تاریخِ تخلیق بے شمار موڑ مڑتی اپنی آخری منزل کی طرف رواں دواں ہے۔ جس طرح اس کے خاص نقطہءِ آغاز کا تعین ناممکن ہے اسی طرح اس کے آخری نقطے کا تعین بھی حدودِ احساس کے پیمانوں سے ماورا ہے۔ مگر ایک بات طے ہے کہ جس طرح اس کا نقطہءِ آغاز نسبتِ نورِمحمدی سے منور ہے اسی طرح اس کے ارتقائی مراحل کا آخری دور بھی اسی نسبت سے زندہ ہے۔ سفر تخلیق کے اولین اقدام کی تعبیر اگر اولیت خلقت محمدی ہے تو اس کے ارتقاء کے آخری مرحلے کی تعبیر خاتمیتِ بعثتِ محمدی ہے۔
کیا خاتمیت محمدی کا یہ معنی ہوگا کہ تاریخ اپنا آخری موڑ مڑچکی اور بس! کیا’’إِنَّ الزَّمانَ قَدِاسْتَدارَ کَيَوْمِ خَلَقَهُ اللّٰهُ‘‘ہوگیا اور قصہ تمام!! کیا جاہلیت کے تمام فرسودہ’’ اِزمز‘‘ اور ’’کَریسِیز‘‘ ’’تَحْتَ قَدَمیَّ مَوضُوعٌ‘‘ہوگئیں اور بات ختم؟؟؟ !!! ہرگز نہیں! بلکہ اس کا معنی صرف اتنا ہے کہ اب سب معاملات ایک ایسے طبقے کے ذریعے طے پائیں گے جو براہ راست خاتمیت کے زیرِ فیض ہوگا اور اسکا عنوان نبوت نہیں بلکہ ’’تجدید‘‘ ہوگا۔ تاریخ اسی طرح اپنا سفر جاری رکھے گی، مختلف ’’ازمز‘‘ اور ’’کریسیاں‘‘ آئیں گی اورمقدور بھر مزاحمت پیش کریں گی لیکن ہر مرتبہ بزم عشق سے کوئی نہ کوئی پروردہِ فیضانِ خاتمیت ظاہرہوگا، جاہلیت کے ان تمام مظاہر کو منطقی انجام تک پہنچائے گا اور انسان کی فلاح وبہبود کو اپنے زمانے کے اعتبار سے اس کے کمال پر پہنچاکر نافذ العمل کرجائے گا۔
قارئینِ! خاتمیت کی ایک اہم جہت رحمۃٌ لِلعالمینی ہے۔ بقول مریدِ ہندی:
خلق و تقدیر وہدایت ابتداست
رحمۃ للعالمینی انتہا ست
یہ رحمۃ للعالمینی ہی ہے جسکی آفاقیت کا ظہور’’يا قومِ‘‘ کی جگہ’’ياايها النّاس‘‘ کے الفاظ کے ساتھ ہوتا ہے اور ارشاد ہوتا ہے۔’’إنِّی رسُولُ اللهِ إليکم جميعاً‘‘.
