اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اعلیٰ دینی اقدار چراغ لے کر ڈھونڈنے سے بمشکل دکھائی دیتی ہیں اور جمہوریت کے نام پر چند خاندانوں کو حکومت کا دائمی حق حاصل ہے۔ آمریت اس کی سیاست کاجزو لاینفک بن گئی ہے اور ادارے باہم مقابل کھڑے ہیں۔ عوام کے اجتماعی شعور پر بے حسی کی دبیز تہہ جمی ہے اور کرپشن، انتہا پسندی اور دہشتگردی کی دیمک ہماری معیشت کو کھوکھلا کئے جارہی ہے۔ صاحبان ثروت ریاست میں اپنے فلاحی کردار کے احساس سے بھی محروم ہوکر تقسیم کا فلسفہ فراموش کرکے ضرب کا کھیل کھیلے جارہے ہیں۔ بیرونی مداخلت خودمختاری کو رخصت کررہی ہے اور پاکستانیوں کی اکثریت ہے کہ احساس زیاں سے کوسوں دور۔
لوٹ مار، اخلاقی بے راہ روی، فتنہ و فساد ہماری اجتماعی سلامتی کی بربادی کے مختلف نام ہیں۔ بدقسمتی کہ ہماری زندگی کے تمام معاملات میں کرپشن سرائیت کرگئی ہے۔ بحیثیت قوم ہم اپنی اقدار سے محروم ہوتے چلے جارہے ہیں؛ ثقافت، زبان، روایات، تعظیم اور سماجی اقدار سے دوری مخلص طبقے کا درد دل بن چکا۔ اخلاقی انحطاط ہے کہ آسمان کو چھورہا ہے؛ گمراہی، بدکرداری کا عفریت پورے معاشرے کو نگل رہا ہے اور ہم ہیں کہ بے بس۔ نظامِ سیاست، انتظامیہ، نظامِ تعلیم، پولیس، صحت حتی کہ نام نہاد مذہبی گروہ بھی کرپشن زدہ ہوچکے۔ پولیس اور دیگر اداروں کی کالی بھیڑوں نے انصاف کے مقدس شعبے کو بھی آلودہ کردیا ہے۔ عدالتوں میں زیر التوا مقدمات انصاف کے اعلیٰ رویے کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ دولت کی ہوس ہے کہ معاشرے کی غالب اکثریت پر سوار ہے، ضمیر چند روپوں اور ڈالرز کے عوض بکنے کو بے تاب ہیں۔ یہ بے تابی معاشرے کے حسن کو مسلسل نوچے جارہی ہے۔ مٹی سے محبت کا جذبہ بھی دعوے کی نسبت کافی نحیف ہوچکا جبکہ حب الوطنی تو جبر کے خلاف شدید مزاحمت کا تقاضا کرتی ہے۔ مزاحمت کا نحیف جذبہ اس یلغار کے سامنے خاموش تماشائی۔ یہ رجحان معاشروں کو کھوکھلا کرکے اجتماعی سطح پر بگاڑ کو جنم دیتا ہے اور زوال مقدر ہوجاتا ہے۔
یہ ’’جمہوری نظام‘‘۔۔۔؟
جمہوریت کا مطلب ہے: عوام کی حکومت یعنی ایک ایسا نظام جس میں عوام اپنے منتخب نمائندوں کو اختیار دیتے ہیں کہ وہ ان کو حقوق دلانے کے لئے آئین کے ڈھانچے کے اندر رہ کر قانون سازی کریں۔ حقیقی جمہوریت میں عوام کو ووٹ دینے کا حق تو ہوتا ہی ہے مگر وہ ووٹ لینے کے مجاز بھی قرار پاتے ہیں۔ پارلیمنٹ عوام میں سے منتخب کی جاتی ہے نہ کہ مخصوص طبقات اور خاندانوں سے۔ ہمارے ہاں کہنے کو تو جمہوریت ہے جبکہ ہم تو حقیقی جمہوریت سے بہت دور دوسرے کنارے پر بیٹھے اسے دیکھنے سے بھی معذور ہوچکے ہیں اور اتنے محروم ہیں کہ احساس محرومی سے بھی نا آشنا۔ چند خاندانوں کے موروثی حق اقتدار کو ’’عوامی حکمرانی‘‘ نہیں کہا جاسکتا۔
