انتخابات نہیں پر امن انقلاب

خطاب : شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

ترتیب و تدوین: محمد یوسف منہاجین معاون: محمد طاہر معین

اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

أَفَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَتَكُونَ لَهُمْ قُلُوبٌ يَعْقِلُونَ بِهَا أَوْ آذَانٌ يَسْمَعُونَ بِهَا فَإِنَّهَا لَا تَعْمَى الْأَبْصَارُ وَلَكِن تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ

’’تو کیا انہوں نے زمین میں سیر و سیاحت نہیں کی کہ (شاید ان کھنڈرات کو دیکھ کر) ان کے دل (ایسے) ہو جاتے جن سے وہ سمجھ سکتے یا کان (ایسے) ہو جاتے جن سے وہ (حق کی بات) سن سکتے، تو حقیقت یہ ہے کہ (ایسوں کی) آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں لیکن دل اندھے ہو جاتے ہیں جو سینوں میں ہیں‘‘۔

الحج، 22 : 46

پاکستانی قوم کی بے بسی کی اجتماعی تصویر

ہم ایک ایسے معاشرے میں زندگی گزار رہے ہیں جہاں عامۃ الناس مکمل طور پر خواب غفلت میں ہے۔ عوام بے شعوری اور کم آگاہی کا شکار ہیں، سوسائٹی میں ہر طرف نفسا نفسی کا عالم ہے اور اس معاشرہ پر انسانی خصلتوں کے بجائے حیوانی خصلتیں غالب آتی جارہی ہیں۔ انسان کی عزت اور جان و مال کی حفاظت نہیں ہے۔ صورت حال یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ سرحد پار سے بھی اگر لوگ آکر ہماری قوم کی بیٹیوں کو قتل کردیں، دہشت گردی کریں، عزت و حرمت کوپامال کریں الغرض جو چاہیں کریں ہمارے صاحبان اقتدار نہ انہیں روکنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور نہ ہی اپنی عوام کی جان اور عزت و مال کی حفاظت کرنے کے قابل ہیں۔

کرپشن ہماری سوسائٹی کا رواج بن گئی ہے۔ ظلم، استحصال اور لاقانونیت حکمرانوں کی روش بن گئی ہے، پاکستانی سوسائٹی ظلم و بربریت کا نمونہ بن گئی ہے اور معاشرہ لاقانونیت کا شکار ہوگیا ہے۔ قانون کی حکمرانی ناپید ہے غریب اور کمزور کی داد رسی کے لئے عملاً کوئی قانون نہیں ہے۔ قتل و غارت گری صبح و شام کا معمول ہے۔ ہر طرف بدامنی اور دہشت گردی ہے۔ ہر شخص اپنے مفادات کا پجاری ہے۔ قوم ایک قوم نہیں رہی۔

ان حالات میں سیاسی و ملکی قیادت ایسے لوگوں کے ہاتھ میں ہے جو حقیقت میں اس کے اہل نہیں۔ جس کی وجہ سے فرقہ واریت اور عصبیتیں فروغ پاتی رہیں۔ نتیجتاً اس سے انتہاء پسندی کو فروغ ملا اور پھر معاشرہ انتہاء پسندی سے جبر و بربریت و قتل و غارت کی طرف بڑھتا چلا گیا۔ کہیں بھی توازن، اعتدال، محبت، رواداری، عدل و انصاف کا کوئی وجود نہیں رہا۔ سوسائٹی میں عدل و انصاف تلاش کرنے سے نہیں ملتا۔ زندگی اس حد تک عذاب بن گئی ہے کہ لوگ شاید مرنا آسان سمجھتے ہیں۔ بنیادی ضروریات سے سوسائٹی کلیتاً محروم ہے۔ لوڈشیڈنگ، کرپشن، دہشت گردی، مہنگائی، بے روزگاری اور ناانصافی ملک کا نظام بن گئی ہیں۔ اس نظام میں پاکستان زندہ ہے مگر اس کی سا لمیت اور خودمختاری محفوظ نہیں۔