اور پھر چشم فلک نے یہ بھی دیکھا کہ جہاں صرف دعوت کو قبول کرنے والے امتی ہوتے تھے وہاں اب دعوت کو قبول نہ کرنے والے کوبھی امت میں داخل فرمالیا گیا ہے۔ یعنی اب امت کی دو قسمیں ہوگئیں:
- امت دعوت کہ جسے حضور ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت کا فیض تو ملا ہے لیکن انھوں نے آپکی دعوت کو قبول کرکے اس فیض سے اپنی آخرت سنوارنے کا اہتمام نہیں کیا۔
-
دوسری امت اجابت ہے جو مسلمان ہیں یعنی جنھوں نے دعوت کو قبول کرکے اپنی آخرت کو بھی اس رحمت کے زیر سایہ کرلیا ہے۔
امتِ دعوت پر رحمت وشفقت کا بیان’’حریص علیکم‘‘ کے قرآنی الفاظ سے ہوتا ہے جبکہ امت اجابت پر شفقت ورحمت کا بیان ’’بالمؤمنین رؤوف رحیم‘‘ کے کلمات سے ہوتا ہے۔
فیضان رحمت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے امین
جب کسی ہستی کو باب رحمت مصطفیِٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بنا یا جاتا ہے تو اسے قرب محمدی میں ایسی منزل پر فائز کیا جاتا ہے جہاں اس کا تعلق مخلوق خدا کے ہر طبقے سے جوڑ دیا جاتا ہے۔ وہ خیر خواہی کا مرکز اور شفقت و محبت کا پیکر ہو جاتا ہے۔ وہ بے لوثی اور بے غرضی کے اس درجے پر بٹھا دیا جاتا ہے جہاں اسے ہر انسان سے اسی انسان کی خاطر محبت ہو جاتی ہے۔ ایک طرف جہاں اُسے اس طرح حاجت روائی کی ذمہ داری سونپی جاتی ہے تو دوسری طرف بلا امتیاز رنگ ونسل اور بلا تفریق عقیدہ و مذہب حاجتمندوں کے دل اس کے بذل ونوال اور جود وسخا کی طرف مائل کردیے جاتے ہیں۔
قارئین کرام! جب اتنی بات ہماری سمجھ میں آگئی تو اس مقام پر مجھے یہ کہنے کی اجازت دیجیے کہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی دنیا بھر میں خدمات اسی’’يا ايها الناس‘‘
اسی ’’رحمۃ للعالمین‘‘ اسی ’’حریص علیکم‘‘ اور اسی ’’رؤوف رحیم کے فیض کا ایک وسیع پیمانے پر کھلا اظہار ہے۔ یاد رکھیے کہ یہ کام ’’کرامةً منه‘‘ نہیں ہوتا بلکہ ’’إکراماً من الله‘‘ہوا کرتا ہے۔
جس انداز سے عالمی سطح کے بعد اب بھارت میں بلا تفریق رنگ و نسل اور علاقہ و قوم شیخ الاسلام کی قیام امنِ عالم کے حوالے سے پذیرائی سامنے آئی ہے اس سے اقبال کے ان الفاظ کے پورے ہونے کا گمان ہوتا ہے کہ
آملیں گے سینہ چاکانِ چمن سے سینہ چاک
اور ظلمت رات کی سیماب پا ہوجائیگی
شیخ الاسلام نے دنیا بھر میں مذاہب کے مابین ہم آہنگی، رواداری، قیام امن اور انسانی حقوق کی پاسداری کی جس آواز کو بلند کیا ہے اس سے آپ کا رہنمائے انسانیت ہونا ظاہر ہوتا ہے۔ اس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ رب العالمین کے ’’اذن‘‘ اور رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے ’’امر‘‘ کو اس انداز سے عالم انسانیت کے سامنے ’’ظاہر‘‘ کرنے کا وقت بہت نزدیک آگیا ہے کہ تمام ’’ازمز‘‘ اور ’’کریسیاں‘‘ فقط ’’تحت قدمیّ موضوعٌ‘‘ کی عملی تفسیر بن جائیں۔ خشکی اور تری میں انسانی چیرہ دستیاں جس رنگ میں چہار سو ’’ظهر الفساد فی البر والبحر بما کسبت ايدی الناس‘‘ کے مصداق مصروف عمل ہیں، یہ تمام اپنا بوریا بستر سمیٹ کر رخصت ہوجائیں۔ اس لئے کہ تمام انسانیت دوست نگاہیں اب ’’بزمِ عشق‘‘ سے ظہور پذیر ’’دانائے راز‘‘ پر جمی ہوئی ہیں:
عمرہا در کعبہ وبت خانہ می نالد حیات
تا زبزم غیب یک دانائے راز آید بروں
اور اگر حقیقی معنوں میں دنیا کی امامت و قیادت کے پیمانہ کو جاننا چاہیں تو اقبال پکار اٹھتے ہیں:
تونے پوچھی ہے امامت کی حقیقت مجھ سے
حق تجھے میری طرح صاحب اسرار کرے
ہے وہی تیرے زمانے کا امامِ برحق
جو تجھے حاضرو موجود سے بیزار کرے
دے کے احساسِ زیاں تیرا لہو گرمادے
فقر کی سان چڑھا کر تجھے تلوار کرے
اس سارے ہنگامے میں ایک سوال مجھے پاکستانی قوم کی بابت بار بار جھنجوڑتا ہے اور وہ یہ ہے کہ اس ناشکری اور ناقدری قوم کی بابت ملاءِ اعلی میں کیا چہ میگوئیاں ہورہی ہیں۔۔۔؟ ان پرکیا چلے گا؟؛ ’’إلّا الذين تابوا واصلحوا‘‘ کی باد نسیم کے جھونکے یا ’’يستبدل قوماً غيرکم‘‘ کے ہنٹر؟؟
اللہ رحمٰن ورحیم کی بارگاہ سے اول الذکر کی ہی امید رکھنی چاہیئے، اگرچہ صورت احوال آخر الذکر کی وعید سنا رہی ہے۔ کاش کہ یہ قوم مؤخر الذکر کا تازیانہ برسنے سے پہلے خود سے یہ سوال کرلے! اے کاش! اے کاش!
