سورہ البقرہ کی پہلی پانچ آیات قرآن مجید کی عظمت کو اور اس کے ہر قسم کے شک و شبہ سے پاک ہونے کو بیان کرتی ہیں یہ آیات متقین مومنین کی صفات و علامات بیان کرتی ہیں: مومنین کی صفات درج ذیل ہیں:
- ایمان بالغیب
- اقام الصلوٰۃ
- اللہ کے دیئے ہوئے مال میں سے اللہ کی راہ میں خرچ کرنا ہے جس میں زکوٰۃ و صدقات شامل ہیں۔
- اللہ کی نازل کردہ وحی پر ایمان لانا
- آخرت پر یقین رکھنا۔
قرآن پاک ان صفات کے حامل لوگوں کو ہدایت اور فلاح و کامیابی کی ضمانت دیتا ہے۔
آیت نمبر 6 اور 7 میں کفار کی علامات اور صفات بیان کی گئی ہیں اور اس کفر کا بیان ہے جسے انسان خود اختیار کرتا ہے پھر پوری ضد،ہٹ دھرمی، ثابت قدمی اور پختہ ارادے کے ساتھ اس پر قائم رہتا ہے۔ انہیں پھر ہدایت دینا اور ڈر کی بات سنانا فائدہ نہیں دیتا۔ ان کی کیفیت یہ ہوجاتی ہے جیسے ان کے دلوں پر کانوں پر مہر ثبت کردی گئی ہے جیسے پردہ آگیا ہو۔ انہیں کچھ سنائی و سجائی نہیں دیتا اور انہیں کچھ سمجھ نہیں آتا۔
علامات منافقین
سورہ البقرہ کی آیت نمبر 8 سے لے کر آیت نمبر 20 تک مسلسل منافقت اور ان کی علامات کا ذکر اور بیان ہے۔ منافقین ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں مگر دل سے مومن نہیں ہیں۔ ایک ان کی علامات بیان کی گئی ہے کہ وہ اللہ کو رسول کو اور لوگوں کو دھوکہ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ منافقت دل کا مرض ہے جسے منافقت کی بیماری لگ جائے وہ گھٹتی نہیں بلکہ بڑھتی چلی جاتی ہے۔ چنانچہ ابتدا ہی میں اس کا علاج کروالینا انتہائی ضروری ہے۔ حد سے بڑھ جائے تو پھر یہ لاعلاج مرض ہے۔ منافقین دراصل فساد بپا کرتے ہیں اور کہتے یہ ہیں کہ ہم اصلاح کررہے ہیں چنانچہ وہ اصلاح کے نام پر فسادی ہوتے ہیں۔
ان کی ایک علامات یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو ہدایت یافتہ عاقل و بالغ اور صحیح فہم و فراست کا مالک سمجھتے ہیں جبکہ سب لوگوں کو بےوقوف جاہل ان پڑھ اور پاگل خیال کرتے ہیں۔ یہ لوگ متعصب اور دوغلہ پن کے حامل ہوتے ہیں اور ہر کسی سے دھوکہ دہی کرتے ہیں۔ اللہ رب العزت نے ان کی زندگی کی تین مثالیں دی ہیں۔ آیت نمبر 17 میں عملی حوالے سے آیت 19 میں ماحولیاتی حوالے سے اور تیسری آیت نمبر ایک نفسیاتی حوالے سے۔ یعنی ان کو ایمان ملنے کی مثال ایسے ہے جیسے آگ جل اٹھی ماحول روشن ہوگیا مگر وہ اپنی بدبختی کے باعث دوبارہ تاریکیوں میں ڈوب گئے یعنی ایمان کی قدر نہ کی اور دولت ایمان سے محروم کردیئے گئے اب یہ بہرے گونگے اندھے ہوگئے ہیں ان میں حق کی طرف پلٹنے کی صلاحیت نہیں رہی۔
عملی مثال
سورۃ البقرہ کی آیت نمبر17 میں عملی مثال بیان کرتے ہوئے بدبخت کفار کا ذکر کیا گیا ہے جن کے سامنے آفتاب نبوت پوری آب و تاب سے روشن تھا لیکن ان کے اعمال بد کے باعث ان سے قبول حق کی سعادت چھین لی گئی جیسے روشن دن میں آنکھوں کا نور سلب کرلیا جائے اب تاریکیاں ان کا ہمیشہ کے لیے مقدر بن گئیں۔
ماحولیاتی مثال
آیت نمبر19 میں ماحولیاتی مثال بیان کی گئی ہے جسے آسمان سے زور دار بارش ہورہی ہے اس سے دین اسلام اور ایمان کی برکتوں کی بارش مراد ہے۔ جس میں بجلی کڑک چمک سب کچھ ہوتا ہے مشکلات ہوتی ہیں اوامر و نواہی ہوتے ہیں قربانیاں اور تکلیفیں ہوتی ہیں اس کو بجلی کی کڑک اور چمک کے ساتھ تعبیر کیا ہے۔ وہ جب مشکل وقت آتا ہے تو رک جاتے ہیں پیچھے کھڑے ہوجاتے ہیں ساتھ نہیں دیتے جب کڑک چمک ختم ہوجائے تو ساتھ دیتے ہیں۔ آگے چلتے ہیں یہ ان کی مفاد پرستانہ کیفیت ہے وہ ماحول کو دیکھ کر چلتے ہیں۔
نفسیاتی مثال
آیت نمبر20 میں نفسیاتی حوالے سے یہ بیان کیا گیا ہے کہ ان کو خوف رہتا ہے کہ بجلی ان کی آنکھیں اچک لے گی اور بصارت ختم ہوجائے گی جب ماحول میں چمک دیکھتے تو چل پڑتے ہیں جب اندھیرا چھا جاتا ہے تو رک جاتے ہیں۔ اس سے مراد یہ ہے کہ بعض آیات قرآنی منافقین کی سمجھ میں آتی ہیں اور جنہیں وہ اپنے لیے سازگار سمجھتے ہیں وہ قبول کرلیتے ہیں جو ان کی سمجھ میں نہیں آتی ان کا انکار کردیتے ہیں۔