اجتماعی سیاسی بے شعوری کی شکار قوم

ان تمام حالات میں سب سے زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ یہ جو کچھ ہورہا ہے قوم کو اجتماعی طور پر اس کا شعور ہی نہیں ہے۔ اس ناکامی و بربادی کا احساس ہی قوم میں سے ختم ہوگیا ہے۔

وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
اور کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا

ہر شخص اپنی ذاتی زندگی کو بچانے یا سنوارے کی فکر میں ہے۔ ہر شخص اپنی ذات میں محصور ہوکر رہ گیا ہے اور ذاتی مسائل سے باہر نکل کر قومی سطح پر کچھ سوچنے کو تیار ہی نہیں۔ گویا ہم فکری اور شعوری اعتبار سے اس مقام تک پہنچ گئے ہیں جس کے بارے میں قرآن نے کہا:

لَهُمْ قُلُوْبٌ يَّعْقِلُوْنَ بِهَآ اَوْ اٰذَانٌ يَّسْمَعُوْنَ بِهَا فَاِنَّهَا لَا تَعْمَی الْاَبْصَارُ وَلٰـکِنْ تَعْمَی الْقُلُوْبُ الَّتِیْ فِی الصُّدُوْرِ.

الحج، 22 : 46

’’ان کے دل (ایسے) ہو جاتے جن سے وہ سمجھ سکتے یا کان (ایسے) ہو جاتے جن سے وہ (حق کی بات) سن سکتے، تو حقیقت یہ ہے کہ (ایسوں کی) آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں لیکن دل اندھے ہو جاتے ہیں جو سینوں میں ہیں‘‘۔

اس قوم ملک کے ساتھ کیا ہورہا ہے۔۔۔؟ مستقبل میں کیا ہونے والا ہے۔۔۔؟ ہمارا، ہماری نسلوں، ہمارے دین، ایمان، معاشرتی اقدار، تہذیب، معاش، دنیا، آخرت اور ہماری زندگی کا کیا ہوگا۔۔۔؟ اس حوالے سے ہر شخص کو نظر آرہا ہے کہ آگے مکمل اندھیرا ہے۔ مستقبل کے بارے میں کوئی بھی مطمئن نہیں سوائے چند محدود افراد کے جو اقتدار میں آتے جاتے رہتے ہیں اور اس روایتی سیاست میں حصہ لیتے رہتے ہیں اور ہر وقت اقتدار میں آنے کے انتظار میں رہتے ہیں۔

روایتی سیاست و اقتدار کا کھیل کھیلنے اور اس سے اپنے مفادات کو تحفظ دینے والا یہ طبقہ 1فیصد سے بھی کم ہے۔ 19کروڑ افراد کے معاشرے میں ایسے افراد جو کسی نہ کسی شکل میں اقتدار میں رہتے ہیں خواہ وہ پارلیمنٹ کے ممبرز ہیں یا سینٹ کے، صوبائی اسمبلی کے ممبر بنیں یا صدر، وزیراعظم، وزیراعلیٰ، گورنر اور مشیر کے عہدوں پر براجمان ہوں یا دیگر اعلیٰ حکومتی عہدے رکھتے ہیں یعنی وہ جو اقتدار کا مزہ چکھتے ہیں اور مزہ چکھنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں ان کی تعداد 19 کروڑ کی آبادی میں سے 10 ہزار بھی نہیں ہے۔

علاوہ ازیں وہ لوگ جن کو اللہ نے مال و دولت اور اچھے وسائل دیئے ہیں، اچھا کاروبار یا اچھی Job ہے۔ ان کی زندگی صحیح گزر رہی ہے مگر مشکلات کا سامنا انہیں بھی ہے۔ ان تمام لوگوں کی تعداد 19کروڑ میں سے صرف تقریباً 10 لاکھ ہے مگر یہ لوگ بھی پریشان اور مایوس ضرور ہیں اسی لئے اپنا سرمایہ ملک سے باہر لے جارہے ہیں، بچوں کو باہر بھیج رہے ہیں، یعنی اس ملک میں ان کو سرمایہ کاری، معاشرتی لحاظ سے انہیں یہاں کوئی مستقبل نظر نہیں آرہا۔

