استاد ایک ایسی شخصیت ہے جو اپنی ذات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے طلباء کی کردار سازی میں اہم اور نمایاں راہِ عمل معین کرنے کی حامل ہے۔ اپنے تجربات، تحقیق اور علم کی روشنی میں طلباء کی زندگی میں انقلاب پیدا کرتی ہے۔ دختران اسلام کی ٹیم نے عالمی ٹیچر ڈے کی مناسبت سے ایک ایسی ہی شخصیت محترمہ ڈاکٹر تسنیم اختر جو تقریباً 30 سال سے تدریس کے شعبہ سے وابستہ رہیں ان کا خصوصی انٹرویو کیا جو نذر قارئین کیا جارہا ہے۔
اپنی ابتدائی تعلیمی حالات کے بارے میں آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ ان کا تعلیمی کیریئر ناقابل بیان ہے۔ انہوں نے اپنی تمام تر تعلیم پرائیویٹ حاصل کی۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی انگلش کی کتاب میں ایک نظم تھی۔ جس میں ایک لفظ Enough تھا جس کی ادائیگی کے لیے ہر پڑھے لکھے انسان کے پاس گئی لیکن اس کا جواب نہ ملا پھر انہوں نے ٹھان لی کہ میں نے ضرور پڑھنا ہے انہوں نے میٹرک کا امتحان پرائیویٹ پاس کیا پھر F.A اور BA کے امتحانات بھی پرائیویٹ دیئے۔ اس کے بعد ان کی شادی ہوگئی۔ ایک روز ان کے والد صاحب کے دوست نے بتایا کہ بینک میں آسامی ہے اگر کسی نے B.A کیا ہو تو بھیج دیں کیونکہ میں نے BA پاس کیا تھا تو میری بینک میں جاب ہوگئی۔ اس دوران میں نے خود سے پڑھ کر پنجاب یونیورسٹی میں ایم اے اردو میں اول پوزیشن حاصل کرلی جیسے ہی پبلک سروس کمیشن کی آسامیاں آئیں تو میں نے بھی امتحان دیا اور فوری کچھ عرصے بعد ڈائریکٹ گریڈ 18 اور گریڈ 19 میں ترقی حاصل کی۔ اللہ کی توفیق، عزم مصم اور انتھک محنت سے ہر میدان میں کامیاب رہی۔
طلباء کی شخصیت میں استاد کا کردار کے حوالے سے اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ:
والدین بچے کو اس دنیا میں لے کر آتے ہیں لیکن استاد طالب علم کو آسمان کی بلندی پر اڑنا سکھاتے ہیں۔ ان کی روح کی نشوونما کرتے ہیں۔ انہیں نیکی و بدی میں فرق کرنا سکھاتے ہیں، چھوٹے اور بڑے کی تمیز سکھاتے ہیں۔ دل و دماغ کو روشن کرتے ہیں۔ طلباء کو اچھے اخلاق اور مضبوط قوت ارادی کا مالک بناتے ہیں۔ طلباء کی شخصیت سازی میں استاد کا نہایت اہم کردار ہے۔ استاد ایک قوم کو پروان چڑھاتے ہیں۔ اس کا کام محض کتب رٹوانا نہیں بلکہ طلباء کے اندر علم کو اتارنا ہوتا ہے تاکہ ان کے من کی دنیا روشن ہوجائے، اس کی روشنی میں پورا عالم فیض یاب ہو اس لیے استاد کو طلباء کے لیے رول ماڈل بننا چاہئے۔ ان کے اٹھنے بیٹھنے، چال، ڈھال، کردار و گفتار بلکہ استاد کی ہر ہر ادا سے طالب علم کو سیکھنے کو ملے۔ استاد کو انتھک محنت کا عادی ہونا چاہئے تاکہ طلباء کی رگ میں محنت سما جائے۔ طلباء کو علم کا مقصد سمجھانا چاہئے کہ علم اس لیے حاصل کریں کہ صرف اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضا حاصل ہو۔ جب اس نیت سے علم حاصل کریں گے تو دنیا و آخرت کی کامیابیاں سمیٹیں گے۔
انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پبلک سروس کمیشن میں استاد کی شخصیت کے حوالے سے نمبرز ہونے چاہئیں کہ استاد کو ان خوبیوں کا متحمل ہونا چاہئے کیونکہ ایک نسل اس کے ہاتھوں پروان چڑھتی ہے اور مہذب معاشرہ بنانے میں استاد کا بہت اہم کردار ہے لہذا مخلص وفا شعار، محنتی لوگوں کا انتخاب بطورمعلم ہونا چاہئے۔
