حضرت رابعہ بصری رحمۃ اللہ علیہا
یہ سنت الہٰیہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے محبوب اور مقرب بندوں اور ان کے احوال و مقامات کا ذکر فرماتا ہے بلکہ قرآن مجید میں اس کا وعدہ ہے:
سو تم مجھے یاد کیا کرو میں تمہیں یاد رکھوں گا اور میرا شکر ادا کیا کرو اور میری ناشکری نہ کیا کرو۔
ان کے ذکر کا مقصد اپنا وعدہ پورا کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی ہے کہ راہ حق کے طالبوں کے لیے میرے محبوب اور مقرب لوگوں کا ذکر میری سنت بن جائے اور یہ کہ ان کا پڑھنے اور سننے والوں کے دل بھی اسی حال کی طرف راغب ہوں۔ یہ ان کا زاد سفر بنے اور میری محبت و معرفت کی خوشبو ان تذکروں کے ذریعے آگے پھیلتی جائے اور ہزاروں لاکھوں جانوں کو معطر کرتی چلی جائے۔ ایسی ہی ایک ہستی جن کا ذکر دل میں رعب و خوف الہٰی کو زندہ کردیتا ہے حضرت رابعہ بصری رحمۃ اللہ علیہا ہیں۔
انہوں نے چند دنوں میں خصوصی مہارت سے امور دینیہ سیکھے بلکہ تحصیل علم میں مردوں پر سبقت لے گئیں۔ وہ اسرار فقہ و حدیث و تفسیر کو خوب سمجھتی تھیں۔ ہر چھوٹے بڑے مسئلہ سے آگاہ تھیں حتی کہ انہوں نے بہت سی حدیثیں زبانی یاد کرلیں حتی کہ آپ کا شمار اپنے زمانے میں بڑے بڑے مفکرین مفسرین محدثین صوفیاء عظام میں شمار ہونے لگا۔
آپ کا معمول تھا کہ دن میں روزہ رکھتیں اور رات عبادت میں صرف کرتیں اتباع فقہ و تقرب الی اللہ میں وہ اس قدر منہمک ہوتیں کہ ہر دنیا کی ہر چیز کو ٹھوکر ماردی حضرت رابعہ بصری نے اپنی جوانی کو اللہ رب العزت کی عبادت و تسبیح و تحلیل میں مصروف رکھا تاکہ تقویٰ، معرفت الہٰی حاصل کرسکیں۔
رباح بن عمر قیس، امام سفیان ثوری، امام مالک بن دینار اور شیخ عبدالواحد بن زید جیسے اکابرین آپ کے معاصرین تھے مگر حضرت رابعہ بصری ان سب سے عبادت میں آگے تھیں حضرت رابعہ بصری نے اپنی عمر کی بیشتر راتیں نماز روزہ دعا میں گزار دیں اور جب وہ سوجاتیں تو پشیمان روتی ہوئی اور اپنے نفس کو ملامت کرتی اٹھتیں کہ وہ اتنی دیر مولا سے کیوں غافل رہیں جب عشاء کی نماز سے فارغ ہوتیں تو اللہ کے حضور عرض کرتیں کہ پروردگار ستارے روشن ہوگئے لوگ سوگئے ہیں بادشاہوں نے دروازے بند کرلیے پر حبیب اپنے حبیب سے محو خلوت ہے اور میں یہاں تیرے سامنے کھڑی ہوں پھر ساری رات نماز پڑھتی رہتیں حتی کہ فجر ہوجانے پر تلاوت کلام پاک میں مصروف ہوجاتیں جب روشنی پھیل جاتی تو اس طرح مناجات کرتیں اے خدا رات گزر گئی دن پھر آگیا کاش مجھے یہ معلوم ہوتا تو نے میری نماز قبول کرلی یا رد کردی۔ تیری عزت کی قسم! میرا یہی طریقہ رہے گا جب تک تو مجھے جواب نہ دے گا یا میری مدد نہ کرے گا۔ قسم ہے تیری عزت کی! اگر تو مجھے اپنے دروازے سے دھتکار دے گا تو میں نہ ٹلوں گی کیونکہ تیری محبت میرے دل میں گھر کرگئی ہے۔ حضرت رابعہ پر جب بھی نیند غالب آجاتی اور وہ ذرا سوجاتیں تو فوراً ڈری ہوئی گھبرائی ہوئی اللہ سے دعائیں مانگتی ہوئی اٹھتیں پھر وہ اس طرح اپنے رب سے فریاد کرتیں اے نفس تو کب تک سوئے گا؟ وہ دن قریب ہے کہ تو ایسی نیند سوجائے گا کہ پھر یوم حشر کی چیخ و پکار تجھے جگا دے گی۔
سچی حکایت
حضرت سلطان باہو رحمۃ اللہ علیہ بہت بڑے ولی اللہ تھے۔ ایک مرتبہ ایک شخص آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ آپ ہل چلارہے تھے اور خستہ حال کپڑے پہن رکھے تھے۔ اس شخص کو بڑا رنج ہوا اور وہ بغیر کچھ کہے واپس ہونے لگا تو آپ نے اس کو آواز دی اور کہا کہ تم کچھ کہے بغیر واپس کیوں جارہے ہو؟ تو وہ شخص بولا کہ میں تو آپ سے مالی امداد مانگنے آیا تھا لیکن آپ کا حال دیکھ کر میں چپ چاپ واپس اس لیے جارہا تھا کہ آپ تو خود تنگدست ہیں میری کیا امداد کریں گے۔
حضرت سلطان باہو نے اسی وقت زمین سے مٹی کا ڈھیلا اٹھایا اور زمین پر مارا۔ اس شخص نے نگاہ ڈالی تو تمام مٹی سونا بن چکی تھی۔ آپ نے فرمایا کہ جتنی ضرورت ہے سونا لے لو۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرامینِ مبارکہ
- اگر خوش رہنا ہے تو دوسروں کو خوش رکھنا سیکھو۔
- بہترین انسان عمل سے پہچانا جاتا ہے اچھی باتیں تو برے لوگ بھی کرتے ہیں۔
- غریب پر احسان کرو کیونکہ غریب ہونے میں وقت نہیں لگتا۔
- توبہ کا خیال خوش بختی کی علامت ہے کیونکہ جو اپنے گناہ کو گناہ نہ سمجھے وہ بدقسمت ہے۔
- بدترین ہے وہ شخص جس کے ڈر کی وجہ سے لوگ اس کی عزت کریں۔
- سب سے زیادہ نیکی اپنے دوستوں اور ہم نشینوں کی عزت کرنا ہے۔
- سادگی ایمان کی علامت ہے۔
- خود کو مظلوم کی بددعا سے بچاؤ اس لیے کہ وہ خدا سے صرف اپنا حق مانگتا ہے اور خدا حقدار کو اپنا حق مانگنے سے نہیں روکتا۔ (یعنی اسے اس کا حق ضرور دیتا ہے
تین چیزیں
کبھی چھوٹی نہ سمجھیں:
- فرض، قرض، مرض
کسی کا انتظار نہیں کرتیں:
- موت، وقت، گاہک
سوچ سمجھ کر اٹھاؤ:
- قدم، قلم، قسم
خلوص سے کرنی چاہئے:
- رحم، کرم، دعا
یاد رکھنا ضروری ہے:
- سچائی، فرائض، موت
انسان کو ذلیل کرتی ہیں:
- چوری، چغلی، جھوٹ
کوئی دوسرا نہیں چرا سکتا:
- عقل، علم، ہنر