ترتیب و تدوین: محمد یوسف منہاجین
معاون: محبوب حسین
اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:
وَتُوْبُوْٓا اِلَی اللهِ جَمِیْعًا اَیُّهَ الْمُؤْمِنُوْنَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ.
’’اور تم سب کے سب اللہ کے حضور توبہ کرو اے مومنو! تاکہ تم (ان احکام پر عمل پیرا ہو کر) فلاح پا جاؤ۔‘‘
(النور، 24: 31)
ہم میں سے ہر شخص یہ چاہتا ہے کہ اس کی زندگی اللہ رب العزت کی تعلیمات کے ساتھ آراستہ ہو جائے۔۔۔ وہ غفلت اور ہلاکت کے گڑھوں سے نکل آئے۔۔۔ زندگی میں آخرت کو دنیا پر ترجیح مل جائے۔۔۔ دنیا کے مال ودولت پر بھروسے کی بجائے اللہ پر توکل مضبوط ہوجائے۔۔۔ زندگی سے حسد نکل جائے۔۔۔ اللہ کی تقسیم پر خوش دلی سے راضی ہوجائے۔۔۔ دل میں اعمالِ صالحہ کی محبت مستحکم ہو جائے۔۔۔ دل کو استغناء اور تقویٰ نصیب ہوجائے۔۔۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ ساری تبدیلی کہاں سے شروع کی جائے۔۔۔؟ اس لیے کہ ہر تبدیلی کا کوئی نہ کوئی نقطۂ آغاز ہوتا ہے جہاں سے اس تبدیلی کا سفر شروع ہوکر اپنی انتہا و کمال کو پہنچتا ہے۔
زندگی میں اس نوعیت کی تبدیلی کہ جس سے انسان کا ظاہرو باطن سنور جائے، اس کا نقطۂ آغاز توبہ ہے۔ توبہ غفلت کا احساس پیدا ہوجانے کا نام ہے۔۔۔ توبہ اِس بیداریٔ شعور کا نام ہے کہ بندے کو احساس ہوجائے کہ اس کی زندگی ہلاکت، نقصان اور خسارے میں ہے اور وہ اللہ کی نافرمانی اور معصیت کے سبب اپنی آخرت تباہ کر رہا ہے۔ اِس خسارے و نافرمانی کا ادراک و احساس پیدا ہو جانا اور اللہ سے دور ہونے اور اُس کی قربت سے محروم ہونے کا شعور بیدار ہو جانا ’’توبہ‘‘ ہے۔
توبہ زبانی کلمات کا نام نہیں ہے بلکہ یہ ایک شعور ہے جو ہمیں اِس امر کا ادراک دیتا ہے کہ ہم اندھیرے میں ہیں۔۔۔ پھر یہ ادراک ہمارے اندر یہ تشویش پیدا کرتا ہے کہ مجھے اندھیرے سے نکل کر روشنی کی طرف جانا ہے۔۔۔ میں ہلاکت اور تباہی میں ہوں اور مجھے نجات اور فلاح کی طرف جانا ہے۔۔۔ میں اللہ سے دوری پر ہوں اور مجھے اللہ کے قریب ہونا ہے۔۔۔ میں جہنم کی راہ پر جا رہا ہوں جبکہ مجھے اللہ کی جنت کی طرف جانا ہے۔۔۔ میں اللہ سے ناراضگی کی راہوں پر ہوں جبکہ مجھے اللہ کی رضا اور خوشنودی کی طرف جانا ہے۔ جب تک یہ احساس بیدار نہ ہو، اُس وقت تک بندے کی زندگی میں نہ عملاً تبدیلی پیدا ہو سکتی ہے اور نہ ہی توبہ پیدا ہوسکتی ہے۔ سو اِس تبدیلی کی ابتداء توبہ سے ہوتی ہے اور فلاح اوراُخروی نجات کا دارو مدار بھی توبہ پر ہی ہے۔ اسی لیے اللہ رب العزت نے فرمایا:
وَتُوْبُوْٓا اِلَی اللهِ جَمِیْعًا اَیُّهَ الْمُؤْمِنُوْنَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ.
’’اور تم سب کے سب اللہ کے حضور توبہ کرو اے مومنو! تاکہ تم (ان احکام پر عمل پیرا ہو کر) فلاح پا جاؤ۔‘‘
توبہ میں درحقیقت دو مرتبہ رجوع ہے
لفظِ توبہ کا معنی ’’رجوع‘‘ ہے۔ فلاں نے فلاں چیز سے توبہ کی تو اس کا معنی یہ ہے کہ اُس نے اُس چیز سے رجوع کر لیا، اُس کو چھوڑکر پیچھے مڑ گیا ہے اور اسے ترک کر دیا۔ سو توبہ اُن چیزوں سے رجوع کر لینے کا نام ہے جنہیں شریعت نے گناہ، معصیت اور اللہ کی نافرمانی قرار دیا ہے اور ان چیزوں کی طرف لوٹ جانا ہے جنہیں اللہ رب العزت نے بھلائی، نیکی، تقویٰ اور فرمانبردای کہا ہے۔
یاد رکھیں! توبہ میں دو بار لوٹنا ہوتا ہے:
الرجوع من المذمو
الرجوع الی المحمود
- فعلِ مذموم سے لوٹنا
- فعلِ محمود کی طرف لوٹنا
یعنی گناہوں، نافرمانیوں اور بُرے اخلاق سے رجوع کر لینا اور اُن سے کلیتاً منہ موڑتے ہوئے اپنا منہ اُس سمت کر لینا جدھر اللہ کی قربت، رضا، فرمانبرداری اور اُس کی اطاعت ہے۔
مذکورہ آیتِ کریمہ کے حوالے سے حضور سیدنا غوث الاعظمؓ فرماتے ہیں کہ گویا اللہ رب العزت یہ فرما رہا ہے کہ لوگو! اپنی ہوائے نفس اور شہوتوں کو چھوڑ کر میری قربت، محبت، فرمانبرداری اور رجاء کی طرف پلٹ آؤ۔ اِس دوہرے پلٹنے کو توبہ کہتے ہیں۔
پس واضح ہوا کہ صرف گناہ کو چھوڑنا توبہ نہیں ہے بلکہ گناہ کو چھوڑ کر نیکی اختیار کر لینے کو توبہ کہتے ہیں۔ توبہ صرف کسی کلمۂ حسنہ کی ادائیگی کا نام نہیں ہے کہ چند جملے زبان پر جاری کر لیے یا اللہ سے معافی طلبی کے چند الفاظ مل کر توبہ نہیں بنتے بلکہ توبہ بذاتِ خود ایک کامل عمل ہے جو ایک شعور سے پیدا ہوتا ہے۔ اُس کامل عمل میں بندہ بُرائی کو چھوڑ کر پلٹتا ہے اور نیک عمل کو اختیار کرتا ہے۔ یہ پورا پراسس (Process) مل کر ’’توبہ‘‘ کہلاتا ہے۔
توبةً نصوحاً کیا ہے؟
اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
یٰٓـاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا تُوْبُوْٓا اِلَی اللهِ تَوْبَةً نَّصُوْحًا.
