیا تھا۔ ان حالات میں بیٹیوں کی شادی میں رکاوٹ ڈالی ہوئی تھی۔
ایک دن آنحضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف فرما تھے کہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہما نے بچیوں کی شادی کا ذکر چھیڑ دیا اور عرض کیا: ’’یارسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم! بچیاں اس قابل ہیں کہ ان کی شادی کردی جائے، ایک تجویز ہے‘‘۔ ’’کیا؟‘‘ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’کیوں نہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہما کی شادی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کردی جائے‘‘۔ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سماعت فرمایا تو بہت خوش ہوئے۔
چوتھی بیٹی سیدہ ام کلثوم تھیں، ان کی اس وقت عمر 20 سال تھی۔ ان کی بڑی ہمشیرہ سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہما جو سیدنا حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے حبالہ عقد میں تھیں، 2 ہجری میں وصال پاچکی تھیں، ایک روز ام المومنین رضی اللہ عنہما نے اپنے آقا و مولا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا: ’’حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بارے میں کیا خیال ہے؟‘‘ ’’کس بارے میں؟‘‘ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت فرمایا۔ ’’ام کلثوم کی اگر ان سے شادی کردی جائے‘‘ْ
تجویز نہایت مناسب تھی۔ چنانچہ رشتہ طے پاگیا اور پھر وہ 3 ہجری میں رخصت ہوکر اپنے خاوند کے پاس تشریف لے گئیں۔
ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہما نے ایسی بے مثال محبت، اپنائیت کا ثبوت دیا کہ تاریخ سوتیلی اولاد کے ساتھ ایسا مثالی سلوک پیش کرنے سے قاصر ہے۔
ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ کائنات رضی اللہ عنہما گھر گھر سے خوب واقف تھیں، ایک دن وہ بیٹھی اپنا نقاب سی رہی تھیں جو پھٹ گیا تھا کہ اسی اثناء میں کسی نے دریافت کیا:
’’ام المومنین رضی اللہ عنہما! کیا اللہ تعالیٰ نے مال و دولت کی فراوانی نہیں فرما دی؟‘‘ سنا تو ارشاد فرمایا: ’’چھوڑو ان باتوں کو، وہ نئے کپڑے کا حق دار نہیں جو پرانے کپڑے استعمال نہ کرے‘‘۔ پرانے کپڑوں کی عادی ہونے کی وجہ سے سیدہ رضی اللہ عنہما پرانے کپڑے چھوڑنا پسند نہیں کرتی تھیں۔
حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کثرت ازواج اور خصوصاً سیدہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہما کے ساتھ شادی میں بڑی مصلحت یہ تھی کہ ان کے ذریعے عورتیں فیض یاب ہوسکیں جس عمر میں ان کا حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بیاہ ہوا تھا، وہ سیکھنے کی صلاحیتوں سے بھرپور ہوتی ہے اور ذوق و شوق بھی۔ علوم دینیہ کی تعلیم کا مخصوص وقت نہ تھا۔ معلم شریعت صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم خود گھر میں تھے، شب و روز ان کی محبت میسر تھی۔ رسالت مآب صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیم و ارشاد کی محفلیں روزانہ مسجد نبوی میں سجتی تھیں جو حجرہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہما سے بالکل ملحق تھی اس بناء پر آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم گھر سے باہر جو لوگوں کو درس دیتے تھے، وہ اس میں شریک ہوتی تھیں اگر کبھی زیادہ فاصلے کی وجہ سے کوئی بات سمجھ میں نہ آتی تو جب حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم گھر میں تشریف لاتے تو سیدہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہما دوبارہ پوچھ کر تسلی کرلیتی تھیں۔ کبھی اٹھ کر مسجد کے قریب تشریف لے جاتی تھیں اس کے علاوہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عورتوں کی درخواست پر ہفتہ میں ایک خاص دن ان کی تعلیم و تلقین کے لئے متعین فرمادیا تھا۔
ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہما کو اپنے آقا و مولا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے زیادہ سے زیادہ سیکھنے اور جاننے کا شوق تھا اور جس کے بارے میں ذرہ برابر بھی شک و شبہ ہوتا تو فوراً دریافت فرمالیتی تھیں تاکہ وضاحت ہوجائے اور بات روشن ہوجائے۔ ایک مرتبہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’جس کا حساب کیا گیا، وہ عذاب میں پڑا‘‘۔
