ڈاکٹر طاہرالقادری کی علمی فتوحات

حافظ شفیق الرحمن


حافظ شفیق الرحمن معروف کالم نویس، ادیب، صحافی اور دانشور ہیں، چار دہائیوں سے پرخار صحرائے صحافت کے مسافر ہیں اور اس مسافت میں ان کا زادِ راہ اخلاص میں گندھی اور حب الوطنی میں رچی ہوئی ان کی فکر ہے۔ مخصوص اسلوب اور اظہارِ بیان کی وجہ سے اپنی الگ شناخت، وقار اور اعتبار رکھتے ہیں۔ قحط الرجالی کے اس دور میںان کا قلمی وجود اردو زبان کے طلبہ کے لیے نعمتِ غیر مترقبہ ہے۔ ان کا قلم جب رواں ہوتا ہے تو مولانا ابوالکلام آزاد، الطاف حسین حالی، حضرت شورش کاشمیری کے فنِ تحریر کا سہرا کہتا دکھائی دیتا ہے۔ حافظ شفیق الرحمن نے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمدطاہرالقادری کی علمی خدمات پر خامہ فرسائی کی ہے اور ماہنامہ منہاج القرآن کو اپنی خصوصی تحریر سے نوازا ہے۔ ان کا یہ کالم قارئین ماہنامہ منہاج القرآن کے مطالعہ کے لیے من و عن پیش خدمت ہے۔

(چیف ایڈیٹر)


’’جب ڈاکٹر طاہرالقادری ایسی کوئی نابغہ اور عبقری شخصیت کسی بھی تحقیقی،تصنیفی، علمی، فکری ،نظری اورعملی شعبے میں شبانہ روز کاوشوں اور مختلف العناوین مساعیِ جمیلہ کی بدولت محیرالعقول کامیابیاں اور کامرانیاں حاصل کرلیتی ہے تو حاسدین اور ناقدین کا ایک بپھرا ہوا ہجوم طنز، تعریض، تضحیک، تذلیل، تشنیع، تنقید، استہزا، اور الزام و دشنام و اتہام کے نو صیقل شدہ ہتھیار لے کر اس پر پل پڑتا ہے۔ اس ہجوم کے شرکاء کا تعلق ایک مخصوص طبقے سے ہے۔ یہ طبقہ اشرافیہ کہلاتا ہے۔ یہ اشرافیہ صرف دنیا داروں ہی نہیں دین دار وں میں بھی پورے کر و فر، جا ہ و جلال اور شان و شکوہ کے ساتھ موجود ہے۔ اس شرافیہ کے اعضاء وجوارح دین و دنیا کے ہر معاملے کی زمام کار اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتے ہیں۔ ظلم تو یہ ہے کہ علم وفضل، ذکاوت و ذہانت، حکمت و دانش اور بصیرت و دانائی کو بھی وہ اپنے تئیں اپنی مملوکہ و مقبوضہ جاگیر سمجھتے ہیں۔ وہ بھول جاتے ہیں کہ ذٰالک فضل اللہ یؤتیہ من یشائ۔ خمارِ رعونت و نخوت اور نشۂ استکبار و تمرد میں وہ اس حقیقتِ ازلی کو فراموش کردیتے ہیں کہ خالقِ کائنات نے علم وفضل، ذکاوت و ذہانت ، حکمت و دانش اور بصیرت و دانائی کو ان کے دستِ تصرف اور دائرۂ اختیار میں نہیں رکھا۔ اُس وقت ان کی بے قراری و تشویش دیدنی ہوتی ہے، جب وہ یہ دیکھتے ہیں کہ اشرافیہ سے تعلق نہ رکھنے کے باوجود کسی مردِ راہ داں و مردِ خود ساختہ نے کامیابی و کامرانی کی منزلِ رفیع تک رسائی حاصل کرلی ہے۔ تب وہ حالتِ اضطراب میںبے آب مچھلی کی طرح تڑپتے اور کبابِ سیخ کی طرح پہلو بدلتے ہیں۔ ان کوتاہ بینوں کے نزدیک کامیابی اور کامرانی صرف ان کے صاحبزاو گانِ بلند اقبال، دخترانِ بلند اختر اور متوسلین ہی کا استحقاق ہے۔ ان کا زعم باطل ہے کہ کامیابی و کامرانی پر بھی صرف اور صرف ان کا اجارہ ہے۔ ان کے علاوہ کامیابی و کامرانی کے ’’خطیرۃ القدس‘‘ میں کسی کو قدم رکھنے کی اجازت نہیں۔ وہ اپنے قبیلے، اپنے خاندان اور اپنی کلاس سے تعلق نہ رکھنے والے ہر شخص کے کے لیے کامیابی و کامرانی کو علاقہ ممنوعہ اور نو گو ایریا بنانے کے خبط میں مبتلا ہوتے ہیں۔ ان کی خواہش اور کوشش کے باوجود جب کوئی ایسا مردِ خدا بہ قولِ اقبال جس کا عمل عشق سے صاحبِ فروغ ہو، کامیاب و کامران ہوجاتا ہے تو وہ آپے سے باہر ہوجاتے اور توازن کھودیتے ہیں۔ اب ان کے پاس بہ جز اس کے کوئی چارہ ٔ کار نہیں رہتاکہ اس کامیاب و کامراں ہستی کی شخصیت کو مسخانے اور کردار کشی کے لیے حواریوںسمیت شمشیر بہ کف ہو کر میدان میںکف در دہاں بڑھک بازی کریں۔