’’اے ایمان والو! تم اللہ کے حضور رجوعِ کامل سے خالص توبہ کرلو۔‘‘
(التحریم، 66: 8)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ’’نصوحاً‘‘ کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔ ’’نصوحاً‘‘ فَعُوْلًا کے وزن پر مبالغہ کا صیغہ ہے، اس کا ایک معنی صادقۃ اور صافیہ ہے یعنی اللہ کی بار گاہ میں ایسی سچی اور صاف توبہ کرنا کہ جس میں کسی قسم کی ملاوٹ اور آلودگی نہ ہو، ایسی توبہ کو خالص اور ’’نصوح‘‘ کہتے ہیں۔ گویا وہ توبہ ’’نصوح‘‘ کہلائے گی جس میں گناہ کی طرف پلٹنے کے ارادے کی ملاوٹ نہ ہو۔ اگر ایک لمحہ کے لیے توبہ کر لی اور پھر اُس گناہ پر قائم رہنے اور پلٹ کر اُسے انجام دینے کی خواہش، آرزو اور ارادہ قائم رہا تو وہ توبۃ نصوحا نہیں ہے۔
اگرشہد کو صاف ستھرا کر لیں تو لغت میں اسے نصح العسل کہتے ہیں یعنی شہد کو پاک صاف کر لیا۔ ہر وہ چیز جو آلودگی، ملاوٹ اور غبار سے پاک صاف کر دی جائے، اُس کے لیے نصح اور نصوح کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔
جب توبہ ہر قسم کی آلودگی، ملاوٹ اور غبار سے پاک ہو توپھر اُس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ
عَسٰی رَبُّکُمْ اَنْ یُّکَفِّرَعَنْکُمْ سَیِّاٰ تِکُمْ وَیُدْخِلَکُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْھٰرُ.
’’’تمہارا رب تم سے تمہاری خطائیں دفع فرما دے گا اور تمہیں بہشتوں میں داخل فرمائے گا جن کے نیچے سے نہریں رواں ہیں۔‘‘
(التحریم، 66: 8)
کن چیزوں سے توبہ واجب ہے؟
اِس کا مختصر جواب دو لفظوں میں یہ ہے کہ تمام کبائر اور صغائر گناہوں سے توبہ کرنا واجب ہے۔ گناهِ کبیرہ (بڑے گناہ) کیا ہیں؟ احادیث مبارکہ کی روشنی میں بعض نے سات (7)، بعض نے نو (9)، بعض نے گیارہ (11)، بعض نے سترہ (17)، بعض نے ستر (70) حتی کہ بعض نے سات سو (700) اعمال ایسے قرار دیئے ہیں جو گناهِ کبیرہ ہیں۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کا قول پہنچا کہ اُنہوں نے گن کر بتائے کہ یہ یہ سات (7) گناہ، گناهِ کبیرہ ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نہیں، گناهِ کبیرہ تو ستر (70) ہیں۔
سوال یہ ہے کہ گناہ کبیرہ کا عدد اِتنا بڑا ہونے کا سبب کیا ہے؟ سیدنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے:
کل ما نھی الله عنه فهو کبیرة.
’’ہر وہ چیز، عمل اور فعل جس سے اللہ رب العزت نے منع کیا ہے، وہ گناهِ کبیرہ ہے۔‘‘
اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کسی کام سے منع کرے اور مومن اُس کو چھوٹا گناہ سمجھے تو گویا اِس طرح اس بندے نے اللہ تعالیٰ کے امر و نہی کی اہانت کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عرفائ، اولیاء ، اہل اللہ اور صالحین یہ کہتے ہیں کہ جس نے اللہ تعالیٰ کی طرف جانا اور اس کی قربت کو پانا ہے تو اُسے سمجھ لینا چاہیے کہ ہر وہ چیز اور کام جس سے اللہ تعالیٰ نے منع کر دیا اور جو اس کی ناراضگی و غضب کا باعث بنتا ہے، وہ گناهِ کبیرہ ہے۔
گناهِ کبیرہ کیا ہیں؟
ذیل میں گناهِ کبیرہ کی چار تعریفات درج کی جارہی ہیں، جن سے گناهِ کبیرہ کا مکمل مفہوم واضح ہوجائے گا:
- وہ گناہ جن پر اللہ رب العزت نے حد (سزا) مقرر کی ہے، وہ گناهِ کبیرہ ہیں۔
- ہر وہ عمل اور فعل جس پر اللہ رب العزت نے کسی بھی قسم کے اخروی عذاب یا اپنے غضب کی وعید سنائی ہے، وہ گناهِ کبیرہ ہے۔ واضح رہے کہ ایک سزا کا نام ’’حد‘‘ ہے جو عدالت اور ریاست کی طرف سے باقاعدہ نافذ کی جاتی ہے، اس کا تعلق گناهِ کبیرہ کی پہلی تعریف سے ہے جبکہ یہاں دوسری تعریف میں جن اعمال پر حد مقرر نہیں بلکہ اخروی سزا و عذاب کا ذکر ہے، انہیں گناهِ کبیرہ قرار دیا جارہا ہے۔مثلاً:
- سود کھانا گناهِ کبیرہ ہے، اس پر اس طرح حد نہیں ہے جیسے خاص جرائم پر حد مقرر ہوتی ہے مگر یہ گناهِ کبیرہ ہے، اس لیے کہ اس کی سزا اس ’’حد‘‘ سے بڑی مقرر کی گئی ہے کہ اس کے مرتکب کو دوزخ کی سزا دی جائے گی۔
- اسی طرح یتیم کا مال کھانا گناهِ کبیرہ ہے۔ اس پر بھی بظاہر عدالتی سزا نہیں ہے مگر اُس سزا سے بڑھ کر دوزخ کا عذاب ہے جو دنیا کے عذاب سے زیادہ سخت ہے، یہ گناهِ کبیرہ ہے۔
- اسی طرح قطعِ رحمی، خونی رشتے کو کاٹنا، حق تلفی کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا گناهِ کبیرہ ہے۔ ان پر اُس طرح کی سزا نہیں جیسے چوری، ڈاکے، شراب، قتل، بدکاری پر حدیں مقرر کی گئیں ہیں مگر اُن سے بڑی حد قیامت کے دن عذابِ جہنم ہے، اسی طرح جادو، چغلی اور جھوٹی گواہی دینا یہ سارے امر گناهِ کبیرہ ہیں۔