تو خود تقدیر یزداں کیوں نہیں

ان دو طبقات کے علاوہ پوری کی پوری سوسائٹی جہنم کی آگ میں جل رہی ہے۔ مایوسیوں اور پریشانیوں میں ہے اور ان کو اپنا کوئی مستقبل نظر نہیں آرہا۔ میں ان پریشان حال اور مایوس لوگوں سے مخاطب ہوں، میری آواز اور میرا پیغام مجبور و بے کس اور مستقبل سے ناامید ہر شخص کے لئے ہے کہ آپ کا اپنا مستقبل اور پاکستان کا مستقبل یہ سب آپ کے اپنے ہاتھ میں ہے۔ چاہے تو اس کو بدل ڈالیں اور چاہیں تو اسی طرح بدحالی اور خوف پر مبنی زندگی گزارتے رہیں۔ اگر قوم یہ سوچتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اچھے دن لائے گا تو یاد رکھیں! ایسے اچھے دن از خود کبھی نہیں آیاکرتے۔ ہم اجتماعی طور پر ایک غلط خیال کا شکار ہیں کہ ہماری بے حسی اور بے عملی کے باوجود اللہ تعالیٰ اچھے دن لائے گا۔ یہ بات یاد رکھ لیں کہ اللہ تعالیٰ خودبخود کسی قوم کے لئے اچھا وقت نہیں لاتا۔ انسانی تاریخ میں اس کی کوئی مثال موجود نہیں، یہ اللہ رب العزت کے نظام قدرت میں ہی نہیں۔ ہم ایک ایسی امید لگا کر بیٹھے ہیں جس کے خلاف اللہ رب العزت نے اعلان کر رکھا ہے کہ

اِنَّ اﷲَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی يغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ.

(الرعد:22)

’’بے شک اﷲ کسی قوم کی حالت کو نہیں بدلتا یہاں تک کہ وہ لوگ اپنے آپ میں خود تبدیلی پیدا کر ڈالیں‘‘۔

اس حوالے سے حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے واضح ارشادات ہیں کہ ظلم کے خاتمے اور برائیوں کے خلاف لڑنے کے لئے جو قوم جب تک خود نہیں اٹھتی بلکہ ظلم کو ہوتا دیکھتی رہتی ہے، اس قوم کی حالت کبھی نہیں بدلتی بلکہ اس قوم کو عمومی عذاب میں مبتلا کردیا جاتا ہے۔ اس عمومی عذاب کی لپیٹ میں نیک اور بد سارے شامل ہوجاتے ہیں۔

عمومی عذاب قوم کا مقدر کیوں؟

متعدد احادیث مبارکہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آخری زمانے کے فتنوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ فتنوں کے دور میں زلزلے آئیں گے، ہلاکتیں ہونگیں، لوگ تباہ و برباد ہونگے اور ہر کوئی نیک و بد اس عمومی عذاب کا شکار ہوگا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پوچھتے یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! جو بُرے لوگ ہونگے(کرپشن کرنے والے، استحصال کرنے والے، منافقت کرنے والے، لوٹ مار کرنے والے، باری تعالیٰ کے احکام کی نافرمانی کرنے والے) وہ تو سارے اس عذاب کا شکار ہوں گے مگر نیک اس عذاب کی لپیٹ میں کیوں آئیں گے؟ اس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جواباً فرماتے: جب قوموں پر عمومی عذاب آتا ہے تو ہر خاص و عام اور نیک و بد اسکا شکار ہوتا ہے۔ نیک اور صالح بندوں کو اُن کے نیک اعمال کا اجر قیامت والے دن بایں صورت ملے گا کہ ہر ایک اپنی نیتوں، نیک و بد اعمال کے مطابق جدا جدا اٹھایا جائے گا اور اس کے ساتھ جدا جدا حساب کتاب ہوگا۔ یعنی نیک و بد کے مابین فرق قیامت کے دن نظر آئے گا کہ نیک کی شان کیا ہوگی اور خائن و بدکار لوگوں کا حال کیا ہوگا۔