پاکستان کی جمہوریت عوام کشی کا نہ ختم ہونے والا تسلسل ہے۔ کرپشن سے کوئی طبقہ محفوظ نہیں جمہوری ادارے کمزور اور مفلوج ہوچکے ہیں۔ جاگیردارانہ نظام نے اکثریت کو جکڑ رکھا ہے تو پڑھے لکھے سرمایہ داریت کے شکنجے میں پھنسے بے بسی کی تصویر ہیں۔
پاکستانی سیاست اصولوں سے عاری ہوکر ملک و قوم کے لئے ناسور بن چکی ہے۔ سیاسی کھلاڑی ملکی معاملات کو بطریق احسن چلانے کے ہنر سے عاری ہیں اور ذاتی مفادات کا حصول ان کی پہلی اور آخری ترجیح ہے۔ سطحی اور عامیانہ خواہشات کی تکمیل کے لئے وہ ملک و قوم کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے سے بھی نہیں چوکتے۔ ملک میں غیر جانبدارانہ اور موثر احتساب کا نظام نہیں البتہ سیاسی مخالفین کو انتقامی کارروائیوں کو نشانہ بنانے کے لئے اس ادارے کا استعمال خوب کیا جاتا ہے اور ٹاک شوز اور عوامی اجتماعات میں احتساب کے ادارے کو موثر بنانے کے رسمی بیانات بھی دیئے جاتے ہیں چونکہ احتساب کا موثر نظام موجود نہیں اور قانون کا خوف نہ ہونے کے برابر ہے اس لئے نام نہاد سیاسی اشرافیہ بلا جھجک لوٹ مار کا بازار گرم کئے ہوئے ہے۔ ہمارا سیاسی نظام از خود اصلاح پذیر ہونے کی صلاحیت سے عاری ہے اس لئے ’’اصلاح احوال‘‘ کے نام پر فوجی مداخلت کا جواز بھی بنالیا جاتا ہے اور ملک طویل عرصے کے لئے آمریت کے حوالے سے ہوجاتا ہے۔ فوجی آمر اداروں کو مزید کمزور کرکے آئین کو موم کی ناک کی طرح اپنے مفادات کے مطابق ڈھال لیتے ہیں۔ سیاسی مناصب کے زور پر تجوریوں کا سائز بڑا کرنے کی ہوس نے ہمیں حقیقی جمہوریت سے کوسوں دور کردیا ہے جبکہ نام نہاد سیاسی نظام کے تحفظ کے لئے سیاسی اجارہ دار یک جان دکھائی دیتے ہیں تاکہ چند سیاسی خاندان ہی اقتدار پر قابض رہیں۔ حقیقت میں عوام کی خدمت ہی سیاستدانوں کا مطمع نظر ہونا چاہئے مگر یہ سب قصہ پارینہ ہوچکا ہے اور سیاستدان سرکاری حیثیت کا ناجائز استعمال کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔
ریاست کے تین بنیادی ستون مقننہ کا کام قانون سازی، عدلیہ کے ذمہ قانون کی شرح اور توضیح ہے جبکہ انتظامیہ قوانین کے عملی نفاذ کی ذمہ دار ہے۔ مثالی جمہوری معاشروں کی روایت تو یہی ہے کہ مقننہ قانون سازی کرے اور انتظامیہ اسے نافذ مگر تیسری دنیا کے معاملات ہی نرالے ہیں۔ حکومت کے یہ ادارے ایک دوسرے کے اختیارات سلب کرنے کے لئے باہم متصادم رہتے ہیں۔ اس ٹکرائو نے ابہام کے ساتھ ساتھ برا اُسلوبِ حکمرانی پیدا کردیا ہے، جس نے ملکی مفادات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کے علاوہ عوام کے معیار زندگی کو براہ راست متاثر کیا ہے۔ اگر ہم واقعی اصلاح چاہتے ہیں اور ملک میں مثبت تبدیلی لانے کے خواہاں ہیں تو قانون کی حکمرانی کے آگے سرتسلیم خم کرنا بہت ضروری ہے۔ ہمارا آئین ملک کو درپیش مسائل کا بھرپور حل دیتا ہے ضرورت صرف اس کے تقدس کو بحال رکھنے کے لئے عملی کاوشوں کی ہے۔