- گناهِ کبیرہ کی تیسری تعریف یہ ہے کہ ہر وہ چیز جسے قرآن یا حدیث میں حرام ٹھہرایا گیا ہو، اگرچہ اُس پر حد کا ذکر ہو یا نہ ہو، وہ گناهِ کبیرہ ہے۔
- گناهِ کبیرہ کی چوتھی تعریف یہ کی گئی ہے کہ ہر وہ چیز یا عمل جس پر قرآن و حدیث میں لعنت یا غضب وارد کیا گیا ہے کہ ’’فلاں کام کرنے والے یا ایسا کرنے والے پر اللہ کی لعنت ہو، اس پر اللہ کا غضب ہو۔‘‘ جن امور میں اللہ کا غضب اور لعنت کی گئی ہے، وہ سب گناهِ کبیرہ میں شامل ہیں۔
گناهِ کبیرہ کی مذکورہ چار تعریفات سے گناهِ کبیرہ کا پورا تصور واضح ہوجاتا ہے۔ گناهِ کبیرہ کی ان تعریفات کے مطابق انسانی جان کا قتل کرنا، بدکاری، جھوٹی گواہی، رمضان کا روزہ چھوڑنا، جھوٹی قسم کھانا، قطع رحمی، والدین کی نافرمانی، صلاحیت اور طاقت ہونے کے باوجود دشمن سے پیٹھ پھیر کر بھاگ جانا، نماز کو لیٹ کر دینا، سچائی کو چھپانا، رشوت لینا، زکوۃ ادا نہ کرنا، امر بالمعروف و نہی عن المنکر کو بجا نہ لانا، جھگڑا کرنا، اللہ کی رحمت سے مایوس ہونا، اللہ کی تدبیر اور اُس کی گرفت سے بے نیاز و بے فکر ہو جانا، اللہ کی گرفت اور مواخذے کو ہلکا سمجھنا اور گناہ سے بے خوف ہوجانا، خنزیر اور مردار سمیت سب حرام چیزوں کو کھانا، سونے، چاندی کے برتنوں کو استعمال کرنا اور اُن میں کھانا پینا، مردوں کا سونے کی انگوٹھیاں اور ریشمی لباس استعمال کرنا اور کسی کا مال اور حق تلف کرنا یہ سب اعمال گناهِ کبیرہ میں شامل ہیں۔
احادیثِ مبارکہ میں کبائر گناہوں کی ایک تفصیلی فہرست مقرر کی گئی ہے، جب آدمی اِن کو دیکھتا ہے تو یہ عدد صرف سات تک نہیں رہتا بلکہ کئی گنا بڑھ جاتا ہے، البتہ کسی ایک حدیث مبارک میں آقا علیہ السلام نے سات (7) کا عدد بیان کر دیا ہے مگر اُس کا مطلب یہ نہیں کہ حصر ہو گیا کہ سات سے زیادہ گناهِ کبیرہ نہیں ہیں۔ درج بالا سطور میں جن گناہ کبیرہ کی نشاندہی کی گئی ہے، یہ سب احادیثِ نبوی اور آیاتِ قرانیہ سے ثابت ہیں۔
حضور سیدنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہ نے غنیۃ الطالبین میں مختلف انسانی اعضاء سے صادر ہونے کی نسبت سے گناهِ کبیرہ کی سترہ (17) اقسام ذکر ہیں۔ اِن سب گناهِ کبیرہ سے توبہ واجب ہے۔ جن کی تفصیل درج ذیل ہے:
دل کے گناہ
- شرک
- اللہ کی نافرمانی اور معصیت پر اصرار کرنا
- اللہ کی رحمت سے مایوس ہونا
- اللہ کے عذاب اور گرفت سے بے فکر ہو جانا اور اُس کو ہلکا سمجھنا
زبان کے گناہ
- جھوٹی گواہی دینا
- جھوٹی قسم کھانا
- جادو کرنا
- کسی پاک باز بندے یا خاتون پرالزام اور تہمت لگانا
پیٹ کے گناہ
- شراب یا شراب جیسی حرام چیزیں کھانا یا پینا۔
- یتیم اور مساکین کے مال کو کھانا اور حق تلف کرنا۔
- سود یا سود کی طرح ناجائز طریقے سے مال کمانا
ہاتھوں کے گناہ
- قتل کرنا
- چوری کرنا
- ڈاکہ زنی
- بدکاری کرنا
پورے جسم کے گناہ
- میدان جنگ سے بزدلی کی وجہ سے پیٹھ پھیر کر بھاگ جانا
- والدین کی نافرمانی کرنا
صغیرہ گناہوں کی اقسام
صغیرہ گناہوں سے مراد چھوٹے گناہ ہیں۔ اُن کی کوئی حد (limit) نہیں ہے یعنی اُن کا کوئی عدد شمار نہیں کیا گیا۔ مثلاً: کسی ناجائز چیز کو سننا اور دیکھنا، غیرمعمولی قہقہ لگانا،جھوٹ بولنا، کسی کے گھر کے اندر تجسس کرنا، ٹوہ لگانا، جاسوسی کرنا، مسلمان بھائی سے تین دن سے زائد قطع تعلق کرنا، بے صبری کرنا، چیخ و پکار کرنا، فسق وفجور کی مجلس میں بیٹھنا، مکروہ اوقات میں نماز کا پڑھنا، مسجد میں خرید وفروخت اور دنیاوی امور کی باتیں کرنا، امام خطبہ دے رہا ہے تو اُس کے درمیان گفتگو کرنا، کسی کی بے عزتی کرنا، عیب جوئی کرنا، غیبت کرنا، (بعض نے غیبت کو صغیرہ میں لیا ہے مگر اکثر نے غیبت کو کبیرہ گناہ میں لیا ہے۔) چغلی کرنا، غیر ضروری غصے میں آنا، کسی کے ساتھ حقد اور حسد کرنا، جھگڑالو طبیعت ہونا۔ یہ سب صغیرہ گناہ ہیں۔
صغیرہ اور کبیرہ گناہ میں فرق
حضور سیدنا غوث الاعظم اور جمیع صوفیاء و اولیاء نے بیان کیا اور اس کی بنیاد حدیث مبارک ہے کہ ہر وہ چیزجس سے اللہ تعالیٰ ناراض اور غضب ناک ہوتا ہے، وہ گناهِ صغیرہ نہیں ہے بلکہ گناهِ کبیرہ ہے۔ حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ
ایک سفر کے دوران ایک جگہ آقا علیہ السلام نے پڑاؤ کیا اور صحابہ کرامؓ کو لکڑیاں جمع کرکے لانے کا حکم دیا۔ صحابہ کرام نے ہر جگہ دیکھا مگر انہیں کوئی لکڑی نہ ملی۔ واپس آکر عرض کیا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم !کہیں کوئی لکڑی موجود نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو چھوٹی چھوٹی چیزیں بھی ملتی ہیں، وہی جمع کرکے لے آؤ۔ پھر ہر صحابی کوئی نہ کوئی چھوٹا چھوٹا لکڑی کا ٹکڑا اور گھاس پھونس کے خشک تنکے لاتا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان تمام کو ایک جگہ جمع کرنے کا حکم دیا۔ جب انہیں جمع کیا گیا تو وہ ایک بڑا ڈھیر بن گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام کو فرمایا: اِسی طرح صغیرہ گناہ مل کر کبیرہ بن جاتے ہیں، جس طرح یہ چھوٹے چھوٹے لکڑی کے ٹکڑے گٹھا بن گئے۔ اسی طرح چھوٹی چھوٹی نیکیاں بھی مل کر بڑی نیکیاں بن جاتی ہیں۔ پس جن کو تم حقیر سمجھتے ہو، وہ حقیر نہیں رہتے بلکہ بڑے ہوجاتے ہیں۔
نیکی اور برائی کے معاملات میں یہی پراسس کار فرما ہوتا ہے۔
گناہ کو معمولی سمجھنا نفاق کی علامت ہے
گناہ کی مذکورہ تقسیم کو فقہاء اس لیے بیان کرتے ہیں کہ کسی گناہ کو بھی بندہ چھوٹا نہ سمجھے۔ چھوٹے سے چھوٹے گناہ یعنی کبائر ہی نہیں بلکہ صغائر گناہ پر بھی توبہ واجب ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
المؤمن یری ذنبه کالجبل فوقه والمنافق یری ذنبه کذباب.
’’مومن کی پہچان یہ ہے کہ وہ ہر گناہ کو پہاڑ سمجھتا ہے اور منافق گناہ کو مکھی کی طرح دیکھتا ہے یعنی ہلکا سمجھتا ہے۔‘‘
یعنی مومن اللہ کی نافرمانی کو خواہ وہ چھوٹی ہو یا بڑی، اِس زوایۂ نگاہ سے دیکھتا ہے کہ اُس کے سر پر پہاڑ کھڑا ہے جبکہ منافق ہر چھوٹے بڑے گناہ کو معمولی سمجھتا ہے۔ پس جسے گناہ مکھی اور مچھر کی طرح ہلکا نظر آئے، وہ سمجھے کے اُس کے اندر ایمان کی کمی ہے اور جسے چھوٹا سا گناہ بھی پہاڑ نظر آئے اور وہ ڈر جائے، گھبرا اور لرز جائے اور توبہ کرنے کی فکر کرے تو سمجھیں کہ اُس کے اندر ایمان ہے۔ ایمان گناہوں کو چھوٹا کرکے نہیں دیکھنے دیتا اور نفاق گناہ کو بڑا کر کے نہیں دیکھنے دیتا۔
یہ بات بڑی توجہ طلب ہے کہ جس شخص کی نگاہ اللہ رب العزت کی جلالت، عظمت، تقدس، بزرگی اور اللہ کے حکم پر نہیں ہے، اُسے ہر گناہ چھوٹا نظر آئے گا اور جس کی نگاہ اُس ذات کی عظمت و جلالت پر ہے، اُسے معمولی سا گناہ بھی بڑا نظر آئے گا۔
اِسی لیے عرفاء کہتے ہیں کہ گناہ کو محض ایک ’’عمل یا فعل‘‘ کے زوایے میںنہ دیکھو بلکہ گناہ کواِس زوایے سے دیکھو کہ نافرمانی کس کی ہے۔۔۔؟ لازمی بات ہے کہ یہ رب العالمین کی نافرمانی ہے لہذا معمولی سی نافرمانی بھی اس کی بارگاہ میں بڑی نافرمانی متصور ہوگی کیونکہ اُس بڑے کی نافرمانی ہے اور اگر وہ ذات (معاذاللہ) چھوٹے درجے کی ہوتی تو نافرمانی بھی چھوٹی ہوتی مگر وہ ذات بہت عظیم و جلیل ہے، سو اُس کی جو بھی نافرمانی کی جائے گی، وہ بڑی ہی ہوگی۔ جس شخص کی نگاہ میں اللہ رب العزت کی عظمت وجلالت کی معرفت جتنی بڑھتی چلی جاتی ہے اور جس کا ایمان معرفت کے سبب جتنا بلند سے بلند تر اور مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا جاتا ہے، اُس کی نگاہ میں ہر گناہ عظیم سے عظیم تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ وہ کسی گناہ کو چھوٹا نہیں بلکہ ہر گناہ کو بڑا دیکھتا ہے۔
صحابہ کرام کا معمول تھا کہ وہ اپنے شاگردوں یعنی تابعین سے کہا کرتے کہ آقا علیہ السلام کے عہد مبارک میں جب ہم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں ہوتے تو ہم بال سے باریک نظر آنے والی چھوٹی سی خطا کو بھی دوزخ میں لے جانے والا تصور کرتے کہ یہ عمل ہمیں دوزخ میں پھینک رہا ہے یعنی صحابہ کرام معمولی سی خطاء کو بھی جہنم کے سامان کی نظر سے دیکھتے تھے۔
اِس حدیث کو بیان کرنے کے بعد حضور غوث الاعظم نے صحابہ کرام کی اس کیفیت کے حوالے سے ایک بڑا لطیف جملہ لکھا ہے۔ فرماتے ہیں کہ آقا علیہ السلام کی قربت نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی بصیرت کو اِتنا روشن کر دیا تھا اور اُن کے اندر تقویٰ اِتنا مضبوط کر دیا تھا کہ وہ معمولی سے گناہ کو بھی بہت بڑا تصور کرتے تھے۔
حضور غوث الاعظمؒ مزید فرماتے ہیں کہ حضور علیہ السلام کی قربت نے صحابہ کی نگاہ میں اللہ تعالیٰ کی عظمت اور جلال اِتنا بلند کر دیا تھا کہ وہ نافرمانی کے فعل اور عمل کو نہیں تکتے تھے بلکہ یہ دیکھتے تھے کہ نافرمانی کس کی ہو رہی ہے۔۔۔؟ آقا علیہ السلام کی قربت انہیں ہمہ وقت اللہ تعالیٰ کی بارگاہ کی طرف متوجہ رکھتی تھی۔ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں چونکہ ہمہ وقت ان کا دھیان رہتا تھا، سو اُس کی معمولی سی نافرمانی کو بھی وہ دوزخ میں ڈال دینے والابہت بڑا گناہ کا عمل سمجھتے تھے۔
ہر ایک کی توبہ جدا جدا ہے!
