مقصد ہو اگر تربیت لعل بدخشاں
بے سود ہے بھٹکے ہوئے خورشید کا پرتو
ہے روایات کے پھندوں میں گرفتار
کیا مدرسہ کیا مدرسہ والوں کی تگ و دو
وہ کہنہ دماغ اپنے زمانے کے ہیں پیرو
(علامه اقبال، ضرب کلیم)
لفظ ’’معلم‘‘ کہنے کو تو چار لفظوں کا مجموعہ ہے لیکن یہ اپنے اندر پورے معاشرے کی باگ دوڑ سنبھالے ہوئے ہے۔ اس ایک شخصیت میں معاشرے کی تنزلی و ترقی پنہاں ہے۔ یہ حیرت انگیز ایجادات اور نت نئی دنیا میں آپ کو تبدیلیاں نظر آرہی ہیں یہ سب اس ایک شخصیت کے گرد گھومتی ہیں۔ معلم کی حیثیت ایک رہنما کی ہے۔ معمار کی ایک داعی کی ہے، معلم کے کندھوں پر بہت بڑی ذمہ داری اللہ پاک نے رکھی ہے ’’معلم‘‘ کو جو مقام ہمارے مذہب دین اسلام میں دیا گیا ہے شاید ہی کسی اور مذہب میں وہ مقام اس کو دیا گیا ہو۔ جس مذہب کی ابتداء ہی لفظ اقراء سے ہو اس میں پڑھنے اور پڑھانے کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا اللہ نے اس کائنات کے لوگوں کے لیے انبیاء مبعوث فرمائے جو انہیں حق کی اور ہدایت کی تعلیم دیتے تھے جو ان کو اچھے اور برے میں فرق کرنا سکھاتے تھے جو اس دنیا میں نت نئے چیلنجز کا کس طرح سامنا کرنا ہے اس کی تربیت فرماتے تھے۔ اسی علم کی بنا پر انسان کو وہ مقام ملا جو فرشتوں کو بھی نہ ملا۔ فرشتوں نے حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کیا۔
جو پایہ علم سے پایا بشر نے
فرشتوں نے بھی وہ پایہ نہ پایا
علم کے بغیر دنیا اندھیری ہوتی لوگ آج بھی غاروں میں رہتے اور قدیم طرز زندگی گزارتے۔ علم، معلم کے بغیر نہیں سیکھا جاسکتا ہے۔ علم رب کا نور ہے جس کے لیے اللہ اپنے خاص بندں کو چنتا ہے۔ انبیاء کرام رب کے خاص بندے ہیں اور انہی خاص بندوں نے یہ ذمہ داری پھر انسانوں پر ڈال دی۔
حدیث مبارکہ ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے آسمان و زمین کی تمام مخلوقات، بلوں میں رہنے والی چیونٹیاں، پانی میں رہنے والی مچھلیاں اس شخص کے لیے دعائے خیر کرتی ہیں جو لوگوں کو بھلائی سیکھاتا ہے۔ (ترمذی) دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے:
بہترین صدقہ یہ ہے کہ انسان علم سیکھے اور اپنے مسلمان بھائی کو سکھائے۔
(ابن ماجه)
اب ہم جو سوچیں جس مذہب میں معلم کو وہ مقام حاصل ہو جو کسی بھی مقام سے اونچا ہے۔
ہمارے معاشرے کا المیہ ہے کہ اساتذہ کرام آج اس پیشے کو بوجہ مجبوری اپناتے ہیں اور احساس کمتری کا شکار ہوجاتے ہیں جب کوئی اور شعبہ زندگی میں مقام نہیں بنا پاتے تو اس کو اختیار کرتے ہیں جو سراسر اس فرض سے ناانصافی ہے۔ معلم قوموں کے معمار جن کے ہاتھوں میں بچے ایک ایسی صاف تختی لے کر آتے ہیں کہ وہ اس پر جو لکھتا جائے گا وہ ان کے ذہنوں پر نقش ہوتا جائے گا۔
جس طرح ایک معمار کہیں سے مٹی لے آتا ہے اس کو چھانتا ہے پھٹکا ہے اور پھر گوندھ کر جو شکل دینا چاہے اس میں ڈھال دیتا ہے۔ معلم بھی اپنے طلبہ کو جو چاہے اس صورت میں ڈھال سکتا ہے۔
ایک معلم اگر چاہے تو معاشرے کو ترقی کی اس منزل پر پہنچاسکتا ہے جس کی اس معاشرے کو ضرورت ہوتی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ کس طرح دنیا کے عظیم معلمین نے اپنے شاگردوں کو کہاں سے کہاں پہنچادیا۔ اچھا معلم نہ صرف بچے کو نصابی کتب کی تعلیم دیتا ہے بلکہ وہ اپنی تخلیق اور مطالعہ کی وجہ سے بچوں میں نصاب کے علاوہ بہت ساری مہارتیں پیدا کرتا ہے۔ وہ اس کی روحانی، نفسیاتی، اخلاقی، معاشرتی بلکہ ہمہ پہلو تربیت کرنے کا ذمہ دار ہے۔