اداروں کی مضبوطی کے لئے آئین سازی اور آئینی نفاذ میں واضح امتیاز کرنے کی ضرورت ہے اس کے بغیر اصلاح احوال کی کوئی کوشش بار آور نہ ہوسکے گی۔ اداروں کے اختیارات اور ان کی حدود کو پہچاننے کی ضرورت ہے، اس طرح نامساعد حالات میں بھی بہتری کی توقع کی جاسکتی ہے۔
بحیثیت قوم ہم کہاں کھڑے ہیں؟
اکیسویں صدی کے اس دور میں تحمل، برداشت اور صحتمند سیاسی کلچر ترقی یافتہ ممالک کی خاص پہچان بن گیا ہے تاہم پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں برسوں گزر جانے کے بعد بھی سیاسی صورتحال دگرگوں ہے۔چہ جائے کہ ہم اپنی قومی تاریخ میں آزادی کی چھ دہائیاں دیکھ چکے ہیں لیکن بدقسمتی یہ کہ ان 65 سالوں میں ہمارا سیاسی کلچر نہ توتحمل، برداشت اوررواداری کی راہ پر گامزن ہو سکا اور نہ ہی ہم سیاسی روایات کے پس منظر میں ایک جمہوری قوم بن سکے۔دوسرے لفظوں میں یہ بھی کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ 1947ء سے 2012ء تک آزادی کے سائے میں گزرے 65 برسوں میں ملکی سیاست کی نائو اس جگہ پر ڈوبی جہاں پانی بھی نہ تھا۔جب ہم ملکی سیاست کے تناظر میں جھانکتے ہیں تو ہمیں صاف دکھائی دیتا ہے کہ پاکستان میں سیاسی جماعتیں تو ہیں لیکن جمہوری ملک ہونے کے باوجود سیاستدانوں، سیاسی گروہوں اور سیاسی جماعتوں نے عوام کے لیے عملی طورپر وہ کچھ نہیں کیا جس کی عوام کو توقعات تھیں۔نتیجتاً آج ہماری سیاسی جماعتوں کے وعدوں پر عوام سمیت کسی بھی باشعورطبقے کو یقین نہیں رہا۔
ملک کی 65 سالہ تاریخ میں سیاسی جماعتوں کے لیے سب سے بڑی بدقسمتی یہ رہی کہ ہم نے جمہوریت کی کرن تلاش کرنے کے لیے آزادی کی ساڑھے چھ دہائیوں میں نصف سے زائد سفر آمریت کے سیاہ بادلوں میں گزار دیا۔شاید یہی وجہ ہے کہ ہے آج تک ملکی سیاسی جماعتیں نظریہ پاکستان اور فلاح عامہ کے وعدوں پر پورا نہیں اتر سکیں اور نہ وہ سیاسی وجمہوری طورپر بالغ ہو سکی ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ تحریک پاکستان نے ملک میں سیاسی کلچر کوفروغ دینے اور سیاسی جماعتوں کی داغ بیل ڈالنے میں بڑا اہم کردار ادا کیا لیکن بدقسمتی یہ رہی کہ آج فعال سیاسی جماعتوں کے قائدین میں نہ تو قائد اعظم محمد علی جناح جیسی شخصیت رہی اور نہ ہی ان کی جماعت جیسی کوئی سیاسی جماعت ۔
آزاد ملک کے بعد سیاسی تاریخ کے تناظر میں گزشتہ 65سالوں میں ہم سے بحیثیت قوم بے شمار غلطیاں سرزرد ہوئیں۔ ان میں بعض قومی غلطیوں کا حل آج بھی موجود ہے لیکن موجودہ ملکی صورتحال میں کوئی بھی فرد یا سیاسی جماعت حالات سے سمجھوتہ کرنے کے لیے بالکل تیار نہیں ہے۔ دوسری طرف ملک میں سیاست اور جمہوریت کے حوالے سے یہ المیہ اس وقت پیش آیا ہے جب سے ہمارے سیاسی قائدین اور سیاسی جماعتیں ماضی کی غلطیوں کو دہرانا اپنا فرض سمجھ بیٹھے ہیں۔آج اگر کوئی بھی باضمیر لیڈر اس ملک کی قیادت کا خواب لے کر سیاست کے میدان میں آتا ہے تو سب سے پہلے عوام اُسے صرف اس لیے مسترد کر دیتے ہیں کہ شریف شرفاء کا سیاست جیسے خطرناک اور گندے کھیل میں کیا کام؟
