مرتبہ: نازیہ عبدالستار
یٰٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اﷲِ وَرَسُوْلِهٖ وَاتَّقُوا ﷲَط اِنَّ ﷲَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ. یٰـٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْٓا اَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَلَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ کَجَهْرِ بَعْضِکُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُکُمْ وَاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ. اِنَّ الَّذِیْنَ یَغُضُّوْنَ اَصْوَاتَهُمْ عِنْدَ رَسُوْلِ ﷲِ اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ ﷲُ قُلُوْبَهُمْ لِلتَّقْوٰیط لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّاَجْرٌ عَظِیْمٌ.
’’اے ایمان والو! (کسی بھی معاملے میں) اﷲ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) سے آگے نہ بڑھا کرو اور اﷲ سے ڈرتے رہو (کہ کہیں رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بے ادبی نہ ہوجائے)، بے شک اﷲ (سب کچھ) سننے والا خوب جاننے والا ہے۔اے ایمان والو! تم اپنی آوازوں کو نبی مکرّم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی آواز سے بلند مت کیا کرو اور اُن کے ساتھ اِس طرح بلند آواز سے بات (بھی) نہ کیا کرو جیسے تم ایک دوسرے سے بلند آواز کے ساتھ کرتے ہو (ایسا نہ ہو) کہ تمہارے سارے اعمال ہی (ایمان سمیت) غارت ہوجائیں اور تمہیں (ایمان اور اعمال کے برباد ہوجانے کا) شعور تک بھی نہ ہو۔ بے شک جو لوگ رسول اﷲ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی بارگاہ میں (ادب و نیاز کے باعث) اپنی آوازوں کو پست رکھتے ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کو اﷲ نے تقویٰ کے لیے چُن کر خالص کر لیا ہے۔ ان ہی کے لیے بخشش ہے اور اجرِ عظیم ہے ‘‘۔
(الحجرات، 49: 1 تا 3)
اللہ رب العزت نے مذکورہ بالا آیات میں حضور علیہ السلام کی ادب و تعظیم کا حکم دیا ہے۔ ان آیات میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا۔ اے ایمان والو! اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے آگے نہ بڑھو۔ مفسرین فرماتے ہیں کہ اللہ پر آگے نہ کوئی بڑھا اور نہ بڑھ سکتا ہے۔ اس آیت کا سبب یہ تھا کہ دراصل بعض لوگوں نے نماز عیدلاضحی سے پہلے قربانی کرلی تھی اللہ نے منع فرمادیا یہ جو تم نے قربانیاں کیں وہ ضائع ہوگئیں۔ اب یہ گوشت ہے کھاؤ، پیو مگر قربانی دوبارہ کرو کیونکہ تم نے حضور علیہ السلام سے پہلے قربانی کرلی ہے۔ اسی طرح ایک روایت ہے:
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں۔ رمضان شریف شروع ہونے سے ایک دن پہلے کسی نے روزے رکھنے شروع کردیئے جبکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ عمل نہیں کیا تھا اس پر اللہ نے ان کے روزے ضائع کردیئے۔
جس کو امام بغوی نے امام فخرالدین رازی، امام جلال الدین سیوطی، امام خازن تمام ائمہ مفسرین نے بیان کیا۔
اس آیت مبارکہ میں ادب مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سکھایا جارہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنا نام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ اجلال رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے ملایا تاکہ حضور علیہ السلام کے ادب کو کوئی چھوٹا نہ سمجھے۔ یہ نکتہ سمجھانے کے لیے کہ اب مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی ادب خدا ہے اللہ تعالیٰ نے اپنا اسم مبارک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ملا لیا۔ ادب مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی ادب خدا ہے۔ نکتہ سمجھانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنا اسم مبارک ساتھ ملالیا۔ اگلی آیت میں فرمایا:
جب حضور علیہ السلام سے بات کرو تو اپنی آوازیں اونچی نہ کیا کرو۔ یہی ادب آج تک ہے۔ آج بھی مسجد نبوی میں جالی مبارک کے اردگرد قرآن مجید کی تلاوت بھی اونچی آواز میں کرنے کی اجازت نہیں ’لا تعرفعوا اصواتکم فوق صوت النبی صلی الله علیه وآله وسلم‘ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں اس طرح بات چیت نہ کرو۔ جیسے زور سے آپس میں ایک دوسرے سے بات کرتے ہو بلکہ ادب و احترام اور اچھے الفاظ کے ساتھ پکارو بے ادبی نہ کرو۔ بے ادبی تین قسم کی ہے:
1۔ کسی کام میں پہل کرنا