اے قوم! جب کسی قوم پر عذاب شروع ہوتا ہے تو اس کے منطقی انجام دو ہی ممکن ہیں؛ یا تو وہ ٹل جائیگا یا اپنی آخری حد کو پہنچے گا۔ ٹلنے کی ایک ہی صورت ہے اور وہ یہ کہ پوری قوم سچی توبہ کرے، ورنہ ہمارے زمانے کی ’’الساعۃ‘‘ کے مظاہر کا آغاز کئی سالوں سے ہو چکا ہے اور بظاہر اس کا آخری فیصلہ کن وار اپنے لمحہءِ’’بغتةً‘‘ کے انتخاب کے مرحلے میں ہماری دہلیز پر کھڑاہے۔
یہ گھڑی محشر کی ہے تو عرصۂِ محشر میں ہے
پیش کر غافل اگر کوئی عمل دفتر میں ہے
دم توڑتا ہوا سرمایہ دارانہ نظام
اقبال کہتے ہیں:
ہے وہی طرز کہن مغرب کا جمہوری نظام
جس کے پردوں میں نہیں غیراز نوائے قیصری
خواب سے بیدار ہوتا ہے کبھی محکوم اگر
پھر سلادیتی ہے اس کو حکمراں کی ساحری
سرمایہ دارانہ نظام کو فروغ دینے اور اس کے فال و فر کی حفاظت کے لئے مغرب میں لفظ جمہوریت کا استعمال بے دریغ ہوا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے محض سرمایہ داروں کا خادم اور انہی کے مفادات کی حفاظت کا سامان ہوسکتا ہے اور یہ عملی طور پر ایسا ہی ہے۔ یہ ترقی کرتے کرتے کارپوریٹ سسٹم کی صورت میں محض اجارہ دارانہ نظام بن کر رہ گیا ہے جس میں غریب کی ذات، اس کی محنت اور اس کی صلاحیت صرف سامان تجارت ہے۔ انسانوں کو ان کی ضروریات مہیا کرنے کا جذبہ اگر کبھی تھا بھی تو اب بہر حال موجود نہیں ہے بلکہ اس کی جگہ لوگوں کی ضروریات سے ناجائز فائدہ اٹھاکر مال بنانے کا جذبہ نہ صرف غالب آچکا ہے بلکہ اب بحیثیت مجموعی یہی رہ گیا ہے۔ بلکہ اب تو معاملہ اس سے بھی بہت آگے جاچکا ہے۔ اشتہار بازی کی صنعت زندہ باد۔۔۔ اس نے انسانی ضروریات کو چھوڑ کر جبلی جذبہ ہوس کی انگیخت کا کارنامہ اس مہارت سے سرانجام دیا ہے کہ اب غریب لٹ کر بھی خوش ہے خواہ حقیقی تسکین سے مرتے دم تک ہمکنار نہ ہونے پائے۔ اس لئے کہ ہوس کی نہ کوئی منزل معین ہوتی ہے نہ آخری حد۔
ایک لفظ ہے امریکی خواب ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم merican Dream)۔ اس کا عملی مفہوم صرف اتنا ہے کہ انسان بے شمار پیسے بنائے اور ہر شے خریدے۔ یہی تہذیب مغرب کا آشیانہ سنبھالنے والی شاخِ نازک ہے اور یہی آج کا سکہ رائج الوقت ہے۔ ہم عملی طور پر ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم merican Dream) کے زمانے میں رہ رہے ہیں۔ انسان اشرف المخلوقات کی ملکیت سے اسفل السافلین کی بہیمیت کی طرف نزول کرچکا ہے اور نوبت بایں جار سید کہ سفلی مفادات کے بازار میں سامان تجارت بن کر مول دینے والے کا منتظر دکھائی دیتا ہے۔ شرف انسانیت کو محض قبر میں اتارنے کا مرحلہ باقی رہ گیا ہے الا یہ کہ کوئی مسیحا دمِ عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ظہور پذیر ہو۔