یہ سب تب ممکن ہے جب معلم کا اپنا کردار اس چیز کا آئینہ دار ہو اس میں یہ تمام خوبیاں پائی جائیں جو ہمارے آقا دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اندر موجود تھیں۔ کیونکہ دنیا کے سب سے بڑے معلم تو وہ خود ہیں۔ ہم اُن کے جیسے تو نہیں بن سکتے لیکن ان کی زندگی ہمارے لیے مشعل راہ ہے جس پر چل کر ایک معلم اپنی اصلاح کرسکتا ہے اور اپنے طلبہ کی رہنمائی کرسکتا ہے۔ کردار کے بغیر علم دماغ کا تعیش ہے اور دل کا نفاق ہے اور عمل کی خوبیاں پیدا نہ ہوں تو علم کا درخت بے ثمر اور بے فیض ہے۔ انہیں طالب علم کے لیے حسن اخلاق کا نمونہ ہونا چاہئے۔ قابلیت اور شرافت اور اخلاق کی وجہ سے تعلیم باآور ہو۔
استاد کی شخصیت براہ راست بچے کی شخصیت پر اثر انداز ہوتی ہے وہ ان کے دلوں کو چھولیتا ہے ایک اچھا معلم وہ ہوتا ہے وہ اسلام کے مطابق بچوں کی تربیت کرے۔ اسلام کے نزدیک معیاری تعلیم وہ ہے جس کے نتیجے میں انسان خودشناسی اور خدا شناسی سے ہمکنار ہو ورنہ تعلیم اس کے اور کوئی تبدیلی نہیں آسکے گی۔ وہ ایک اچھا ڈاکٹر، انجینئر، وکیل، سائنس دان یا کچھ بھی بن جائے گا لیکن ایک اچھا انسان معاشرے کا ایک سرگرم کارکن نہیں بن پائے گا اور نہ اس کو آنے والی دنیا میں کامیابی ملے گی۔
علامہ اقبال اپنے نوجوانوں کو شاہین پرندے سے تعبیر کرتے تھے جو عیش و آرام کی بجائے پہاڑوں کی چوٹیوں پر زندگی گزارتا ہے۔ جو مردہ شکار نہیں کھاتا، اپنا شکار کرکے کھاتا ہے جو ایک باغیرت اور بہادر پرندہ ہے۔
نہیں تیرا نشیمن قیصر سلطانی کے گنبد پر
تو شاہین ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر
معلم کو چاہئے اپنے طلبہ کو ایسا درس دیں کہ وہ اچھے اور برے میں تمیز کرسکیں۔ دنیا کے نت نئے چیلنجز کا مقابلہ کرسکیں۔ اپنے کردار کو بہتر بنائیں خود شناس اور خدا شناس ہوں تاکہ انہیں دونوں جہانوں میں کامیابی ملے۔
معلم ان کی رہنمائی کرے کہ یہ دنیا ایک امتحان گاہ ہے اور کس طرح اس امتحان میں کامیابی حاصل کرنی ہے۔ بڑے افسوس کے ساتھ اگر آج ہم اپنے موجودہ نظام پر نظر ڈالیں تو ہمیں ایسی تعلیم کہیں نظر نہیں آتی نہ باوقار اساتذہ اور نہ ہی بااثر نصاب بلکہ ہمارا نظام تعلیم مغربی ممالک کی تقلید پر چل نکلا ہے۔
موجودہ نظام میں تعلیم ایک کاروبار کی حیثیت اختیار کرگئی ہے جس نے معلم کے مقام کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ معلم کی شخصیت اب طلبہ کے لیے وہ مقام نہیں رکھتی جو پرانے وقتوں میں رکھتی تھی۔ جہاں خلیفہ ہارون الرشید کے بچے اپنے استاد محترم کے جوتے اٹھانے کے لیے بھاگتے تھے۔
آج بیشتر معلم، تعلیمی، اخلاقی، روحانی لحاظ سے کہیں سے بھی ایسا دکھائی نہیں دیتا۔ ڈگریوں کا بوجھ اٹھائے ہوئے معاشرے کی معاشی بھیڑ چال کے ساتھ چل رہا ہے جنہوں نے حق کی تعلیم دینی تھی وہ خود موجودہ دور کے پیروکار بن گئے ہیں اور اچھے اور برے کی تمیز، خودشناسی اور خداشناسی سکھانے کے بجائے معاشرے کے کارخانوں کے آلہ کار بنارہے ہیں۔
اپنا حق نہ ادا کیا تو یہ معاشرہ کبھی ترقی نہیں کرسکے گا بلکہ اسی طرح یہاں کرپٹ، بے ایمان، معاشرتی استحصال کرنے والے، مائوں اور بہنوں کی عزتوں کو پامال کرنے والے ہی لوگ تیار ہوتے رہیں گے اور معلم روز قیامت اللہ کے حضور جواب دہ ہوگا کہ اور اللہ ان سے سوال کرے گا۔ وارث بنایا تھا تو کیا تم نے وہ فرائض پورے کیے؟ تو معلمین کیا جواب دیں گے۔
اللہ پاک ہم سب کو آقا د وجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات پر عمل کرنے والا اور دینے والا بنائے۔ آمین