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہما نے عرض کیا: ’’یا حبیب اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم! اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے عنقریب حساب کیا جائے گا، آسان حساب جب حساب آسان ہوگا تو پھر عذاب کیسے ہوگا؟‘‘ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’یہ پیشی ہے حساب نہیں‘‘۔ ایک مرتبہ رسول عربی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’جو شخص اللہ کی ملاقات پسند کرتا ہے، اللہ تعالیٰ بھی اس کی ملاقات کو پسند کرتا ہے اور جو اس کی ملاقات کو پسند نہیں کرتا، اللہ بھی اس سے ملنا پسند نہیں کرتا‘‘۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہما نے عرض کیا: ’’یارسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم! ہم میں سے تو کوئی بھی موت کو پسند نہیں کرتا‘‘۔ فرمایا: ’’اس کا مطلب یہ ہے کہ مومن جب اللہ تعالیٰ کی رحمت و خوشنودی کے انعامات و جنت کا حال سنتا ہے تو اس کا دل اللہ کا مشتاق ہوجاتا ہے لہذا وہ بھی اس کے آنے کا مشتاق رہتا ہے۔
ایک مرتبہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہما نے عرض کیا: ’’یا حبیب اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم! نکاح میں عورت کی رضا مندی لازمی ہے لیکن کنواری لڑکیاں شرم سے اظہار نہیں کرتیں‘‘۔ ارشاد فرمایا: ’’اس کی خاموشی ہی اس کی اجازت ہے‘‘۔
ایک دن رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا: ’’فداک ابی و امی یا محبوب اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم! اس مسئلہ میں حکمت عطا ہو کہ دوسرے دینی فرائض کی طرح کیا جہاد بھی عورتوں پر واجب ہے؟‘‘
ارشاد فرمایا: ’’اے عائشہ رضی اللہ عنہما! عورتوں کے لئے حج ہی جہاد ہے‘‘۔ اسی طرح ایک مرتبہ حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا: ’’کیا کفارو مشرکین کے نیک اعمال کا انہیں آخرت میں کوئی اجر ملے گا؟‘‘
ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہما کے سوال کا حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جواب مرحمت فرمایا: ’’ایمان باللہ اور ایمان بالآخرت کے بغیر کوئی نیک عمل قابل قبول اور لائق جزا نہیں‘‘۔
الغرض اس طرح جب بھی موقع ملتا، ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہما سے ہر آن اور ہر لحظہ سیکھنے کی سعی جمیلہ فرماتی رہتی تھیں اور حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی بڑی وضاحت و صراحت کے ساتھ سمجھاتے تاکہ کسی نوع کا کوئی ابہام و شک نہ رہ جائے۔
رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے صحابہ کرام رضوان للہ علہیم اجمعین نے پوچھا: ’’آپ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب کون ہے؟‘‘ فرمایا: ’’عائشہ‘‘ (رضی اللہ عنہا) عرض کیا: ’’مردوں میں سے؟‘‘ ارشاد فرمایا: ’’ان کے والد‘‘۔
ام المومنین سیدہ عائشہ بنت ابوبکر رضی اللہ عنہما کا لقب صدیقہ اور حمیرا تھا اور ان کی کنیت اپنے بھانجے حضرت عبداللہ بن زبیر کے نام پر ام عبداللہ ہے۔ سیدہ رضی اللہ عنہما نے اپنے آقا و مولا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے درخواست کی: ’’یارسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم! میری بھی کنیت مقرر فرمادیں‘‘۔ ارشاد فرمایا: ’’اپنی بہن حضرت اسماء بنت ابوبکر رضی اللہ عنہما کے صاحبزادے عبداللہ سے اپنی کنیت رکھ لو‘‘۔
جب تک حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف ازواج مطہرات سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہما اور سیدہ سودہ رضی اللہ عنہما تھیں تو آپ باری باری ہر ایک بیوی کے پاس شب باش ہوتے تھے جب وقت گزرنے کے ساتھ اور ازواج مطہرات بھی آگئیں تو پھر سب کے لئے باری مقرر تھی۔ حضرت سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہما عمر رسیدہ تھیں، انہوں نے اپنی باری کا دن اپنے محبوب صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشنودی و رضا کے لئے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہما کو دے دیا تھا اس کے بعد آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم دو دن سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہما کے پاس رہتے اور ایک ایک دن دوسری ازوا ج کے ساتھ گزارتے تھے۔
گھر کی مالی حالت ایسی تھی کہ جو آتا سب راہ اللہ میں تقسیم کردیا جاتا جس کے نتیجہ میں گھر میں چولہا بہت کم جلتا تھا۔ مسلسل تین دن تک کبھی سیر ہوکر نہیں کھایا تھا۔ صحابہ کرام رضوان للہ علہیم اجمعین اپنی محبت کی وجہ سے ہدایہ و تحائف بارگاہ رسالت میں پیش کرتے رہتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہما زیادہ محبوب ہیں لہذا وہ ان کی باری کے منتظر رہتے تھے کہ حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم وہاں تشریف لے جائیں تو بھیجیں۔ مقصد صرف اتنا تھا کہ حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم راضی اور خوش ہوں۔