بحیثیت قوم ہم نے سیاست کے میدان میں جو غلطیاں کی ہیں انہیں دہرانے کی بجائے ان سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔ بظاہر یہ نصیحت بھی اب سیاسی جغادریوں کے لیے گھِسی پِٹی بن کررہ گئی ہے لیکن اس کے باوجود ہمیں حقیقت سے نظریں چرانے کی بجائے اسے تسلیم کرنا ہو گا۔ گزشتہ 65 سال کی سیاسی غلطیوں کا ہی نتیجہ ہے کہ آج ہم مغرب زدہ ماحول میں غلامی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ نظریاتی طور پر ایک آزاد قوم ہونے کے باوجود ہمارا اپنا کوئی نام و نشان اور تہذیب و ثقافت نہیں ہے۔ ملک میں امن، رواداری ،صحتمند سیاسی کلچر کو فروغ دینے اور ملک کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کے لیے ہمیں اپنے حکمرانوں کا محاسبہ کرتے ہوئے اس مروجہ فرسودہ سیاسی و انتخابی نظام کو خیر باد کہنا ہوگا۔
اس وقت ملک میں غربت کی شرح 50 فیصد سے بھی زائد ہو گئی ہے، دوسری طرف صرف خط افلاس سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی شرح میں بدستور اضافہ ہورہا ہے اور یہ 36 فیصد تک جاپہنچی ہے۔افراط زر مسلسل بڑھ رہا ہے۔ملک میں مہنگائی نے عوام کا جینا حرام کر دیا اور زندگی کا حق تک چھین لیا ہے۔ غربت اور مفلسی کے ہاتھوں اس وقت صرف غریب طبقہ ہی متاثر یا پریشان نہیں بلکہ شاید ملکی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ جب متوسط طبقہ بھی ہوشربا مہنگائی سے شدید متاثر ہوا ہے۔
ہمارے ملک کی سیاسی جماعتوں کا المیہ یہ ہے کہ ہم نے آج تک عوام کو صرف انتخابات میں ووٹ کاسٹ کرنے کے لیے ہی استعمال کیا ہے۔ اس کے بعد امیدوار کی عوام سے اگلے انتخابات کے موقع پر ہی ملاقات ہوتی ہے۔ اس روایت نے ہماری عوام کے دلوں میں سیاسی جماعتوں اور لیڈران کے بارے میں جو ایک منفی رویہ پیدا کیا ہے اس کا حل بھی ایک معمہ بن گیا ہے۔ اس تناظر میںجب کوئی رہنماعوامی داد رسی کے لیے عملی طورپر میدانِ عمل میں آتاہے تو عوام اسے صرف اس کے دیانتدار ہونے کی وجہ سے مسترد کر دیتی ہے۔
پاکستان کے علاوہ تیسری دنیا کے ممالک میں سیاسی اداروں کے تیزی سے ترقی کر نے کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے جمہوری عمل میں عوام کو صرف ووٹ کے لیے استعمال کرنے کے لیے نہیں رکھا بلکہ وہ عوام کو ساتھ لے کر چلتے ہیں۔ وہاں عوام اور سیاسی جماعتیں اپنے معاملات افہام و تفہیم سے طے کر کے ایک ساتھ چلتے ہیں۔ اس سے نہ صرف ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑے ہونا آسان ہو رہا ہے بلکہ اس عمل سے ہر ملک کے اندرونی خلفشار ختم ہونے میں بھی مدد ملتی ہے۔
اس حکمت عملی کے برعکس ہمارے ملک کا المیہ یہ ہے کہ اگر عوام سے ڈائیلاگ کی فضا قائم ہو جائے تو اس کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ اس پارٹی کی قیادت اہل نہیں ہے کہ وہ اپنے فیصلے خود کرسکے یا دوسرے لفظوں میں فیصلے کرکے غریبوں پر مسلط کر سکے۔ آج ملک کی اکثر سیاسی جماعتوں میں ڈکٹیٹر شپ کا کلچر رائج ہے۔جس سے نہ صرف عوام بالواسطہ طورپر سب سے زیادہ متاثر ہوئے بلکہ اس عمل سے سیاسی جماعتوں کو بھی بحرانی کیفیت کا سامنا ہے۔
ترقی یافتہ ممالک میں سیاسی جماعتوں کی عملی کارکردگی کا دارومدار ان کے منشور پر ہوتا ہے۔ سیاسی بصیرت رکھنے والی قیادت کے علاوہ لو گ سیاسی جماعتوں کے منشورکی وجہ سے ان کو ووٹ دیتے ہیں۔ آئندہ انتخابات سے قبل عوام گزشتہ امیدواروں کی کارکردگی کا ان کے منشور کے مطابق جائزہ لے کر ان کی قسمت کافیصلہ کرتی ہے۔ حکمران جماعت حکومت سنبھالنے کے بعد نہ صرف منشور میں کیے گئے وعدوں کو پورا کرتی بلکہ جو سیاسی پارٹی اقتدار میں نہ آ سکے وہ عوامی خوشحالی کے لیے عوام دوست فلاحی مہم بھی شروع کرتی ہے۔ اس کے برعکس ہمارے ملک میں منشور کو صرف علامتی درجہ حاصل ہے جس کی ضرورت صرف قانونی کارروائی یا میڈیا کی تشہیری مہم تک رہ جاتی ہے۔سیاسی جماعتوں کے قائدین اور عوام اس منشور میں کیے گئے بلند بانگ دعوے جلد بھول جاتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ملک میں کوئی بھی سیاسی جماعت عوام کی فلاح کے لیے کام نہیں کرتی بلکہ اس کا فائدہ ایک خاص طبقہ کو ہوتا ہے۔ اس وجہ سے اب آہستہ آہستہ عوام کا ایک سنجیدہ طبقہ سیاست سے کنارہ کش ہو گیا ہے۔ اس کی مثال گزشتہ انتخابات 2002ء اور 2008ء میںووٹ ڈالنے کرنے کی شرح ہے جو سرکاری اعداد و شمار کے مطابق صرف 40 فیصد تک محدود تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں عوام کے لیے سیاست نہیں کر رہیں بلکہ وہ عوام سے سیاست کر رہی ہیں۔
فیصلہ بالآخر عوام نے کرنا ہے
کڑوا سچ یہ ہے کہ بحیثیت قوم ہم ریڑھ کی ہڈی سے محروم ہیں۔ ہماری شناخت، ثقافت، زبان، روایات، تعلیم اور معاشرتی اقدار سب کچھ ہم سے چھن چکا ہے۔ ہمارا معاشرہ پہلی جماعت کا معصوم بچہ بن گیا ہے جو آنے والے خوفناک طوفان سے بے نیاز ریت کے گھروندے بنانے میں محو ہے۔ پاکستانی عوام افراد کا ایسا ہجوم ہے جو اپنی منزل کے شعور سے عاری مختلف سمتوں میں بھٹکے جارہا ہے۔ کرکٹ، موسیقی، گپ شپ اور اس جیسے دیگر مشاغل میں مگن رہنے والوں کی غالب ترین اکثریت کو کچھ معلوم نہیں کہ سیاست کی نگری میں چند لوگ ملک اور ان کے مستقبل کے ساتھ کیسا گھنائونا کھیل کھیل رہے ہیں۔ آئینی حقوق کا شعور ہمارے ذہن کی تختیوں سے کھرچا جارہا ہے۔ اس صورتحال پر ناخوش ہونے کا دعویٰ کرنے والے ڈرامائی خبروں اور سیاست کے نام پر ہونے والے تماشے کو دیکھنے کے سوا کچھ نہیں کررہے اور ملک ان سمیت پوری عوام کے لئے قید خانہ بنتا جارہا ہے۔ ہماری حالت بھٹکے ہوئے اس مسافر کی طرح ہے جو منزل کے حصول کی خواہش تو رکھتا ہے مگر درست راستے کا تعین کرنے کو تیار نہیں اور بار بار گھوم کر اسی مقام پر آن پہنچتا ہے جہاں سے چلتا ہے۔ 1947ء سے قبل ایک قوم کو ملک کی تلاش تھی جو انتھک جدوجہد کے بعد حاصل کرلیا مگر آج 65 برس بیت جانے کے بعد اسلامی جمہوریہ پاکستان اپنی قوم کو ڈھونڈ رہا ہے۔ یہ طبقہ اس وقت تک عوام کے حقوق سے کھیلتا رہے گا جب تک عوام انہیں طاقت کے ایوانوں میں ’’پہنچانے‘‘ کا جرم کرتے رہیں گے۔ ہمیں شعور کی آنکھ کھول کر آگے بڑھنا ہے اور یہ اسی صورت ممکن ہوگا جب ہم دوبارہ قوم بننے کا عہد کرکے عملی جدوجہد کا آغاز کردیں گے۔
تبدیلی (Change) کے نعرے لگانے والے موجودہ نظام کے تحت ہونے والے انتخابات کی رسم کا شکار ہونے جارہے ہیں جو عوام کی فرسٹریشن اور پریشانی کو اور زیادہ بڑھادے گا۔ مقتدر پارٹیوں کے وننگ ہارسز نئی پارٹی میں شامل ہوکر تبدیلی لانے کی بجائے ایوان اقتدار میں پہنچنے کے لئے نئی سیڑھی کو استعمال کریں گے۔
آج تبدیلی کے نام پر بہت زیادہ امیدیں وابستہ کی جارہی ہیں مگر مستقبل کی تصویر بھیانک ہی دکھائی دے رہی ہے۔ یہ منظر بدل بھی سکتا ہے اگر قوم مقتدر طبقے کو اختیارات دینے والے سسٹم کا بغور جائزہ لے۔ ملک و قوم کا دشمن کرپٹ اور اجارہ دارانہ نظام انتخاب ہے جو گذشتہ 6 دہائیوں سے چند خاندانوں کو حق حکمرانی سے نوازتا چلا جارہا ہے۔ قوم کا 99 فیصد طبقہ حقیقی جمہوریت کے ثمرات سے محروم ہے جبکہ اس نظام نے صرف 1 فیصد کو تمام حقوق سے نواز رکھا ہے۔ یہ سسٹم ملک میں جعلی جمہوریت چلا رہا ہے جس کا عوام سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ الیکشن ضرور ہوتے ہیں حکومتیں بھی بدلتی ہیں، جمہوریت کے نام پر ادوار بھی تبدیل ہوتے ہیں۔ کبھی فوجی آمریتیں آجاتی ہیں اور کبھی سیاسی آمریتیں لیکن اسمبلیاں اور اقتدار چند خاندانوں کا وراثتی حق بن چکا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تبدیلی نہ فوج سے آئے گی اور نہ بندوق اور طاقت کے زور سے، نہ ہی روایتی انتخابات کی رسم سے کیونکہ محض انتخابات کا نام جمہوریت نہیں ہے۔ ہمارے ہاں ہونے والے انتخابات وننگ ہارسز کی سلیکشن ہے جس میں 10سے 25 کروڑ روپے ایک حلقے کے الیکشن پر ایک امیدوار خرچ کردیتا ہے۔ اگر عوام ملک میں حقیقی اور پائیدار تبدیلی کے خواہاں ہیں تو انہیں موجودہ انتخابی نظام کو بدلنے کے لئے ایسی اجتماعیت کا ساتھ دینا ہوگا جو ملک میں منشور اور میرٹ کی سیاست کے لئے جدوجہد کررہی ہے۔ اگر روایتی انداز میں الیکشن کے کھیل میں یہ تلخ حقائق فراموش کردیئے گئے تو ماضی کی سیاہی پھر مستقبل کی روشنی کو لپیٹ میں لے کر 18 کروڑ عوام کے مقدر پر حقوق سے محرومی کی ایک اور مہر لگادے گی اور پاکستان تیسری دنیا کے رینگتے ہوئے ملکوں کی آخری صف میں کھڑا ہوگا۔ فیصلہ پاکستانی عوام نے کرنا ہے۔