میں یہ کہنے میں کوئی باک محسوس نہیں کرتا اور نہ ہی کوئی ذی شعور سنجیدہ و فہمیدہ شہری میری اس رائے کو مبالغے پر محمول کرے گا کہ عصرِ حاضر میں ڈاکٹر طاہرالقادری کا وجودِ مسعود انعامات الٰہی میں سے ہے۔ وہ ان ہستیوں میں سے ہیں، جنہیں زمین کا نمک کہا گیا ہے۔ یہ ناممکن ہے کہ کوئی ایک محقق، مصنف یا سکالر ڈاکٹر طاہر القادری کی علمی فتوحات کا احاطہ کسی ایک کتاب، مقالے یا مضمون میں کرسکے۔ اس کے لیے مختلف علوم اور شعبہ جات کے چنیدہ، وقیع، مستند و جید علماء اور ماہرین پر مشتمل ایک باقاعدہ ادارے کا قیام عمل میں لانا مقتضیاتِ وقت میں سے ہے… سفینہ چاہیے اس بحر بے کراں کے لیے… آپ نے کثیرالجہات موضوعات پر ایک تسلسل کے ساتھ قلم اٹھایا۔ یہ موضوعات کا ایک سلسلۃ الذہب ہے۔ آپ نے ہر موضوع کے ساتھ انسانی اور امکانی حد تک کما حقہ انصاف کیا۔ موضوعات کاتنوع اور بوقلمونی آپ کی علمی ہمہ گیریت، فکری تعمق، نظری تبحر اور ذہنی افق کی وسعت کا جیتا جاگتامظہرہے۔

ترجمہ، سیرت، تفسیر، حدیث، فقہ، تحقیق، تصوف، روحانیات، تاریخ، فلسفہ، منطق، سائنس، ثقافت، تہذیب، تمدن، تعلیم، قانون، ملکی آئین، بین الاقوامی دساتیر، سیاسیات، معاشیات، ابلاغیات، پاکستانیات، فنونِ لطیفہ، تنظیم سازی، جماعت سازی، اتحاد سازی، عمرانیات، بشریات، تزویرات، ادبیات، نفسیات، لسانیات، ادبیاتِ اطفال، اقبالیات، تنقید، جرح و تعدیل، تقابل ادیان، استنباط و استخراج، بین الادیان مکالمہ اور ان گنت سیکڑوں علمی و عملی شعبوںکے حوالے سے اپنے انقلابی نظریات و تصورات کو سپردِ اوراق کیا۔ ان کے رَشحاتِ فکر بیسیوں کتابوں کے سفینوں میں محفوظ ہیں۔ دنیا کے کسی بھی مہذب اور ترقی یافتہ ملک کی شاید ہی کوئی ایسی لائبریری ہو، جن کے شیلفوں میں آپ کی کتب اربابِ دانش وبینش کو دعوتِ فکر نہ دے رہی ہوں اور وہ ان سے اکتسابِ فیض نہ کر رہے ہوں، گویا آپ کے علمی فیض کا لنگر چہار دانگِ عالم میں بلا امتیاز رنگ و نسل و بلا تفریق مسالک و مذاہب جاری ہے۔