عصر حاضر میں استاد کے ادب و احترام پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ نیک، صالح، صاحب تقویٰ اور ماہر استاد کا احترام کبھی کم نہیں ہوتا بلکہ ہر لمحہ اس کی عزت میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے جو خود صاحب علم ہے اور اپنے علم سے دوسروں کو منور کرتا ہے۔ اس کی اہمیت کبھی کم نہیں ہوتی لیکن جو خود ماہر نہیں ہوتے ان کو طلباء میں پذیرائی نہیں ملتی۔ میرا خیال ہے صاحب علم و ہنر کا احترام تا قیامت کم نہیں ہوسکتا اور جن اساتذہ کا ادب کم ہورہا ہے ان میں وہ استاد شامل ہیں جو اپنے پیشے کا حق ادا نہیں کرتے اور اپنے علم میں ماہر نہیں۔ آج سوشل میڈیا کا دور ہے۔ نت نئی ریسرچ منظر عام پر آرہی ہے اگر استاد کا علم طالب علم سے زیادہ نہ ہو تو طلباء اسباق میں عدم دلچسپی لیتے ہیں۔ لہذا استاد کو محنتی، خوش اخلاق، چست اور ہر نئی ریسرچ سے باخبر ہونا چاہئے۔
طلباء میں بڑھتے ہوئے عدم برداشت کے رجحان پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ
طلباء میں یہ رویہ اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ نہ صرف لڑکے بلکہ لڑکیوں میں بھی عدم برداشت کا رویہ بڑھ رہا ہے۔ ذرا سی سختی پر فوری غصے میں آجاتے ہیں یہاں ضرورت ہے کہ طلباء میں برداشت کی تربیت سکول سے ہی ہونی چاہئے۔ اچھی تعلیم یافتہ سکول ٹیچر متعین کرنی چاہئے جو بچپن میں ہی طلباء کو صبر کی خصوصی تعلیم دیں کہ اگر کوئی بڑا آپ کی بہتری کی بات کرے تو غصہ میں نہیں آنا۔ اس سلسلہ میں اپنی زندگی کی مثال بیان کروں گی کہ میں جب سمن آباد کالج میں پرنسپل تھی کہ تقریباً سات ہزار طالبات اور 250 سٹاف میرے ساتھ کام کرتا تھا لیکن کوئی ایک شخص بھی میرے خلاف نہیں تھا۔ سب میری عزت کرتے تھے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ جب کسی کو حتی کہ مالی کو بھی غصہ آگیا تو میں اس وقت چپ ہوجاتی تھی لیکن بعد ازاں بلاکر سمجھاتی کہ آپ نے یہاں غلطی کی ہے۔ وہ سمجھ جاتے۔ قوت برداشت سے مجھے یہ فائدہ ہوا کہ جب میں کالج میں پرنسپل مقرر ہوئی اس وقت درختوں کے نیچے کلاسز ہوتی تھیں پھر میں نے عزم مصمم سے کالج کی بلڈنگ بنوائی، ہال بنوائے، کالج کے میدان بنوائے گرل گائیڈ مقرر کی۔ جس سے کالج میں ہر وقت پھول کھلے رہتے تھے۔ اساتذہ، طلبائ، مالی، نوکر چاکر سب مجھ سے بہت خوش تھے اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ مجھے ہر کام آتا تھا۔ اگر کسی کو سمجھ نہ آتی تو میں ا ن کو کرکے دکھادیتی تھی۔ یہاں تک کہ میں طالبات کو تھائی لینڈ کیمپ پرلے کر گئی۔ ان سارے کام کے ساتھ میں Ph.D بھی کررہی تھی۔ بچوں کو بھی سنبھالتی تھی۔ میں نے کالج کو اپنی ذمہ داری سمجھا اور ایک ٹیم ورک کے طور پرکام کیا تو ہر کوئی خوشی سے میرا ساتھ دیتا اب میں ریٹائرڈ ہوچکی ہوں لیکن بڑی مطمئن اور خوبصورت زندگی بسر کررہی ہوں۔ اس کی بنیادی وجہ برداشت اور عزم مصمم یہ دونوں چیزیں انسان کو زندگی میں بہت آگے لے جاتی ہیں۔ یہی دونوں چیزیں سکول سے ہی طلباء کی زندگی میں ڈالنے کی ضرورت ہے۔
آخر میں انہوں نے اپنے قارئین کو پیغام دیا کہ:
اگر طلباء، محنت اور لگن اور تن دہی کے ساتھ علم حاصل کرتے ہیں تو کامیابی ضرور ان کے قدم چومتی ہے۔ اللہ رب العزت اس کی محنت کو کبھی رائیگاں نہیں جانے دیتا۔ لہذا اپنی زندگی کا مقصد اولین بنائیں کہ اس ملک و قوم کی خدمت کرنی ہے، انسانیت کی خدمت کرنی ہے پھر اس پر خوش اخلاقی اور اخلاص کے ساتھ ڈٹ جائیں تو منزل کو ضرور پالیں گے۔