مگر جب عمومی عذاب آتے ہیں تو سارے اس کی لپیٹ میں آجاتے ہیں۔ جب قحط آئے تو سارے اس کی لپیٹ میں آجائیں گے، یہ نہیں ہوگا کہ نیکوں کے گھر قحط نہ ہو اور بُرے لوگوں کے گھر میں قحط ہو، اسی طرح سیلاب اور زلزلے بھی نیک و بد کے گھروں کا فرق کرتے ہوئے نہیں آئیں گے بلکہ بلا امتیاز ہر ایک کو ہلاک کرتے چلے جائیں گے۔ عمومی اجتماعی عذاب میں یہ تمیز نہیں ہوگی بلکہ یہ اولیاء، صالح، اہل اللہ اور نیکو کار ہیں لہذا ان کے گھر بچ جائیں اور بدی میں شریک مارے جائیں، نہیں، ایسا ہر گز نہیں ہوتا۔

فرسودہ انتخابی نظام

اللہ تعالیٰ کسی قوم پر عمومی عذاب مسلط کرنے کا فیصلہ اس وقت کرتا ہے جب وہ قوم من حیث الکل ظلم کے خلاف نہیں اٹھتی۔ قوم کا ہر فرد ظالم نہیں مگر ظلم کا معنی یہ بھی ہے کہ جو ظلم کے خلاف آواز بلند نہ کرے، اس لحاظ سے وہ ظالم کا معاون ہے لہذا وہ بھی ظالم ہے چونکہ وہ ظلم کے خلاف نہیں اٹھا اور جبرو بددیانتی پر مبنی نظام کا حصہ بنارہا ہے۔

ہمارے ہاں انتخابات کے وقت اس ظالمانہ، خیانت، بددیانتی، غنڈہ گردی، حرام خوری اور غریبوں کی دولت لوٹنے کے نظام میں 35 سے 40 فیصد لوگ ووٹ ڈالتے ہیں۔ یاد رکھیں! یہ ووٹ ڈالنے والے اپنے ووٹ کے ذریعے اس ظالمانہ، منافقانہ، دجل و فریب اور کرپشن پر مبنی انتخابی نظام کے براہ راست معاون ہوں۔ اس لئے کہ جس نے جس کو بھی ووٹ دیا بالآخر حکومت یا اپوزیشن دونوں میں سے کسی ایک صورت میں جیتنے والا امیدوار اسی نظام کا حصہ بنتا ہے جو نظام غریبوں کو موت کے منہ میں دھکیل رہا ہے اور جس کے سبب اجتماعی طور پر ہلاکت اور تباہی قوم کا مقدر بن رہی ہے۔