سادگی اور اختصار کے ساتھ مافی الضمیر کا اظہار و ابلاغ بظاہر جتنا آسان دکھائی دیتا ہے، بباطن اتنا آساںنہیں۔ اردو، فارسی اور عربی شاعری میں ایک ’’شے‘‘ ہے جسے سہل ممتنع کہتے ہیں۔ سہل ممتنع سے مراد آسان لہجے، سادہ پیرائے اور رواں انداز میں اس طرح شعر کہنا ہے کہ ہماشما بھی سنیں تو کہیں بھلا ایسا شعر کہنا کونسا مشکل کام ہے۔ یہ تو ہم بھی کہہ سکتے ہیں لیکن جب فکر سخن کریں تو مدتوں مغز کھپانے اور دماغ جلانے کے بعد اعترافِ عجز پر مجبور ہو جائیں…’نہ بھائی ہماری یہ طاقت نہیں‘…سہل ممتنع کی ایک معروف مثال حکیم مومن خان مومن کا یہ زبان زدِ عام شعر ہے:

تم میرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا

سادگی و اختصار جہاں تحریر کا جمال ہے وہا ں یہ صاحبِ تحریر کا اعجاز بھی ہوتاہے۔ اب آپ ہی خدا لگتی کہئے کہ ہمارے ہاں صاحبِ اعجاز اور صاحبِ ایجاد مصنف، قلم کار اور دانشور کتنے ہیں؟… کتنا ہی مشکل ترین موضوع کیوں نہ ہو، ان کی کوئی بھی کتاب پڑھتے ہوئے قاری کبھی ذہنی تکان محسوس نہیں کرتا۔ ہر کتاب میں کئی ایسے مقامات ضرور آتے ہیں جب قاری کے دل میں ظرافت اور شگفتگی کا احساس جاگتا ہے۔ یہ شگفتگی ان کی تحریروںمیں اتنی سادگی اور بے تکلفی سے در آتی ہے جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آ جائے۔ یہ ظرافت اتنی سادہ، بے تکلفانہ، بے ریا اور فطری ہوتی ہے جتنا کہ شیرخوار بچے کے چہرے پر کھلنے والی معصوم مسکراہٹ… ان کی اکثر کتب عام فہم، سلیس، رواں اور سادہ ہیں۔ تاہم بعض مقامات پر کتاب کے موضوع کے تلازمے میں مطلوبہ تکنیکی اور فنی اصطلاحات و مصطلحات کا استعمال ناگزیر ہوتا ہے۔ ایک سروے اور جائزے کے مطابق ڈاکٹر طاہرالقادری کی 596 کتب شائع ہو چکیں اور سکالرز کے نجی کتب خانوں کی زینت ہیں۔جب کہ ان کی کل مطبوعہ کتب اور زیر طبع مسودات کی تعداد 1000 کے قریب ہے۔ اور تو اور وسیع المطالعہ قاری بھی حیران و ششدر ہیں کہ ہمارے نامی گرامی دانشور اور عالم تواپنی حیاتِ مستعار میں کل اتنی کتابیں پڑھنے کی سعادت حاصل کرنے سے بھی محروم رہے ہوں گے، جتنی کتب تن تنہاگزشتہ چار عشروں میں ڈاکٹر صاحب نے زیور طباعت سے آراستہ کرکے خوش ذوق قارئین کی ضیافتِ طبع کے لیے پیش کردی ہیں۔