جس شخص کا ایمان اور اطاعت میں جو حال اور درجہ ہے، اپنے اس مقام ومرتبہ کے مطابق وہ توبہ کا محتاج ہے۔ اِس لیے اولیاء فرماتے ہیں کہ
توبۃ العوام من الذنوب، توبۃ الخواص من الغفلۃ و توبۃ اخص الخواص من کل شیئً سوی اللہ۔
یعنی عام مسلمانوںکی توبہ گناہوں سے ہوتی ہے۔ اگر کچھ لوگ عام مومنین کے درجے سے بلند ہو کر اولیائ، عارفین، صالحین اور مقربین کے درجے پر چلے جائیں تو اُن کی توبہ غفلت سے ہوتی ہے۔پھر غفلت کا معنی ہر ایک کے حسبِ حال الگ الگ ہے۔ عام مسلمان کی غفلت کا معنی یہ ہے کہ وہ اللہ رب العزت کے ارشادات کی بجا آوری، آداب، احکام، فرائض، واجبات، سنن، نوافل، مستحبات کی بجاآوری میں کوتاہی کا مرتکب ہوتا ہے۔ وہ بندہ جو اللہ تعالیٰ سے واصل ہو جاتا ہے تو اس کی غفلت کا تعلق احکام وآداب سے نہیں بلکہ وہ قلب کے حالات میں غفلت کو دیکھتا ہے کہ کون سا لمحہ تھا کہ اُس کے دل میں کوئی غفلت طاری ہوگئی۔۔۔؟ کون سا لمحہ تھا کہ اُس کے حُسنِ ادب، حُسنِ تقویٰ میںکوئی غفلت آگئی۔۔۔؟ پس وہ دل کے حالات میں غفلت دیکھتا ہے اور اُس سے توبہ کرتا ہے۔ خاص الخواص جن کا رتبہ مزید بلند ہو تا ہے، وہ قلب کے اندر ماسوا للہ کے وجود سے توبہ کرتا ہے، یعنی اگر غیر کا خیال بھی آجائے تو اُس سے بھی توبہ کرتا ہے۔ دل کی چاہت ہر غیر کے خیال سے پاک ہو جائے تو یہ اصل ’’توبہ‘‘ ہے۔
کچھ تائب ایسے ہوتے ہیں جو غفلتوں سے توبہ کرتے ہیں اور کچھ تائب ایسے ہوتے ہیں جنہیں اللہ غفلت سے بھی پاک کر دیتا ہے مگر اُنہیں اپنی نیکیاں نظر آتی ہیں، لہذا وہ رؤیتِ حسنات سے بھی توبہ کرتے ہیں تاکہ نیکی نظر بھی نہ آئے۔۔۔ بھلائی کریں اور بھلائی نظر بھی نہ آئے۔ جسے بھلائی کرکے بھلائی نظر آئے، اہل اللہ اُس سے بھی توبہ کرتے ہیں، اس لیے کہ اُن کی زندگی میں یہ بھی گناہ ہے۔ پھر کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ اگر مخلوق کی طرف سے دل کو اطمینان ملے تو اُس طمانیتِ قلب سے بھی توبہ کرتے ہیں، اس لیے کہ وہ جانتے ہیں کہ
اَ لَا بِذِکْرِ اللهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ.
’’جان لو کہ اللہ ہی کے ذکر سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے۔‘‘
(الرعد، 13: 28)
وہ چاہتے ہیں کہ صرف اللہ کی یاد اور اللہ کے قرب میں انہیں طمانیتِ قلب ملے۔ پس جیسے جیسے کسی کے قلب و روح کے حالات ہوتے ہیں، اُن حالات کے مطابق توبہ کے درجات اور مقامات ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم قرآن مجید میںحضرت آدم، حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ، حضرت داؤد، حضرت سلیمان اور دیگر انبیاء کرام علیہم السلام کی توبہ کے بارے پڑھتے ہیں، حتی کہ آقا علیہ السلام جو کبائر، صغائر اور خطاؤں سے پاک اور معصوم تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی دن میں سو مرتبہ توبہ و استغفار فرماتے اور اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امت کو توبہ و استغفار کرنے کی سنت عطا فرمائی۔
ان اولوالعزم انبیاء و رسل علیہم السلام کا توبہ کرنا اپنے اپنے حال اور مقام ومرتبہ کے مطابق ہے۔ یعنی ہر ایک کا جو مقام ومرتبہ ہے اُس کے مطابق اُس کی توبہ اُس پر واجب ہے اور وہ اپنے مقام کے مطابق توبہ کا محتاج ہے۔ اللہ کی مخلوق میں کوئی شخص توبہ سے مستغنی اور بے نیاز نہیں ہے۔ توبہ ہی بندے کو بچاتی اور اُونچا لے جاتی ہے۔ توبہ بقاء بھی دیتی ہے اور ارتقاء بھی کرتی ہے۔
فرائضِ توبہ
حضرت جنید بغدادی ؒنے حضرت مالک بن دینار سے پوچھا کہ توبہ کے فرائض کیا ہیں تو اُنہوں نے جواب دیا:
توبہ کے دو پہلو ہیں:
- حقوق اللہ کی ادائیگی کے اعتبار سے
- حقوق العباد کی ادائیگی کے اعتبار سے
1۔ حقوق اللہ کے حوالے سے توبہ کا پہلو یہ ہے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ بس توبہ کر لی، لہذا جو گزر گیا، وہ گزر گیا اور وہ معاف ہوجائے گا۔ نہیں ایسا نہیں ہوتا بلکہ جن فرائض کے تارک ہوئے، ان کا اعادہ ضروری ہے۔ اگر اللہ کی حق تلفی کی یعنی نماز نہیں پڑھی، روزہ نہیں رکھا، زکوۃ نہیں دی تو اُس کا اعادہ کرے اور ان فرائض کو ادا کرے۔