محبت کی شرع بڑی عجیب ہے اس میں اگر کبھی ناراضگی بھی ہوجائے تو وہ بھی محبت ہی ہوتی ہے۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہما کے ساتھ ایسا ناز و نیاز تھا جیسا کہ محب و محبوب کے درمیان ہوتا ہے اور وہ جو چاہتی تھیں، بلا جھجک عرض کردیتی تھیں۔ ایک دن حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہما کے حجرہ میں تھے اور باہم باتیں کررہے تھے، رسول عربی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’اے عائشہ! (رضی اللہ عنہا) میں جانتا ہوں کبھی مجھ سے خوش ہوتی ہو اور کبھی خفا ہوجاتی ہو‘‘۔
عرض کیا: ’’یا محبوب اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم! آپ کیسے جانتے ہیں؟‘‘ ارشاد فرمایا: ’’جب تم خوش ہوتی ہو تو کہتی ہو: ’’لا ورب محمد یعنی محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رب کی قسم اور جب خفا ہوتی ہو تو کہتی ہو لاورب ابراہیم یعنی ابراہیم علیہ السلام کے رب کی قسم۔ یہ سن کر سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہما نے عرض کیا: ’’یارسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم! آپ نے بالکل صحیح فرمایا‘‘۔
اور پھر عرض کیا:
میں نہیں چھوڑتی مگر صرف آپ کے اسم کو لیکن آپ کی ذات گرامی اور آپ کی یاد میرے دل میں ہے اور میری جان آپ کی محبت میں مستغرق ہے، اس محبت میں کوئی تغیر نہیں ہوتا۔
ایک دن رسول کریم رئوف الرحیم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’اے عائشہ! (رضی اللہ عنہا) اگر تم چاہتی ہو کہ میرے ساتھ جنت میں رہو تو تمہیں چاہئے کہ دنیا میں اس طرح رہو جس طرح کہ راہ چلتا مسافر ہوتا ہے کہ وہ کسی کپڑے کو پرانا نہیں سمجھتا جب تک کہ وہ پیوند کے قابل ہے اور وہ اس میں پیوند لگاتا ہے‘‘۔
ایک روایت میں ہے کہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہما نے عرض کیا: ’’یا حبیب اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم! میرے لئے دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ مجھے جنت میں آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج مطہرات میں سے رکھے‘‘۔
آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’اگر تم اس مرتبہ کو چاہتی ہو تو کل کے لئے کھانا بچا کے نہ رکھو اور کسی کپڑے کو جب تک کہ اس میں پیوند لگ سکتا ہے، بے کار نہ کرو‘‘۔
چنانچہ ان کی ساری زندگی حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس وصیت و نصیحت کی آئینہ دار رہی، کل کے لئے کبھی کھانا بچا کر نہ رکھا اور کپڑا پھٹ جاتا تو سی لیتی تھیں اور اگر ضرورت ہوتی تو پیوند لگالیتی تھیں۔
ام المومنین سیدہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہما کی ذات گرامی کی بدولت مسلمانوں کو بے شمار آسانیاں اور راحتیں نصیب ہوئی ہیں اسی میں ایک آیت تیمم کا نزول ہے۔
غزوہ بنی مصطلق میں جاتے وقت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہما نے اپنی بڑی بہن سیدہ حضرت اسماء بنت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے ایک ہار لے کر زیب تن فرمایا تھا، واپسی پر ایک مختصر پڑاؤ کے دوران ہار کا دھاگہ ٹوٹ گیا اور ہار کہیں گرگیا۔ حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہاں قیام کو طویل کردیا تاکہ گمشدہ ہار مل جائے اس منزل میں پانی نہ تھا اور مجاہدین کے پاس بھی پانی نہیں تھا اور نماز کا وقت فوت ہونے کے قریب تھا۔ بعض لوگوں نے سیدنا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے شکایت کی: ’’یہ تکلیف ہار کی گمشدگی کی وجہ سے پہنچی ہے‘‘۔
یہ سن کر وہ اپنی بیٹی کے پاس آئے تو اس وقت حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے آغوش میں سراقدس رکھے محو استراحت تھے۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنی بیٹی پر غصے کا اظہار کیا اور ہاتھ سے ٹھوکا دیا، لیکن سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہما نے جنبش تک نہ کی۔ مبادا محبوب و عالی شوہر اور اللہ تعالیٰ کے حبیب صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چشم مبارک خواب سے بیدار ہوجائے۔
صبح ہوگئی، پانی موجود نہ تھا کہ وضو کرکے فریضہ نماز ادا کرتے اس وقت اللہ تعالیٰ نے آیت تیمم نازل فرمادی اور لشکر اسلام نے صبح کی نماز تیمم کرکے پڑھی۔
اس کے بعد جب اونٹ کو اٹھایا گیا تو ہار اونٹ کے نیچے سے برآمد ہوا۔ گویا اس میں یہی حکمت الہٰی تھی کہ شریعت کے احکام میں مسلمانوں کے لئے آسانی اور سہولت مہیا کی جائے۔