خیر! ہم کسی اور طرف نکل گئے بات ہورہی تھی کہ سرمایہ دارانہ نظام اجارہ دارانہ نظام بن چکا ہے۔ وسائل معیشت پر ’’Contracts‘‘ کی حکومت اور پیدا شدہ وسائل حیات پر چند ہاتھوں کا اختیار ہے۔ اس صورت حال نے وسیع پیمانے پر شدید بے چینی کی لہر دوڑا دی ہے۔ ’’وال سٹریٹ‘‘ کے خلاف عالمی سطح پر احتجاج اسی کی علامت ہے۔ اس سے بڑا ظلم ہو بھی کیا سکتا ہے کہ دنیا بھر کی دولت چند سو ہاتھوں میں سمٹ کر رہ جائے۔ فرنگی مقامروں نے خدا کی بستی کوجس قمار خانے کی شکل دیدی ہے اس قمار خانے میں ناجائز بات صرف وہ ہے جو پکڑی نہ جاسکے یا جس پر کمبل نہ ڈالا جاسکتا ہو۔ اخلاق اور فضیلت عملی سطح پر بے معنی ہوچکے ہیں۔ خود امریکہ سمیت یورپ کے کئی ممالک میں بے روزگاری میں اضافہ حدود اختیار سے باہر نکل رہا ہے، بدحالی عروج پر ہے اور جرم قانون کا منہ چڑاتا ہوا نمو پارہا ہے۔ عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کے لئے انہیں دی گئی چند Benifits کی گولی بھی مزید فراہم کرنا دشوار تر ہوتا جارہا ہے۔ معیشت کو مصنوعی طریقوں سے سانس دلانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ ماہرین تو یہاں تک بھی برملا کہنے لگ گئے ہیں کہ اس وقت تمام دنیا کرپشن اور مال کے ناجائز استعمال پر چل رہی ہے۔ مثلاً اگر پاکستان سے کرپشن اور بے ایمانی کا پیسہ یکسر ختم کردیا جائے تو افلاس، بھوک کے علاوہ کچھ نہیں بچے گا۔
اس وقت دنیا کی معیشت، استحصال، لوٹ مار، طبقات کے مابین مسلسل پھیلتی ہوئی خلیج اور انسان کی مجبوری جیسی خوفناک اور مہلک بیماریوں کا مرقع دکھائی دیتی ہے۔ یہ امر ایک زندہ حقیقت کے طور پر ابھر کر سامنے آرہا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام معاشی خوشحالی اور عوام کی خدمت کے جس بلند بانگ دعوے کے ساتھ سامنے آیا تھا وہ اس میں بری طرح ناکام ہوچکا ہے۔ خوشحالی نے رفتہ رفتہ ان ممالک سے آزادی حاصل کرنا شروع کردی ہے جن کی یہ کبھی لونڈی ہوا کرتی تھی۔ وقت ان سے روٹھنے کا عمل شروع کرچکا ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ اس نظام کی بنیاد میں اصل سرمائے (سونا اور چاندی) کی ذخیرہ اندوزی اور اس کی جگہ لوگوں کو کاغذ کے ٹکڑے (نوٹ) پکڑا دینے کا عنصر پایا جاتا ہے۔ جس کا مقصود صرف اتنا ہے کہ اصل سرمایہ (سونا اور چاندی) اقوام و افراد کی دسترس سے باہر چند سود خور ہاتھوں میں جمع ہوکر رہ جائے۔ سرمایہ دارانہ نظام ایک شاخ نازک ہے جس پر بننے والے آشیانے کو اقبال نے اَوْهَنُ الْبُيُوْت قرار دیا ہے اور اس نظام کو کھرا تسلیم کرنے کی بجائے زر کم عیار قرار دیا ہے۔
طرفہ یہ ہے کہ گذشتہ سو سال سے زائد کا عرصہ ایک عجیب گواہی دے رہا ہے اور وہ گواہی اس بات کی ہے کہ جب بھی اس نظام کی جان پر بنی ہے اس کو زندہ رکھنے کے لئے اسلحے کا سہارا لیا گیا۔ ہوسکتا ہے اس مرتبہ بھی ایسا ہی ہو کیونکہ عقل کی بات سننا فراعین کی سرشت میں نہیں ہوتا لیکن اس مرتبہ حالات گذشتہ دو تین صدیوں کے حالات سے بہت مختلف ہیں مثلاً اس وقت اسلحہ صرف حکومتوں کے پاس ہی نہیں بلکہ عسکریت پسندی ایک عالمی ناسور بن چکا ہے۔ اسی طرح اب معلومات نے صیغہ راز میں رہنے سے انکار کردیا ہے اور یہ دونوں اشیاء (اسلحہ اور رازداری کی باتیں) کسی بھی حکومت کے حدود اختیار کی پابند نہیں رہیں۔ پھر زمانہ رفتہ رفتہ باقاعدہ شورشوں کا زمانہ ہوتا جارہا ہے۔ مزید یہ کہ بین الاقوامی سیاست کے کثیر عناوین اور مختلف ممالک اور قوتوں کے مفادات کا ٹکرائو جیسے کئی امور ہیں جنہیں بہر حال نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
لہذا اہم سوال یہ ہے کہ کیا اس مرتبہ کوئی مہم جویانہ اقدام عالمی سطح پر سرمایہ دارانہ نظام کو ’’سہارا‘‘ دے گا یا اسے بالکل اچانک سرکے بل پٹخ دے گا؟
زمانہ گھوم کر ایسی جگہ آگیا ہے جہاں اسے پھر سے حیات نو کی خاطر طرز کہن سے بغاوت کی اشد ضرورت ہے۔ اس موقع پر دنیا کی تمام ’’متعلقہ سرگرمیاں‘‘ کشاں کشاں ہمارے خطے میں داخل ہورہی ہیں۔ اس کا معنی یہ ہے کہ دنیا میں موجود تمام قوتوں کا مفاد بالواسطہ یا بلاواسطہ اس خطے اور اس میں جاری سرگرمیوں سے ہے۔ وہ لامحالہ اس میں ہونے والی ہر حرکت کا بغور مطالعہ کررہی ہیں اور جہاں ان کا مفاد مشکل حالات کا شکار ہوگا وہیں بالواسطہ یا بلاواسطہ بقدر ضرورت در آنا ان کے لئے لازمی ہوجائے گا۔ اگر اوپر بیان کردہ اشاروں کو بنظر غائر دیکھیں تو محسو س ہوگا کہ زمین ایک بہت بڑے فساد کا سامنا کرنے کو ہے جو عالم انسانیت کے لئے جنگل کی آگ ثابت ہوسکتا ہے۔ اگر پردہ غیب سے کوئی مختلف فیصلہ صادر نہ ہو تو یہ فساد بالعموم تاریخ انسانی کا اور بالخصوص گذشتہ دو تین صدیوں کامہلک ترین فساد ہوگا۔ ایسے لگتا ہے کہ انسان نے اپنے ہی ہاتھوں نظام عالم تہہ و بالا کرنے کا فیصلہ کررکھا ہے۔
اس موقع پر پاکستان کسی بہت بڑے کھیل کا کوئی دور دراز مہرہ نہیں بلکہ اس کی حیثیت مرکزی کردار کی ہے۔ اب اس کی مرضی ہے خواہ خود کو برباد کر ڈالے یا حتی الوسع خود کو بچاکر عالم انسانیت کی تعمیر نو میں اپنا فطری کردار نبھائے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ عوام شدید غفلت اور بے حسی کا شکار ہیں اور لاتعلقی کا وطیرہ اپنائے ہوئے ہیں۔ ان پر مسلط یا متوقع متبادل قیادت میں شامل لوگ حالات کی سنگینی سے نبرد آزما ہونے کے لئے نہ صرف نااہل ہیں بلکہ اس کا درست اندازہ لگانے کی صلاحیت سے بھی عاری ہیں۔ ایسے میں عوام کے پاس صرف یہ اختیار رہ جاتا ہے کہ وہ بدعنوان اور زیادہ نااہل قیادت یا ایک کم نااہل قیادت میں سے کسی ایک قیادت کا انتخاب کریں مگر اس سے بھی زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ اس بدعنوان نظام انتخاب کے اندر ان کا ووٹ کوئی معنی بھی رکھتا ہے یا نہیں؟ فیصلہ تو ان کے ووٹ ڈالنے سے بھی پہلے ہوچکا ہوگا۔ لہذا ووٹ تو صرف وہی ڈالے گا جس کو اپنے ووٹ کی قدر نہیں یا پھر اپنے ووٹ کی تذلیل کا شوق ہوگا۔
اس موقع پر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے بھی ملک واپس آنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ ایک انتہائی خوش آئند اقدام ہے۔ اس لئے کہ وہ نہ صرف صاحب فہم و بصیرت شخص ہیں بلکہ عملی مشکلات کی سمجھ بوجھ اور بند گلیوں کو شاہراہ میں بدلنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ ان کے پاس دینی حمیت، قومی غیرت کے ساتھ ایک ’’آئین نو‘‘ بھی ہے جو ’’طرز کہن‘‘ کو دریا برد کرکے اس کی جگہ قائم کیا جائے۔ ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانا عوام پاکستان پر منحصر ہے۔ انہوں نے تو اس نظام کے خلاف پرامن جمہوری بغاوت کی کال عوام کو دے دی ہے۔
اگر قوم ان کی آواز پر لبیک نہیں کہتی تو وہ یقینا اپنے آپ کو روایتی سیاست کا حصہ بناکر اپنا وقت ضائع کرنا پسند نہیں کریں گے۔ ان کی زندگی ایک مقصد اور مقصد کے حصول کے لئے جدوجہد سے عبارت ہے۔ سیاست ان کا کاروبار نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب محسوس کیا کہ اسمبلی محض نقار خانہ ہے جہاں اپنی بات سنوانا بھی ممکن نہیں تو استعفیٰ دے دیا اور امت مسلمہ بالخصوص پاکستان کی جو خدمت آپ علمی و فکری محاذ پر جاری رکھے ہوئے ہیں، پوری توجہ اسی کی طرف مبذول کردی۔
11 ستمبر کے واقعہ کے بعد مسلمان مسلسل مشکلات و آزمائشوں کا شکار ہیں۔ مختلف ممالک میں مسلمانوں پر زندگی تنگ ہونا شروع ہوگئی۔ ان حالات میں شیخ الاسلام نے امت کو فکری گرداب سے نکالنے کے لئے اور بالخصوص عالم مغرب میں بسنے والے نوجوان کی اعتقادی حفاظت کے لئے عالمی سطح پر کلیدی کردار ادا کیا۔ ایک طرف آپ نے اسلام پر ہونے والے اعتراضات کو علمی و تحقیقی طور پر رد کیا، اشکالات کا ازالہ کیا اور دوسری طرف اقوام عالم کو بنیادی انسانی حقوق کی طرف متوجہ کرتے ہوئے مسلمانان عالم پر ہونے والے ظلم کے خلاف آواز اٹھائی۔ اس طرح آپ نے جہاں مسلمانوں کی نسل نو کو باور کرایا کہ دہشت گردی ان کے منصب جلیل سے فروتر ہے وہیں جہاد کی بابت عالم مغرب میں پائی جانے والی غلط فہمیوں کا ازالہ بھی کیا۔ ان بلیغ کاوشوں کا نتیجہ ہے کہ عالم مغرب میں بسنے والے لاکھوں مسلمان مقامی اکثریت کی شدید نفرت کا شکار نہیں ہوئے۔ یہ اسی محنت کا ثمر ہے کہ مسلمانان عالم بالعموم اور مسلمانان پاکستان بالخصوص خارجیت کے زیر اثر پلنے والے فتنے کو عدم وضوح کی وجہ سے پلنے دینے کی بجائے اسے واضح اور دو ٹوک انداز میں رد کرنے کی طرف متوجہ ہورہے ہیں۔
