اسلامی سلطنت میں آباد غریب، مظلوم، مفلوک الحال سمیت ہر شہری کی حفاظت اور کفالت ریاست کی ذمہ داری ہے۔ اسلامی ریاست کی یہ اولین ذمہ داری ہے کہ وہ بھوکوں کو کھاناکھلائے، بے سہارا افراد کو چھت اور انصاف کے متلاشیوں کو انصاف فراہم کرے۔ اسلام قیامت تک کے لئے ضابطۂ حیات ہے۔ قرآن مجید میں ہر دور کے تقاضوں کے مطابق انسانی فلاح و بہبود اور حاکمینِ وقت کی ذمہ داریوں کے بارے میں ابہام سے پاک اصول متعین کر دئیے ہیں۔ خلفائے راشدین کے ادوار اور بعدازاں کچھ ادوار ایسے گزرے ہیں جنہیں قرآن و سنت کے تابع مثالی ادوار قرار دیا جا سکتا ہے۔ تاہم اسلامی ریاست کے نام پر کچھ ادوار ایسے بھی گزرے جن پر اسلامی تاریخ شرمندہ و شرمسار بھی ہے تاہم ریاست اور سیاست کے بارے میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے کچھ اصول اور تعلیمات فراہم کر دی ہیں، اگر ان تعلیمات پر ان کی روح کے مطابق عملدرآمد کر لیا جائے تو آج بھی ایک مثالی، اسلامی معاشرہ کی تشکیل ممکن ہے۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’اقتصادیاتِ اسلام (تشکیل جدید)‘‘ میں اسلامی ریاست اور سربراہ مملکت کی ذمہ داریوں پر بحث کی ہے اور اس ضمن میں قرآن و سنت کی تعلیمات اور ائمہ و محدثین کے نقطہ نظر کو بڑی فصاحت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ اس کتاب کا مطالعہ ہر اس شخص کو ضرور کرنا چاہیے جس کے پاس ریاست کا کوئی نہ کوئی مالی یا انتظامی اختیار موجود ہے۔ فقہاء کی ایک جماعت عظیم خلیفۃ المسلمین عمر بن عبدالعزیزؓ کی وفات پر ان کی اہلیہ حضرت فاطمہؓ سے اظہارِ تعزیت کے لئے گئی تو حضرت فاطمہؓ نے حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ کے حالات بیان کرتے ہوئے کہا کہ وہ تم میں سے کسی سے بھی زیادہ نمازیں پڑھنے والے اور روزے رکھنے والے نہیں تھے لیکن اللہ کی قسم میں نے کسی بندہ خدا کو عمر بن عبدالعزیزؓ کے علاوہ اللہ سے ڈرنے والا نہیں دیکھا۔ انہوں نے اپنے جسم اور ذات کو لوگوں کے لئے وقف کررکھا تھا، وہ دن بھر لوگوں کی حاجات پوری کرنے کے لئے بیٹھے رہتے۔ اگر دن گزر جاتا اورابھی لوگوں کے کام باقی رہ جاتے تو وہ رات میں بھی لگے رہتے۔ ایک دن یوں ہوا کہ لوگوں کی حاجات سے دن ہی دن میں فارغ ہو گئے تو شام کو ایک چراغ منگوایا جسے وہ اپنے ذاتی تیل سے جلاتے تھے اور پھر انہوں نے دو رکعت نماز نفل ادا کی اور اپنا ہاتھ اپنی ٹھوڑی کے نیچے رکھ کر اس حال میں سیدھے بیٹھے رہے کہ آنسو کی لڑیاں رخساروں پر بہتی رہیں اور ساری رات یونہی بیٹھے روتے رہے حتی کہ سپیدہ سحر نمودار ہوا تو انہوں نے روزے کی نیت کرلی۔ میں نے پوچھا امیر المومنین آپ کس وجہ سے یوں بیٹھے روتے رہے؟ انہوں نے کہا: ہاں میرا حال یہ ہے کہ میں اسود و احمر تمام امتِ مسلمہ کا والی بنایا گیا ہوں۔ مجھے ملک کے دور دراز علاقوں میں رہنے والے مساکین، فقراء، محتاج قیدیوں اوران جیسے مظلوم و مقہور لوگوں کی یاد آئی تو مجھے خیال آیا کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ان کے بارے میں مجھ سے سوال کرے گا۔
عظیم خلیفۃ المسلمین کے حالات سے جو سبق ملتا ہے وہ یہ ہے کہ حاکمِ وقت کی پہلی ترجیح اللہ سے ڈرتے رہنا ہے، اس کے احکامات بجا لانا ہے اور مخلوقِ خدا کی حاجت روائی ہے۔ فقہاء کی اس جماعت کو زوجہ عمر بن عبدالعزیز نے یہ بھی کہا کہ کاش ہمارے درمیان اور اس خلافت وامارت کے درمیان زمین و آسمان کی دوری ہوتی یعنی ریاست کے اختیارات ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے اور اس ذمہ داری کے دوران بروئے کار آنے والے ہر فیصلے اور لئے جانے والے ہر سانس کی بازپرس ہونی ہے۔ اس سلسلے میں چند فرامینِ مصطفی ﷺ ملاحظہ فرمائیں:
حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ’’جسے اللہ نے مسلمانوں کے بعض امور کا نگران بنایا اور وہ ان کی ضروریات اور فقر سے بے پرواہ ہو کر بیٹھا رہا تو اللہ تعالیٰ بھی اس کی ضروریات اور فقر سے بے نیاز ہو جائے گا‘‘۔ ایک اور موقع پر آپ ﷺ نے فرمایا: جو ضرورت مندوں، فقراء اور مساکین پر اپنے دروازے بند کر لیتا ہے اللہ اس کی ضروریات، فقر اور مسکنت پر آسمان کے دروازے بند کر لیتا ہے۔ حضرت ابوذر غفاری ؓ نے ایک مرتبہ امارت کا سوال کیا تو حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’ اے ابوذر! تو کمزور ہے اور یہ (امارت و حکومت )بہت بڑی امانت اور بروزِ قیامت (امیر کے لئے ) رسوائی اور ندامت کا باعث ہے، البتہ (اس حاکم کے لئے رسوائی نہیں ہو گی )جس نے اس کو اس کے حق کے ساتھ اختیار کیا اور امارت و حکومت میں جو ذمہ داری اس پر عائد ہوتی تھی اس کو کما حقہ ادا کیا‘‘۔ حضور نبی اکرم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: ’’ جس بندے کو رب ذوالجلال نے کسی رعایا کا حکمران بنایا، پھر اس نے اس کے ساتھ پوری خیر خواہی نہ برتی تو وہ حکمران جنت کی خوشبو بھی نہ پا سکے گا‘‘۔ ایک اور موقع پر ارشاد فرمایا: ’’حکمران ہر اس آدمی کا سرپرست ہے جس کا کوئی سرپرست نہ ہو‘‘۔
ان ارشادات کی روشنی میں ہر شہری کو انصاف مہیاکرنا حکومتِ وقت کی اسلامی، آئینی اور قانونی ذمہ داری ہے۔ اگرچہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عام آدمی کے مسائل بھی مختلف ہورہے ہیں لیکن انہیں حل کرنے کی ذمہ داری حکومت کے ذمہ ہے۔ مثال کے طور پر اگر آج مصنوعی مہنگائی اور گرانی کی وجہ سے عام آدمی کا استحصال ہوتا ہے تو اس استحصال سے عام شہری کو محفوظ رکھنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ اگر حکومت اپنی اس ذمہ داری کو انجام دینے میں ناکام رہتی ہے تو قیامت کے دن اس کی بازپرس ہو گی۔ اسی طرح آج لوڈشیڈنگ کی وجہ سے بھی زندگی اجیرن بن چکی ہے، غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کی وجہ بسااوقات ہسپتالوں میں یا تنگ و تاریک گھروں میں بیمار جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔ اس وجہ سے اگر کوئی اپنی جان کی بازی ہارتا ہے یا اس کی بیماری اس پر حاوی ہوتی ہے تو اس کا حساب بھی حکومتِ وقت سے اور حکمرانوں سے لیا جائے گا۔ اسی طرح خزانے کی حفاظت اور عوام کے وسائل کا منصفانہ اور جائز استعمال بھی حکومتِ وقت کی ذمہ داری ہے۔ قیامت کے دن اسراف اور دولت کے ناجائز استعمال کی پائی پائی کا حساب مانگا جائے گا۔
اسلامی ریاست میں انسانی جان کی حفاظت اور انصاف کی فراہمی کو مرکزیت حاصل ہے۔ قیامت کے روز ناانصافی کرنے والے منصف اور ناحق کسی کی جان لینے والے قاتل کی کڑی گرفت ہو گی۔ قاتلوں اور انصاف کا خون کرنے والوں کو قانون کے کٹہرے میں لانا یہ حاکمِ وقت کی ذمہ داری ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ طاقتور اپنے مفادات کے لئے کمزوروں کی جان تک لے لیتے ہیں اور پھر اپنی دولت، اثر و رسوخ اور بے پناہ وسائل بروئے کار لا کر انصاف کا گلا گھونٹ دیتے ہیں اور سزا سے بچ جاتے ہیں۔ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے نزدیک یہ انتہائی ناقابلِ معافی گناہ اور جرم ہے۔ اسی تناظر میں ہم دیکھتے ہیں کہ ماڈل ٹائون جیسے سانحہ میں طاقتور؛ کمزور شہریوں کی ناحق جان لے لیتے ہیں اور پھر مظلوموں کو انصاف سے محروم رکھنے کے لئے ریاست اپنا کردار ادا کرنے کی بجائے طاقتوروں کے لئے قانونی ریلیف تلاش کرتی ہے۔ یہ بہت بڑا گناہ اور قابلِ محاسبہ جرم ہے۔حکومتِ وقت کی ذمہ داری ہے کہ وہ کمزوروں کی حفاظت کرنے اور انہیں انصاف فراہم کرنے کے لئے تمام طاقت اور وسائل بروئے کار لائے۔