2۔ حقوق العباد کے حوالے سے توبہ کا پہلو یہ ہے کہ جس جس شخص سے زندگی میں بندے نے ظلم کیا تھا، کسی کا مال کھایا، کسی کی عزت پر حملہ کیا، کسی کی حق تلفی کی، کسی کے خلاف غیبت کی، چغلی کی، کسی پر تہمت لگائی، بُرا بھلا کہا، جانی ،مالی، عزت کسی بھی اعتبار سے کسی کو نقصان پہنچایا تو توبہ کے فرائض میں سے پہلا فرض یہ ہے کہ جس سے کسی بھی قسم کی زیادتی کی ہے، اسے اس کا حق واپس لوٹایا جائے۔
امام اعظم ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی رحمہم اللہ تینوں کا مذہب یہ ہے کہ اگر ہم نے کسی کی غیبت، چغلی، بُرائی کی یا تہمت لگائی اور اس کے بعد توبہ کریں کہ پاک ہوجائیں تو ایسا نہیں ہو سکتا۔ اس لیے کہ توبہ کے فرائض میں سے ہے کہ توبہ اُس وقت تک نہیں ہوگی، جب تک اس شخص کے سامنے اظہار کرکے اپنی باتوں سے رجوع نہ کریں اور ندامت کا اظہار کرتے ہوئے اس سے معافی طلب نہ کریں جس کو قولی یا عملی نقصان پہنچایا۔
یعنی جس بندے کی حق تلفی کی، اُس کا حق اور مال اُس کو واپس کرے،اُس سے معافی مانگے اور بیان کرے کہ میں نے آپ کی حق تلفی کی تھی، بتا کر معافی مانگے اور آئندہ اپنی اصلاح کرے یہ فرائضِ توبہ میں سے ہے۔ اگر وہ شخص تلاش کے باوجود نہیں ملا تو پھر جس کے سامنے بیٹھ کر اس کی غیبت کی تھی، اُسی جگہ جا کر تلافی کریں، اُس بندے کی تعریف کریں اور بتائیں کہ میں نے فلاں کے بارے میں جھوٹ بولا تھا جبکہ سچائی یہ ہے کہ وہ بندہ اچھا ہے، میں نے غلطی سے اسے بُرا کہا۔ یعنی جب تک اُس کی تلافی نہ کی جائے، توبہ نہیں ہوتی۔ پس حق دار کو حق لوٹانا، یہ توبہ کا پہلا فریضہ ہے۔
توبہ کی شرائط
حضور سیدنا غوث الاعظم شیخ عبد القادر جیلانی ؒ فرماتے ہیں کہ توبہ کی تین شرائط ہیں:
1۔ سابقہ گناہوں پر ندامت
اللہ کے حکم کی مخالفت، نافرمانی اور گناہ کے ارتکاب پر دل سے نادم ہو جانا توبہ کی پہلی شرط ہے کہ حقیقت میں بندے کو اپنے گناہوں اور نافرمانیوں کا احساس ہو کہ میں غلط کرتا رہا ہوں۔ ندامت ہونے کی علامت یہ ہے کہ بندے کے دل میں رقت اور نرمی آجائے۔
2۔گناہوں کو عملاً ترک کرنا
توبہ کی دوسری شرط یہ ہے کہ بندہ تمام حالات اور تمام ساعتوں میں، گناہوں خواہ وہ صغائر ہوں یا کبائر کو عملاً ترک کر دے۔ پہلی شرط کے مطابق پچھلے گناہوں پر ندامت اختیار کرتاہے اور دوسری شرط کے مطابق آئندہ گناہوں کو ترک کر دیتاہے۔
3۔ آئندہ گناہ نہ کرنے کا پختہ ارادہ
توبہ کی تیسری شرط یہ ہے کہ اِس چیز کا عزم اور پختہ ارادہ کرلینا کہ جو ظاہری و باطنی خطائیں ، معاصی اور گناہ میںنے کیے ہیں، میں کبھی پلٹ کر اُن کی طرف نہیں جاؤں گا۔
اگر یہ تین چیزیں جمع ہوجائیں تو اُس وقت توبہ کا عمل پورا ہوتا ہے اور توبہ اپنے اثرات پیدا کرتی ہے۔
توبہ کے قبول ہو جانے کی علامت کیا ہے؟
حضور غوث الاعظم شیخ عبد القادر جیلانیؒ فرماتے ہیں کہ توبہ قبول ہوجانے کی درج ذیل علامات ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ اِس بندے کی توبہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قبول ہوگئی:
1۔زبان کا پاک ہونا
توبہ کی قبولیت کی پہلی علامت یہ ہے کہ توبہ کرنے کے بعد بندے کی زبان پاک ہوجاتی ہے۔ اُس کی زبان جھوٹ بولنے، غیبت کرنے اور لغویات بکنے سے رک جاتی ہے۔ اگر جھوٹ، دھوکہ دہی، غیبت اس سے جاری ہوتی رہے تو اُسے جان لینا چاہیے کہ اس کی توبہ نہیں ہوئی، اس لیے کہ توبہ ہونے کی پہلی علامت یہ ہے کہ زبان پاک ہو جائے۔
2۔ دل کا پاک ہونا
توبہ کے قبول ہوجانے کی دوسری علامت یہ ہے کہ بندے کے دل میں کسی کے لیے حسد، بغض اور عداوت نہ رہے۔ گویا توبہ کرنے کے بعد اپنے قلبی حالات پر غور کرے۔ توبہ قبول ہوئی یا نہیں؟ اس حوالے سے کسی اور سے پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اِس کا فیصلہ بندہ خود کرتا ہے۔ بندہ اپنے دل میں دیکھے کہ کیا میرا دل حسد، بغض، عداوت، کینہ، نفرت، لالچ اور دیگر باطنی رذائل سے پاک ہوا یا نہیں؟ اگر تمام باطنی رذائل بھی موجود ہیں تو اِس کا مطلب ہے توبہ دل تک نہیں پہنچی اور قبول نہیں ہوئی۔
3۔ بُری صحبت اور سنگت سے اجتناب
توبہ کی قبولیت کی تیسری علامت یہ ہے کہ بندہ بُری صحبت اور سنگت چھوڑ دے۔ اگر توبہ کرنے کے بعد اُسی سنگت و صحبت میں بیٹھتا ہے جہاں سے اُس نے گناہ لیا تھا اور اسے نافرمانی و عصیاں کی عادت پڑی تھی تو اِس کا مطلب ہے کہ اُس کی توبہ نہیں ہوئی۔ اُس نے مکاری کی ہے اور محض زبان سے کلماتِ توبہ ادا کیے ہیں، عملاً اُن عوامل کو ترک نہیں کیا جو گناہ و عصیاں کے اسباب ہیں۔