یہاں اس امر کا ذکر ازبس ضروری ہے کہ حال ہی میں ڈاکٹر صاحب نے 5 ہزار موضوعات اور 8 جلدوں پر مشتمل قرآنی انسائیکلوپیڈیا تالیف کیا جو رونمائی سے تادم تحریر شائع ہو رہا ہے۔ علوم و معارفِ قرآنی کے پروانے اس شمع کی جانب ہجوم درہجوم لپک رہے ہیں۔ دریں چہ شک کہ علوم القرآن کے قارئین کے لیے یہ ایک نادر و نایاب تحفہ ہے۔ انسائیکلو پیڈیا کی سلاست و فصاحت کا عالم یہ ہے کہ معمولی پڑھا لکھا آدمی بھی اس کے ذریعے جان سکتا ہے کہ اللہ رب العزت ان سے کیا چاہتا ہے۔ یہ اب تک کا جامع قرآنی انسائیکلوپیڈیا ہے جس میں ڈاکٹر صاحب نے آیاتِ قرآنی سے 5ہزار موضوعات کا استخراج کیا اور انہیں جلی سرخیوں کے ساتھ پیش کیا ہے۔ ان کی اگلی معرکۃ الآرا تالیف 40 جلدوں پر مشتمل احادیث مبارکہ کا انسائیکلوپیڈیا ہے۔ علوم الحدیث کی دنیا میں یہ ایک ایسا کام ہے جو واقفانِ حال کے مطابق گزشتہ ہزار سالہ تاریخ کا دامن جس سے تہی ہے۔ علاوہ ازیں تصوف ایسے جلیل القدر موضوع پر ان کی شاندار کتب بھی اشاعت کے آخری مراحل میں ہیں۔ یقینِ کامل ہے کہ ان کتب کی اشاعت سے ذوق لطیف سے عاری مادیت پرست طبقات کی جانب سے تصوف اور اولیاء اللہ کے حوالے سے شکوک وشبہات اور ابہامات کی جو دھند پھیلائی اور گرد اڑائی گئی ہے، از خود کافور ہو جائے گی۔ یقیناً یہ لائقِ رشک تجدیدی امور و مہمات ہیں جن کی انجام دہی کی سعادت رواں صدی میں اللہ کریم نے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کو عطا کی۔

بعض لوگ اعتراض نما سوال اٹھاتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب کینیڈا میں کیوں مقیم ہیں؟ وہ پاکستان کیوں نہیں آتے ؟ اس قسم کے سوال اٹھانے والے حضرات و خوتین کی تین اقسام ہیں: ایک تو وہ ہیں جو جانتے ہیں، دوسرے وہ ہیں جو جانتے ہیں لیکن تجاہلِ عارفانہ سے کام لے رہے ہیں، تیسرے وہ ہیں جو حقیقی معنوں میں بے خبر ہیں… جو جانتے ہیں ، ان کے علم میں ہے کہ کینیڈا ڈاکٹر صاحب کا علمی گوشۂ تنہائی ہے جہاں وہ پیچ و تابِ رازی کی منڈیروں پر سوز و سازِ رومی کے چراغوں کو روشن کرکے تدین، تدبر،تفکر،تفقہ اور تفلسف کی روشنی میں صرف اور صرف تحقیق وتصنیف و تبلیغ کا کام کرتے ہیں۔ جہاں تک تجاہلِ عارفانہ سے کام لینے والوں کا تعلق ہے تو وہ مرفوع القلم ہیں، ان کے سوال کو درخورِ اعتناء سمجھنا محض ضیاعِ وقت ہے۔ آپ کو یہ جان کر یقینا خوش گوار حیرت ہوگی کہ بر اعظم کینیڈا میں سب سے بڑی نجی لائبریری رکھنے کا اعزاز و افتخار بھی ڈاکٹر طاہرالقادری ہی کو حاصل ہے۔ ہر کہ و مہ جانتا ہے کہ یورپ میں نہ تو ان کی آف شور کمپنیاں ہیں اور نہ ایون فیلڈ اور سرے محل ایسی مہنگی اور پر تعیش جائیدادیں۔ اُن کا کل اثاثہ دنیا بھر میں موجود منہاج القرآن کے اسلامک سنٹرز ہیں۔ ان اسلامک سنٹرز کی حیثیت پہاڑی کے چراغ کی سی ہے۔ دیارِ فرنگ میں یہاں صبح و شام اللہ اور اس کے پیارے رسولa کے احکاما ت اورتعلیمات کے مشکبو اور عنبر با ر تذکرے ہوتے ہیں۔ یہ ایسے مراکزِ دانش کا روپ دھار چکے ہیں جویورپ میں موجود دین سے نابلدنسلِ نو کو دین کی شاہراہ کا مسافر بناتے ہیں۔