اس سلسلے میں ’’الہدایہ‘‘ سیریز آف یوتھ کیمپس، (Peace for humanity conference، Peace and Integration ’’اسلام میں انسانی حقوق‘‘، ’’اسلام دین رحمت‘‘ جیسے موضوعات پر مبنی کتب اور لیکچرز نے دنیا بھر میں ایک فکری تبدیلی کی لہر دوڑادی ہے۔ انہی موضوعات پر مغرب کی کئی یونیورسٹیوں اور دیگر مقتدر اداروں کے تحت ہونے والے سیمینارز اور بڑے ایونٹس میں آپ کے خطابات اور لیکچرز نے امریکہ سے یورپ تک اور یورپ سے آسٹریلیا تک دہشت گردی کے حوالے سے امت مسلمہ کے خلاف بھڑکتے ہوئے نفرت آمیز جذبات کو ٹھنڈا کرنے میں اہم ترین کردار ادا کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض ممالک میں مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کردینے والے انتہائی اقدامات کی فہرست میں قابل ذکر کمی آئی ہے۔ یہ کہنا بے جانہ ہوگا کہ حکومتوں کے کرنے والے کام شیخ الاسلام نے تن تنہا انجام دیئے ہیں۔ خاص ذرائع پر پلنے والی پراپیگنڈہ مشین جو بھی کہتی رہے، مستقبل کا مورخ آپ کی ان عظیم خدمات کو خراج تحسین پیش کئے بغیر ہمارے زمانے سے نہیں گزر سکے گا۔ بقیہ تمام خدمات سے قطع نظر شیخ الاسلام کا دہشت گردی کے خلاف فتویٰ ہی ایک ایسی معرکۃ الآراء دستاویز ہے جو اس موضوع پر ایک انسائیکلو پیڈیا کی حیثیت رکھتی ہے۔ حالیہ توہین آمیز فلم کو ہی لیجئے، جلائو گھیرائو کرتی اور مسلمانوں کی املاک کو برباد کرتی ہوئی دانش سوز فضا میں صرف ایک عقل سلیم کی آواز سنائی دی ہے اور وہ ہے شیخ الاسلام کی آواز۔۔۔۔۔۔۔ کہ اس معاملہ کو عالمی عدالت میں حکومت پاکستان کی جانب سے پیش کیا جائے، میں مسلمانوں اور پاکستان کے وکیل کی حیثیت سے یہ کیس لڑنے کے لئے اپنی خدمات پیش کرتا ہوں تاکہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے توہین رسالت کے فتنہ کا قوانین عالم کی سطح پر سد باب ہوسکے۔ اگر حکومت پاکستان اس موقع پر آپ کی رائے کو تسلیم کرلے تو آئندہ کے لئے پوری دنیا میں اس قسم کی ناخوشگوار سرگرمیوں پر پابندی لگائی جاسکتی ہے۔
اس مختصر گفتگو کا مقصد صرف اس بات کو واضح کرنا ہے کہ شیخ الاسلام کے پاس اور بھی کرنے کے کام ہیں۔ لہذا سیاست نہ ان کی مجبوری ہے نہ ضرورت۔ اگر قوم ان کی بات مان لیتی ہے اور اس فرسودہ و کرپٹ سیاسی و انتخابی نظام کے خلاف بغاوت کردیتی ہے اور ان کی آواز پر لبیک کہتی ہوئی 23 دسمبر کو ایک عزم کے ساتھ ان کے شانہ بشانہ کھڑی ہوتی ہے تو شیخ الاسلام اس کی تقدیر بدل سکتے ہیں اور دنیا کی کوئی طاقت اسے اس کے حقیقی مقام اور حقوق سے محروم نہیں کرسکتی۔ اب اس قوم کے ذمے ایک اہم فیصلہ ہے اور وہ یہ کہ وہ کیا چاہتی ہے۔۔۔؟ کیا جو نظام چل رہا ہے اسی پر قائم رہنا چاہتی ہے۔۔۔؟ یا اپنے لئے کسی اور راستے کا انتخاب کرتی ہے۔ یاد رہے جو اس نظام میں آئے گا وہ اس کا تابع ہوگا، اس نظام کو کبھی بھی اپنا تابع نہیں کرسکتا۔ قوم انقلابی ٹھوکر سے اس فرسودہ نظام کو اڑادینے پر راضی ہے تو 23 دسمبر کو شیخ الاسلام کی ہم آواز بن جائے۔ پاکستان کی موجودہ ’’قیادت‘‘ میری دانست میں فکری، عملی اعتبار سے اس لائق نہیں کہ وہ ملکی مسائل کا حل دے سکے۔ اب قوم کا مستقبل اس بات پر منحصر ہے کہ وہ اس کٹھن منزل سے درست فیصلہ کرے۔
آئین نو سے ڈرنا طرز کہن پہ اڑنا
منزل کٹھن یہی ہے قوموں کی زندگی میں