کسی بندے کا گناہ کا عادی ہوجانا چند عوامل کے باعث ہوتا ہے جو اس پر اثر انداز ہوتے ہیں، اولیاء اور صوفیاء جو روحوں اور نفوس کے معالج ہیں، اس حوالے سے سب سے بڑا سبب بُری صحبت کو قرار دیتے ہیں۔ بُری دوستی اور بُری سنگت کے باعث رفتہ رفتہ ہماری زندگی میں نیکی کا تصور و حیثیت اور رغبت ہلکی ہوتی چلی جاتی ہے اور گناہ و بُرائی کا تصور بڑا، بھاری اور رغبت والا ہوتا چلا جاتا ہے۔ اگر ہم بری صحبت اور سنگت کو توبہ کرنے کے بعد بھی برقرار رکھتے ہیں اور پھر اُنہی کے مجلس میں بیٹھتے ہیں تو اِس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم نے توبہ کے اوپر پانی پھیر دیا۔ اس لیے کہ ان کی صحبت پھر ہمیں گناہ کی طرف پلٹا دے گی جبکہ توبہ یہ تھی کہ ہم اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتے اور پھراُس کے بعد اُس گناہ کو ہم زندگی سے نکال دیتے، گناہ کی زندگی پر حقیقت میں نادم ہوتے اور ہمیشہ اطاعت و عبادت کو اپنا کر دل کو نیکی پر قائم کرلیتے۔
4۔ عبادت اور اطاعت میں ذوق و شوق
قبولیتِ توبہ کی چوتھی علامت یہ ہے کہ بندہ توبہ کرنے کے بعد اپنے اندر عبادت کی رغبت محسوس کرتا ہے کہ اس کے اندر آخرت، نیک کاموں کے لیے ذوق و شوق، عبادت،اطاعت، تلاوت، قرأت و نعت، ذکر و تسبیح، نیکی و بھلائی اور لوگوں کے ساتھ احسان کے امور میں ذوق اور شوق بڑھ گیا ہے۔ اسی طرح احکامِ الہی میں مشغولیت، مسجد کی طرف رغبت، اللہ کے دین کی تبلیغ اور دعوت، مشن کے کام میں رغبت اور شوق، غریب کی مدد کرنا، محتاجوں کو خوش کرنا، مظلوموںکی مدد کرنا، بھوکے کو کھانا کھلانا، کمزور کو طاقت دینا اور انسانیت کی خدمت کرنے میں اُس کو راحت ملتی ہے۔ اب ظلم اور ناانصافی سے اس کی طبیعت ہٹ جاتی ہے۔ اگر یہ تبدیلی زندگی میں آئے تو وہ محسوس کرے کہ میری توبہ اللہ کی بارگاہ میں قبول ہوئی ہے۔
5۔ دل سے دنیا کے اثرات ختم ہو جائیں
قبولیت توبہ کی پانچویں علامت یہ ہے کہ دنیا کی فرحت، رغبت، چاہت اورشہوت کے اثرات اس کے دل سے ختم ہوجائیں یا کم ہوجائیں اور دل آخرت کی طرف راغب ہو جائے۔ گویا بندے کی زندگی میںآخرت کے اعمال کا زیادہ اہمیت اختیار کر جانا قبولیتِ توبہ کی علامت ہے۔
توبہ کی قبولیت اور کرامات کا حصول
حضور سیدنا غوث الاعظم شیخ عبد القادر جیلانی ؒ فرماتے ہیں کہ جب بندے کی توبہ اللہ کی بارگاہ میں قبول ہوجاتی ہے تو پھر اللہ تعالیٰ اُس کو چار کرامات عطا فرماتا ہے:
1۔گناہوں کی معافی
اللہ تعالیٰ گناہوں سے توبہ میں اس کے اخلاص و صدق کو دیکھتے ہوئے یہ کرامت و انعام عطا فرماتا ہے کہ اُس کے سارے گناہ اِس طرح مٹا دیتا ہے جیسے اُس نے گناہ کیا ہی نہیں تھا۔ ارشاد فرمایا:
التائب من الذنب کمن لا ذنب له.
’’گناہ سے توبہ کرنے والاایسے ہے جیسے اُس نے گناہ کیا ہی نہیں تھا۔‘‘
یاد رہے کہ اُس سے مراد محض کلماتِ توبہ ادا کرنا نہیں ہے بلکہ نادم ہو کر گناہ، بری صحبتوں و مجلسوں اور گناہ کی رغبتوں کو ترک کرکے اللہ کی اطاعت، عبادت اور تقویٰ کے ذوق کے ساتھ اللہ کی طرف ایسا آنا کہ جس سے زندگی تبدیل ہوجائے۔ اس لیے کہ توبہ وہ ہے کہ جو زندگی کو بدل دے۔
یاد رہے کہ جن کلماتِ حسنہ نے زندگی کو بدلا نہیں، وہ بھی ایک نیکی ہیں، اللہ سے معافی مانگنا بھی ایک نیکی اور طاعت کا عمل ہے مگر ان کلماتِ حسنہ کا ادا کرنا اصل میں استغفار و معافی طلب کرنا ہے جبکہ توبہ کرنا اِس سے ایک الگ حقیقت ہے۔ معافی مانگنے کے بعد توبہ اس ندامت کا نام ہے جو انسان میں تبدیلی پیدا کردے۔۔۔ توبہ اس ترکِ گناہ اور اختیارِ طاعت وتقوی کا نام ہے جس سے پوری زندگی کا مزاج اور رخ بدل جاتا ہے۔اگر یہ تبدیلی واقع نہ ہو تو اِس کا مطلب ہے استغفار و معافی مانگی، مگر توبہ نہ کی۔ اگر بندہ توبہ کر لے اور اس کی توبہ کے اثرات سے اس کی زندگی تبدیل ہوجانے کی صورت میں قبولیتِ توبہ کی علامت ظاہر ہوجائے تو پھر اللہ تعالیٰ اس کو یہ اعزاز عطا کرتا ہے کہ اُس کے سارے گناہ مٹا دیتا ہے۔
2۔ اللہ کی محبت کا حصول
توبہ کی قبولیت پر اللہ تعالیٰ دوسرا کرم یہ کرتا ہے کہ بندے کو اپنی محبت عطا کرتا ہے۔ فرمایا:
ویحبه الله تعالیٰ.