واضح رہے کہ ڈاکٹرطاہرالقادری دین کو محض رسومات اور ظواہر کا مجموعہ نہیں سمجھتے، ان کا تصورِ دین انفس و آفاق کی تسخیر اور فلاحِ دنیا و عقبیٰ کے لامحدود لینڈ سکیپ پر پھیلا ہوا ہے۔ ان کے نزدیک انسانیت کی خدمت عبادت کا بہترین اور احسن ذریعہ ہے۔ اسی سیاق و سباق میں وہ انسانی فلاح و بہبود اور خدمت کے عدیم المثال اداروں کے قیام و استحکام کے لیے شبانہ روز کوشاں ہیں۔ ڈاکٹر طاہرالقادری بلاشبہ بیرون ِملک رہتے ہیں مگر ان کے قائم کردہ فلاحی، اصلاحی اورتعلیمی و تربیتی ادارے پاکستان میں جہاں ہزاروں خاندانوں کے لیے تعلیم و تربیت کا سرچشمہ ہیں وہاں ان کی آبرومندانہ کفالت اورروزگار کا ذریعہ بھی ہیں۔ آغوش آرفن کیئر ہوم میںسیکڑوں یتیم بچوں کو ایلیٹ کلاس کے بچوں ایسی رہائشی سہولیات اور تعلیم کے زیور سے آراستہ ہونے کے مواقع حاصل ہیں۔ منہاج ایجوکیشن سوسائٹی کے زیر اہتمام قائم 600 سے زائد سکولوں میں ڈیڑھ لاکھ طلبہ زیر تعلیم ہیں جنہیں 15 ہزار تعلیم یافتہ نوجوان پڑھاتے ہیں، اسی طرح منہاج یونیورسٹی لاہور، منہاج گرلز کالج اور منہاج القرآن کے 100 ملکوں میں قائم اسلامک سنٹرز میں کام کرنے والوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ لمحۂ موجود میں منہاج القرآن دنیا کی واحد سب سے بڑی اور سب سے منفرد علمی، اصلاحی اور فلاحی تحریک ہے۔ ایک ایسی تحریک جو کسی سرکاری، غیر سرکاری یا عالمی عطیاتی ادارے سے ایک پھوٹی کوڑی کا تعاون لیے بغیر پوری دنیا میں فروغِ اسلام اور ترویجِ تعلیم و تعلم کا پرچم سربلند کیے ہوئے ہے۔ 4 عشرے قبل ڈاکٹر طاہر القادری کے ذہن میں منہاج القرآن کے نام سے پھوٹنے والی کونپل آج زمین پر ایک چھتنار، ثمر پرور اور سایہ دار درخت بن چکی ہے۔ ایک ایسا سدا بہار درخت جس کے ثمرات و فواکہات سے ایک عالم متمتع اور مستفید و مستفیض ہو رہا ہے۔

ڈاکٹرطاہرالقادری کا دور رس نتائج کا حامل یہ اولوالعزم اور زرتاب کارنامہ بھی مستقبل کا مؤرخ آبِ زریں سے لکھے گا کہ آپ نے دہشتگردی کے خلاف 600 صفحات پر مشتمل فتویٰ ایک ایسے موقع پر غایت درجہ ثبات و استقامت کے ساتھ شائع کیا جب دہشتگردوں کے خلاف لب کشائی کرتے ہوئے ہمارے علمائ، حکمران اور سیاستدان بھی لرزاں و ترساں نظرآتے تھے۔ انہوںنے لاثانی جرأت و بہادری کا مظاہرہ کیا۔ دہشتگردوں کے مائنڈ سیٹ پر ایک کاری ضرب لگائی۔ ان کی باطل نظامِ فکر کے تار پود کو بکھیر کر رکھ دیا۔ یوں انہوں نے عالم گیر سطح پر اسلام کی انسانیت دوست اور امن پرور تعلیمات کو اجاگر کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔

ڈاکٹر صاحب کی شخصیت اور خدمات کے یہ چند اجمالی پہلو ہیں جنہیں آج کے تنگ داماں کالم میں سمونے کی کوشش کی گئی ہے۔ دیگر پہلوئوں کا احاطہ بھی آنے والے دنوں میں انہی سطور میں شرح و بسط سے کیا جائے گا۔ یار زندہ ،صحبت باقی!‘‘