مفسرین بیان کرتے ہیں کہ پہل نہ کرنے میں دنیاوی کام بھی شامل ہیں مثلاً کوئی شخص سفر پر جارہا ہے۔ جب تک حضور علیہ السلام سفر کے لیے روانہ نہ ہوں تب تک کوئی بھی نہ جائے جب تک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سواری سے نہ اتریں تو کوئی پڑاؤ نہ کرے۔ کچھ کھانا، پینا ہے جب تک آقا علیہ السلام شروع نہ کریں۔ نہ کھائیں۔ یعنی یہ حکم ہے کہ حضور علیہ السلام کی سنت پر پہل نہ کریں۔ حضور علیہ السلام کی سنت کے خلاف نہ کریں۔ وہ بات جس سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اذیت ہو نہ کریں کیونکہ یہ سب بے ادبی میں شامل ہے جو کھانے حضور علیہ السلام کو پسند تھے طبیعت چاہے تو کھالو مگر یہ نہ کہو کہ مجھے پسند نہیں۔ یہ بات کہنے سے بے ادبی اور گستاخی ہوجائے گی جو لباس، صورت، کھانا، تہذیب وثقافت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پسند ہے، اس پر عمل نہ ہونا ایمان کی کمی ہے۔ مگر ایمان سلامت رہتا ہے۔ تارک سنت صرف گناہ گار ہوگا یا ثواب سے محروم ہوگا مگر ایمان برباد نہیں ہوگا مگر یہ کہہ دیا کہ مجھے پسند نہیں اس لیے میں نہیں کرتا۔
مثلاً آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مجھے شہر مدینہ پسند ہے۔ اب کوئی نہیں رہتا نہ رہے مگر یہ نہ کہے کہ مجھے مدینہ میں رہنا پسند نہیں۔ خواہ پانی یا آب و ہوا اس شخص کی طبیعت کے موافق نہیں یہ اسباب بے شک ہوں مگر کوئی یہ نہ کہے کہ مجھے مدینہ پسند نہیں جس نے کہہ دیا وہ کافر ہوگا۔ صحاح ستہ میں آقا علیہ السلام نے فرمایا کہ جو مدینہ کے رہنے والوں سے برائی کا ارادہ کرے۔ فرمایا اللہ پاک اس بدبخت کو دوزخ میں یوں پگھلادے گا جیسے پانی میں نمک پگھل جاتا ہے۔ اس کا مطلب ہے ہندو، سکھ یا مسلم کوئی مذہب ہو زیادتی کی اجازت نہیں جب زیادتی ہر جگہ حرام ہے پھر مدینہ کی تخصیص کیوں کی یہ کہیں نہیں فرمایا کہ جو فلاں شہر والوں سے زیادتی کرے دوزخ کی آگ میں پانی کی طرح پگھل جائے مگر یہ بات صرف اہل مدینہ کے لیے کہی کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پسند ہے بنیادی ادب جو اللہ پاک آقا علیہ السلام کا سکھا رہا ہے وہ زندگی کے ہر گوشے میں آج تک ہے۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے معمولات
سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے معمول کے حوالے سے کنزالعمال میں حدیث مبارک ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ سے کسی نے پوچھا کیا آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلیفہ ہیں؟ خلیفہ کا معنی ہے نائب، جانشین لیکن حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ادباً فرمایا میری کیا مجال کہ میں آقا علیہ السلام کا جانشیں بنوں فرمایا خلیفہ نہیں بلکہ خالفہ ہوں پنجابی میں خالفہ خالصہ کو کہتے ہیں۔
پوت اس کو کہتے ہیں جو باپ کی طرف سے ملنے والے خصلتوں کو برقرار رکھے، سپوت اس کو کہتے ہیں جو باپ کی عزت کو اور بڑھادے۔ اس کی عزت کو چار چاند لگادے لیکن کپوت اس کو کہتے ہیں جو باپ سے ملنے والی خوبیوں کو گنوادے۔ اسے عربی میں خالفہ کہتے ہیں۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے مقام مرتبہ سے ہر کوئی آگاہ ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ کے بارے میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود فرمایا میں نے دنیا میں ہر ایک کا بدلہ چکا دیا ہے سوائے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ان کے احسان کا بدلہ قیامت کے دن چکاؤں گا۔
ہجرت کی رات کفار تلوار لے کر کھڑے ہوئے کہ حملہ کرکے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو شہید کردیں گے۔ آقا علیہ السلام نے بستر پر مولا علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کو لٹایا۔ ان کا بستر پر لیٹنا گویا کہ اپنی جان کافروں کی تلواروں کے سپرد کرنا تھا اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ غار میں گئے۔ اپنا انگوٹھا اژدھا کو دے دیا۔ دونوں سپوت تھے جو جان دے رہے تھے مگر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کہتے ہیں خلیفہ نہیں خالفہ ہوں یعنی خاندان کا وہ فرد جس میں کوئی خوبی نہ ہو۔ میں وہ ہوں۔ آقا علیہ السلام کا نائب سمجھنا بھی بے ادبی سمجھا۔ خلیفہ کی جگہ خالفہ بول دیا۔ اس کے یہ ادب کا عالم تھا۔
ادبِ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ
دلائل النبوت میں ہے کہ ایک گلی میں ایک آدمی کھڑا تھا اس کے احوال اچھے نہیں تھے۔ اس وجہ سے کچھ لوگ اس کو برا بھلا کہہ رہے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ رک گئے۔ پوچھا تمہارا نام کیا ہے؟ اس کے والدین نے اس کا نام محمد رکھا تھا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اس کے گھر والوں کو بلایا اور فرمایا کہ میں اس کا نام تبدیل کررہا ہوں۔ آج سے اس کا نام محمد نہیں بلکہ عبدالرحمن ہوگا۔ اس پر والدین نے پوچھا حضور! نام کیوں بدل دیا؟ فرمایا اس کے اعمال اچھے نہیں اس وجہ سے اس کے نام کی بے ادبی ہورہی ہے۔ لوگ تو اسے برا بھلا کہتے ہیں مگر چونکہ نام محمد ہے بالواسطہ نام کی بے ادبی ہورہی ہے۔ اس لیے اس کا نام بدل دیا اور عبدالرحمن رکھ دیا ہے۔ عبدالرحمن کا معنی ہے اللہ کا بندہ۔
حدیث مبارک ہے کہ اگر کسی بیٹے کا نام محمد رکھ لو تو پھر اس کا ادب کیا کرو جو مانگے اسے دیا کرو۔ محروم نہ کیا کرو، طمانچہ نہ مارا کرو۔ فرمایا تم مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام کی لاج کیوں نہ رکھو گے جب خدا بھی لاج رکھتا ہے۔
حدیث مبارک ہے قیامت کا دن ہوگا اللہ فرمائے گا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آجاؤ تو جس جس کا نام بھی محمد ہوگا وہ سمجھے گا کہ شاید مجھے حساب و کتاب کے لیے بلایا ہے۔ ہر محمد نامی شخص دوڑتا ہوا آئے گا۔ فرشتے کہیں گے تمہیں نہیں بلایا تم کیوں آگئے ہو وہ کہیں گے ہمارا نام بھی محمد ہے۔ اللہ فرمائے گا انہیں مغالطہ ہوا ہے کوئی بات نہیں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدقے سارے آجاؤ۔
ادب حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ عمر میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑے تھے۔ دلائل النبوت میں ہے جس کو امام بیہقی نے روایت کیا ہے۔ کسی نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ آپ بڑے ہیں یا آقا علیہ السلام؟ آپ رضی اللہ عنہ نے جواب میں یہ نہیں کہا کہ میں عمر میں بڑھا ہوں بلکہ فرمایا ھواکبر منی وانا اقدم منہ فی المیلاد۔ (الترمذی، والحاکم) ’’بڑے تو وہی ہیں مگر میں پیدا پہلے ہوگیا تھا۔ حدیث کے دوسرے حصے میں موازنہ نہیں کیا کہ میں عمر میں بڑا ہوں‘‘۔ یہی بات آپ کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے پوچھی کون بڑا ہے آپ یا آپ کے بھتیجے۔ وہی جواب دیا بڑے تو وہی ہیں لیکن میں پیدا پہلے ہوگیا تھا۔
ادبِ حضرت مولا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نماز عصر قضا کردی جب وقت تھا نہیں بتایا کہ پڑھی نہیں۔ اگر بتادیا تو کہیں ایسا نہ ہو کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آرام نہ فرمائیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آرام کو مقدم کردیا اور نماز کو موخر کردیا۔ فرمایا علی بیٹھو! تمہاری گود میں سر رکھ کر لیٹ جاؤ لیکن آپ رضی اللہ عنہ نے نہیں بتایا کہ میں نے نماز نہیں پڑھی جب سورج ڈوب گیا تو پوچھا علی! نماز پڑھ لی تھی۔ سونے سے پہلے سرکار نے بھی نہیں پوچھا وہ بھی امتحان لینا چاہتے تھے کہ ان کے ایمان میں ادب کا مقام کیا ہے؟ ایک طرف نماز ہے دوسری طرف ادب مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔
شیخ، مرشد، استاد اور قائدکے ادب کے متعلق ہے کہ نماز پہلے ادا کی جائے گی شیخ کا ادب بعد میں ہے مگر ادب مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں ہے خواہ نماز بھی ہو تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا آرام پہلے ہے۔ نماز بعد میں پڑھی جائے گی۔ یعنی ادب مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں قانون بدل جائے گا۔ یہ سوال پیدا ہوا کہ قانون کیوں بدلا؟ دراصل نماز نام ہی دو چیزوں کا ہے۔ خدا کی ثنااور مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سلام۔ فرمایا جب قیام، رکوع، سجود، قومہ، جلسہ کر۔ اس کی قبولیت کا طریقہ یہ ہے کہ تم رانوں پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جاؤ۔ میرے محبوب پر سلام پڑھو۔ ثناء بھی قبول کروانی ہو تو مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سلام سے ہوتی ہے۔ جب خدا اپنی ثناء بھی مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سلام کے بغیر قبول نہیں کرتا تو دعا مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سلام کے بغیر کیسے قبول ہوسکتی ہے۔ غرض دنیا و آخرت کی بھلائیاں صرف ادب مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ہی ہیں۔