ہمارے ملک میں 35 سے 40 فیصد لوگ ووٹ ڈال کر اس فرسودہ اور ظالمانہ انتخابی نظام کے ذریعے ظالم کے معاون بنتے ہیں۔ بقیہ 60 سے 65 فیصد لوگ ووٹ ہی نہیں ڈالتے۔ ووٹ نہ ڈالنے والوں میں سے کچھ لوگ وہ ہیں جو سرے سے اس نظام سے ہی مایوس ہوچکے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ہمارے ووٹ نہ ڈالنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا، سب ایک جیسے ہیں۔ ان کے ہاں مکمل مایوسی ہے اور وہ اس مایوسی سے ووٹ نہیں ڈالتے۔ انہی میں کچھ لوگ وہ ہیں جو قومی معاملات میں دلچسپی نہیں رکھتے، قوم کی کشتی کنارے لگے یا غرق ہوجائے، خون بہے، کسی کی عزت لٹے، کسی کا کاروبار تباہ ہو، انہیں کسی کی پرواہ نہیں، وہ صرف اپنی ذات میں مست ہیں، انہیں قومی مسائل سے کوئی سروکار نہیں۔ گویا ووٹ نہ ڈالنے والے 60 فیصد میں سے ایک طبقہ مایوس ہے اور دوسرا طبقہ لاتعلق۔ 40% کسی نہ کسی جماعت کو ہر پانچ سال بعد ووٹ ڈالتے ہیں جس کے انجام میں وہ حکومتیں بنتی ہیں جس کی وجہ سے ان نااہل لوگوں کو قیادتیں ملتی ہیں جو ملک کو موجودہ صورتحال تک پہنچانے کے ذمہ دار ہوتے ہیں یہی ووٹ دینے والے انتخابات والے دن کے بعد سے لے کر اگلے انتخابات تک انہیں گالیاں دیتے ہیں مگر پانچ سال بعد جب تمہارا ووٹ دینے کا مرحلہ آتا ہے تو انہی لوگوں کو ووٹ دیتے ہیں جن کے سبب روزگار، بجلی چھینی گئی، خون بہائے گئے، عزت، مال و دولت لوٹے گئے اور جو تباہی کا باعث بنے۔

لہذا لوگ یا تو اس نظام کا حصہ بنتے ہیں یا مایوسی اور لاتعلقی کی وجہ سے خاموش ہیں۔یہی طرز عمل عمومی اور اجتماعی عذاب کا سبب بنتا ہے۔ بطور قوم ہم عمومی عذاب کی لپیٹ میں آچکے ہیں یا عمومی عذاب کا آغاز ہوچکا ہے، اپنے مقدر کو سنوارنے کے لئے ہمیں خود آگے بڑھنا ہوگا اور کلیدی کردار ادا کرنا ہوگا۔

ملک پاکستان میں رائج فرسودہ سیاسی و انتخابی نظام پر حکومت و اپوزیشن کی صورت میں مسلط ہر دو فریق بظاہر ایک دوسرے کے ساتھ لڑائی میں مصروف نظر آتے ہیں مگر حقیقت میں ایک ہیں۔ آئندہ انتخابات کے نتائج بھی موجودہ نظام سے مختلف نہیں ہوں گے۔ جس طرح آج حکومت و اپوزیشن دونوں قوم کے وسائل سے وفاق اور صوبوں میں اپنے حصے کے مطابق حصہ لے رہے ہیں، اسی طرح آئندہ بھی جن جن علاقوں پر جس جس کا قبضہ ہے، وہ قبضہ برقرار رہے گا کیونکہ اُن کے لئے یہی مناسب ترین شکل ہے۔ آج کل کے حالات میں ان کی لڑائی اور بیان بازی سے یہ کبھی خیال نہ کریں کہ لڑنے والے دراصل لڑ رہے ہیں، نہیں بلکہ یہ ان کے سیاسی کھیل کا حصہ ہے۔ وہ لڑتے ہوئے دکھائی ضرور دیتے ہیں مگر مفادات اور لالچ کی وجہ سے وہ اکٹھا رہنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ مفادات یا دوسروں کا خوف ان کو اکٹھا رکھتا ہے۔

اجتماعی عذاب کی علامات

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہم روایت کرتے ہیں کہ آقا علیہ السلام نے فرمایا: آخری زمانے میں ایسا وقت آئے گا کہ جو آدمی اپنے کردار میں جتنا گھٹیا ہوگا وہ اس قوم کا حکمران بنے گا۔