اللہ تعالیٰ پھر اُس سے محبت کرنے لگتا ہے۔ اِسی لیے قرآن مجید میں فرمایا:
اِنَّ اللهَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ.
’’بے شک اللہ بہت توبہ کرنیوالوں سے محبت فرماتا ہے ۔‘‘
(البقره، 2: 222)
3۔ شیطان کے تسلط سے حفاظت
قبولیتِ توبہ پر تیسرا انعام و کرامت اللہ یہ دیتاہے کہ اللہ تعالیٰ اُس بندے کی حفاظت خود کرتا ہے اور اس پر کبھی شیطان کو مسلط نہیں ہونے دیتا۔
4۔ خوف سے حفاظت
قبولیتِ توبہ کے صلہ کے طور پر چوتھی کرامت اللہ کی طرف سے یہ عطا ہوتی ہے کہ اِس دنیا سے نکلنے سے قبل اُسے آخرت میں امن عطا فرما دیا جاتا ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَلا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلاھُمْ یَحْزَنُوْنَ.
’’ان پر نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ رنجیدہ ہوں گے۔‘‘
(البقرة، 2: 62)
یعنی اللہ رب العزت اُنہیں وہ قربت اور مقام دیتا ہے کہ وہ دنیا اور آخرت دونوں قسموں کے خوف وغم سے نکل جاتے ہیں۔
حقیقت توبہ
یہ امر ذہن نشین رہے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی شخص کو اس کے گناہ کے سبب ظالم نہیں کہا بلکہ ظالم اُسے کہا جو گناہ کے بعد توبہ نہیں کرتا۔ ارشاد فرمایا:
وَمَنْ لَّمْ یَتُبْ فَاُولٰٓـئِکَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ.
’’اور جس نے توبہ نہیں کی سو وہی لوگ ظالم ہیں۔‘‘
(الحجرات، 49: 11)
یعنی اگر بندے سے خطاء اور گناہ ہو گیا تو اللہ تعالیٰ اُس کو ظالم نہیں کہتا، اِس لیے کہ اگر اُس کے اندر اُس گناہ پر نادم ہونے کا احساس ہے اور وہ توبہ کرتا ہے تو وہ ظالم نہیں ہے۔ ظالم کا لقب اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسے اُس وقت دیا جاتا ہے جب وہ توبہ نہیں کرتا لیکن جب وہ توبہ کر لے تو نہ صرف ظالم کے ٹائٹل سے محفوظ ہوجاتا ہے بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کا محبوب بھی بن جاتا ہے۔ ارشاد فرمایا:
اِلَّا مَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَاُولٰٓـئِکَ یُبَدِّلُ اللهُ سَیِّاٰ تِهِمْ حَسَنٰتٍ.
’’مگر جس نے توبہ کر لی اور ایمان لے آیا اور نیک عمل کیا تو یہ وہ لوگ ہیں کہ اللہ جن کی برائیوں کو نیکیوں سے بدل دے گا۔‘‘
(الفرقان، 25: 70)
گویا اللہ تعالیٰ نہ صرف اس سے ظلم مٹاتا ہے بلکہ اُس کی زندگی کے چھوٹے گناہوں کو بھی توبہ کی برکت سے نیکیوں میں بدل دیتا ہے۔ مزید یہ کہ اللہ تعالیٰ اسے اپنی مدد اور نصرت کے ساتھ بھی نوازتا ہے۔
- آقا علیہ السلام سے ایک حبشی صحابی نے پوچھا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم !
إنی کنت أعمل الفواحش فهل لی من توبة؟
یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! میں گناہ کرتا رہا ہوں، کیا میرے لیے بھی توبہ ممکن ہے؟
(سبکی، طبقات الشافعیه الکبری، 6: 356)، (غزالی، احیاء العلوم الدین، 4: 14)
آقا علیہ السلام نے فرمایا:
نعم، فولی ثم رجع
’’ہاں، تمہارے لیے بھی توبہ ہے، وہ خوش ہو کر پلٹ گیا۔‘‘
پھر اُس کو ایک خیال آیا اور وہ واپس لوٹ آیا اور آقا علیہ السلام سے عرض کیا:
یا سول الله أکان یرانی وأنا أعملها؟
’’جب میں گناہ کر رہا تھا تو کیا میرا اللہ مجھے دیکھ رہا تھا؟‘‘
آقا علیہ السلام نے فرمایا: ہاں، اُس وقت بھی تیرا مولیٰ تمہیں دیکھ رہا تھا۔
فصاح الحبشی صیحة خرجت فیها روحه.
اس حبشی صحابی نے جب یہ سنا کہ اُسے اُس وقت بھی مولیٰ دیکھ رہا تھا جب وہ گناہ کا ارتکاب کررہا تھا تو خوف اور ندامت کی بناء پر اس کی چیخ نکلی، وہ نیچے گرا، تڑپا اور اُس کی روح پرواز کر گئی۔
آقا علیہ السلام نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے فرمایا:
هذا من أهل الجنة وهذه حقیقة التوبة.
’’یہ اہل جنت میں سے ہے اور یہ حقیقی توبہ ہے۔‘‘
حاصل کلام
توبہ کے درجات درج ذیل ہیں:
- اللہ کے عذاب سے ڈر کر توبہ کرنا ایک درجہ ہے۔
- اللہ کی بارگاہ سے اجر وثواب کی خواہش کے پیش نظر توبہ کرنا اُس سے اونچا درجہ ہے۔
- عذاب کے ڈر اور ثواب کے لالچ دونوں سے بے نیاز ہوکر توبہ کرنا اس سے بھی اعلیٰ درجہ ہے۔
- اگر استحیاءً توبہ کرے کہ میرا مولیٰ مجھے دیکھ رہا ہے، اِس توبہ کا درجہ سب سے بلند ہے۔ یعنی اللہ کے امر پر تعظیماً عمل کرنا کہ میرے مولیٰ نے فلاں کام کرنے اور فلاں سے منع کیا ہے، تو یہ درجۂ توبہ سب سے بلند ہے۔
اللہ رب العزت ہمیں تمام درجات کی توبہ میں سے کچھ حصہ عطا فرمائے اور ہمیں توبہ کی وہ حقیقت عطا کر دے جو ہماری پوری زندگیوں کو بدل دے اور ایسا بدلے کہ ہماری زندگیوں سے ظلم، ناانصافی، حق تلفی اور دنیا پرستی کا رجحان ختم ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں آخرت کی طرف اور آخرت سے بڑھ کر فقط اپنی طرف متوجہ ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین