ماحولیاتی آلودگی بین الاقوامی، علاقائی اور مقامی سطح کا ایک قابلِ توجہ حساس مسئلہ ہے۔ماحولیاتی آلودگی کے مضمرات سے نمٹنے کیلئے ہر سطح پر مکالمہ تو ہورہا ہے مگر جس نوع کے عملی اقدامات اٹھائے جانے کی ضرورت ہے ان کا فقدان ہے۔ ماحولیاتی آلودگی کینسر کی طرح ہے، علاج میں جتنی تاخیر ہو گی نقصانات اتنے زیادہ بڑھتے چلے جائیں گے۔ ماحولیاتی آلودگی ایک قومی ایشو ہے مگر اس کے حل کے لئے اس کی درجہ بندی کی جا سکتی ہے، ہمیں ایسے شعبوں کی نشاندہی کرنی چاہیے جہاں سب سے زیادہ کچرا پیدا ہوتا ہے اور پھر اس کچرے کو ٹھکانے لگانے کے لئے اسی سطح کے اقدامات بروئے کار لائے جانے چاہئیں۔
لاہور کی مثال لے لیتے ہیں، لاہور 11کروڑ آبادی والے صوبہ کے عوام کی آمدروفت کا مرکز ہے بلکہ اس کی بعض حوالوں سے حیثیت اور اہمیت بین الاقوامی بھی ہے۔ یہ بین الاقوامی ورثہ کا مسکن ہونے کے ساتھ ساتھ اولیائے اللہ کے مزارات کے باعث خاص و عام کی توجہ کا مرکز بھی ہے۔ لاہور میں ڈسٹرکٹ کورٹس اور سول سیکرٹریٹ ایسی جگہیں ہیں جہاں دن بھر کسی نہ کسی حوالے اور سبب سے صوبہ بھر کے عوام کی بڑی تعداد آتی جاتی ہے۔ کم و بیش ڈیڑھ سے دو لاکھ لوگ روزانہ ان جگہوں کا وزٹ کرتے ہیں۔ یقینا اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کی آمدورفت سے اشیائے خورونوش کی خرید و فروخت ہوتی ہے اور خوراک کے استعمال کے ساتھ ساتھ اتنی ہی بڑی مقدار میں کچرا بھی پیدا ہوتا ہے۔
اسی طرح پاکستان چار بڑے مذاہب اسلام، عیسائیت، ہندو مت اور بدھ مت کی سرزمین ہے۔ ان چاروں مذاہب کے مقدس مقامات اور مزارات پاکستان میں پائے جاتے ہیں جن کی زیارت کے لئے لاکھوں مقامی اور غیر ملکی سیاح ہر سال امڈے چلے آتے ہیں۔ اس مذہبی سیاحت سے پاکستان ہر سال لاکھوں ڈالر کما رہا ہے۔ صرف 2014ء میں پاکستان نے اس مد میں 28 کروڑ 30 لاکھ ڈالر کی خطیر آمدن حاصل کی۔ علاوہ ازیں اس سے مقامی سطح پر ملازمتیں پیدا ہوئیں، مقامی ثقافت دوسرے ملکوں تک متعارف ہوئی جبکہ غیر ملکی سیاح جاتے ہوئے جو اشیاء بطورِ تحائف خرید کر لے گئے، اس سے برآمدات میں اضافہ ہوا۔
تاہم اس سیاحت سے ملک کو حاصل ہونے والے معاشی اور ثقافتی فائدے کا ایک منفی پہلو بھی ہے۔ سیاحوں کی آمدورفت اور قیام سے پیدا ہونے والی آلودگی اور کوڑا کرکٹ کے اس پہلو کو آج تک کسی منتظم یا محقق نے قابلِ توجہ نہیں جانا۔ مزارات اخلاق اور تصوف کا مرکز ہیں۔ یہاں لوگ روحانی پاکیزگی اور باطنی طہارت کے لئے آتے ہیں۔ ان جگہوں کی ظاہری صفائی کاخیال رکھنا اخلاقی ہی نہیں اسلامی فریضہ بھی ہے۔اسلام واحد ضابطۂ حیات ہے جو صفائی کو نصف ایمان قرار دیتا ہے تو بڑی تعداد میں آمدورفت کے نتیجے میں جو صفائی کے مسائل جنم لے رہے ہیں، ان پر سنجیدہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
ہم اس حقیقت سے منہ نہیں موڑ سکتے جہاں بڑے پیمانے پر آمدورفت ہو گی وہاں صحت و صفائی کے مسائل بھی سر اٹھائیں گے۔دنیا بھر میں ہونے والی تحقیق اور لکھے جانے والے مختلف مقالہ جات میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ سیاحت اور آلودگی میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ مقامی اور بین الاقوامی دورے کاربن ڈائی آکسائیڈکے اخراج کا باعث بنتے ہیں۔ گرین ہاؤس گیس کے اخراج میں سب سے زیادہ حصہ ٹرانسپورٹ کے شعبے کا ہے جو کہ سال2018ء میں 28.2 فیصد تھا۔ سیاحوں کو قیام و طعام کی سہولیات فراہمی پر خرچ ہونے والی توانائی سے بھی ماحولیاتی آلودگی پیدا ہوتی ہے اور 2018ء میں بجلی تیار کرنے سے گرین ہاؤس گیس کے اخراج کی شرح 26.9 فیصد تھی جبکہ رہائشی و کمرشل سرگرمیوں کا حصہ 12.3 فیصد تھا۔
لاہور کے حوالے سے اس ماحولیاتی آلودگی کے پھیلائو کے مسئلے کی نزاکت کو سمجھنے کے لئے راقم نے حال ہی میں شہر میں مدفون مسلم صوفیاء کے مزارات پر ایک تحقیق کی جس کے نتائج چونکا دینے والے نکلے۔ اس تحقیق میں حضرت علی ہجویری المعروف داتا گنج بخشؒ کے مزار مبارک پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے اس کے آس پاس کے دوکانداروں اور کاروباری حضرات سے ایک سوالنامہ پُر کروایا گیا جبکہ اس مزار کے ایڈمنسٹریٹر، ٹاؤن کے سالڈ ویسٹ کے منتظم اور لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کے نمائندے سے بالمشافہ ملاقات کر کے بنیادی معلومات حاصل کی گئیں۔ کل پیدا ہونے والے کوڑے اور سڑک پر پڑے رہ جانے والے کوڑے کرکٹ کی مقدار، اس کوڑے کو ٹھکانے لگانے کے موجودہ طریقہ کار اور شہر میں آلودگی کی صورتحال جاننے کے لئے دستیاب لٹریچر، کتب، تحقیقی مقالاجات اور لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کی ویب سائٹ سے مدد لی گئی۔
ان معلومات کے تجزیے سے یہ حقیقت سامنے آئی کہ لاہور کے صرف بڑے مزارات پر لوگوں کی آمدورفت کے باعث اور اشیائے خورونوش کے استعمال کے نتیجے میں مجموعی طور پر سالانہ 27,000 ٹن کچرا پیدا ہوتا ہے جس سے 43 لاکھ کیوبک فٹ سالانہ لینڈفل گیس (جس میں 50 فیصد میتھین گیس اور 50 فیصد کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس) پیدا ہوتی ہے۔ یہ مقدار 13.688 کروڑ گیلن ڈیزل جلانے سے پیدا ہونے والی کاربن ڈائی آکسائیڈکے برابر ہے۔
محکمہ اوقاف کے مطابق حضرت علی ہجویریؒ کے مزار پر روزانہ 30 سے 40 ہزار زائرین آتے ہیں جن کے قیام اور اشیائے خورونوش کے استعمال کی وجہ سے تقریباً 25 ٹن کچرا روزانہ پیدا ہوتا ہے جبکہ جمعرات کے دن زائرین کی تعداد 60 سے 70 ہزار تک جا پہنچتی ہے۔ عرس کے موقع پر پاکستان کے طول و عرض اور باہر کے ممالک سے 10 لاکھ سے زائد زائرین آتے ہیں۔ان زائرین اور غرباء کے لئے سالانہ 1.93 ہزار ٹن کھانا پکایا اور تقسیم کیا جاتا ہے۔اس آمدورفت کے جہاں بہت سارے فوائد ہیں وہاںاتنی بڑی آمدورفت کی وجہ سے کچھ ماحولیاتی مسائل بھی جنم لیتے ہیں۔ ان ماحولیاتی مسائل سے نبرد آزما ہونے کے لئے کوئی جامع حکمتِ عملی نظر نہیں آتی۔ اس آمدورفت کی وجہ سے جو ماحولیاتی آلودگی جنم لیتی ہے، اُسے کسی ایسے طریقہ کار کو اختیار کرنے کی ضرورت ہے جو محفوظ ہو اور ضمنی اثرات سے بڑی حد تک پاک ہو۔
اس ضمن میں پہلا اقدام زائرین کی شعور کی بیداری ہے کہ وہ کم سے کم کوڑا پیدا کریں اور پیدا شدہ کوڑے کو ادھر ادھر پھینکنے کی بجائے کوڑے دان میں ڈالیں چونکہ ان مزارات پر آنے والوں کا تعلق زیادہ تر مذہب اسلام سے ہے، اس لئے انہیں ماحولیاتی تحفظ کے بارے میں اسلامی تعلیمات سے آگاہ کیا جائے۔ انہیں نبی رحمت ﷺ کے صفائی کے حوالے سے فرامین و ارشادات کے بارے میں بتایا جانا چاہیے کہ:
’’اللہ کو سب سے محبوب وہ شخص ہوتا ہے جو اللہ کی مخلوق کے لئے سب سے مفید ہوتا ہے۔ ‘‘
ایک اور مقام پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ:
’’اگر قیامت کے آنے میں ایک گھڑی رہ گئی ہو اور کسی شخص کے ہاتھ میں کھجور کا پودا ہو اور وہ اسے زمین میں بونے کی استطاعت رکھتا ہو تو اسے چاہیے کہ وہ ایسا کر گزرے (یعنی زمین میں بو دے)۔‘‘
لاہور کے مزارات سے اکٹھا کیا جانے والا کوڑا زمین میں دبانے کی بجائے اسے ری سائیکل کیا جا سکتا ہے۔ اس کوڑے کا بیشتر حصہ نامیاتی مواد پر مشتمل ہے چونکہ ان مزارات کے ارد گرد زیادہ تر کاروباری سرگرمیاں کھانا پکانے اور کھانا مہیا کرنے کے گرد گھومتی ہیں۔ ا س کوڑے کو کمپوسٹ بائیوری ایکٹر پلانٹ کے ذریعے کارآمد کھاد میں بدلا جا سکتا ہے۔ ایک کمپوسٹ بائیوری ایکٹر پلانٹ کی لاگت کا ابتدائی تخمینہ ایک کروڑ 28 لاکھ روپے ہے اور اس لاگت کو بآسانی مزارات کو عطیات سے ہونے والی آمدن سے پورا کیا جا سکتا ہے جو کہ ایک محتاط اندازے کے مطابق 30 کروڑ روپے سالانہ ہے۔ یہ بائیو ری ایکٹر پلانٹ سالانہ 13 ہزار ٹن کھاد پیدا کرے گاجس کو بیچ کر تقریباً 13 کروڑ69 لاکھ روپے سالانہ آمدن حاصل کی جا سکتی ہے جب کہ اس سسٹم کو چلانے کی لاگت 25 لاکھ روپے سے زیادہ نہیں ہو گی۔ چونکہ یہ تمام مزارات محکمہ اوقاف کے ماتحت آتے ہیں جس کے پاس زمین بھی دستیاب ہے جہاں اس کمپوسٹ پلانٹ کی تنصیب ہو سکتی اور کھاد بنانے کا عمل آسانی سے کیا جا سکتا ہے اور اس عمل کے دوران اندازا ً794 ملازمتیں بھی پیدا کی جا سکتی ہیں۔