دوسرے مقام پر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ آقا علیہ السلام نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ جب کسی قوم، کسی فرد یا کسی جماعت اور معاشرے کو عذاب دینے اور ہلاک کرنے کا فیصلہ کرتا ہے تو سب سے پہلے اس سوسائٹی سے حیا ختم کردیتا ہے۔ حیا ختم ہونے کے بعد رفتہ رفتہ ان میں سے امانت کو اٹھا لیتا ہے، جب ان میں سے امانت اٹھ جاتی ہے، وہ سارا معاشرہ خائن اوردھوکہ باز بن جاتا ہے۔ ہر شخص دوسرے کے ساتھ دھوکہ کرتا ہے۔ ہر شخص اپنی استعداد اور طاقت کے مطابق خیانت کرنے لگ جاتا ہے، لوٹ مار اور کرپشن پر لگ جاتا ہے، پس جب سوسائٹی کرپٹ بن جاتی ہے تو تیسرا عذاب ان پر اس صورت میں آتا ہے کہ اس سوسائٹی کے لوگوں کے دلوں سے رحمت اور نرمی چھین لی جاتی ہے۔

ہم آج معاشرے میں ہر روز خون خرابہ ہوتا دیکھتے ہیں، لوگ مارے جاتے ہیں، قتل ہوتے ہیں، بوری بند لاشیں آتی ہیں، مگر کسی کی آنکھ نہیں بھیگتی۔ ہم سے رحمت چھین لی گئی ہے اسی لئے کسی دوسرے کے نقصان پر کوئی تڑپتا نہیں۔ پس جب رحمت چھین لی جاتی ہے تو وہ طبقہ ملعون طبقہ بن جاتا ہے۔ اس کے بعد آہستہ آہستہ اسلام کی تعلیمات پر عمل بھی معاشرے سے رخصت ہوجاتا ہے، صرف نام کے مسلمان رہ جاتے ہیں۔ اسلامی غیرت ختم ہوجاتی ہے، اسلامی اعمال ختم ہوجاتے ہیں، اسلامی کلچر ختم ہوجاتا ہے۔ اسلامی زندگی ختم ہوجاتی ہے حتی کہ وہ خود کو مسلمان کہنے اور اسلامک سوسائٹی کے نام سے شرم و عار محسوس کرتے ہیں۔

آج ہم اسی صورت حال سے دوچار ہیں۔ آج ہمارے معاشرے کے کرپٹ ترین افراد اور منافق لوگ ہمارے لیڈر ہیں۔ افسوس آج میڈیا، سیاسی قائدین، مال دار لوگ، کاروباری لوگ اسی مروجہ لوٹ مار اور خیانت و دھوکہ دہی پر مبنی نظام کی تعریف کرتے نہیں تھکتے۔ اس لئے کہ ان سب کی بقاء اس نظام سے ہے لہذا یہ تمام اس بات پر متفق ہیں کہ یہ نظام برقرار رہنا چاہئے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں جو مرضی ہوجائے مگر اس نظام کو پٹری سے نہ اتارا جائے۔ اسی کا نام انہوں نے جمہوریت بنادیا ہے۔

انتخابات نہیں انقلاب

ہمارے اندر قوم کے حالات بدلنے کی صلاحیت، طاقت اور قابلیت ہے، مگر وہ صلاحیت ختم ہورہی ہے۔ ان حالات میں ہمیں اٹھنا ہوگا اور اس نظام کے خلاف بغاوت کرنی ہوگی۔ انتخابات کے جھوٹے نظام کے خلاف انقلاب کے لئے اٹھنا ہوگا اور یہ نعرہ بلند کرنا ہوگا کہ۔۔۔ انتخابات نہیں انقلاب۔۔۔ انقلاب کے ذریعے اسلام آئے گا۔۔۔ انقلاب کے ذریعے جمہوریت آئے گی۔۔۔ انقلاب کے ذریعے دہشت گردی کا خاتمہ ہوگا۔۔۔ انقلاب کے ذریعے امن آئے گا۔۔۔ انقلاب کے ذریعے آپ کو عزت ملے گی۔۔۔ انقلاب کے ذریعے ملک کی سا لمیت کا تحفظ ہوگا۔۔۔ انقلاب کے ذریعے آزادی ہوگی۔۔۔ انقلاب کے ذریعے خود مختاری ہوگی۔۔۔ انقلاب کے ذریعے پاکستان بچے گا۔۔۔

اس جھوٹے نظام پر مبنی انتخابات کے ذریعے پاکستان کو توڑنے کی سازش ہورہی ہے اور میرا پیغام اس قوم کے ہر فرد تک پہنچائیں میں یہ ہی پیغام دینے کے لئے ان شاء اللہ 23 دسمبر کو لاہور مینار پاکستان پر پہنچ رہا ہوں۔ پوری قوم کو یہ پیغام و فکر دینے پوری قوم کے کانوں تک آواز پہنچانے اور اپنا فرض ادا کرنے کے لئے پاکستان آرہا ہوں۔ میرا یہ پیغام حکمرانوں کے لئے بھی ہے اور عوام کے لئے بھی ہے۔ میری کسی کے ساتھ کوئی دشمنی نہیں، کسی سے کوئی عداوت نہیں ہے۔ سن لیں! میرے کوئی سیاسی عزائم نہیں ہیں، میں انتخابات میں حصہ لینے کے لئے نہیں آرہا ہوں۔ میرا مقصد اس کھیل میں شریک ہونا نہیں ہے۔ میں 19کروڑ عوام کو یہ بات سمجھانے کے لئے آرہا ہوں کہ فرسودہ انتخابی نظام اس ملک کو برباد کردے گا، توڑ دے گا۔ اگر قوم ملک بچانا چاہتی ہے تو انقلاب لائے اور انقلاب کے ذریعے اس نظام کو مسترد کردے اور اصل جمہوریت کی طرف آئے۔

رفقاء و وابستگان کیلئے ہدایات

کارکنان کے لئے لازم ہے کہ وہ میرے اس انقلابی پیغام کو ہر خاص و عام تک پہنچانے کے لئے شب و روز کوشش کریں اور لاکھوں کی تعداد میں 23دسمبر 2012ء اتوار کے دن عوام کا سمندر اکٹھا ہوکر اس نظام کو دریا برد کرنے کا آغاز کرے۔ خبردار! کوئی شخص اس دن مسلح نہیں آئے گا، کسی مسلح شخص کا ہمارے ساتھ کوئی تعلق نہ ہوگا۔ کسی دہشت گرد کو اجتماع میں داخل نہ ہونے دیں۔ پرامن پچاس لاکھ افراد اس موقع پر پہنچیں تاکہ دنیا کا میڈیا یہ کہنے پر مجبور ہوجائے کہ پوری قوم اس فرسودہ سیاسی و انتخابی نظام کے خلاف ’’انتخابات نہیں انقلاب‘‘ کا نعرہ لے کر بیدار ہوگئی ہے۔ اگر مصری اپنا مستقبل بچانے کے لئے اٹھ سکتے ہیں تو پاکستانی قوم کو کیا ہوگیا ہے۔۔۔؟ تیونس کے لوگ ملک کی تقدیر بدلنے کے لئے اٹھ کھڑے ہوسکتے ہیں تو پاکستانی قوم تمہیں کیا ہوگیا ہے۔۔۔؟ اگر لیبیا میں لوگ اٹھ کھڑے ہوسکتے ہیں تمہیں کیا ہوگیا ہے۔۔۔؟ یہ قومیں چالیس چالیس سال مسلط امریتیں ختم کرنے کے لئے اٹھ رہی ہیں لیکن پاکستانی قوم کیوں بنی اسرائیل جیسی قوم بن گئی ہے۔۔۔؟ کیوں بھیڑ بکریاں بن کر زندگی گزار رہے ہیں۔۔۔؟ خدارا! ملک بچانے کے لئے اٹھو۔

50 لاکھ افراد مینار پاکستان پر جمع ہوکر دنیا کو اس فرسودہ انتخابی نظام کو رد کرنے کا انقلابی پیغام دیں۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ ہم نے نہ کوئی اسلام آباد پر حملہ کرنا ہے۔۔۔ نہ مارچ کرنا ہے۔۔۔ نہ کوئی گھیرائو جلائو کرنا ہے، ایک پتھر تک نہیں مارنا۔۔۔ نہ سیاست میں اور نہ الیکشن میں حصہ لینا ہے۔ ہمارا مقصد قوم کو بیداری شعور کا ایک پیغام دینا ہے، موجودہ مسائل اور ان مشکل حالات سے نکلنے کا لائحہ عمل اور روڈ میپ دینا ہے کہ پاکستانی قوم اگر حقیقی طور پر ان حالات اور 65 سال سے ملک پر قابض نام نہاد قیادتوں سے تنگ ہیں۔ تبدیلی چاہتے ہیں تو باہر نکل کر اس نظام کے خلاف بغاوت کریں۔ تن من دھن کی بازی لگادیں۔ پاکستان کی تاریخ کا رخ موڑنے کے لئے اور اس کا مقدر بدلنے کے لئے آئیں۔ ہم پُرامن طریقے سے انقلاب اور تبدیلی چاہتے ہیں۔ ہم نے اس نظام انتخابات کو مسترد کرنا ہے۔ یہ اجتماع مصطفوی انقلاب کا سنگ میل ہوگا۔ یہ انقلاب کا نقطہ آغاز ہوگا جب پوری قوم یہ پیغام دے گی کہ

We Want Change

کارکنان اپنی کاوشیں شب و روز جاری رکھیں۔۔۔ اجتماعات کریں۔۔۔ Internet کے ذریعے پیغام پھیلائیں۔۔۔ SMS کے ذریعے میسج دیں۔۔۔ Facebook کو Use کریں۔۔۔ اخبارات کو استعمال کریں۔۔۔ ٹی وی چینل تک اپنے پیغام کو پہنچائیں۔۔۔ اور پرامن طریقے سے اس پیغام کو ساری عوام تک پہنچائیں۔۔۔

’’انتخابات نہیں پرامن انقلاب‘‘ کے نعرے کو ہر جگہ پہنچائیں۔ لوگوں کو سیاسی شعور سے بہرہ مند کریں اور انہیں خواب غفلت سے بیدار کرتے ہوئے اُن کی محرومیوں کا احساس دلائیں اور اُن کو یہ باور کرائیں کہ تمہارا اصل دشمن یہ نظام ہے جس نے تمہیں ضروریات زندگی سے بھی محروم کردیا ہے۔ اس لئے آیئے پاکستان کی عزت بحال کریں، پاکستان کی سالمیت کو بحال کریں، آزادی کو بحال کریں۔

اس طرح کی کاوشیں بروئے کار لائیں کہ یہ اجتماع پوری قوم کا نمائندہ اجتماع بن جائے، پاکستان کی تاریخ میں لازوال نتائج کا حامل ہو۔ مرکز، کارکنان اور مقامی تنظیمات کام کا آغاز کریں اور رات دن کا آرام اپنے اوپر حرام کرلیں اور اتنا کام کریں کہ ایک تاریخ رقم ہوجائے۔

دعا کرتا ہوں اللہ رب العزت اس قوم کا مقدر بدل دے اور اس پرامن کوشش کے ذریعے پرامن انقلاب کو اس قوم کا مقدر بنادے۔۔۔ اللہ رب العزت اس قوم سے چھینی گئیں خوشیاں واپس لوٹادے۔۔۔ دکھی انسانیت کو عزت واپس دلادے۔۔۔ جان و مال کے تحفظ کے ساتھ اس قوم کو جینا عطا کردے۔۔۔ اللہ تعالیٰ آپ کو پرامن اور آباد و شاداب رکھے۔۔۔ آقا علیہ السلام کے نعلین پاک کا سایہ سب کے سروں پر ہو اور اللہ کی مدد و نصرت آپ کے ہمیشہ شامل حال رہے۔